ڈپریشن بظاہر ایک معمولی مرض ہے، جسے ذہنی بیماری کہا جاتا ہے، مگر ماہرین صحت کے مطابق اس کے اثرات سے انسانی زندگی مشکل بن جاتی ہے۔ برطانوی و امریکی ماہرین صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 3 کروڑ 50 لاکھ افراد ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، اور تقریبا دنیا کے ہر 4 میں سے ایک شخص کو کسی نہ کسی درجے کی ڈپریشن کی شکایت ہوتی ہے۔ ڈپریشن کی شکایات زیادہ تر خواتین کو ہوتی ہیں، جو گھریلو ذمہ داریوں سمیت دیگر سماجی ذمہ داریوں اور مسائل کی وجہ سے اس کا شکار ہوتی ہیں۔ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا افراد آہستہ آہستہ ذہنی دیوالیہ پن کا شکار بن جاتے ہیں، جب کہ ان کا معیار زندگی بھی بہتر نہیں ہوتا، چڑچڑے پن اور ہر وقت اضطراب میں رہنے کے باعث وہ اپنی خوراک کا بھی خیال نہیں کرتے۔ ڈپریشن کا علاج کئی طرح سے ممکن ہے مگر نیوٹریشن ماہرین کے مطابق کھانوں کے ذریعے بھی ڈپریشن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ نیوٹریشن ماہرین کے مطابق ڈائیٹ یا زیادہ پروٹین اور شگر سے تیارغذا کھانے والے افراد ان افراد کے مقابلے زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، جو صحت مند غذا کھاتے ہیں۔ برطانیہ کی مینٹل ہیلتھ فاؤنڈیشن کے مطابق ہفتے کے ساتوں دن کام کرنے والے افراد ذہنی مسائل کا شکار زیادہ ہوتے ہیں، تاہم اگر وہ اپنی خوراک بہتر بنائیں تو ڈپریشن سمیت دیگر ذہنی الجھن سے بچ سکتے ہیں۔ امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق تازہ پھل، سبزیاں، مچھلی اور اناج سے تیار غذائیں ڈپریشن کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
شہد کا استعمال ہارٹ اٹیک سے بچاؤ کے لیے مفید
شہد کا استعمال سنت نبوی صلی اللہ و آلہ وسلم ہے اور اس کو کھانے کی عادت ہارٹ اٹیک سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ واشنگٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ شہد میں موجود مٹھاس ایک پروٹین کو متحرک کرتی ہے جو کہ خون کی شریانوں میں جمع ہونے والی چربی کو ہٹانے میں جسمانی دفاعی نظام کی مدد کرتا ہے۔ شریانوں کے اندر جمع ہونے والے چربی کے ذرات انہیں سخت اور کم لچکدار کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہائی بلڈ پریشر، امراض قلب اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے۔ اس تحقیق کے دوران محققین نے شریانوں کی پیچیدگیوں کے خطرات سے دوچار چوہوں کے اندر شہد کی مٹھاس کو داخل کیا جبکہ کچھ کو اس مٹھاس کو کھلایا گیا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ اس مٹھاس کے نتیجے میں شریانوں میں چربی کے اجتماع میں 30 فیصد تک کمی آئی۔ محققین کے مطابق یہ مٹھاس ایک پروٹین ٹی ایف ای بی کو متحرک کرتی ہے جو کہ اس چربی کو ہٹانے کا کام کرتا ہے جس سے ان ذرات سے ہونے والے نقصان کا اثر کم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ عمل جسمانی دفاعی نظام کے خلیات کو اپنا کام موثر طریقے سے مدد دیتا ہے جو وقت کے ساتھ متاثر ہوچکا ہوتا ہے۔
گاجر کے حیرت انگیز فائدے۔
گاجر کو غریبوں کا سیب کہا جاتا ہے کیونکہ غذائی اعتبار سے یہ مہنگے ترین پھلوں کے بھی ہم پلہ ہے اور آئے دن گاجر اور اس کے رس کے طبی فوائد سامنے آتے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گاجر کا رس دیگر پھلوں کے رس کے ساتھ مل کر ان کا ذائقہ اور افادیت بڑھا دیتا ہے۔ گاجر کے جوس کے فوائد سے پہلے یہ جان لیجئے کہ اس میں کونسے اہم غذائی اجزا پائے جاتے ہیں۔ایک کپ گاجر کے رس میں 94 کلو کیلوریز غذائیت ہوتی ہے، جس میں سے 2.24 گرام پروٹین، 0.35 گرام چکنائی، 21.90 گرام کاربوہائیڈریٹس، 1.90 گرام فائبر، 689 ملی گرام پوٹاشیم، 20 ملی گرام وٹامن سی، 0.217 ملی گرام تھایامین، 0.512 ملی گرام وٹامن بی 6، 2,256 مائیکروگرام وٹامن اے، 36.6 مائیکروگرام وٹامن کے کے علاوہ دیگر اجزا پائے جاتے ہیں۔گاجر کا رس غذائیت سے بھرپور تو ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کئی خوفناک امراض کو روکنے میں مددگار بھی ثابت ہوتا ہے۔
معدے کا کینسر۔۔گاجر کا رس اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے جن کی سرطان روکنے کی صلاحیت سے سب واقف ہیں، ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ گاجر کا رس معدے کے کینسر کو دور رکھنے میں مددگار ہوتا ہے اگر مسلسل گاجریں کھائی جائیں تو معدے کے سرطان کے امکانات 26 فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔
لیوکیمیا کا تدارک۔۔ایک مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ گاجر کا رس لیوکیما کے خلیات (سیلز) کو ختم کرنے میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ بسا اوقات گاجر کا رس لیوکیما کے خلیات کو ازخود تباہ کر دیتا ہے اور ان کے پھیلاؤ کو روکتا ہے البتہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
چھاتی کے سرطان سے بچائے۔۔گاجروں میں کیروٹینوئیڈز کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو چھاتی کے کینسر کو دوبارہ حملہ کرنے سے روکتی ہے۔ اس کے علاوہ سائنس دان پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ خون میں کیروٹینوئیڈز کی مقدار جتنی زیادہ ہو گی، بریسٹ کینسر کے لوٹنے کا خطرہ اتنا ہی کم ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے ایک چھوٹا سا مطالعہ کیا گیا کہ خواتین کو تین ہفتوں تک روزانہ 8 اونس گاجر کا رس پلایا گیا۔ اس کے بعد جب ان خواتین کے خون کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کے خون میں کیروٹینوئیڈز کی مقدار زیادہ تھی جب کہ آکسیڈیٹیو اسٹریس کی علامات کم تھیں جو کینسر کی وجہ بن سکتی۔
سبز پتوں والی سبزیوں کے فوائد
ماہرین غذائیات کا اصرار ہے کہ اگرچہ ’سپرفوڈز‘ کی فہرست میں کچھ اشیا شامل اور بعض کم ہوتی رہتی ہیں لیکن سبز پتوں والی سبزیاں اپنی افادیت، غذائیت اور امراض سے تحفظ میں ہمیشہ ہی سرِفہرست رہی ہیں۔ امریکی مرکز برائے تدارک امراض اور تحفظ (سی ڈی سی) کے مطابق انہوں نے 50 پھلوں اورنباتات کا جائزہ لیا اور 20 اشیا کو سب سے اوپر رکھا تو ان 20 میں سے 17 ہرے پتوں والی سبزیاں مثلاً پالک، سلاد اور دیگر سبزیاں جیت گئیں۔یوا ین پی کے مطابق دنیا کے ممتاز غذائی ماہرین نے طاقتور ترین سلاد بنانے کا ایک طریقہ بتایا ہے جو قلفہ کا ساگ یعنی آروگیولا، گوبھی کے خاندان والی ایک سبزی کیل، رومین سلاد اور تیز پات یعنی واٹرکریس کو ملاکر استعمال کیا جائے تو یہ نہ صرف کینسر، ڈیمنشیا، فالج، امراضِ قلب اور ذیابیطس سے بچاتی ہے بلکہ یہ جسم کے دفاعی نظام کو بھی مؤثر بناتی ہے۔ اس سلاد کے بعض اجزا عام دکانوں کی بجائے سپر اسٹور پر دستیاب ہیں اور وہاں انگریزی نام کے ساتھ طلب کئے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے ہر سلاد کا ذائقہ اور فائدہ الگ ہے مثلاً رومین سلاد (رومین لیٹیوس) وٹامن اے سے بھرپور ہے جبکہ ا?روگیولا میں کینسر سے لڑنے والے طاقتور ترین اجزا پائے جاتے ہیں۔ پالک کی خاصیت یہ ہے کہ یہ بھوک کو دباتا ہے اور زیادہ کھانے سے روکتا ہے اور ہاضمے کو بہتر بناتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سلاد پتے کی افزائش میں ماحول تباہ کرنے والے مضر کیمیکل اور خطرناک کیڑے مار دوائیں بھی کم استعمال ہوتی ہیں۔ اس سلاد کو تیار کرنے سے قبل دھولیجیے لیکن بہت دیر تک گیلا نہ رکھیے کیونکہ اس طرح مزید جراثیم اس پر چپک سکتے ہیں۔ اس میں انڈے، پھل، مچھلی کے قتلوں، پھلیوں، گری دار پھلیوں مثلاً بادام اور کاجو وغیرہ بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایووکاڈو (یا ناشپاتی) اور دیگر سبزیاں شامل کی جاسکتی ہیں۔
سبز چائے کے فوائد
آپ سبز چائے کی افادیت سے تو بہت اچھی طرح واقف ہوں گے لیکن کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ اس کو پینے کا درست طریقہ کیا ہے؟آج ہم آپ کو اس کے استعمال کا درست طریقے بتائیں گے۔دو سے تین کپ۔۔سبز چائے میں فلیونائڈزاور ٹیننزکی مقدار موجود ہوتی ہے لہذا اس کا بہت زیادہ استعمال بھی آپ کے جگر پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دو سے تین تک کپ پئیں اور اس سے زیادہ ہرگز نوش نہ کریں۔خالی پیٹ ہرگز مت پئیں۔۔صبح اٹھتے ہی ہرگزسبز چائے مت پئیں کیونکہ خالی پیٹ پینے سے یہ آپ کے معدے پر منفی اثرات مرتب کرے گی بلکہ صبح کا آغاز پانی کے ایک گلاس سے کریں۔کھانے کے فوراًبعد۔۔کچھ لوگ کھانا کھانے کے فوراًبعد سبز چائے پیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے استعمال سے ان کا معدہ ٹھیک رہے گا لیکن یہ ایک خطرناک غلطی ہے کیونکہ اس طرح کھانا ہضم ہونے میں دقت پیش آئے گی۔ کھانا کھانے کے بعد کم از کم آدھے گھنٹے کا وقفہ دیں اور پھر سبز چائے نوش فرمائیں۔سوتے وقت۔۔اگر آپ سوتے میں سبز چائے استعمال کریں گے تو آپ کو سونے میں دقت پیش آئے گی۔اس لئے سونے سے کم از کم دو سے تین گھنٹے پہلے سبز چائے پئیں تاکہ آپ کو نیند آنے میں مسئلہ نہ ہو۔سبز چائے کا بیگ دوبارہ استعمال مت کریں ایک دفعہ استعمال کے بعد سبز چائے کے بیگ کو دوبارہ ہرگز مت استعمال کریں کیونکہ اس میں ناصرف کیفین کی بہت زیادہ مقدار ہو گی بلکہ اس میں بیکٹیریا اکٹھا ہونے سے وہ مضر صحت ہوگا۔زیادہ سے زیادہ پانی پئیں۔۔سبز چائے کے بعد بہت زیادہ پیشاب آتا ہے جس کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہوسکتی ہے لہذا زیادہ سے زیادہ پانی پئیں۔
پاکستانی کھانوں میں استعمال ہونیوالی جڑی بوٹیوں کے فوائد
حالیہ رسرچز میں پاکستانی کھانوں میں استعمال ہونے والی متعدد جڑی بوٹیوں کو صحت کے لیے فائدے مند بتایا گیا ہے۔ ان رسرچز میں دار چینی، میتھی، سونف، زیرہ اور ہلدی کو صحت کے لیے بہترین قرار دیا گیا۔
دارچینی۔
۔دارچینی بریانی، قیمہ کابل چنا اور دیگر کھانوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس خوشبو پیدا کرنے والی جڑی بوٹی میں مینگانیز اور الڈرہاڈ (کیمیکل کمپاؤنڈ) موجود ہوتا ہے جس سے ٹشو، ہڈیاں اور پٹھے نشو نما پاتے ہیں۔ دارچینی جوڑوں کے درد میں مبتلا افراد کو بھی تجویز کی جاتی ہے جبکہ یہ خون میں شوگر کو کنٹرول کرنے میں بھی مددگار ہے
میتھی
۔۔دالوں اور کڑی سمیت میتھی کو مختلف قسم کے کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ میتھی کے باقاعدگی سے استعمال سے کالسٹرول کم ہوتا ہے جبکہ جسم سے مضر صحت چربی کو گھلانے میں مدد کرتی ہے۔ اس کے استعمال سے ذیابطیس کے مریضوں میں شوگر لیول کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مانا جاتا ہے کہ میتھی کو رات بھر پانی میں ڈال کر صبح اسے پینے سے وزن کم ہوتا ہے۔سونف۔۔پلاؤ اور دیگر کھانوں میں استعمال ہونے والی سونف میں بھی متعدد فائدے چھپے ہوئے ہیں۔ ذیابطیس کے مریضوں میں اس کے استعمال سے آنکھوں کی روشنی بچی رہتی ہے جبکہ یہ گلوکوما سے بھی بچاتی ہے۔ مانا جاتا ہے کہ سونف کی چائے سے ڈپریشن دور ہوتا ہے اور اس میں موجود پوٹاشیم ڈیمینشیا سے بھی بچاتا ہے۔
انڈے صحت کے مفید
محققین کچھ سالوں کے بعد انڈوں کے حوالے سے نئی تحقیق سامنے لاتے رہتے ہیں جن میں کبھی انہیں صحت کے لیے بہترین اور کبھی مضر قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود انڈوں کا شمار طاقتور کھانوں (پاور فوڈز) میں ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب انہیں دل کے لیے ‘بلیک لسٹ’ کیا گیا ہے۔یہ مانا جاتا ہے کہ انڈوں میں کولیسٹرول بڑی مقدار میں موجود ہوتا ہے جو دل کی شریانوں کے لیے مضر ہے۔ تاہم ایک دوسری ریسرچ میں پایا گیا کہ انڈوں میں موجود کولیسٹرول ‘اچھا’ کولیسٹرول ہے اور پھر انڈوں کو صحت کے لیے اچھا قرار دیا جانے لگا۔دنیا بھر میں انڈوں کو پسندیدہ ناشتہ مانا جاتا ہے۔ تاہم ایک اور ریسرچ کہتی ہے کہ انڈے دل کے لیے اتنے ہی برے ہیں جتنا تمباکو نوشی۔ ان تمام باتوں کے باوجود انڈوں میں موجود فوائد کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ انڈوں میں بڑی تعداد میں ویٹامن اے، ای اور کے پایا جاتا ہے جبکہ ویٹامن ڈی حاصل کرنے کا یہ قدرتی طریقہ ہے۔ انڈوں میں فولیٹ، آئرن، ویٹامن بی12 اور متعدد قسم کے امینو ایسڈز ہوتے ہیں جو جسم کی نشونما میں مدد کرتے ہیں۔ انڈوں میں کولین نامی ایک نیوٹرنٹ موجود ہوتا ہے جو گروتھ میں مددگار ہے جبکہ اس سے چھاتی کے کینسر کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ معلوم ہوا ہے کہ انڈوں میں انسیچوریٹ فیٹس ہوتے ہیں اور یہ ‘اچھے’ کالیسٹرول کو بڑھاتا ہے۔ تاہم یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ انڈوں کا استعمال اعتدال پسندی سے کیا جائے اور یہ بات انتہائی اہم ہے کہ انڈوں کو کس طرح بنایا جارہا ہے اور کس چیز کے ساتھ کھایا جارہا ہے (پراٹھے کھانے سے بچیں)۔ انڈوں کے خلاف ہونے والی ریسرچز میں بعدازاں خامیاں پائی گئیں تھیں۔ اس لیے انڈوں کا اعتدال پسندی سے استعمال کریں اور اگر آپ کا کالیسٹرول بڑھا ہوا رہتا ہے تو پھر اس کا استعمال ذردی کے بغیر کریں۔
ٹماٹر معدے کے کینسر سے بچانے کے لیے مفید
ٹماٹر کو دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے اور متعدد کھانے اس کے بغیر ادھورے ہوتے ہیں مگر یہ جان لیوا کینسر سے بھی بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ بات اٹلی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ تحقیق کے مطابق ٹماٹر میں موجود اجزاء معدے کے کینسر کے خلیات کو پھیلنے سے روکتے ہیں۔ تحقیق کے دوران ٹماٹر کے تمام اجزاء کا معدے کے کینسر کے خلیات پر ردعمل کے حوالے سے جائزہ لیا گیا۔ محققین کا کہنا تھا کہ ٹماٹر کے مخصوص اجزاء جیسے لائیکوپین کی بجائے اس کے تمام اجزاء معدے کے کینسر سے بچاؤ میں مدد دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ٹماٹر کے اجزاء سے نہ صرف کینسر کی روک تھام میں مدد ملتی ہے بلکہ یہ روایتی تھراپی کے لیے بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ معدے کا کینسر دنیا بھر میں سرطان کی چوتھی سب سے عام قسم ہے جو کہ عام طور پر غذائی عادات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ تحقیق طبی جریدے جرنل آف سیلولر فزیولوجی میں شائع ہوئی۔ اسی طرح گزشتہ سال ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ٹماٹر میں موجود لائیکو پین پراسٹیٹ کینسر کے خلاف موثر ثابت ہوتا ہے۔ اس سے قبل ایک امریکی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ روزانہ ناشتے میں ٹماٹر کھانا جسمانی وزن میں کمی لانے کے لیے معاون ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق میں بتایا کہ ناشتے میں روزانہ کچے ٹماٹروں کا استعمال وزن میں حیرت انگیز کمی لاتا ہے۔
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...