وجودِ زن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ

عورت کی اہمیت، عورت کی محبت اور عورت کی حفاظت کی بابت 8 مارچ 2019 کو ہر طرف خوب چرچا ہوگا۔ کہیں پھول تقسیم ہوں گے تو کہیں اچھے کھانے کھلائے جائیں گے۔ کہیں رنگا رنگ تقریبات ہوں گی تو کہیں اخباروں کی زینت بننے والی دلرُبا تصاویر۔ بلاشبہ یہ سب کچھ اس عورت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے ہی ہوگا،جو سارا سال پیار،محبت شفقت اور اپنائیت بکھیرتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ عورت کو یہ تمغہ محض یک روزہ جشن میں کیوں دیا جارہا ہے؟ عورت جو ہر روپ میں ہی پیار کا سرچشمہ ہے۔ کہیں وہ ماں کے روپ میں محبت اور شفقت کا پہاڑ ہے تو کہیں بہن کے روپ میں ایک مان، کہیں وہ بیوی کے روپ میں اپنا سب کچھ بخوشی قربان کردینے والی ہستی ہے تو کہیں بیٹی کے روپ میں ایک رحمت۔ مگر ذرا ایک لمحہ کیلئے سوچیں! کہ یہ سارے روپ ایک عورت اکیلے نبھانے والی اپنی ساری عمر مردوں کی خوشی کیلئے صرف کردیتی ہے لیکن اس ذات کیلئے محض ایک دن کا جشن! ایک دن کی خوشی!کیا یہ اس بابرکت وجود کے ساتھ ناانصافی نہیں؟؟ حالانکہ عورت کا مقام ہمارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے عورت ہی ہے، جس کے سبب آج ہم اس دنیا کی زنیت بنے، آج بی بی حوا نہ ہوتی تو اس دنیا کی تخلیق کا کوئی جواز نہ بنتا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت کے بعد بی بی حوا کی بھی خلقت کی ضرورت درپیش ہوئی؛ کیونکہ نسل آدم علیہ السلام بی بی حوا کی ہی مرہونِ منت ہے۔ عورت ہی ہے جو نو مہینوں کی اذیت ناک صورت حال کے بعد ایک زندگی کو جنم دیتی ہے، بچے کی پیدائش کے بعد اس کوبہترسے بہتر تربیت دینے میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی! عورت ہی ہے جو خودتو بھوکی سو جائیگی لیکن اپنے بچے کو کبھی بھوکا نہیں سولاتی۔ اللہ تعالی نے عورت کو ایک ایسی قوت برداشت عطا کی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہر مشکل عمل کا سامنا ہوتا ہے تو عورت اسکا سامنا بڑے ماہرانہ انداز سے کرتی ہے۔برداشت اس حد تک کرتی ہے کہ خود تو ٹوٹ کے چور چور ہو جاتی ہے، لیکن اپنی خودداری سے اس ہونے والی سختی کو کبھی عیاں نہیں ہونے دیتی۔ یوں دیکھاجائے تو معاشرہ ایک گاڑی کی حیثیت رکھتا ہے جس میں مرد اور عورت اس گاڑی کے پہیوں کی مانند ہیں، اگر اس میں سے عورت کو نکال دیا جائے تو اس معاشرے کی گاڑی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی کہ وہ گاڑی کہلائے۔عورت کے حوالے سے تاریخ میں بہت ساری مثالیں اور روایات ملتی ہیں چاہے وہ جنگ کے میدان سے ہو، چاہے وہ امن کے میدان سے ہو، چاہے وہ کربلا کے میدان سے ہو یا چاہے وہ جدید ٹیکنالوجی کے میدان سے ہو ہر جگہ عورت کا بہترین کردار عیاں نظر آتا ہے۔عورت اگر بیٹی ہے تو باپ کے لئے رحمت، اگر بیوی ہے تو شوہر کے لئے نصف ایمان کی وارث اور اگر عورت ماں ہے تو اسکے قدموں تلے جنت۔الغرض عورت کا مقام ہمارے معاشرے میں ایک اہم کلیدی کردار ادا کرتا ہے، جو ہر معاشرے کے لئے اہم ہے۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی کے راہوں میں گامزن نہیں ہوتی جب تک عورت کا حصہ شامل نہ ہو۔آج کے جدید دور میں بھی کارو کاری، وٹہ سٹہ، ونی اور ستی جیسے جاہلانہ رواج عروج پر ہیں، جہاں عورت کو حقیر اور کم تر سمجھا جاتا ہے، راہ چلتے عورتوں پر آوازیں کسنا، مذاق اڑانا، سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر جاری کرنا، انہیں بلیک میل کرنا اور غیراخلاقی الفاظ کا استعمال کرنا، روز کا معمول بن چکا ہے، آپ کبھی غور کریں تو ہمارے معاشرے میں غلیظ ترین گالیوں میں بھی صرف عورت کے نام اور رشتوں کا استعمال کیا جاتا ہے، کہیں تیزاب پھینک کر عورتوں کی شکلیں بگاڑ کر انہیں عمر بھر کیلئے بے سہارا چھوڑ دیا جاتا ہے، اس دور میں بھی دور جہالت کے پیروکار موجود ہیں، کسی کی بہن کی اگر آبرو ریزی ہوجائے تو بھائی اسے غیرت کے نام پر قتل کردیتا ہے، بجائے یہ کہ اپنی بہن کے ساتھ ہونیوالی زیادتی پر مجرم کو قانون کے دائرے میں لائے، وہ اپنی ہی بہن کو قتل کردیتا ہے، کہیں کوئی شخص کسی کی بہن کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو جواب میں اس مجرم کی بہن سے زیادتی کرنے اور کہیں تو اجتماعی زیادتی کرنے کا جاہلانہ فیصلہ دے دیا جاتا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر صرف لفاظیوں، ریلیوں اور سیمیناروں سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، معاشرے میں خواتین کو مقام کی اہمیت کو کھلے دل، کھلے ذہن سے تسلیم کرنا ہوگا، ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جو خواتین پر تشدد کرتے ہیں، ان جاہلانہ رسم و رواج کیخلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا جس سے ناصرف ہمارا ملک بلکہ اسلام بھی بدنام ہورہا ہے، حکومت کو سنجیدگی سے قانون بنانے ہوں گے اور خواتین کو تحفظ دینا ہوگا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں