ویلنٹائن ڈے نہیں سسٹرز ڈے منائیے 

ہم مغربی تہذیب سے متاثرہیں ۔خود کو ان کے رنگ میں ڈھالنے کے لیے تمام جتن کرتے ہیں ۔ہم نہیں دیکھتے جو کررہے ہیں درست ہے یا غلط ،اس کے نتائج مثبت ہوں گے یامنفی ،اس عمل کے کرنے سے ہماری اخلاقی اقدار پامال ہوں گی یا پروان چڑھیں گی ،اسلام میں اس کی کیا حیثیت ہے ۔اللہ تعالیٰ کی نارضگی ہوگی یا خوشنودی ،تمام اصولوں کو ایک طرف رکھ کر خواہش نفس کی اتباع کرتے ہوئے ہرکام کرتے چلے جاتے ہیں ۔مشہور کہاوت ہے جو برائی کو نہیں پہچانتا وہ ایک نہ ایک دن برائی میں مبتلا ہوجاتا ہے ،برائی سے بچنے کیلئے برا ئی کو برا جاننا ازبس ضروری ہے۔ اور برائی کی طرف لے جانے والے اسباب کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اجتناب لازمی امر ہے تاکہ خود کواورمعاشرے کے افراد کو برائی سابچایا جاسکے ۔مغربی معاشرے کی مادر پدر آزاد ذہنیت کے سبب جو حال ہورہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے ۔مغرب انسانی تہذیب اوررہن سہن بالخصوص رشتوں کی قدر کھو چکاہے ۔ماں کو بیٹی سے متعلق باپ کو بیٹے سے متعلق پہچان ختم ہوتی جارہی ہے ۔مغربی معاشرہ ،فحش ،منکرات اورہوس کی اماجگاہ بن چکا ہے ویلن ٹائن ڈے بھی اسی مناسبت سے منایاجاتاہے اس کاتاریخی پس منظر بیان کیے دیتاہوں ۔
ایک ویلن ٹائن نامی پادری تیسری صدی کے آواخر میں رومانی بادشاہ کلاڈیس ثانی کے زیرسایہ رہتا تھا کسی نافرمانی کی پاداش میں بادشاہ نے ویلن ٹائن کو جیل کی راہ دکھائی جیل میں اس کی چوکیدار کی بیٹی سے شناسائی ہوگئی پادری ویلن ٹائن اس لڑکی کی محبت میں اسیر ہوگیا لڑکی اوراس کے رشتہ دار وں نے مذہب عیسائیت قبول کرلیا وہ لڑکی اپنے چاہنے والے کے لیے پھول لے کرآیا کرتی بادشاہ کو اس کی بابت معلوم ہوا تواس نے پھانسی کا حکم صادر کیا ،ویلن ٹائن کو جب پھانسی سے متعلق علم ہوا تواس نے خط لڑکی کو خط لکھا مخلص ویلن ٹائن کی طرف سے اور ۱۴فروری ۲۷۰ ء کو پھانسی دے دی گئی ۔پھر اہل یورپ نے اس دن کو منانے کا آغاز کیا تب سے اب تک یہ واہیات عمل سال بہ سال بڑھتا جارہا ہے ۔
نسل نو اس بے ہودہ عمل کو انتہائی فاخرانہ انداز سے منانا اپنے لیے فرض سمجھتی ہے ۔جنسیت کے بُت کو اظہارِ محبت کا لبادہ دے کر سرانجام دینا کونسا اعلیٰ اخلاقی عمل ہے؟۔یوم محبت کے دلکش اور دلربا عنوان سے شیطانی عمل کو فروغ دینا اہل مغرب کی کارستانی ہے ۔غیر مسلم اقوام کے مخصوص و متعین تہوار کومنا کر ان سے مشابہت کا وبال اپنے سر لیا جانا قابل افسوس عمل ہے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے من تشبہ بقوم فھو منہم کہ جو کوئی بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا قیامت کے دن اس کاحشر اسی کے ساتھ ہوگا۔فرمان باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزومندرہتے ہیں ان کے لیے دنیا اورآخرت میں دردناک عذاب ہے ۔
خواہش پرستوں نے ’’ محبت ‘‘ جیسے پاکیزہ لفظ کی بے توقیری کی ہے ۔جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تویہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام محبت اوراخوت کا دین ہے اسلام چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت،پیار اوراخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کوغلط رنگ دے کرمحبت کے لفظ کو بدنام کردیا گیا۔وہ اعمال سرانجام دے کر اپنی محبت کااظہار کرنا چاہتے ہیں جو ہم اپنے لیے ناپسندکرتے ہیں ۔فرض کرلیجئے کیا ہم میں کو عاقل بالغ یہ پسندکرتاہے کہ اس کی ماں بہن یابیٹی کو کوئی غیرمحرم ویلن ٹائن ڈے کاکارڈ دے ؟ قطعاً نہیں ۔کیوں کہ ناپسندیدہ عمل ہے ۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اگر تمام اللہ پر آخرت پر ایمان رکھتے ہوتو جوچیز اپنے لیے پسندکرتے ہووہی چیزاپنے بھائی کے لیے پسندکرو‘‘ یہ کونسا اخلاقی پیمانہ ہے کہ ہم اپنے لیے اخلاقیات پیمانہ اوررکھیں اورغیروں کے لیے اور یہ سراسر زیادتی ناانصافی اوربڑا گناہ ہے ۔
آج سے چودہ سو برس قبل مدینہ کے تاج دار نے جو معاشرہ قائم کیا تھا اس کی بنیاد حیا پر رکھی گئی تھی ۔ جس میں زنا کرناتودرکنار اس کے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم تھا۔ جس میں زنا ایک ایسی گالی تھا جو اگر کسی پاک دامن پر لگادی جائے تو اسے کوڑے مارے جاتے تھے۔جس میں عفت کے بغیر مرد و عورت کا معاشرہ میں جینا ممکن نہ تھا۔ اس معاشرے کے بانی نے فیصلہ کردیا تھا’’جب تم حیا نہ کرو تو جو تمھارا جی چاہے کرو‘‘تاج دار مدینہ کے امتیوں نے کبھی حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ، مگر اب لگتا ہے کہ امتی حیا کے اس بھاری بوجھ کو زیادہ دیر تک اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔اب وہ حیا نہیں کریں گے ، بلکہ جو ان کا دل چاہے گاوہی کریں گے۔ویلنٹائن ڈے کسی دوسرے تہوار کا نام نہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ وہ تہوار ہے جب امتی اپنے آقا کو بتاتے ہیں کہ ہم وہ کریں گے جو ہمارا دل چاہے گا۔اگر ایساکریں گے تو یاد رکھیئے رسالت مآب کی محبت سے روگردانی کے مرتکب ہوں گے ۔
اسلام دین فطرت ہے ۔اسلام کانظریہ محبت بہت وسیع اورپاکیزہ ہے ۔اسلام کاتابناک ماضی ہمارے عمدہ جذبوں کا امین ہے ۔بزبان امیرالمومنین عمربن خطاب رضی اللہ عنہ ’’ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے اسلام کے ساتھ مربوط ومنسلک رہنے میں عزت عطا فرمائی ہے، اگر ہم نے اسلام کے علاوہ کسی دین یا تحریک سے اپنی عزت کی راہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی تو اﷲ تعالیٰ ہمیں ذلیل کردے گا‘‘عزت اسلام اور شارح علیہ اسلام سے محبت کرنے میں ہے ۔عزت شعائر اسلام کو اختیار کرنے میں پنہاں ہے ۔اغیار کی نقالی میں ذلت کی طویل داستانیں مرقوم ہیں ۔فرمان باری تعالیٰ ہے ’’یہ یہودی اور عیسائی اس وقت تک ہرگز آپ سے خوش نہ ہونگے جب تک کہ آپ ان کے طریقے پر نہ چلیں ‘‘دوسرے مقام پرارشادفرمایا’’جو شخص رسول کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کی راہ کو چھوڑ کر کسی اور راہ چلے درآں حالاں کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہوچکی ہے ۔تو ہم اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین ٹھکانہ ہے‘‘
قارئین کرام مغربی ناعاقبت اندیش اسلامی روایات کو مٹانا چاہتے ہیں یہ جانتے ہیں جب تک اسلام اپنی اصل شکل میں زندہ ہے تب تک ابلیس کانظام زمین پرنافذنہیں ہوسکتا۔اغیاراسی لیے نت نئے انداز کو مختلف طریقوں سے مسلم معاشروں میں رائج کرنے کے لیے کمربستہ رہتے ہیں ۔ہمارے بعض سیکولر ارسطو مغربی کلچر کو تقویت دینے کے لیے عجیب وغریب اختراع ایجاد کرتے رہتے ہیں ۔میں تمام اہل فکر ونظر کو دعوت دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس دن کو عورت کی عظمت ،بہن کے مقام ،ماں کے مقدس رشتے کو تحفظ دینے کے لیے منائیں ۔امیدہے اس طرح ہماری بیٹیوں کی عصمتیں محفوظ ہوں گی یہ ہم پرفرض بھی اورقرض بھی ۔وہ معاشرے زندہ اورتابندہ رہتے ہیں جہاں بیٹی کو بلندمقام حاصل ہوتا ہے ۔مغرب کی دوغلی پالیسی سے ہم سب اگاہ ہیں عورت کے حقوق کی راگنی الاپ کر عورت کو سربازار رسوا کرنے کا دھندہ ایجاد کرتے ہیں ۔ان کے ہاں عورت کی حیثیت نمائش کی حدتک محدود ہے ۔غلیظ اورواہیات فکر کے ان بانیان نے عورت کی عصمت کو ہمیشہ تار تار کیا ہے ۔
ہم کل بھی بیٹی کے سرپرہاتھ رکھنے والے رداؤں کا تحفظ کرنے والے تھے آج بھی بیٹی کی عزت کے محافظ ۔ہنود کل بھی بیٹی کو رسوا کرنے والے تھے آج بھی ۔اے ارباب علم ودانش عورت معاشرے کی ریڈھ کی ہڈی ہے ۔خاندانی نسب کی حفاظت اس سے عبارت ہے ۔زمانے میں حسن اس کی موجودگی سے ہے ۔تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے جنسی ہوس پرستی تمام مذاہب میں حرام اورممنوع تھی پھر اہل زر نے معاشروں پر قبضہ جمانے کے لیے عورت کو بطور ہتھیار استعمال کیا اوروہ زرپرستوں کا شکار بنتی چلی گئی ۔ہمیں اپنی نسل نو کو اگاہی دینا ہوگی تاکہ وہ اغیار کے فحش حربوں سے محفوظ رہیں۔ہم فرزندانِ اسلام کو کسی بے بنیاد مذہب،گمراہ دین نیزکسی بھی باطل قدیم وجدید تہذیب وکلچر سے کچھ سیکھنے اور لینے کی بالکل ضرورت نہیں،کتاب وسنت کی تعلیمات اور اسلاف امت کے ہدایات ہی ہمارے لیے کافی وشافی ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں