اچھی صحت آپ کے اپنے ہاتھ میں

ڈپریشن بظاہر ایک معمولی مرض ہے، جسے ذہنی بیماری کہا جاتا ہے، مگر ماہرین صحت کے مطابق اس کے اثرات سے انسانی زندگی مشکل بن جاتی ہے۔ برطانوی و امریکی ماہرین صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 3 کروڑ 50 لاکھ افراد ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، اور تقریبا دنیا کے ہر 4 میں سے ایک شخص کو کسی نہ کسی درجے کی ڈپریشن کی شکایت ہوتی ہے۔ ڈپریشن کی شکایات زیادہ تر خواتین کو ہوتی ہیں، جو گھریلو ذمہ داریوں سمیت دیگر سماجی ذمہ داریوں اور مسائل کی وجہ سے اس کا شکار ہوتی ہیں۔ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا افراد آہستہ آہستہ ذہنی دیوالیہ پن کا شکار بن جاتے ہیں، جب کہ ان کا معیار زندگی بھی بہتر نہیں ہوتا، چڑچڑے پن اور ہر وقت اضطراب میں رہنے کے باعث وہ اپنی خوراک کا بھی خیال نہیں کرتے۔ ڈپریشن کا علاج کئی طرح سے ممکن ہے مگر نیوٹریشن ماہرین کے مطابق کھانوں کے ذریعے بھی ڈپریشن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ نیوٹریشن ماہرین کے مطابق ڈائیٹ یا زیادہ پروٹین اور شگر سے تیارغذا کھانے والے افراد ان افراد کے مقابلے زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، جو صحت مند غذا کھاتے ہیں۔ برطانیہ کی مینٹل ہیلتھ فاؤنڈیشن کے مطابق ہفتے کے ساتوں دن کام کرنے والے افراد ذہنی مسائل کا شکار زیادہ ہوتے ہیں، تاہم اگر وہ اپنی خوراک بہتر بنائیں تو ڈپریشن سمیت دیگر ذہنی الجھن سے بچ سکتے ہیں۔ امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق تازہ پھل، سبزیاں، مچھلی اور اناج سے تیار غذائیں ڈپریشن کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
شہد کا استعمال ہارٹ اٹیک سے بچاؤ کے لیے مفید
شہد کا استعمال سنت نبوی صلی اللہ و آلہ وسلم ہے اور اس کو کھانے کی عادت ہارٹ اٹیک سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ واشنگٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ شہد میں موجود مٹھاس ایک پروٹین کو متحرک کرتی ہے جو کہ خون کی شریانوں میں جمع ہونے والی چربی کو ہٹانے میں جسمانی دفاعی نظام کی مدد کرتا ہے۔ شریانوں کے اندر جمع ہونے والے چربی کے ذرات انہیں سخت اور کم لچکدار کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہائی بلڈ پریشر، امراض قلب اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے۔ اس تحقیق کے دوران محققین نے شریانوں کی پیچیدگیوں کے خطرات سے دوچار چوہوں کے اندر شہد کی مٹھاس کو داخل کیا جبکہ کچھ کو اس مٹھاس کو کھلایا گیا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ اس مٹھاس کے نتیجے میں شریانوں میں چربی کے اجتماع میں 30 فیصد تک کمی آئی۔ محققین کے مطابق یہ مٹھاس ایک پروٹین ٹی ایف ای بی کو متحرک کرتی ہے جو کہ اس چربی کو ہٹانے کا کام کرتا ہے جس سے ان ذرات سے ہونے والے نقصان کا اثر کم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ عمل جسمانی دفاعی نظام کے خلیات کو اپنا کام موثر طریقے سے مدد دیتا ہے جو وقت کے ساتھ متاثر ہوچکا ہوتا ہے۔
گاجر کے حیرت انگیز فائدے۔
گاجر کو غریبوں کا سیب کہا جاتا ہے کیونکہ غذائی اعتبار سے یہ مہنگے ترین پھلوں کے بھی ہم پلہ ہے اور آئے دن گاجر اور اس کے رس کے طبی فوائد سامنے آتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گاجر کا رس دیگر پھلوں کے رس کے ساتھ مل کر ان کا ذائقہ اور افادیت بڑھا دیتا ہے۔ گاجر کے جوس کے فوائد سے پہلے یہ جان لیجئے کہ اس میں کونسے اہم غذائی اجزا پائے جاتے ہیں۔ایک کپ گاجر کے رس میں 94 کلو کیلوریز غذائیت ہوتی ہے، جس میں سے 2.24 گرام پروٹین، 0.35 گرام چکنائی، 21.90 گرام کاربوہائیڈریٹس، 1.90 گرام فائبر، 689 ملی گرام پوٹاشیم، 20 ملی گرام وٹامن سی، 0.217 ملی گرام تھایامین، 0.512 ملی گرام وٹامن بی 6، 2,256 مائیکروگرام وٹامن اے، 36.6 مائیکروگرام وٹامن کے کے علاوہ دیگر اجزا پائے جاتے ہیں۔گاجر کا رس غذائیت سے بھرپور تو ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کئی خوفناک امراض کو روکنے میں مددگار بھی ثابت ہوتا ہے۔
معدے کا کینسر۔۔گاجر کا رس اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے جن کی سرطان روکنے کی صلاحیت سے سب واقف ہیں، ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ گاجر کا رس معدے کے کینسر کو دور رکھنے میں مددگار ہوتا ہے اگر مسلسل گاجریں کھائی جائیں تو معدے کے سرطان کے امکانات 26 فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔
لیوکیمیا کا تدارک۔۔ایک مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ گاجر کا رس لیوکیما کے خلیات (سیلز) کو ختم کرنے میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ بسا اوقات گاجر کا رس لیوکیما کے خلیات کو ازخود تباہ کر دیتا ہے اور ان کے پھیلاؤ کو روکتا ہے البتہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
چھاتی کے سرطان سے بچائے۔۔گاجروں میں کیروٹینوئیڈز کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو چھاتی کے کینسر کو دوبارہ حملہ کرنے سے روکتی ہے۔ اس کے علاوہ سائنس دان پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ خون میں کیروٹینوئیڈز کی مقدار جتنی زیادہ ہو گی، بریسٹ کینسر کے لوٹنے کا خطرہ اتنا ہی کم ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے ایک چھوٹا سا مطالعہ کیا گیا کہ خواتین کو تین ہفتوں تک روزانہ 8 اونس گاجر کا رس پلایا گیا۔ اس کے بعد جب ان خواتین کے خون کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کے خون میں کیروٹینوئیڈز کی مقدار زیادہ تھی جب کہ آکسیڈیٹیو اسٹریس کی علامات کم تھیں جو کینسر کی وجہ بن سکتی۔
سبز پتوں والی سبزیوں کے فوائد
ماہرین غذائیات کا اصرار ہے کہ اگرچہ ’سپرفوڈز‘ کی فہرست میں کچھ اشیا شامل اور بعض کم ہوتی رہتی ہیں لیکن سبز پتوں والی سبزیاں اپنی افادیت، غذائیت اور امراض سے تحفظ میں ہمیشہ ہی سرِفہرست رہی ہیں۔ امریکی مرکز برائے تدارک امراض اور تحفظ (سی ڈی سی) کے مطابق انہوں نے 50 پھلوں اورنباتات کا جائزہ لیا اور 20 اشیا کو سب سے اوپر رکھا تو ان 20 میں سے 17 ہرے پتوں والی سبزیاں مثلاً پالک، سلاد اور دیگر سبزیاں جیت گئیں۔یوا ین پی کے مطابق دنیا کے ممتاز غذائی ماہرین نے طاقتور ترین سلاد بنانے کا ایک طریقہ بتایا ہے جو قلفہ کا ساگ یعنی آروگیولا، گوبھی کے خاندان والی ایک سبزی کیل، رومین سلاد اور تیز پات یعنی واٹرکریس کو ملاکر استعمال کیا جائے تو یہ نہ صرف کینسر، ڈیمنشیا، فالج، امراضِ قلب اور ذیابیطس سے بچاتی ہے بلکہ یہ جسم کے دفاعی نظام کو بھی مؤثر بناتی ہے۔ اس سلاد کے بعض اجزا عام دکانوں کی بجائے سپر اسٹور پر دستیاب ہیں اور وہاں انگریزی نام کے ساتھ طلب کئے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے ہر سلاد کا ذائقہ اور فائدہ الگ ہے مثلاً رومین سلاد (رومین لیٹیوس) وٹامن اے سے بھرپور ہے جبکہ ا?روگیولا میں کینسر سے لڑنے والے طاقتور ترین اجزا پائے جاتے ہیں۔ پالک کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بھوک کو دباتا ہے اور زیادہ کھانے سے روکتا ہے اور ہاضمے کو بہتر بناتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سلاد پتے کی افزائش میں ماحول تباہ کرنے والے مضر کیمیکل اور خطرناک کیڑے مار دوائیں بھی کم استعمال ہوتی ہیں۔ اس سلاد کو تیار کرنے سے قبل دھولیجیے لیکن بہت دیر تک گیلا نہ رکھیے کیونکہ اس طرح مزید جراثیم اس پر چپک سکتے ہیں۔ اس میں انڈے، پھل، مچھلی کے قتلوں، پھلیوں، گری دار پھلیوں مثلاً بادام اور کاجو وغیرہ بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایووکاڈو (یا ناشپاتی) اور دیگر سبزیاں شامل کی جاسکتی ہیں۔
سبز چائے کے فوائد
آپ سبز چائے کی افادیت سے تو بہت اچھی طرح واقف ہوں گے لیکن کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ اس کو پینے کا درست طریقہ کیا ہے؟آج ہم آپ کو اس کے استعمال کا درست طریقے بتائیں گے۔دو سے تین کپ۔۔سبز چائے میں فلیونائڈزاور ٹیننزکی مقدار موجود ہوتی ہے لہذا اس کا بہت زیادہ استعمال بھی آپ کے جگر پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دو سے تین تک کپ پئیں اور اس سے زیادہ ہرگز نوش نہ کریں۔خالی پیٹ ہرگز مت پئیں۔۔صبح اٹھتے ہی ہرگزسبز چائے مت پئیں کیونکہ خالی پیٹ پینے سے یہ آپ کے معدے پر منفی اثرات مرتب کرے گی بلکہ صبح کا آغاز پانی کے ایک گلاس سے کریں۔کھانے کے فوراًبعد۔۔کچھ لوگ کھانا کھانے کے فوراًبعد سبز چائے پیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے استعمال سے ان کا معدہ ٹھیک رہے گا لیکن یہ ایک خطرناک غلطی ہے کیونکہ اس طرح کھانا ہضم ہونے میں دقت پیش آئے گی۔ کھانا کھانے کے بعد کم از کم آدھے گھنٹے کا وقفہ دیں اور پھر سبز چائے نوش فرمائیں۔سوتے وقت۔۔اگر آپ سوتے میں سبز چائے استعمال کریں گے تو آپ کو سونے میں دقت پیش آئے گی۔اس لئے سونے سے کم از کم دو سے تین گھنٹے پہلے سبز چائے پئیں تاکہ آپ کو نیند آنے میں مسئلہ نہ ہو۔سبز چائے کا بیگ دوبارہ استعمال مت کریں ایک دفعہ استعمال کے بعد سبز چائے کے بیگ کو دوبارہ ہرگز مت استعمال کریں کیونکہ اس میں ناصرف کیفین کی بہت زیادہ مقدار ہو گی بلکہ اس میں بیکٹیریا اکٹھا ہونے سے وہ مضر صحت ہوگا۔زیادہ سے زیادہ پانی پئیں۔۔سبز چائے کے بعد بہت زیادہ پیشاب آتا ہے جس کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہوسکتی ہے لہذا زیادہ سے زیادہ پانی پئیں۔
پاکستانی کھانوں میں استعمال ہونیوالی جڑی بوٹیوں کے فوائد
حالیہ رسرچز میں پاکستانی کھانوں میں استعمال ہونے والی متعدد جڑی بوٹیوں کو صحت کے لیے فائدے مند بتایا گیا ہے۔ ان رسرچز میں دار چینی، میتھی، سونف، زیرہ اور ہلدی کو صحت کے لیے بہترین قرار دیا گیا۔
دارچینی۔
۔دارچینی بریانی، قیمہ کابل چنا اور دیگر کھانوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس خوشبو پیدا کرنے والی جڑی بوٹی میں مینگانیز اور الڈرہاڈ (کیمیکل کمپاؤنڈ) موجود ہوتا ہے جس سے ٹشو، ہڈیاں اور پٹھے نشو نما پاتے ہیں۔ دارچینی جوڑوں کے درد میں مبتلا افراد کو بھی تجویز کی جاتی ہے جبکہ یہ خون میں شوگر کو کنٹرول کرنے میں بھی مددگار ہے
میتھی
۔۔دالوں اور کڑی سمیت میتھی کو مختلف قسم کے کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ میتھی کے باقاعدگی سے استعمال سے کالسٹرول کم ہوتا ہے جبکہ جسم سے مضر صحت چربی کو گھلانے میں مدد کرتی ہے۔ اس کے استعمال سے ذیابطیس کے مریضوں میں شوگر لیول کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مانا جاتا ہے کہ میتھی کو رات بھر پانی میں ڈال کر صبح اسے پینے سے وزن کم ہوتا ہے۔سونف۔۔پلاؤ اور دیگر کھانوں میں استعمال ہونے والی سونف میں بھی متعدد فائدے چھپے ہوئے ہیں۔ ذیابطیس کے مریضوں میں اس کے استعمال سے آنکھوں کی روشنی بچی رہتی ہے جبکہ یہ گلوکوما سے بھی بچاتی ہے۔ مانا جاتا ہے کہ سونف کی چائے سے ڈپریشن دور ہوتا ہے اور اس میں موجود پوٹاشیم ڈیمینشیا سے بھی بچاتا ہے۔
انڈے صحت کے مفید
محققین کچھ سالوں کے بعد انڈوں کے حوالے سے نئی تحقیق سامنے لاتے رہتے ہیں جن میں کبھی انہیں صحت کے لیے بہترین اور کبھی مضر قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود انڈوں کا شمار طاقتور کھانوں (پاور فوڈز) میں ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب انہیں دل کے لیے ‘بلیک لسٹ’ کیا گیا ہے۔یہ مانا جاتا ہے کہ انڈوں میں کولیسٹرول بڑی مقدار میں موجود ہوتا ہے جو دل کی شریانوں کے لیے مضر ہے۔ تاہم ایک دوسری ریسرچ میں پایا گیا کہ انڈوں میں موجود کولیسٹرول ‘اچھا’ کولیسٹرول ہے اور پھر انڈوں کو صحت کے لیے اچھا قرار دیا جانے لگا۔دنیا بھر میں انڈوں کو پسندیدہ ناشتہ مانا جاتا ہے۔ تاہم ایک اور ریسرچ کہتی ہے کہ انڈے دل کے لیے اتنے ہی برے ہیں جتنا تمباکو نوشی۔ ان تمام باتوں کے باوجود انڈوں میں موجود فوائد کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ انڈوں میں بڑی تعداد میں ویٹامن اے، ای اور کے پایا جاتا ہے جبکہ ویٹامن ڈی حاصل کرنے کا یہ قدرتی طریقہ ہے۔ انڈوں میں فولیٹ، آئرن، ویٹامن بی12 اور متعدد قسم کے امینو ایسڈز ہوتے ہیں جو جسم کی نشونما میں مدد کرتے ہیں۔ انڈوں میں کولین نامی ایک نیوٹرنٹ موجود ہوتا ہے جو گروتھ میں مددگار ہے جبکہ اس سے چھاتی کے کینسر کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ معلوم ہوا ہے کہ انڈوں میں انسیچوریٹ فیٹس ہوتے ہیں اور یہ ‘اچھے’ کالیسٹرول کو بڑھاتا ہے۔ تاہم یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ انڈوں کا استعمال اعتدال پسندی سے کیا جائے اور یہ بات انتہائی اہم ہے کہ انڈوں کو کس طرح بنایا جارہا ہے اور کس چیز کے ساتھ کھایا جارہا ہے (پراٹھے کھانے سے بچیں)۔ انڈوں کے خلاف ہونے والی ریسرچز میں بعدازاں خامیاں پائی گئیں تھیں۔ اس لیے انڈوں کا اعتدال پسندی سے استعمال کریں اور اگر آپ کا کالیسٹرول بڑھا ہوا رہتا ہے تو پھر اس کا استعمال ذردی کے بغیر کریں۔
ٹماٹر معدے کے کینسر سے بچانے کے لیے مفید
ٹماٹر کو دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے اور متعدد کھانے اس کے بغیر ادھورے ہوتے ہیں مگر یہ جان لیوا کینسر سے بھی بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ بات اٹلی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ تحقیق کے مطابق ٹماٹر میں موجود اجزاء معدے کے کینسر کے خلیات کو پھیلنے سے روکتے ہیں۔ تحقیق کے دوران ٹماٹر کے تمام اجزاء کا معدے کے کینسر کے خلیات پر ردعمل کے حوالے سے جائزہ لیا گیا۔ محققین کا کہنا تھا کہ ٹماٹر کے مخصوص اجزاء جیسے لائیکوپین کی بجائے اس کے تمام اجزاء معدے کے کینسر سے بچاؤ میں مدد دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ٹماٹر کے اجزاء سے نہ صرف کینسر کی روک تھام میں مدد ملتی ہے بلکہ یہ روایتی تھراپی کے لیے بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ معدے کا کینسر دنیا بھر میں سرطان کی چوتھی سب سے عام قسم ہے جو کہ عام طور پر غذائی عادات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ تحقیق طبی جریدے جرنل آف سیلولر فزیولوجی میں شائع ہوئی۔ اسی طرح گزشتہ سال ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ٹماٹر میں موجود لائیکو پین پراسٹیٹ کینسر کے خلاف موثر ثابت ہوتا ہے۔ اس سے قبل ایک امریکی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ روزانہ ناشتے میں ٹماٹر کھانا جسمانی وزن میں کمی لانے کے لیے معاون ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق میں بتایا کہ ناشتے میں روزانہ کچے ٹماٹروں کا استعمال وزن میں حیرت انگیز کمی لاتا ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں