اسٹیو جابز دھیرے دھیرے اپنی موت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ہر آنے والا دن انھیں مزید کمزور کرتا جارہا تھا۔ یہ 2010 کے آخر کی بات ہے کہ باراک اوباما نے اسٹیو جابز سے 45 منٹ کی ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں اسٹیو جابز نے باراک اوباما سے جو کچھ کہا وہ سنہرے حروف سے لکھے جانے والے الفاظ ہیں، جابز نے کہا:
اس لنگڑے لولے، اپاہج، معذور اور دقیانوسی تعلیمی نظام سے آپ کوئی مثبت امید نہ رکھیں جس پر عملا “یونینز” کا راج ہے۔ آپ تب تک اس تعلیمی نظام کو بہتر نہیں کرسکتے ہیں جب تک یہ “سرکاری یونینز” ختم نہیں کردیتے۔” جابز نے کہا : “یہ اساتذہ ہیں یا فیکٹری میں کام کرنے والے ملازمین (جو ہر دفعہ بچوں کے مستقبل سے کھیلتے ہیں، اور احتجاج کرنے سڑکوں پر آجاتے ہیں؟)۔ ٹیچرز کو پروفیشنل ہوناچاہئیے اور حکومت کو انھیں اسی انداز سے ٹریٹ بھی کرنا چاہئیے ۔ پرنسپل کو رکھنے اور نکالنے کا ایک ہی اصول اور ضابطہ ہو کہ وہ اپنے معاملات، اخلاق اور کردار میں کتنا بہتر ہے۔”
انھوں نے کہا کہ: “اس سے زیادہ مضحکہ خیز بھلا اور کیا ہوگا کہ امریکا کے تعلیمی ادارے ابھی تک اسی روایتی ڈھب پر قائم ہیں کہ استاد کلاس میں آکر بورڈ کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہےاور طالبعلم ٹیکسٹ بُک کھولے ہاتھ باندھے بیٹھے رہتے ہیں۔ تمام کتابیں، سیکھنے کا تمام مواد اور اسسمنٹس سب کا سب ڈیجیٹل ہونا چاہئیے جس میں طلبہ کی دلچسپی بھی موجود رہے۔ سیکھنے کا عمل ہر بچے کے ذہن اور سوچ کے مطابق ہو، اسی وقت طلبہ سے انکا فیڈ بیک لیا جائے اور وہیں ان کی قابلیت کا جائزہ بھی لے لیا جائے۔”
آپ دنیا کے پچاس بڑے سی – ای- اوز کی فہرست نکالیں اور دیکھیں کے وہ سب کے سب یا تو اپنے اسکولز، کالجز ، یونیورسٹیز سے نکالے ہوئے ہیں اور اگر پاس ہو بھی گئے تو انکا درجہ نہات معمولی ہی رہا۔
ہنری فورڈ کے پاس ماہرین تعلیم کا ایک وفد آیا ۔انکا مقصد تھا کہ ہنری فورڈ کو یہ احساس دلائیں کہ تمھیں اسکول نہ جانے کا نقصان ہوا ہے۔ ماہرین تعلیم اس کے دفتر آئے ۔ اکاؤنٹس، انجینئرنگ اور ہیومن ریسورس کے حوالے سے مختلف سوالات پوچھنے لگے،وہ جو پوچھتے ہنری فورڈ اپنے سامنے رکھے ٹیلی فونز میں سے کسی ایک پر ایکسٹینشن ڈائل کرتا اور مخصوص ڈیپارٹ کے افسر سے بات کروادیتا ۔باالآخر ایک پروفیسر صاحب نے جھلا کر ہنری سے کہا: “دیکھا آپ نے! ذرا ذرا سی بات کا جواب دینے کے لئیے بھی آپ دوسروں کے محتاج ہیں، اتنے معمولی سوالات کے جوابات بھی آپ خود نہیں دے سکتے؟”
ہنری فورڈ اسی موقع کی تلاش میں تھا، وہ مسکرایا اور بولا: “آپ کے اسکولز جو یس سر! اور نو سر! کہنے والی پروڈکٹ پیدا کررہے ہیں انھیں میں نے “یس سر!” کہنے کے لئیے بھاری تنخواہوں پر رکھا ہوا ہے، یہاں میں صرف سوچنے کا کام کرتا ہوں جس پروڈکٹ سے آپ کے اسکول بالکل فارغ ہیں۔”
اس کے بعد ہنری فورڈ نے تاریخی جملہ کہا: “دنیا میں سب سے مشکل کام سوچنا ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بہت کم لوگ اس کام میں خود کو مصردف کرتے ہیں۔”
آپ مانیں یا نہ مانیں ہمارے اس تعلیمی نظام کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ ہمارے اسکولز بچوں میں حرص و ہوس، لالچ اور خود غرضی پیدا کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے بچوں کو “سیلف سینٹرڈ” بنارہے ہیں۔ یہ اے – ون اور اے گریڈز لینے والے، پوزیشنز اور بہترین نمبروں کی دوڑ میں خود کو ہلکان کرنے والے بچے اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر نہ سوچنے کے لئیے تیار ہیں اور نہ ہی جینے کے لئیے۔ انھیں “میرا گھر، میری گاڑی، میرے بیوی بچے ” اور صرف اپنی سہولیات عزیز ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک بانٹنے اور خرچ کرنے کی سوچ کے بجائے لوٹنے، کھوسٹنے اور دوسروں کو پیچھے چھوڑ کر بس خود آگے نکلنے والا بنا رہا ہے۔
ہمارا ایجوکیشن سسٹم صرف “میں کیسے زیادہ پیسے کماؤں” کی سوچ دے رہا ہےجبکہ اصل میں تو “میں کیسے زیادہ پیسے لوگوں پر خرچ کروں، کس طرح زیادہ سے زیادہ مخلوق کے اور انسانیت کے کام آؤں” کی سوچ دینی تھی۔ آپ یقین کریں یونیورسٹی سے نکلنے والا ہر بچہ اسکول سے ہی یہ سوچ لے کر نکلتا ہے کہ “مجھے کیسے زیادہ تنخواہ والی نوکری ملے گی؟” وہ نوکریاں بنانے والا، نوکریاں تخلیق کرنے والااور بڑی تعداد میں لوگوں کو روزگار دینے کی سوچ کے بجائے “نوکری کی بھیک” کی سوچ کے ساتھ پاس آؤٹ ہوتا ہے۔ جاب انٹرویو میں اسے دوسروں سے “خوف” آتا ہے کہ اگر اس کو نوکری مل گئی تو میرا کیا ہوگا؟ اس کے مسجود ملائک، خلیفتہ اللہ فی الارض اور اشرف المخلوقات کا حاصل محض ایک عدد نوکری ہوتی ہے۔
اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ ایم – بی – اے کے طالبعلموں کو پورا فوکس اس بات پر کروایا جاتا ہے کہ تم کیسے اداروں میں اعلی سے اعلی پوزیشن، اسٹیٹس اور عہدہ حاصل کرسکتے ہو، جبکہ اصل میں سکھانا تو یہ چاہئیے تھا کہ تم کیسے اعلی اور بہترین ادارے، کمپنیاں اور فیکٹریاں کھڑی کرسکتے ہوتاکہ لوگوں کے کام آسکو۔ ہمارا تعلیمی نظام ساری زندگی لوگوں کو “خوفزدہ” رکھتا ہے۔ “مارکیٹ میں نوکریاں نہیں ہیں” جیسے خوف میں مبتلا رکھتا ہے۔ “میری نوکری نہ چلی جائے” زندگی بھر ہماری قوم کے “معمار” پیسے کے خوف میں رہتے ہیں۔ ان کو اپنی نوکری “کھودینے کا ڈر” ہمیشہ خوفزدہ رکھتا ہے۔ یہ جتنا کماتے ہیں اتنا زیادہ خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ اپنی ہر نوکری اور ہر پروموشن پر اپنی خواہشات بھی بڑھادیتے ہیں اور وہ خواہشات انھیں اپنے گرفت میں “جکڑے” رکھتی ہیں۔
سب سے بڑا اور المناک سانحہ جو ہر آنے والے دن بڑھتا جارہا ہے۔ جس نے میرے ملک اور میری قوم کو کھوکھلا کردیا ہے وہ سرکاری اداروں میں موجود چپڑاسی سے لے کر بائیسویں گریڈ کے آفیسر تک کی “استحقاق” اور “حق جمانے” کی سوچ ہے کیونکہ وہ سرکاری ملازم ہیں۔ یہ سوچ کیوں آتی ہے اور کہاں سے آتی ہے میں آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں کیونکہ وہ صدر، وزیر اعظم ہیں، ایم – پی – اے، ایم – این – اے ہیں۔ بیوروکریٹ اور جج ہیں۔ فوج، پی – آئی – اے اور ریلوے میں ہیں اسلئیے موسپل سے لے کر گاڑی کے پیٹرول تک، بجلی سے لے کر گیس کے بل تک اور جہاز کے کرائے سے لے کر حج بیت اللہ تک ان کے باپ اور اولاد کا حق ہے۔ اس ملازمت کے کوٹہ سسٹم، ریاست کے مال کو، لوگوں کے ٹیکسوں کو اور غریب آدمی کے خون پسینے کی کمائی کو باپ کا مال سمجھ کر اڑا دو۔ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کو سرکاری نوکری، سرکاری علاج اور سرکاری وظیفہ مل جائے ، اس کی اولاد کو، پھر اس کی اولاد کو اور پھر اس کی اولاد سرکاری ملازمت کرلے تاکہ دوسروں کے مال کو بیٹھ کر اڑاتے رہیں، بس اسے ہاتھ پاؤں نہ ہلانے پڑیں۔بھکاری کو لوگ اسلئیے اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے کیونکہ اگر گھر بیٹھے ملتا رہے تووہ ہڈ حرام اور کام چور ہوجاتا ہے تو پھر بطور عوام ہم بھی سرکار کے بھکاری بن گئے ہیں اسلئیے پوری قوم ہڈ حرام اور کام چور بن گئی ہے –
یہ ہمارے تعلیمی نظام کی “عظیم سوچ” ہے ۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں جہاں سرکاری ٹیچر پیسہ کمانے اور نسلوں کو کھلانے کے لئیے استاد بنا ہواس قوم کا بھلا کیا ہوگا؟پرائیوٹ اسکولوں میں بھی نوکری کرتے ہی پہلا خیال جو ٹیچرز کے دماغ میں آتا ہے کہ سرکاری استاد کیسے بنا جائے تاکہ کچھ کرنا نہ پڑے۔
ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی آئے چوکھا
ہماری قوم کچھ نیا سوچنے، کچھ نیا کرنے اور کچھ نیا بنانے کے لئیے تیار نہیں ہے۔ سب کی نظریں بس سرکاری نوکری پر لگی ہیں۔ ملک ان ہی حرکتوں کی وجہ سے روز بروز مقروض ہوتا جارہا ہے۔ اس ہوس کی سوچ نے ملک کے سب سے بڑے اور بااعتماد ادارے تک کو سب سے بڑا “کاروباری” بنادیا ہے۔کوئی اپنی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہے، ہر شخص ہرکام کو ریاست اور حکومت کی ذمہ داری سمجھ رہا ہے۔ حکومت ان سارے خرچوں کو عوام پر منتقل کر رہی ہے۔غریب آدمی غریب تر ہوتا جارہا ہے، 21 کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک میں صرف 16 لاکھ لوگ ٹیکس بھر رہے ہیں اور وہ بھی تنخواہ دار آدمی کی جیب سے پورا ہورہا ہے۔
دنیا میں مختلف صنعتوں میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی ہے۔آئی – ٹی انڈسٹری میں 18 مہینوں میں تبدیلی آجاتی ہے، آٹو موبائل میں 25 سال میں فرق نظر آتا ہے، کنسٹرکشن میں 60 سال کے بعد بُوم آتا ہےجبکہ بدقسمتی سے تعلیمی نظام میں 50 سال کے بعد تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اسلئیے اگر آپ کو تعلیمی اداروں اور نظام سے کوئی امید ہے تو آج ہی اس “جنت” سے باہر آجائیں ۔ بطور ماں اور باپ یہ آپ کی اپنی ذمہ داری ہےکہ آپ کو اپنا گھر بہترین تعلیمی و تربیتی ادارہ بنانا ہوگا اور خود ہی استاد اور رول ماڈل بننا پڑیگا کیونکہ:
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک