پاکستان میں ٹیلی ڈرامہ دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے ۔یہ ڈرامے ایک آدھ کو مستثنیٰ کرکے تقریباً سب ہی نہ صرف سماجی بلکہ مذہبی اور اخلاقی تصورات کو سر عام پامال کرتے نظر آتے ہیں ۔ڈرامہ دیکھنے والے پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ ناظر کو ہر کردار میں اپنا عکس نظر آتا ہے وہ جانے انجانے وہی الفاظ اور رویہ اپناتا چلا جاتا ہے جو وہ ٹی وی اسکرین پر گھنٹے دو گھنٹے کے ڈراموں سے اخذ کرتا ہے۔
اگر ہم اپنے معاشرے میں تبدیلی چاہتے ہیں اور اسے برباد کرنے کے بجائے بہتری کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو ہمیں ڈراموں کا انداز تبدیل کرنا ہوگا ۔سازشیں،نفرتیں،معاشرے سے ختم کرنا ہیں تو کردار کے ذریعے رشتوں میں رواداری،مٹھاس،ایثار،اور محبت دکھانی ہوگی ۔عورت کا احترام کروانا چاہتے ہیں تو اسے ظلم کی چکی میں پستا دکھانے کے بجاۓ باپ ،بھائی اور شوہر کہ جانب سے شفقت،محبت اور احترام والے کردار دکھانا ہونگے ۔
دین داری سے الرجی کا رویہ ترک کرکے دین کے روشن اور بہترین پہلو اجاگر کرنا ہونگے
اسی کے ذریعے معاشرے کی تعمیر ہوسکتی ہے کیونکہ میڈیا ذہن سازی کا ایک اہم اور طاقت ور ذریعہ ہے۔
افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم کچھ چیزوں کی غلط تشریح کرتے ہیں جیسے بے باکی یا بے حیائی کو آزادی سمجھتے ہیں ، سماج اور روایت سے بغاوت کو ویمن ایمپاورمنٹ سمجھتے ہیں،بڑوں کے ادب آداب کو بالائے طاق رکھنا اب ہماری نظر میں بولڈنیس ہے۔
حالانکہ نہ آزادی بری ہے نا ایمپاورمنٹ اور نہ ہی بولڈ نیس، اگر اپنی حدود کے اندر اور اپنی روایات،اقدار اور دین کے دائرے میں ہوں۔
میڈیا ہو یا کوئی اور ادارہ ہماری قوم کا مسئلہ بے سمت چلنا ہے، جس کو جہاں اپنا مفاد نظر آتا ہے وہ اسی سمت اپنا رخ پھیر لیتا ہے،ہمیں اپنی سمت کا تعین کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ناظرین یہی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں ۔اس کے لیے عرض ہے کہ آپ نے معیار ہی ایسا سطحی پیش کیا جس نے عوام کا مزاج سطحی بنادیا آپ بلند معیار پیش کریں عوام وہ دیکھنے لگیں گے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب بے مقصد بے سمت الل ٹپ دوڑتے ہیں تو منزل پر پہنچنے کے بجائےکسی نہ کسی موڑ پر یا تو تھک کر گر پڑتے ہیں یا منہ کے بل گرتے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارا ڈرامہ بارہ مصالحوں کی چاٹ کے بنا آن ائیر آتا تو سڑکیں ویران ہو جاتیں ،مہمان ڈرامے کی آخری قسط دیکھ کر ہی گھروں سے نکلتے،شادی کے اوقات طے کرتے ہوئے ڈرامے کی آخری قسط کے اوقات مد نظر رکھے جاتے کبھی سوچا ایسا کیوں تھا ؟
یقیناً دیگر عوامل بھی رہے ہونگے مگر معیار بہترین ہوتا،کہانی با مقصد ہوتی ،مگر آہستہ آہستہ دوسروں کی نقل میں ہم نے معیار بھی کھو دیا اور روایات بھی،دین بھی ہاتھ سے گنوایا اور دنیا کو بھی متاثر نہ کرسکے ۔ کچھ عرصے سے ایک نیا ٹرینڈ کالا جادو ،جھاڑ پھونک کا شروع ہوا ہے پہلے ہم دیواروں پر کالے جادو کے ماہرین کا رونا روتے تھے اب یہ سب روزانہ گھروں میں نظر آنے لگا ہے بجائے اسکے کہ معاشرے کو آگے لے کر جائیں اسے دور جاہلیہ میں پہنچایا جارہا ہے۔دین کہ جس کےذریعے ہی کچھ اصلاح کی امید ہے اس کی باندی ڈرامے کی باجی جیسے کرداروں کے ذریعے اہمیت کم کی جارہی ہے ۔
خدارا اچھے اور مثبت رویے، شرم و حیا کا لحاظ رکھتے کردار،بڑوں کا احترام ، کہانیوں کے ذریعے دکھائے جائیں تاکہ معاشرے سے منفیت negativity دور ہو اور معاشرے کے ماحول میں پاکیزہ ،پر سکون ،مثبت خیالات پروان چڑھیں۔
بہت عمدہ تحریر
بھت عمدہ تحریر, مرض کی تشخیص اور علاج
بہت عامیانہ تبصرہ ہے۔متعلقہ خرابی والےڈراموں کے نام و حوالے آنے چاہیے تھے
آپ کی بات سے متفق ہوں اچھے ڈراموں کے ذریعے معاشرے میں بہتری لائی جاسکتی ہے
بلکل درست تجزیہ ہے آپ کا ،دعا یہ ہے کہ ان میڈیا کے ناخداوءں کو سمجھ آجائے