’’عددی تقابل چہ معنی دارد‘‘

پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت نے جو کیا وہ کسی بھی طرح ایک ذمہ دار ریاست کاکام نہیں ہوسکتا۔اسی بات نے بھارت کو عالمی دنیا میں بیک فٹ پر لاکھڑا کیا ہے۔امن جس کے اپنے گھر میں نہ ہووہ کسی اور کی خوشیاں کیسے دیکھ سکتا ہے۔ اس موقع پر پاکستان نے دومحاذوں پر کامیابی حاصل کی ۔مشترکہ وزرا خارجہ کے اجلاس میں او آئی سی کا بائکاٹ،بھارتی پائلٹ کو رہا کرکے سفارتی محاذ پر قد اونچا کیا گیا ۔دوسرا پاک افواج نے یہ بھی باور کرا دیا ہے ہم پر امن لوگ ہیں۔ ہمارا دین تو ہمیں معاف کرنا ،درگذر کرنا ،احسان کرنا سکھاتا ہے۔لیکن ہماری اس ہمدردی کو کم زوری نہ سمجھا جائے ۔جب مسلمانوں کے خلا ف سازشیں ہوں گیں تو ان کا جواب بھی بھر پور ہو گا۔بھارت کی طرف سے شروع کی جانے والی جنگی جارحیت کا اختتام پاکستان کی طرف سے ابھی نندن کی بحفاظت رہائی سے ہوگیا۔ایک باب یہ بند ہوا کہ جنگ کے سیاہ بادل جو دونوں ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے ،چھٹ چکے ۔شاید کہ یہ پہلی جنگ ہوتی جب سے دونوں ملک ایٹمی قوت بنے ہیں۔بھارت پاکستان سے اپنے عسکری عددی تقابل کے گھمنڈ میں مبتلا ہے۔بھارتی ائیر فورس جسے دنیا کی چوتھی بڑی ائیر فورس مانا جاتا ہے۔اور اس وقت اس کے پاس طیاروں کے31 سکوارڈن ہیں۔ہر سکوارڈن میں 18 لڑاکا طیارے ہوتے ہیں۔جب کہ پاک فوج ،بھارتی ائیر فورس کے مقابلے 20 سکوارڈن کم ہے ۔یعنی صرف 11 سکوارڈن کی حامل فوج نے دنیا کی چوتھی بڑی ائیر فورس کو دن میں تارے دکھادیے۔انڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس عددی تقابل سے اصل کہانی واضح نہیں ہوتی ۔دنیا جان چکی ہے بھارتی ’’جمہوریت ‘‘ کے حسین پردے کے پیچھے کیا ہے ؟
ہمارے باپ دادا 1965 ء1971 ء کی جنگ کے قصے سناتے ہیں تو ہمیں اپنی اس وقت کی نوزائدہ ائیر فورس اور آج کی طاقت ور ائیر فورس کی مہارتوں پر فخر ہوتا ہے۔قائد اعظم ؒ نے13 اپریل1948 کوپاکستان ائیر فورس رسالپور کا دورہ کیا اور اس موقع پر تقریب سے خطاب میں قائد نے فرمایا:’’اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان جتنا جلدی ہوسکے اپنی ائیر فورس قائم کرے‘‘آج قائد کے الفاظ پاک فوج کے لیے سرمایہ حیات ہیں ۔اور پاک فوج کی انہی بلند حوصلوں کی وجہ سے پاکستانی پرچم رفعتوں کے فلک کو چھوتا ہوا دنیا کو یہ کہنے پر مجبور کررہا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کوامن کا ’’نوبل انعام‘‘ دیا جائے۔کیوں کہ انہوں نے انسانی عظمت کی وہ تاریخی مثال پیش کی جس کی آج تک کوئی نظیر نہیں ملتی۔پاکستان نے بھارتی فضائی حملے ،جارحیت پسندی کو بالائے طاق رکھ کر ،پھر یہ کہ بھارتی پروپیگنڈوں کی طرف کان دھرتے ہوئے پائلٹ کوبلا مشروط باعزت رہاکیا ،یہ بھارت کے لیے جگ ہنسائی اور پاکستان کے لیے عزت افزائی ہے۔
آج پاکستان ائیر فورس اپنی تلخ یادیں بھلاچکی ۔اس کی تاریخ کی کتاب میں انڈین ائیر فورس کے وہ کالے پنے ہیں جو انگریز کے بر صغیر سے جانے کے بعد دفاعی ساز وسامان ،طیاروں اور اسلحے کے اس حصے سے محروم کیا گیا جو پاکستان کو ملنا تھا۔اس وقت پاکستان کو ناکارہ اسلحے کے پرزوں کے وہ صندوق دیے گیے جو کسی کام کے نہ تھے۔اور کوئی اس اسلحے کو استعمال کرنا تو محال مفت میں رکھنا بھی گوارا نہ کرتا۔لیکن ہم نے اپناسفر جاری رکھا ۔ پاکستان کے پاس ایف 16 اور جے ایف 17 تھنڈر جیسے ہتھیار موجود ہیں ۔جن کی اونچی اوڑانوں، جنگی مہارتوں نے پوری دنیا کو خاموش پیغام دے دیا ہے۔کیوں کہ ہم مسلمان ہیں اور امن کے داعی ہیں۔ ہمارے مذہب کا پہلا درس صراط مستقیم ہے۔ہمارا دین تو ہمیں کہتا ہے کہ کسی انسان کی تکریم میں حد سے تجاوز نہ کرو۔اپنی ذات اور اپنے مفاد کے لیے جنگ کی طرف نہ بڑھو ۔ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے جنگ کے دوران دشمن پہ قابو پالیا اور اس کے سینے پہ چڑھ گئے۔اس نے آپ رضی اللہ عنہ کے چہرہ مبارک پر تھوک پھینک دیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فوراََ اٹھے اور فرمایا :’’ اگر میں تمہیں اس حالت میں قتل کردیتا تو اس میں میرا غصہ ،میری ذات ،میری انا شامل ہو جاتی۔‘‘آپ رضی اللہ عنہ نے اسے چھوڑ دیا۔ہم تو ایسے مذہب کے نام لیوا ہیں جس میں انسانی احترام کے انمنٹ واقعات موجود ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمان اپنی حیثیت کھو چکے ہیں۔جہاں ایثار کی لازوال داستانیں رقم ہیں،وہاں تین سوتیرہ کے لشکر کے واقعات بھی موجود ہیں۔پھر عددی توازن مسلمانوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔اور یہی چیز پاکستان ائیر فور س نے ثابت کردی ہے۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں