میڈیا اور سوشل میڈیاکنٹرول کیسے کیا جا رہا ہے؟

حکومت وقت نے ایک بار پھر سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کی بات کی ہے ۔ویسے موجودہ حکومت کے کنٹرول کا معاملہ یہ ہے کہ پورے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کو مالی دباؤ میں لے کرکنٹرول کیا جا رہا ہے ۔ پچھلی حکومتیں خرچ کر کے نوازتی تھیں یہ نیا پاکستان ہے ، جس میں خرچ روک کر ’نوازا ‘جا رہا ہے ۔روزگار دلوانے کا زور دار نعرہ لگانے والی حکومت نے جس تیزی سے بے روز گاری میں اضافہ کیا ہے وہ نہایت تشویش ناک ہے ۔اس بے روزگاری کے دائرے میں ایسے ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کی جوانیاں اُن اداروں کی ترقی، بہتری کے لیے صلاحیتیں وقف کرنے میں لگ گئیں۔اب وہ لوگ عمر کے ایک ایسے حصہ میں خالی ہاتھ کر کے کھڑے کر دیئے ہیں کہ کوئی فوری متبادل ہے بھی نہیں۔ مالی بحران یا اسے یوں کہیں کہ میڈیا اداروں کے مالکان کے منافع میں کمی کی وجہ سے اُن سب نے ہاتھ روکے ہوئے ہیں ۔اس سخت ماحول کا خوب ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے منافع کو پورا کرنے کی کوششوں میں اُن ملازمین کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں جن کی کاوشوں سے وہ ادارے کھڑے ہوئے ۔صحافی حضرات کا کہنا جائز ہے کہ مالکان نے جب ہمیں کبھی اپنے منافع میں شریک یا منافع کی شرح بڑھنے کی خوشی میں مالی طور پر شریک نہیں کیا ، تو اب منافع میں کمی میں کیوں زبردستی کا حصہ دار بنایا جا رہا ہے ؟تنخواہیں بڑھانے میں تو مالکان سالہا سال گزار دیتے ہیں اور کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا بدترین زیادتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں احتجاج کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ملک بھر میں اس وقت تمام صحافی و غیر صحافی نمائندہ تنظیمیں ، مقامی پریس کلب کے ذمہ داران کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں۔کراچی پریس کلب بھی اس حوالے سے مستقل سر گرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے ، جہاں آنے والے تمام حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں کو اس مسئلہ کی شدت سے آگاہ کیا جا رہا ہے ۔جنگ، ڈان، وقت، آ ج نیوز کے علاوہ سندھ اسمبلی کے باہر بھی صحافی حضرات احتجاجی دھرنا دے چکے ہیں۔تمام صوبہ جات سمیت اس احتجاج کی شدت یہاں تک پہنچی کے اسلام آباد میں سرکاری و دیگر اپوزیشن کے ارکان کی کئی پریس کانفرنس و میڈیا بریفنگ کے آغاز پر احتجاج نوٹ کراتے ہوئے مائیک اٹھا لیے گئے ۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو تو اسلام آباد کے صحافیوں نے ایسا گھیرا کہ وہ ویڈیو خوب وائرل رہی ۔اسی طرح کراچی میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی پریس کانفرنس کے درمیان کراچی کے صحافی حضرات نے شیخ رشید احمد کو فواد چوہدری کے بیانات اور حکومتی پالیسی پر خوب کھنچائی کی۔ یہ ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر خوب وائرل رہی جس کا فائدہ اپوزیشن جماعتیں بھی اٹھاتی رہیں ۔ صحافی حضرات کا بنیادی مطالبہ ہے کہ میڈیا مالکان کواشتہارات کی مد میں حکومت جو ادائیگی بھی کرے اس کو صحافیوں کی تنخواہوں سے مشروط کرے۔ حال اب یہ ہو چکا ہے کہ روزنامہ ڈان جیسے موقر ادارے میں بھی صحافی حضرات اچانک تنخواہ کے کم ہو جانے پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کرتے نظر آئے ۔کئی اداروں میں دھڑا دھڑ ڈاؤن سائزنگ ہوئی ۔جنگ گروپ کے بارے میں اطلاع ہے کہ کوئی 700ملازمین فارغ کیے گئے ہیں۔کئی اداروں نے از خود اپنے ملازمین کی تنخواہیں کم کردیں۔حال تو یہ ہے کہ اخبارات میں ملازمین ہی کی نہیں بلکہ خود اخباری صفحات کی بھی کمی کر دی گئی ۔اہم بات یہ ہے کہ ان سب کے کھلے اشارے وزیر اطلاعات و نشریات جناب فواد چوہدری کی جانب سے پہلے ہی آنا شروع ہو چکے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ اندرون خانہ کچھ ’اشتراکی ‘سا ہے ۔اب اسی منظر نامے میں حکومت نے سوشل میڈیا پر کنٹرول کا نام لے کر ’حکومت کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف کسی قسم کی تحریر ‘پر سخت ایکشن لینے کا آغاز کیا ہے اور اطلاعات کے مطابق گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔پہلے تو یہ ہو رہا تھا کہ ’نامعلوم افراد ‘، معروف صحافی حضرات کو جب چاہتے اٹھا کر لے جاتے ۔تشدد کر کے ، دھونس، دھمکی یا طویل عرصہ غائب رکھ کر، اپنے طریقہ سے سمجھا بجھا کر یا احتجاجی ری ایکشن دیکھ کر چھوڑ دیتے ۔ اب کی بار لاہور سے سینئر صحافی رضوان رضی کی گرفتاری خود ایک سوال بن گئی ۔رضوان رضی پر سماجی میڈیا (ٹوئیٹر) پر کچھ ایسی پوسٹ ( اظہار خیال) کرنے کا جرم ڈالا گیا تھا جو باتیں حکومت کو پسند نہیں آئیں۔رضوان رضی صاحب نے اپنی ٹوئیٹر وال پر پاکستان میں پھیلتے قادیانی نیٹ ورک کی جانب سخت نشاندہی کی تھی ۔یہ بنیادی طور پر ایک پیغام تھاکہ باقی لوگ سمجھ جائیں کیا ہونے جا رہا ہے ۔
مہتاب عزیز اسلام آباد سے لکھتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن اگر میرٹ کے مطابق ہو تو سارے یوتھیے اور ’محب وطن‘ سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔لیکن یہ تو دراصل زبان بندی کا حربہ ہے۔ جس طرح مین اسٹریم میڈیا پر طلعت حسین، مطیع اللہ جان کو ہٹایا گیا مگر صابر شاکر اور عارف حمید بھٹی کو کھلی اجازت ہے۔اسی طرح سوشل میڈیا پر ’چھوٹی چڑیا‘ اور ’بابا کوڈا‘ کو دندنانے کی اجازت ہوگی۔ جبکہ کسی بھی درجے میں حقیقت بیان کرنے والوں کو نشانہ بنایا جاے گا۔سوچنے کی بات ہے کہ اگر اظہار رائے پر قدغن اور زبان بندی سے حالات کو بہتر کیا جانا ممکن ہوتا، تو نازی جرمنی، سویت یونین، یوگوسلاویا، چیکو سلاویا، کیوبا جیسے ممالک تاریخ کے کوڑے دان میں نہ ملتے۔ اگر حکومتِ وقت یا ریاستی اداروں کی پالیسیوں پر تنقید سے ملک کمزور ہوتے تو امریکہ، برطانیہ، فرانس وغیرہ کا وجود کب کا صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔ہمارے تمام اصلی و دکھلاوے کے ارباب اقتدار کو سوچنا ہو گا، کہ وہ جس طرح کی ریاستوں کی پیروی اختیار کر رہے ہیں، کیا ویسے ہی انجام کے لیے بھی تیار ہیں؟سیانے کہتے ہیں:’’پہیہ جتنی بار بھی دوبارہ ایجاد کر لو وہ گول ہی رہے گا‘‘۔جبری برطرفی، چھانٹی ، تنخواہوں کی کٹوتی ، مالکان کی دھمکیاں، گرفتاریاں اور اب میڈیا کنٹرو ل کی باتیں ۔یہ سب کیا ہے ؟ایسی صورتحال میں معروف اداکار ، فلمسٹار ،شوخ میزبان فہد مصطفیٰ نے بھی اپنی چرب زبانی کا بے جا مظاہر ہ کرتے ہوئے ،زعم ہوسٹنگ میں آ کر ایک غلط کمنٹ کس دیا ،جو انہیں خاصا بھاری پڑ گیا۔کرکٹ پاکستانیوں کا جنون ہے ،ان دنوں پی ایس ایل کا شور ملک بھرمیں جاری ہے ۔پی ایس ایل میں شامل کراچی کنگز ٹیم کی ایک تعارفی تقریب جسے اے آر وائی گروپ لیڈ کر رہا تھااور اسٹیج سیکریٹری اُن کے چہیتے میزبان فہد مصطفیٰ تھے۔دوران تقریب ایک سینئر اسپورٹس رپورٹر شعیب جٹ کی جانب سے ایک سوال میں فہد کو فوادپکار دیا گیا، پھر اُس کے توجہ دلانے پر تصحیح بھی کر لی۔ اب اس معمولی Fumbleکومذکورہ اداکار نے زیادہ ہی دل پر لیا اور ایک بھیانک طنزیہ لقمہ ملا دیا۔اتنی معمولی بات کو ایشو بناکر اپنا گیم شو سمجھ کرفہد نے طنزیہ کمنٹ پاس کر دیا ’ اسی لیے تو تمہیں تنخواہ نہیں ملتی‘ ،گویا کہ اس وقت جس عذاب سے ملک بھر کی صحافی برادری گزر رہی ہے بقول فہد مصطفیٰ وہ اُن کی نا اہلی ہے ۔بات یہاں پر نہیں رُکی اگلے جملے میں انہوں نے رپورٹر کو ’بیٹا ‘کہہ کر مخاطب کر دیاپھر تالی بجا کر گیم شو سمجھتے ہوئے مہمان صحافی کا مائیک بھی بند کرا دیا ۔شعیب جٹ کے ساتھ پوری صحافی برادری نے اس پر سماجی میڈیا میں احتجاج ریکارڈ کرایا جو کہ 1.5ملین ٹوئٹر فالورز رکھنے والے فہد مصطفیٰ پر بھاری رہا۔کئی بلاگز لکھے گئے ، وی لاگ ریکارڈ کیے گئے ،پوسٹ لکھ کر شیئر کی گئی اور خود اس واقعہ کی ویڈیو وائرل رہی ۔تو یہ ہے ایک جانب میڈیا ،صحافی ،اداروں پر کنٹرول کا معاملہ جو سوشل میڈیا پر بھی اور عملی میدان میں بھی گرم ہے ۔دیکھیں آگے چل کر کیا رنگ دکھائے گا۔
اب ہم لیے چلتے ہیں میڈیا کنٹرول کی ایک اور شکل کی جانب جس کا شور اس وقت پورے ملک کے طول و ارض میں اور سماجی میڈیا پر بھی پھیلا ہوا ہے ۔اچھا پہلے ایک اہم بات سمجھ لیں ’صحافت ‘ اپنے کردار ،مقصد اور اثرات کی وجہ سے ریاست کا چوتھا ستون کہلاتی ہے ۔لوگ اکثر میڈیا کو بھی ریاستی ستون کے طور پرلکھ دیتے ہیں جوکہ غلط ہے ۔میڈیا کی اصطلاح کاایک وسیع دائرہ کار ہے ابلاغیات اور ذرائع ابلاغ سے جڑا ہوا ،جس کا ایک کلیدی حصہ صحافت بھی ہے ۔ڈرامہ ، فلم، گیت ، غزل ،شاعری کا اصل تعلق ادب سے ہے، مگر ان کے ابلاغ کے لیے ، یعنی لوگوں تک پہنچانے کے لیے ٹی وی، فلم، ریڈیو،اخبار ، انٹرنیٹ بطور میڈیم استعمال ہوتے ہیں۔لیکن معاشرے میں عام طور پر لفظ میڈیا استعمال کر کے سب کو ایک ہی ڈبے میں بند کر دیا جاتا ہے ۔بہر حال اپنے اثرات کے اعتبار سے یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے ،اس موضوع کا تعلق صرف سوشل میڈیا سے نہیں بلکہ ہماری روحانی ،ثقافتی، اخلاقی، سماجی، معاشی، معاشرتی زندگی سے ہے ۔آپ صرف ایک ’ٹک ٹاک‘ ایپلی کیشن کا تجزیہ کریں ۔کیا بچے کیا بڑے ، کیا بوڑھے کا جوان، کیا مرد کیا خواتین سب اس غیر سنجیدہ ، بے حیائی پر مبنی لت کا شکار ہیں ۔اس کی ریکارڈنگ کے دوران کئی تو اپنی جان سے بھی جا چکے ہیں ۔گویا یہ ’ٹک ٹاک‘ اُس ٹائم بم کی مانند ہے جو آہستہ آہستہ اپنے وقت کی تکمیل پر شدید تباہی کا اعلان کر رہی ہے ۔خبروں کا اپنا ایک سیاسی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی اثر ہوتا ہے لیکن فی زمانہ معاشرے کی ترتیب، تربیت میں ان ذرائع ابلاغ سے جو ڈرامے، فلمیں، گانے، اشتہارات نشر ہورہے ہیں اُن پر بات ہونی چاہیے ۔اس وقت جماعت اسلامی کا حلقہ خواتین ایک منظم انداز سے اصلاح معاشرہ کی خاطر میڈیاکی اصلاح کی ملک گیر مہم چلا رہا ہے ۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں بینرز آوایزاں کیے جا چکے ہیں، فورمز کا انعقاد جاری ہے ، اہل علم و دانش کو جمع کر کے کانفرنس و سیمینار کیے جا رہے ہیں ۔پیمرا میں شکایتیں بھجوائی جا رہی ہیں ۔ عوام سے رابطہ کر کے اُن کے اندر یہ شعور بیدار کروایا جا رہا ہے کہ ٹی وی اور سماجی میڈیا پر آنے والا حدود و قیود سے آزاد مواد کس طرح آنے والی نسلوں کو ہماری شاندار مذہبی، دینی، خاندانی روایات سے دور کر رہا ہے ۔عالیہ منصور اس حوالے سے ٹوئٹر پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ’میڈیا کی طاقت سے معاشرے کو سنوارا جا سکتاہے مگر ہم نادانی میں اس طاقت کو ضائع کر رہے ہیں۔ اگر ہم جائزہ لیں تو اس وقت میڈیا بے مقصد اور بے سمت استعمال ہورہا ہے اس سے نوجوان نسل کے اخلاق اور کردار تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔‘لوگوں کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی بہر حال ایک ایسی منظم سیاسی قوت ہے جو اس موضوع پر بات کرتی اچھی بھی لگتی ہے اور مثبت اثرات پید ا کر سکتی ہے ۔MediaReshapingSocietyکے عنوان سے ہیش ٹیگ سوشل میڈیا پر چلایا جا رہا ہے ۔صہیب جمال عرصے سے انٹرٹینمنٹ صنعت سے وابستہ ہیں اُن کی ایک تحریر سوشل میڈیا پر اس تکلیف دہ منظر نامے کو حقائق کے ساتھ یوں پیش کرتی نظر آئی کہ ’’’ایک وہ وقت تھا جب ڈرامے بلکہ یہاں تک کے نغمے ہمارے معاشرے کے عکاس ہوا کرتے تھے۔ خاندان مل کر بیٹھتا تھا اور ڈرامے تفریح طبع اور کچھ نہ کچھ معاشرتی اصلاح یا تربیت کا باعث ہوتے تھے۔خدا کی بستی، افشاں، شمع، اندھیرا اجالا، نشان حیدر، آخری چٹان، آنگن ٹیڑھا، وارث، الف نون، شاہین، دائرے ، سونا چاندی،جنجال پورہ جیسے نام آج بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔پھر ہم نے دیکھاکہ تیز ترین کمرشل ازم کا دور آیا۔ڈش انٹینا، کیبل نیٹ ورک سے اسٹار پلس اور زی چینل نے عورتوں اور بچوں کو ٹی وی کے آگے بٹھا دیا۔ اس کمرشل ازم سے بات بڑھ کروطن فروشی اور دین بیزاری تک پہنچ گئی اور پھر این جی اوز اور بیرونی امداد کی صورت یہ تباہی کا ایجنڈا بن گیا۔‘‘

حصہ
mm
سلمان علی، یوں تو ابلاغ عامہ میں ڈاکٹریٹ کی کوششوں میں مصروف ہیں،تاہم اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے کچھ وقت مشقِ سخن کےلیے بھی نکال لیتے ہیں،سہ ماہی جہان اعصاب،ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل، سنڈے میگزین و دیگر جرائد میں لکھتے رہتے ہیں،سوشل میڈیا اورصحت عامہ سے متعلق موضوعات کے گرد رہنا پسند کرتے ہیں۔...

جواب چھوڑ دیں