دور دور تک کسی خلق کا نام و نشان نہ تھا سرائے بھی ویران پڑے تھے ہر طرف کسی سوگ کا عالم تھا چپ کی وحشت نے ماحول کو قدرے تاریک بھنور سے ڈھانپ رکھا تھا۔
اتنے میں ایک قافلہ نمودار ہوا منہ چھپائے یہ مسافر کسی بڑی جہد کا پیش خیمہ لگ رہے تھے جنگ کے سامان سے لدھے ہوئے تھے انکی آنکھوں کے نور نے دنیا کی روشنیوں کو اپنے اندر سمیٹا ہوا تھا۔
میرے پاس عارضی پڑاؤڈالا ۔۔میرا دل چاہا ۔۔بتاؤں کہ میں تو خود پیاسی جھیل ہوں میرے رستے روک رکھے ہیں ان بھارتی ندیوں ،آبشاروں اور وحشی سمندروں نے۔۔۔میرے پیاس کا دامن اتنا خشک ہے کہ میں کہاں کسی کو سیراب کر سکونگی۔۔
یہاں جب بم گرتے ہیں اور میرے پانیوں میں لہو کے قطرے گرتے ہیں تو میرے پاس کچھ بچے ہوئے آنسو بہتے ہیں۔۔۔اور بتاؤں؟؟۔۔۔کہ کسی دن یہ بھی خشک ہوجائیں گے۔
یہاں ماؤں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں کشمیر کی وادیاں فریاد کرتی ہیں کبھی تو یہاں کی کھیتیاں بھی ماتم کرتی ہیں میں جو دے سکتی ہوں وہ چند پانیوں کے نذرانے ہیں لے لو۔۔۔کہ تم بھی سفرِ بے بہا میں گامزن اپنے دشمن کو شکست کرنے چلے ہو۔۔۔پھر جو دیکھا میں نے۔۔۔وہ کسی دکھ سے کم نہ تھا۔۔۔لڑ لڑکرانکے زخم رِس رہے تھے انکا پور پور دکھ رہا تھا میرے ہمدرد دوست شجرِ مہربان نے اپنی چھاؤں نذرانہ کی تھی یوں شام ڈھلے وہ قافلہ چل پڑا تھا۔
تشگی تھی اداسی تھی پر محبت سرفرازی تھی