ِ تبصرہ کتب۔چند گزارشات

فی زمانہ چوں کہ ہر شخص ،مستثنیات کے سوا،تن آسانی کا شکا رہے،اس لیے محنت سے جی چراناایک عام سی بات بن گئی ہے،یہی معاملہ تبصرہ نگاروں کا بھی ہے،کہ وہ تبصرے کے لیے آئی ہوئی کتاب کو صرف دیکھ کر،اس پر تبصرہ کردیتے ہیں۔جو تبصرہ تو کہیں سے نہیں لگتا،البتہ اسے ہم اس کتاب کے شائع ہونے کی اطلاع اور اس کا ایک مبہم تعارف کہہ سکتے ہیں۔اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ اپنے طویل یجربے کی روشنی میں تبصرہ نگاری کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کی جائیں۔
تبصرہ کی بنیادی شرط کتاب کا راست اور ذاتی مطالعہ ہے۔ کتاب کو بالاستیعاب پڑھے بغیر کیے جانے والے تبصرے میں غیر درست معلومات بیان ہوسکتی ہیں۔ اس سے مبصر کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ مبصر دورانِ مطالعہ ذہن میں ابھرنے والے ضروری نکات کتاب کے حاشیے پر بطور یادداشت قلم بند کرلیتا ہے تاکہ تبصرہ لکھتے وقت کوئی ضروری نکتہ چھوٹ نہ جائے۔
مصنف کے پس منظر کو سامنے رکھے بغیر کتاب پر جامع تبصرہ نہیں ہوسکتا ،اس کے پس منظر کا جائزہ مبصر کے لیے رائے قائم کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔ مصنف کی سیاسی ، سماجی ، ادبی اور مذہبی وابستگی کے پیش نظراس کی تعلیمی لیاقت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر صاحب کتاب اس سے قبل بھی کتاب لکھ چکا ہے تو قبل کی تصنیف کا اس سے کیا تعلق ہے؟مبصراس کو بھی سامنے لاتا ہے،اس کا ذکر قاری کے لیے مفید ہوتا ہے۔
ایک اچھامبصر بتاتاہے کہ: یہ کتاب کس موضوع پر لکھی گئی ہے۔مصنف کے پیش نظراس کتاب کے لکھنے کے وقت کیامقاصد تھے؟ کہیں یہ کتاب کلی یا جزوی طور پر کسی اور کتاب کا سرقہ یا اس کا چربہ تو نہیں؟کسی معروف نسخے کی عکسی طباعت کو ناشر نے اپنا کارنامہ باور کرانے کی کوشش کرکے بددیانتی تو نہیں کی؟اگر کتاب دوبارہ شائع ہوئی ہے تو مبصر کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس ایڈیشن میں کوئی اضافہ ہواہے یا نہیں؟ اگر ہوا ہے تو یہ اضافہ کس قسم کا ہے؟ اس اضافے سے کتاب میں کیا جدت آئی ہے؟تخلیقی کتابوں کے تبصرے میں اس بات کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے کہ مصنف نے اس فن کے بنیادی اور ثانوی ذرائع سے استفادہ کیا ہے یا نہیں؟ بنیادی ذرائع سے کام لیتے ہوئے اس نے کون سی جدت پیدا کی ہے؟ اسی طرح ثانوی ذرائع سے اس نے کس طور پر استفادہ کیا ہے ؟ متعلقہ ثانوی ذرائع کا تنقیدی جائزہ بھی ضروری ہے
ایک اچھامبصران متعلقہ مباحث کو بھی نظر میں رکھتا ہے جو کتاب کے موضوع سے تعلق رکھنے کے باوجوداس کتاب میں شامل نہیں کیے گئے۔مبصر اس کا اظہار کرتااورتوجہ مبذول کراتاہے،تاکہ اگلی اشاعتوں میں یہ کمی پوری کی جاسکے ۔
خلاصہ یہ کہ :کتاب کا مطالعہ، اس کی تفہیم اور مصنف کے پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد تبصرے کا خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔ خاکے میں کتاب کے بارے میں بنیادی معلومات دی جاتی ہے۔ ایک اچھا مبصرتبصرے کی ابتدا مختصر مگر مؤثر تمہید سے کرتا ہے ،جو کتاب کے موضوع یا صاحب کتاب سے وابستہ ہوتی ہے۔ پھروہ اصل موضوع کی طرف آتاہے اوریہ واضح کرنے کی کوشش کرتاہے کہ مصنف کا اندازِ نظر کیا ہے؟ ذرائع کے اختیار وانتخاب میں مصنف کی شخصیت کا کیا اثر مرتب ہوا ہے؟ اختتامیہ میں کتاب کی خوبیوں اور خامیوں کا تجزیہ اعتدال ،غیر جانب داری،سنجیدگی اورخیر خواہی کے جذبے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
تبصرے کی تحریر میں توازن بہت ضروری ہے۔ تبصرے کا انداز لکش اور عالمانہ ہوناچاہیے۔ ایک اچھے تبصرے میں تلخی نہیں پائی جاتی ۔ تبصرہ نگار کو وسیع معلومات کا حامل ہونا چاہیے،کیوں کہ اوسط قاری بہت سے مضامین میں اپنی واقفیت کو بہت محدود سمجھتا ہے اور وہ مبصر کی رائے پر اعتماد کرتا ہے۔اس لیے مبصر کو بہت احتیاط کرنی چاہیے۔مبصرکے لیے ضروری ہے کہ نہ تووہ تعریف میں بے جا رطب اللسان ہو،اورنہ ہی مصنف کی تضحیک اسے زیب دیتی ہے۔
کتاب کے معنوی تجزیے کے سا تھ ساتھ اس کی صوری حالت کا جائزہِ مثلا اس کا کاغذ ، حسنِ ترتیب اور سرورق کی جاذبیت وغیرہ،کااختتامیے میں ذکر،اسی طرح اس بات کی وضاحت ، کہ یہ کتاب کس طرح کے لوگوں کے لیے زیادہ کار آمد ہے؟قاری کے لیے کتاب کے انتخاب میں معاون ثابت ہوتی ہے۔اگرمبصر حضرات ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی کتاب پر تبصرہ کریں گے،تو امید ہے وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے عہدہ برآہوسکیں گے۔

حصہ
mm
مولانا محمد جہا ن یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے سینئر ریسرچ اسکالرہیں اور مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں