میرے بچے میرا سرمایہ

بچے اللہ کی شان، ایک ایسا خوب صورت، معصوم اور ہر کسی کا دل موہ لینے والا شاہکار ہیں جس کا کوئی جواب نہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میرے بھائی کے ہاں ایک دن کے فرق سے ایک نواسہ اور ایک پوتی پیدا ہوئی۔ ان کے پہلے ہی تین نواسے نواسیاں تھیں، جب ان کو دیکھنے گئی ماشاء اللہ گھر میں اتنی رونق تھی کہ کیا بتاؤں۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنی حرکتوں میں مست مگر سب کی توجہ لئے ہوئے۔ اتنی معصوم حرکتیں کہ دل باغ باغ ہوجائے، سبحان اللہ۔
بچے چھوٹے ہوں یا بڑے، ماں باپ اور دیگر لوگوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بچے ہمارا سرمایہ ہیں۔ جب عورت ماں بنتی ہے تو اتنی خوشی ہوتی ہے کہ بیان سے باہر۔ اللہ کی رحمت اور عظیم نعمت کی قدر احساسِ ذمے داری، زندگی میں محنت، محبت اور خلوص کی ایسی تحریک پیدا کردیتی ہے جس کی وجہ سے مشکل سے مشکل کام بھی آسانی سے کرپاتی ہے۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتاہے اُس کی جسمانی، روحانی، اخلاقی اور ایمانی طاقتوں کو بڑھانے کے چکر میں خود بھی بے شمار برائیوں سے بچتی رہتی ہے۔ اپنے ماں باپ کی قدر کئی گنا زیادہ ہونے لگتی ہے، ان کی خدمت اور خوشی کا خیال پہلے سے زیادہ رکھنے لگتی ہے۔ اپنے بچوں ہی کی خاطر ماں باپ خصوصاً باپ دن رات محنت کرتا ہے، بچوں کی خواہشات اور ضروریات پوری کرنے کی کوشش میں خود کو کھپا دیتا ہے، یہاں تک کہ اپنے سے کئی گنا بلند مقام پر ان کو نہ صرف دیکھنا چاہتا ہے بلکہ اس کے لئے کوشش بھی کرتا ہے اور خوش بھی ہوتا ہے جب کہ ماں کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ اس دنیا میں ماں باپ ہی ہیں جو اولاد سے بے غرض اور بے لوث محبت کرتے ہیں۔ ننھے پھولوں سے گھر میں رونق، خوش حالی اور مزا ہوتا ہے۔ بچے ہی ہمیں ہر کام میں سرگرم اور موثر بناتے ہیں۔ ان پر ہی ہمیں سرمایہ کاری کرنی ہوتی ہے۔ اللہ کی محبت، بندگی کا حق ادا کرنے کا جذبہ والدین کی عملی سرگرمیوں اور معمولات زندگی سے بچے آہستہ آہستہ سیکھتے ہیں۔ دنیاوی سرگرمیاں، دنیاوی تعلیم سے بڑھ کر شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ماں باپ کو ہی رول ماڈل بنا لینا ہوتا ہے۔ جس طرح تھوڑے سے پانی میں بڑے سے ٹشو کا ایک کونا سارے پانی کو چوس لیتا ہے اور پانی پورے ٹشو پیپر میں سرایت کرجاتا ہے اسی طرح بچے بھی ماں باپ کے لگائے ہوئے وقت، صلاحیت، خلوص، محبت، محنت اور رویوں کو اپنے اندر جذب کرتے رہتے ہیں۔ یوں یہ سفر دنیا میں بھی خوشی کا باعث ہوتا ہے اور بچوں کی نیکیاں آخرت میں بھی ماں باپ کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہوتی ہیں۔ اسی لیے تو نیک اولاد کو صدقہ جاریہ کہا جاتا ہے۔
اللہ ہماری اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمیں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آمین۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں