بسنت،ایک خونی تہوار‎

بسنت موسم بہار میں منایا جانےوالا بنیادی طور پر ہندوانہ تہوار ہے.ہندی وید میں اس کا تعلق سرسوتی دیوی سے منسوب بتایا گیا ہے.جو موسیقی اور آرٹ کی دیوی سمجھی جاتی ہے.ماگھ کی پانچ تاریخ کو منایا جاتا ہے جو عموماََ فروری میں آتا ہے.سکھ دھرم کی پرانی کتابوں کے مطابق بسنت پر اڑائ جانیوالی پتنگ پر دو آنکھیں اور دوسری اشکال بناکر آسمان سے نازل ہونیوالی بلاؤں کو روکا جاتا ہے جو کہ ایک گمراہ کن اور شرکیہ عقیدہ ہے.اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ خالصتاََ ہندو اور سکھوں کا مشترکہ تہوار ہے.لاہور میں منائے جانیوالے بسنت میلے کی تاریخ بھی کوئی مثبت تاریخی حوالہ نہیں رکھتی.ایک ہندو مؤرخ بی ایس نجار اپنی کتاب (Punjab under the later moghuls) میں لکھتا ہے کہ حقیقت رائے نامی ایک ہندو نے حضرت محمد ﷺ اور سیّدہ فاطمہ زہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں گستاخی کی جس پر اسے گرفتار کرکے لاہور میں عدالتی کارروائی کے بعد اس کی گردن اڑائی گئی .بعد ازاں اس گستاخ کی موت کے دن کو ایک ہندو رمیش کالورام نے میلے کی شکل دی اور ہر سال اس دن بسنت میلے کا آغاز کیا.اس طرح یہ دن ثقافتی نہیں بلکہ خالص مذہبی نقطہ نظر رکھتا ہے.اس کے باوجود اس اسلام مخالف تہوار کو پاکستان میں منایا جانا سمجھ سے باہر ہے.
ہمارا میڈیا تو ویسے بھی غیر اسلامی ,گمراہ کن عقائد اور رسومات کی ترویج میں آگے آگے رہتا ہے.اب حکمران بھی خرافات پر مبنی اس تہوار کو زوروشور سے منانے کے درپے ہیں.یہ انتہائی افسوسناک رویہ ہے.حالانکہ اس نام نہاد میلے کے نام پر بے راہ روی اور بے حیائی ہی پھیلتی ہے.مردوزن کا آزادانہ اختلاط،ساؤنڈ اسپیکرز کا غیر ذمہ دارانہ استعمال،ناچ گانے کی محافل اور سب سے پتنگ بازی اور ہلڑ بازی عروج پر ہوتی ہے.جس کی وجہ سے چھت سے گرنے ،گردن اور شہ رگ پر کیمیائی ڈور پھر جانے ،برقی تاروں سے دھاتی ڈور ٹکرانے سے حادثات کی شرح خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے.
کیا انسانی جانوں اور قیمتی وقت اور پیسے کا زیاں کرنے سے ہی کوئی قوم دنیا میں زندہ دل اور روشن خیال کہلائی جاسکتی ہے یہ بات اہل اقتدار کے ساتھ عام افراد کو بھی سوچنا چاہیئے.اپنی روزمرہ زندگی میں دین کی روشن تعلیمات پر عمل کرنے کے بجائے ہم غیر مذاہب کی بیہودہ رسوم اپنانے پر کیوں بضد ہیں.
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
“بعض لوگ ایسے ہیں جو علم کے بغیر اللہ (احکام اِلٰہی) کے بارے میں بحث کرتے ہیں اور ہر شیطان سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں.”
(سورۃ الحج-آیت ۳).
یہی حال ہمارے ارباب اقتدار کا ہے.جن کے اکثر اقدامات اسلام مخالف اور دین دشمنی پر مبنی ہوتے ہیں مگر وہ پوری ڈھٹائی اور سفاکیت کے ساتھ اپنے گمراہ نظریات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بودے اور علم و شعور سے عاری دلائل پیش کرتے رہتے ہیں.حالانکہ جس طرح ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت مسلح افواج کے ذمہ ہے.اسی طرح قوم کی نظریاتی و فکری حدود کی حفاظت کی ذمہ داری حکمران طبقہ اور عوامی رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے.اس غیر اسلامی تہذیب کی نمائندہ رسوم ورواج کو ثقافت، اقلیتوں کے حقوق یا تفریح کے نام پر مسلط نہ کیا جائے ورنہ یہ اقدامات گمراہی اور بربادی کا دروازہ اپنے ہاتھوں نئی نسل کیلیئے کھولنے کے مترادف ہوگا.اب یہ ہماری ایمانی غیرت کا بھی سوال ہے کہ ہم ایک گستاخ رسول کی یاد میں منائے جانیوالے اس تہوار کو اسلامی جمہوریہ میں مسترد کرتے ہیں یا اللہ کے عذاب سے بے خوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خرافات کو منانا ضروری خیال کرتے ہیں.

حصہ

جواب چھوڑ دیں