؍گیارہ اکتوبر 2018ء کو مملکت سعودیہ عربیہ کی طرف سے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ’’حرمین ریلوے‘‘ کے نام سے ایک ریلوے سروس شروع کردی گئی ہے ،جس نے حرمین شریفین کے ساتھ ساتھ حجاز کے ساحلی شہر جدّہ کو بھی ایک ٹرین نیٹ ورک سے منسلک کردیا ہے۔ اس طرح عازمین حرمین شریفین حج اور عمرے کے لیے ’’حرمین ریلوے ‘‘ استعمال کریں گے۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے لیے ٹرین سروس شاید پہلی مرتبہ شروع کی گئی ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تاریخ میں تقریباً ایک سو دس سال قبل عازمین حج اور عمرے کے لیے ٹرین سروس قائم کی گئی تھی جو گردش زمانہ تلے آکر جلد ہی بند ہوگئی اور آج بہت کم لوگ اس ٹرین سروس کے بارے میں علم رکھتے ہیں جسے تاریخ کی کتابوں میں ’’حجاز ریلوے‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
حجاز ریلوے:
حجاز ریلوے حرمین شریفین کے ساتھ ساتھ عظیم ’’سلطنت عثمانیہ ‘‘ کی تاریخ کا بھی ایک روشن اور تابناک باب ہے۔ یہ وہ سروس تھی کہ جس نے زائرین حرمین کا دو ماہ کا سفر کم کر کے یکایک 55گھنٹوں تک محدود کردیا تھا اور اس مناسبت سے سفری اخراجات بھی دس گنا گھٹا دیے تھے۔
’’حجاز ریلوے‘‘ کی تعمیر کا آغاز یکم ستمبر 1900ء میں عثمانی فرمانبردار سلطان عبدالحمید ثانی کے تخت نشین ہونے کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر کیا گیا اور آٹھ سال بعد اسی تاریخ یعنی یکم ستمبر1908ء کو دمشق سے مدینہ منورہ تک 1320 کلو میٹر طویل ریلوے لائن مکمل ہوئی اور پہلی ٹرین عثمانی عمائدین سلطنت کو لیے دمشق سے روانہ ہوئی۔ مکمل منصوبہ دمشق سے لے کر مکہ مکرمہ تک ریلوے لائن بچھانے کا تھا۔ مگر پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے یہ لائن مدینہ منورہ سے آگے نہ بڑھ سکی۔
حجاز ریلوے کا پسِ منظر:
دور جدید میں حجاج کرام کا حرمین شریفین کے لیے سفر جتنا آرام دہ اور پُرسکون ہے، دورِ قدیم کے حجاج اتنی سہولیات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ دورانِ سفر بے شمار آزمائشیں حجاج کرام کی منتظر ہوتی تھیں۔ لق و دق صحرا، بپھرتے دریا، فلک پوش پہاڑ، لٹیروں کے گروہ، سامانِ خورد و نوش اور پانی کی کمیابی اور جنگلی جانوروں سے ٹکراؤ جیسی مشکلات سے نبردآزما ہو کر حجاج کے قافلے سفر حج مکمل کرکے جب گھر واپس لوٹتے تو اہل خانہ خوشیاں مناتے۔ سفر حج سے قبل اہل خانہ اور دوستوں سے معافی تلافی کروانے کا رواج اسی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ زمانہ قدیم میں اکثر اوقات بادشاہ جب اپنے کسی امیر سے نالاں ہوجاتا اور اس سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیتا تو اسے حرمین کے سفر پر روانہ کردیتااور راستے میں ہی بادشاہ کے کارندے اس امیر کو قتل کرکے کسی ویرانے میں ڈال دیتے اور اس کے اہل خانہ اس کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے۔ (مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے اپنے اتالیق بیرم خان سے یہی سلوک کیا تھا۔ )
زمانہ قدیم میں بلادِ عرب اور اس کے اطراف کے علاقوں سے حجاج کے قافلے شام کا رُخ کرتے اور دمشق میں اکٹھے ہو کر ’’محمل شامی‘‘ کے مرکزی قافلے میں شامل ہوجاتے۔ محمل شامی کے قافلے کا سالار جسے امیر الحج کہا جاتا تھا حجاج کو راستے میں بدوی قبائل کے حملوں سے بچانے اور مدینہ منورہ لے جانے کا ذمہ دار ہوتا تھا۔دمشق سے مدینے کا راستہ دو ماہ پر مشتمل تھا۔ راستے میں دیگر دشواریوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا خطرہ بدوی قبائل کے حملوں کا ہوتا تھا جو حجاج کرام کو زادِ راہ سے محروم کردیا کرتے تھے۔
حجاج کرام کو بہترین سفری سہولیات پہنچانے اور دورانِ سفرلاحق خطرات پر قابو پانے کے لیے ہر دور میں مسلم سلاطین نے ہر ممکن کوششیں کی ہیں۔ کاروانی راستوں پر حفاظتی چوکیاں بنوائی گئیں، پانی زخیرہ کرنے کے لیے حوض قائم کیے گئے ، کاروان کے اونٹوں کے لیے چارے کے گودام بنائے گئے اور بدوی قبائل پر قابو پانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔ ہجوم در ہجوم ذائرین حرم اور قطار درقطار اونٹوں کے قافلے جب چلتے تو بے آب و گیا صحرا میں رونقیں بکھیر دیا کرتے تھے۔ یہ قافلے جہاں قیام کرتے وہاں ایک شہر سا بس جایا کرتا۔ صحرا کے بدوی قبائل ان قافلوں کا سال بھر انتظار کرتے اور پھر معاشی تنگ دستی کے نام پر ان قافلوں کو نہ صرف لوٹ لیتے بلکہ بعض اوقات حجاج کو تاوان کے لیے گرفتار بھی کرلیا کرتے تھے۔
عثمانی سلاطین نے ان قافلوں کی حفاظت کے لیے امیر الحج کے ساتھ رقوم اور جواہرات ساتھ بھیجنا شروع کیے جو‘ ان قبائل کو بطور تحائف پیش کیے جاتے جس کے بعد حجاج کے قافلوں سے تعرض نہیں کیا جاتاتھا۔ بعد میں عثمانی افواج کا دستہ اور توپ خانہ بھی دمشق سے ’’محمل شامی‘‘ کے قافلے کے ساتھ جانے لگا۔
اس پس منظر میں انیسوی صدی عیسوی کے اواخر میں عثمانی سلطان عبدالحمید ثانی کے مشیروں جن میں عزت پاشا، شاکر پاشا، منیر پاشا اور دیگر شامل تھے، انہوں نے سلطان کو مشورہ دیا کہ موجودہ استنبول تا دمشق ریلوے لائن کی توسیع کی جائے اور اسے مدینہ منورہ سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ اور جدّہ کی بندرگاہ تک لے جایا جائے۔ اگست 1898ء میں عثمانی عمائدین کی مجلس میں مجوزہ ریلوے لائن کے منصوبے کے قابل عمل ہونے پر مشاورت شروع کی گئی اور یکم ستمبر 1900ء کو اس منصوبے کا عملی آغاز ہوگیا اور اسے ’’حجاز ریلوے‘‘ کا نام دیا گیا۔
حجاز ریلوے کی تعمیر:
Ottomam Railway Network میں استنبول تا دمشق ریلوے لائن موجود تھی اور اب حجاز ریلوے کے تحت اس کی توسیع کا آغاز ہوا۔ ابتدا میں ترک انجینئر حاجی مختار بے نے دمشق تا مدینہ زمینی سروے کیا اور پٹریوں کے لیے زمین پر نشانات لگانے شروع کیے یہ تمام کام تر ک انجینئرز سے لیا گیا ۔ پھر جون1901ء میں معروف جرمن انجینئر Meissner Pasha میسنر پاشا کے زیر نگرانی تعمیراتی کام شروع ہوا۔اس کام میں جرمن انجینئرز کے ساتھ ساتھ اطالوی اور مونٹی نیا گرو کے ہنرمندوں نے بھی حصہ لیا۔ ان کے ساتھ ترک افواج کے ساتھ سات ہزار سپاہی بھی حجاز ریلوے کے تعمیراتی منصوبے میں شامل تھے۔ العلاء سے مدینہ منورہ تک صرف مسلمان انجینئر اور مزدور ہی تعینات کیے گئے۔ دمشق سے مدینہ منورہ تک1302 کلو میٹر ریلوے لائن کے لیے عثمانی فوج کی تین بٹالین متعین کی گئی۔
بدو قبائل اور کاروانوں کے مالکان کی مزاحمت:
شتر بان کاروانوں کے مالکان کو اندازہ تھا کہ حجاز ریلوے کے بعد ان کے کاروانی کاروبار پر براہِ راست اثر پڑے گا۔ مزید یہ کہ مقامی بدو قبائل بھی حجاز ریلوے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے اسی لیے انہوں نے حجاز ریلوے کے تعمیراتی کام میں رکاوٹیں ڈالنی شروع کردیں۔ مزدوروں پر حملے کیے ، پٹریاں اکھاڑ دیں اور انجینئروں کی رہائش گاہوں میں حملے کرکے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔
ترک حکومت کو اس مزاحمت کا اندازہ تھا اسی لیے اس نے باقاعدہ ترک فوج اسی کام کے لیے متعین کی تھی۔ ترک سپاہ نے ان حملوں کو ناکام بنایا اور حجاز ریلوے کا منصوبہ کامیابی کے ساتھ بے آب و گیا گھاٹیوں اور ریگستانوں میں تکمیل پاتا رہا۔
حجاز ریلوے کی تکمیل:
تعمیر کے آغاز کے آٹھ سال بعد حجاز ریلوے کو مکمل کرلیا گیا اور سلطان عبدالحمید ثانی کے جشن تاجپوشی کے دن یکم ستمبر 1908ء کو اس کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔ اس دن نہ صرف عثمانی سلطنت بلکہ تمام عالم اسلام میں خوشیاں منائی گئیں۔ اس طرح دمشق سے مدینہ منورہ کا سفر جو اونٹوں کے ذریعے تقریباًدو ماہ میں طے ہوتا تھا اور اس پر اوسطاً40 عثمانی پونڈ خرچ آتا تھا وہ سفر صرف 55 گھنٹوں اور ساڑھے چار عثمانی پونڈ کرائے تک سمٹ گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک عرصے تک قدامت پسند حجاج حجاز ریلوے کو سفر حج کے لیے ناپسند کرتے رہے کیونکہ ان کے خیال میں اونٹوں کا روایتی طریقہ سفر ہی اس مبارک سفر کے لیے مناسب ہے اور یہ ’’آہنی اونٹ‘‘شرعاً ممنوع ہیں۔
حجاز ریلوے بطور وقف:
حجاز ریلوے کی تعمیر کے دوران عثمانی خلافت کی طرف سے عالم اسلام سے اس کے تعمیری اخراجات میں حصہ لینے کے لیے اپیل کی جاتی رہی تھی۔ اس لیے اس کی تعمیر میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی رقم شامل تھی اور پھر سلطان عبدالحمید نے اسے عالم اسلام کی ملکیت تسلیم کرتے ہوئے1913ء میں حجاز ریلوے کو ’’اسلامی وقف‘‘ قرار دے دیا۔ عرب دنیا کے نامور مورخ فواد المغامسی کے مطابق حجاز ریلوے کے لیے سب سے زیادہ عطیات بر صغیر ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے دیے گئے تھے۔ اس ضمن میں ریاست دکن کے نظام خاندان کا نام نمایا ں تھا۔
جنگ عظیم اوّل اور حجاز ریلوے کی تباہی:
حجاز ریلوے زائرین حرمین کے ساتھ ساتھ عام مسافروں کے لیے بھی ایک انقلاب ثابت ہوئی۔ دو ماہ تک صحرائی مشقتیں جھیلنے والے مسافر صرف 55 گھنٹے میں مدینہ منورہ پہنچنے لگے۔ براستہ دمشق سلطنت عثمانیہ کا رابطہ دارالحکومت قسطنطنیہ سے مدینہ منورہ تک ہوگیا۔ اب حجاز ریلوے کے اگلے مرحلے پر کام شروع ہونے کا وقت آیا جس میں اسے مکہ مکرمہ تک پہنچانا تھا کہ جنگ عظیم اوّل شروع ہوگئی۔ جنگ کے پہلے سال یعنی1914ء میں تو حجاز ریلوے چلتی رہی مگر عرب تحریک کی ابتداء کے ساتھ کہ جس میں شریف مکہ شاہ حسین بن علی نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کردی تھی، حجاز ریلوے اور اس کی تنصیبات پر حملے شروع ہوگئے ۔ اس طرح حجاز ریلوے کی سروس میں تعطل آنے لگا۔
رسوائے زمانہ لارنس آف عربیا (T-E-Lawrence) کا کردار حجاز ریلوے کی تباہی میں بہت نمایاں ہے۔ اس نے بدوی قبائل جو پہلے ہی حجاز ریلوے کے مخالف تھے ان کے جتھے بنا کر ریلوے لائن اکھاڑنے پر لگادئیے۔
جنگ عظیم کے شروع میں حجاز ریلوے نے فوجی سامان کی ترسیل میں اہم کردار ادا کیا مگر جلد ہی عملی طورپر اس کی سروس میں تعطل آنے لگااور پھر1920ء میں حجاز ریلوے مکمل طور پر بند ہوگئی۔
اس طرح عالم اسلام کے کثیر سرمائے سے قائم ہونے والی حجاز ریلوے جو زائرین حرمین کے لیے ایک نعمت تھی وہ مسلمانوں کے ہی ہاتھوں عصبیت کا شکار ہوکر برباد ہوگئی۔
معاہدہ سیورے (Treaty of Servers) جس کے تحت جنگِ عظیم اول کے بعد شکست خور دہ عثمانی سلطنت کی مقبوضات کی اتحادی طاقتوں میں بندر بانٹ کی گئی اس میں عظیم حجاز ریلوے کی تنصیبات بھی عرب علاقوں کے ساتھ ہی تقسیم کردی گئیں۔ مگر پھر بھی حجاز ریلوے دوبارہ مکمل طور پر نہیں چل سکی۔
حجاز ریلوے کے احیاء کی کوشش:
جون 1926ء میں مکہ مکرمہ میں منعقدہ اسلامی کانفرنس میں واشگاف انداز میں اعلان کیا گیا کہ حجاز ریلوے اسلامی وقف ہے اور جنگ عظیم کی فاتح اقوام اس کا انتظام مسلمانوں کے حوالے کردیں تاکہ مسلمانوں کی ایک تنظیم بنا کر حجاز ریلوے کو دوبارہ فعال کیا جاسکے مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
1931ٰٗٗء میں مفتی اعظم فلسطین نے اعلان کیا کہ حجاز ریلوے کی تنصیبات مسلمانوں کے حوالے کردی جائیں مگر عرب مقبوضات پر قابض برطانوی اور فرانسیسی حکومت نے نہ مانا۔
1945ء میں شام نے آزادی حاصل کی تو حجاز ریلوے کو ایک وقف بورڈ کے تحت شروع کرکے آثار پیدا ہوئے۔ مگر بدقسمتی سے 1948ء میں عالم عرب کے سینے پر خنجر گھونپتے ہوئے اسرائیل کی ریاست قائم کردی گئی۔ اس طرح دریائے اردن کے پار کی تنصیبات صیہونی قبضے میں آگئیں اور حجاز ریلوے کی بحالی کا امکان دم توڑگیا۔ 1954ء اور 1955ء میں سعودی حکومت کے خرچ پر شام اور اردن کے درمیان ریلوے ٹریک کی مرمت کی گئی۔ اس ٹریک پر ایک چھوٹی سی ٹرین آج بھی دمشق سے اردن کی سرحد تک مال برادری کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ :
بی بی سی اردو سروس نے 16جون 2006ء کی اشاعت میں اپنا ایک نامہ نگار کے حوالے سے حجاز ریلوے کی موجودہ صورت حال پر ایک رپورٹ شائع کی جس کے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
’’حجاز ریلوے میں نے پہلی مرتبہ دمشق کے خادم ریلوے اسٹیشن پر دیکھی ۔ ٹرین کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف بھاپ ہی بھاپ اور تیل کی بُو تھی ۔ بھاپ سے چلنے والی یہ ٹرین 1900ء میں بنائی گئی تھی اور اب یہ دمشق سے اردن کی سرحد تک سامان لے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔‘‘
’’ٹرین کے انچارج انجینئر نے بتایا کہ اس زمانے میں بنائی گئی گیارہ ٹرینوں میں سے صرف یہ ایک قابل استعمال ہے۔ ساتھ ہی اس نے اشارے سے بتایا کہ بقیہ دس انجن اور ڈبّے یہاں تھے۔ گھاس اور جھاڑیوں میں گھری وہ جگہ پرانے انجن اور ڈبوں کا قبرستان معلوم ہوتی تھی۔‘‘
’’انہیں میں ایک ٹرین کا ڈبّہ ایسا تھا جسے مدینہ پہنچنے کے لیے ریگستان میں پانچ روزہ طویل سفر کے دوران ممکنہ حملوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے بنایا گیا تھا اور اس میں سیکورٹی افراد کے گولی چلانے کے لیے سوراخ تھے۔‘‘
حرف آخر:
’’حجاز ریلوے‘‘ بلاشبہ عثمانی سلطنت کے زبردست کارناموں میں سے ایک کارنامہ تھا مگر گردش حالات نے اسے برباد کردیا۔ اب سعودی حکومت کی حالیہ مدینہ سے مکہ مکرمہ ’’حرمین ریلوے‘‘ یقیناحجاز ریلوے کے مقابلے میں نہایت مختصر ہے مگرتاریخ کے طالب علموں کو عالم اسلام کے لیے عثمانی سلطان عبدالحمید ثانی کے ایک تحفے کی یاد دلاتی ہے۔
حوالہ جات:
۱۔ حجاز ریلوے عثمانی ترک اور شریف مکہ از نسیم احمد۔
۲۔ BBC اردو سروس (16جنوری 2006ء)۔
۳۔ Haram Sira by John Ferelly
9 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
فیملی ولاگنگ کے معاشرے پر اثرات
معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی برائیوں میں سے ایک برائی فیملی ولاگنگ جس کو آپ عرف عام اپنی نجی زندگی کو پوری دنیا کے سامنے ظاہر کرنا ہے جس میں آج کل ولاگر شرم و حیا کا پاس رکھے بغیر خوشی خوشی اپنے گھر والوں کو جس میں خاص طور پر خواتین کو شامل کیا جانے لگا ہے شو کرتے ہیں اور پھر ایسی ویڈیوز بنا کر عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا کا کردار جہاں ہماری زندگیوں میں مثبت اثرات پیدا کر رہا ہے وہیں پر منفی اثرات بھی جنم لے رہے ہیں۔
تفریح کے نام پر سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی و فحاشی پھیلائی جارہی ہے جس کا ایک ذریعہ ولاگنگ ہے۔
پہلے پہل ولاگنگ کا آغاز صرف اور صرف اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے ہوا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ رجحان تبدیل ہوا اور پھر ذاتی زندگی کو عوام کے سامنے لانا اور اپنے خاندان کے ساتھ پوری زندگی کا یہاں تک کے میاں بیوی کے نجی معاملت بھی منظر عام پر لائے جانے لگے۔
اپنے پورے دن کی روٹین کو، اپنے ذاتی معاملات کو اپنے ازداوجی زندگی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جانے لگا اور دھیرے دھیرے حیا کا لبادہ اترتے اترتے نوبت یہاں تک آگئی کہ لوگ اپنے بند کمروں کے پیچھے ہونے والی روٹین کو بھی شوق کے ساتھ شیئر کرنے لگے جس کا مقصد صرف اور صرف چند لائیکس اور پیسہ کمانا ہے۔۔
اس فیملی ولاگنگ نے جہاں سوشل میڈیا کے مثبت کردار کو دھندلا دیا ہے وہیں معاشرے پر اور خاص طور پر نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس میں سب سے زیادہ ان کے اندر سے شرم و حیا کی تمیز ختم ہونا ہے۔
اپنے گھر کی عورتوں کو دنیا کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرنا اور پھر ان کے ساتھ نازیبا حرکتیں کرکے تفریح کے نام پر نواجونوں کی منفی ذہن سازی کی جارہی ہے۔
نوجوانوں کے اندر دنیا پرستی کے ساتھ ساتھ دنیاوی آسائیشوں کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنا اور اپنے کیئریر بنانے کے بجائے منفی عادتوں کو اپنانا اور پھر دھیرے دھیرے مادہ پرستی میں مبتلا ہوکر ذہنی مریض بن جانا اور معاشرے کے لیے کارآمد بننے کے بجائے ناسور بن جانا اس فیملی ولاگنگ کا سب سے بڑا برا اثر ہے۔۔
حکومت اور ملحقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی تفریحات کے نام پر ہونے والی بےحیائی پر فی الفور پابندی عائد کرے اور سوشل میڈیا کے مثبت استمعال کے فروغ کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے تاکہ نوجوان نسل اپنی صلاحیتوں کو اپنی ذات کی بہتری کے لیے کارآمد بنا سکیں۔
بچوں کی ذہنی نشوونما کیجئے
بچوں کے ذہن میں کثرت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔ ان کے معصوم و نامعقول سوالات کے جوابات بہت ہی عقل مندی اور تحمل سے دینے چاہیے۔ہم سے بچے چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھتے ہیں۔یہ ان کے سوالات ہمیں بے معنیٰ و بے مقصد نظر آتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ ہمیں ان کے سوالوں کا مقصد ہی سمجھ میں نہیں آتا، اسی لیے ہم انہیں خاموش رہنے کو کہتے ہیں اس پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ’’ تمہیں توکچھ نہیں آتا‘‘ ،’’تم تو کچھ نہیں جانتے ‘‘،’’تم کواتنی سے بات بھی نہیں معلوم‘‘،ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ان کے سوالات کو ایک رخ اور سمت دینا چاہیے۔اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے توہمیں خود اس سے سوال پوچھنے چاہیے۔ اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یاتو بچہ بات سمجھ گیا ہے یا پھر بچہ کا ذہن تشکیک کا شکار ہے۔ بچے سوال کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں نہ صرف اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں کے سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی دینے ہوں گے۔
ایک بچہ اپنے باپ سے سوال کرتا ہے کہ’’ اسے امتحان میں کم نمبر کیوں ملے ؟
باپ نے کہا ’’تم نے پڑھائی کم کی ہے اسی لیے نمبر بھی کم ملے ہیں۔ آئندہ زیادہ محنت سے پڑھوگے تو ان شاء اللہ نمبر بھی اچھے ملیں گے‘‘۔ بچے نے اگلی بار زیادہ محنت کی اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ پھراگلی بار اس نے اور زیادہ محنت سے پڑھائی کی لیکن کم نمبر حاصل ہوئے۔ بچے نے والد سے پوچھا کہ میں نے بہت زیادہ محنت سے پڑھائی کی، پھر بھی مجھے مطلوبہ نمبر نہیں ملے، ایسا کیوں ہوا؟ باپ نے جھنجھلاکر کہا،’’یہ تمہاری قسمت ہے، اور کیا؟‘‘
بچے سے تمہاری قسمت کہنا یہ اس کے سوال کا درست جواب نہیں ہے۔اس کا درست جواب ہونا چاہیے کہ ’’بیٹے یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ آئو ہم دونوں مل کر اس کی وجہ تلاش کر تے ہیں‘‘۔جب بچے کو معلوم ہوتاہے کہ اسے جواب تلاش کرنا ہے اسی وقت اس کی فکری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور اس میں فکری عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔
بچوں میں ذہانت کے فروغ کے لیے ان کے فکر ی سوتوں کو مہمیز کیاجائے! بچوں میں ذہانت کے فروغ سے مراد ان میں سوچنے کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔جب ہم بچوں میں تفکر و تدبر کی حوصلہ افزائی کا کام انجام دیتے ہیں اسی لمحے ان میں ذہانت کے فروغ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اوران کی ذہانت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔فکر و تدبر اور سوچنے کے عمل کو مہمیز کرنے کے کئی طریقے ہیں جو بچوں کے بائیں دماغ کو اور بعض اوقات دائیں دماغ کو فعال ومتحرک بناتے ہیں۔
دماغ و ذہانت کا فروغ اختیار کردہ فکر و تدبر کے انداز و طریقہ کار پر منحصر ہوتا ہے۔جن میں سب سے آسان طریقہ بچوں سے سوالات کرنا ہے۔جب بچے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے لگتے ہیں تو پھر یہ کوشش ان کے ذہن اور ذہانت کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔بچوں میں فکر...
فون کیوں نہیں کیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ایک ایسی داستان بن چکا ہے جو قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ یہ داستان ظلم، بے حسی، اور بین الاقوامی سیاست کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک معصوم پاکستانی خاتون امریکی جیل میں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی ہے تو ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ آخر انہوں نے امریکی صدر کو فون کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال نہ صرف ہماری قیادت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے بلکہ ہماری اجتماعی قومی غیرت کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ امریکی صدر کو ایک فون کال کرنا شاید اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ہمارے حکمرانوں کے لیے اپنی کرسی بچانا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہم ہے۔ یہ فون کال نہ صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا ذریعہ بن سکتی تھی بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اور مفادات کا کھیل ہوتا ہے، لیکن قوم کی عزت و وقار کا سودا کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ ایک قوم کی بیٹی ہے؟ وہ قوم جو ان سے جواب طلب کر رہی ہے کہ جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے شہریوں کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں تو پاکستان کیوں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے؟
شاید مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ترجیحات میں عوام اور قومی غیرت کو شامل ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ فون کال ان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی، اور یہی سوچ عافیہ کیس کو پسِ پشت ڈالتی رہی۔
اگر ہمارے حکمران امریکی صدر کو فون کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے، تو یہ نہ صرف انصاف کا تقاضا ہوتا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ کال نہ کی گئی، اور ڈاکٹر عافیہ آج بھی اپنے وطن واپسی کی منتظر ہیں۔
ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہکیا ہم اپنی قیادت سے ایسے اقدامات کی امید رکھ سکتے ہیں جو قومی غیرت کے عکاس ہوں؟ یا ہمیں ہمیشہ یہی سننا پڑے گا کہ "فون کیوں نہیں کیا؟"
ہائے ایسی زبوں حالی میں میرےذہن میں آیا کہ میں تاریخ میں پلٹ کر دیکھوں میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزتوں کی حفاظتوں کے متعلق کیسی حساسیت رکھتے تھےتومجھےکسی مسلمان کی نہیں بلکہ غیرمسلم کی بیٹی عدی بن حاتم کی بیٹی قیدیوں کی قطاروں میں کھڑی نظرآئی جس کےسرپہ دوپٹہ نہ تھا میرے نبی اپنی پاک ردا سے اس کے بدن کوڈھانپااور اس کو بحفاظت اپنے پاس رکھا۔جب اس کےاہلخانہ کے متعلق معلوم ہواتو آپ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بحفاظت اس کواس کےگھرپہنچایا۔
اےمیری ملت کے حکماء و محافظو! آپ کس کے طریقے کی پیروی کرنے چل پڑےہیں؟ دیکھیں تو اسوۂ رسول کیسے انمول اسباق لیے ہمارے سامنے موجودہے یہاں سے سیکھیے۔اپنی بیٹی ،اپنی عزت،اپنادرد سمجھتےہوئےعافیہ کی حریت کےلیےاقدامات۔۔۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر !
یہ مہربانی نہیں بلکہ فرضِ عین ہےجس...
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
بہت عمدہ تحریر تاریخ کے جھرونکوں سے ان مٹ نقاش
بہت خوبصورت انداز سے نقش کئے ہیں آپ نے عدیل صاحب
سلامت رہیں
انتہائی معلومات افزا تحریر ہے، عدیل جملانہ صاحب خصوصاً تاریخی تحریروں میں اپنا جواب نہیں رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ اس طرح کی تحریریں پڑھنے کو ملتی رہیں گی، ان شاءاللہ
ماشاء اللہ
ہمیشہ کی طرح کمال دکھایا ہے ۔۔
واہ عدیل بھائی بہت معلومات افزاء، یہ وہ چیزیں کہ ہم اہنے زمانہ طالبعلمی میں کبھی نہیں پڑ ہیں۔ واقعتاً تاریخ کے اس رُخ کو ہم پر وا کرنے کا بہت شکریہ۔
خدا کرے زور قلم اور زیادہ۔
nice article with facts and figures….
keep it up..
ماشاءاللہ انتہائی معلوماتی تحریر نہایت مختصر پیرائے میں۔ ہنر مند لکھاری باکمال تحریر۔
نہ صرف خوبصورت تحریر بلکہ انتہائی دلچسپ اور معلوماتی مضمون۔۔۔دل خوش ہو گیا۔۔۔
جناب عدیل صاحب بہت شکریہ۔
nice
کیا مجھے عدیل بھائی کا موبائل نمبر مل سکتا ہے ؟