بہار کی آمد سے پہلے ہی بازاروں میں عجب رنگینیاں بکھر گئی ہیں، سرخ پھول، سرخ ملبوسات، بیگز اور جوتے اور سرخ کورز میں پیک ہوتے تحائف، سرخ غبارے اور نجانے کیا کیا!!۔
سرخ رنگ تو حیا کا رنگ ہے، جی ہاں، جب جائز اور حلال رشتہ ہو تو یہ حیا کا رنگ ہے، مگر افسوس صد افسوس کہ شیطان نے اسے بے حیائی کا رنگ بنا دیا ہے، یہ بے حیائی کی داستان کی سالگرہ کا موقع ہے، جسے انسانوں کے غول کے غول اس طرح مناتے ہیں کہ ہر مرحلے میں شیطانیت کھل کھیلتی ہے، یہ بد کاری کی بڑی مزین راہ گزر ہے، جس سے تعفن پھوٹتا ہے، ۱۴ فروری کا رومانوی فاسد ماحول نسائیت کو ایسے خطرناک عمل میں الجھا دیتا ہے جس کے گرداب سے بہت کم سفینے بچ کر نکلتے ہیں۔
چور دروازے شریعت نے بند کئے تھے مگر(سینٹ) ویلنٹائن کے مرید اور معتقد نوجوان سرکش جذبوں کو خوب ہوا دیتے ہیں اور معاشقوں اور بدکاریوں کی راہ ہموار کرتے ہیں، جہاں کہیں مرد بڑے شاطرانہ انداز میں عورت کو ذلیل کر ڈالتے ہیں اور کہیں عورتوں کے فتنہ انگیز وار مردوں کو گھائل کر ڈالتے ہیں۔
وینٹائن ڈے کا پیغام’’ عورت کو بازیچہ ء ہوس بنانا ہے‘‘، فنِ لطیف کے نام پر برہنگی یا کپڑے پہن کر بھی عریانی کا اظہار کرنا ہے، کلچر کے تقاضے اور کلچرڈ ہونے کے زعم میں مرد و زن کی آنکھوں کی حیا کا پانی مارنا ہے۔ مرد تو عورت کی حیا کا محافظ تھا، اس کے گھر سے عورت بہن یا بیٹی کے روپ میں سرخ لباس زیب تن کر کے ۱۴ فروری کو دہلیز کیسے پار کرتی ہے؟! اس کے خاندان کی بیٹیاں، محلے کی لڑکیاں اور اس کے ادارے کی ورکنگ لیڈیز کس طرح حیا کی باڑ روند کر گزرتی ہیں، کیا عورتوں کی عصمت کا محافظ ’’مرد‘‘ اس قدر بہک گیا ہے کہ عورت کے چہرے کا نقاب ہی نہیں، اس کا لباس بھی نوچ رہا ہے اور بڑے اصرار سے اسے خون چوستے بھیڑیوں کی مجلس میں لا کر پیش کر رہا ہے:
’’یو آر مائی ویلنٹائن‘‘ سے بڑھ کر کوئی بد بو دار جملہ بھی ہو سکتا ہے کیا!؟
ویلنٹائن ڈے اس کے سوا کیا ہے کہ ایک مرد اپنی ساحرانہ قابلیت سے عورت کو اس فریب میں مبتلا کر دے کہ اسفل السافلین جیسے حیوانی اور سفلی طریقوں کا نام ہی ترقی ہے، یہی آزادی کی معراج ہے، یہی انسانی تہذیب اور کامیابی کا زینہ ہے اور عورت اس کے پیچھے بگٹٹ بھاگتی چلی جائے اور بھول جائے کہ وہ ایک ’’مسلمان عورت ‘‘ہے۔ فیشن کی دوڑ میں میدانِ مسابقت میں کیا اتری کہ ہوسناک نگاہوں نے اسے زخمی زخمی کر دیا اور اس کا جوہرِ نسائیت ہی گہنا گیا۔
الطاف حسین حالی نے’’ عورت‘‘ کی کیا خوب تصویر کشی کی ہے:
اے ماؤں ، بہنو بیٹیو! دنیا کی عزت تم سے ہے
ملکوں کی بستی ہو تمہیں، قوموں کی عزّت تم سے ہے
تم گھر کی ہو شہزادیاں، شہروں کی ہو آبادیاں
غم گیں دلوں کی شادیاں، دکھ سکھ میں راحت تم سے ہے
نیکی کی تم تصویر ہو، عفت کی تم تدبیر ہو
ہو دین کی تم پاسباں، ایمان سلامت تم سے ہے
فطرت تمہاری ہے حیا، طینت میں ہے مہر و وفا
گھٹی میں ہے صبر و رضا، انسان عبارت تم سے ہے
عورت نصف انسانیت ہے، معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اس کا مقام بہت بلند ہے ، زندگی کے نشیب و فراز اور گہما گہمی میں مرد اور عورت کا باہمی رشتہ ایک دوسرے کے مدد گار و معاون کا ہے، نہ کے حاکم و محکوم کا۔مرد فطرتاً عورت کی جانب مائل ہے اور عورت اس کی تسکین کا ذریعہ ہے، نکاح اس کے حصول کا فطری اور جائز طریقہ ہے اور اس سے باہر تسکین حاصل کرنے کی تمام صورتیں ممنوع ہیں، بے قید شہوت رانی کے بجائے اللہ کے بنائے ہوئے حصارہی میں عورت کی تکریم ہے۔
***