گزشتہ سے پیوستہ (دوسری اور آخری قسط)
دنیا میں انسان کا وجود ایک قابل غور وفکر شئے ہے ۔انسانی شکل و صورت قدوقامت اعضاو جوارح اوران کے درمیان پائی جانے والی مناسبت پر اگر غورو خوص کیا جائے اور کائنات کی دیگر مخلوقات سے اس کا تقابل کیا جائے تو انسان کی عظمت اور برتری سے کوئی سرموئے انحراف نہیں کرسکتا۔ یہ خلعت فاخرہ انسان کو اس کے قدوقامت اور اعضاو جوارح کے سبب عطا نہیں کی گئی ہے بلکہ مخلوقات میں وہ اشرف اپنے علم وشعور،دیکھنے،سننے ،سمجھنے کی صلاحیت عقل وفہم اور ادراک کے سبب بنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو جہاں دنیا میں بکھری اس کی نشانیوں پر غورو فکر کرنے کی ہدایت دی ہے وہیں اپنی ذات میں غوطہ زن ہونے کی تلقین بھی اسے کی گئی ہے۔ ’’ عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاقِ عالم(دنیا) میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات(انفس) میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے گا کہ حق یہی ہے ، کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں ؟ ‘‘ ( حم سجدہ53)۔آفاق وانفس کی آیات ( نشانیوں ) سے مراد قدرت الٰہی کی وہ نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرنے و الوں کو اپنے وجود اور اپنے وجود سے باہر دنیا کی ہرشئے میں نظر آتی ہیں جس سے ہر پل اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا اعلان نشر ہوتارہتا ہے۔ آفاق و انفس کی نشانیوں کا انکشاف انسان پر دفعتاً نہیں ہوتا بلکہ غور و فکر کے نتیجے میں بتدریج حقائق سے پردہ اْٹھتا ہے۔جب غوروفکر کی بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلے توجہ ذہنی ارتکاز کی سمت جاتی ہے۔ ارتکاز توجہ سے ذہن میں خیالات کا بہاؤ قائم رہتا ہے ۔توجہ جس قدر مرتکز ہوتی ہے ذہن میں خیالات اتنی ہی گہرائی سے ابھرتے رہتے ہیں۔خیالات جتنے گہرے ہوں گے وہ اتنے ہی وقعت و اہمیت کے حامل ہوں گے اور حقیقت کے قریب بھی ۔سوچ وچار اور غورو خوص سے انسان کے اندر جو خفتہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں اسے ہی ضمیر یا احساس سے محمول کیا جاتا ہے۔ سوچ ہی احساس کو جنم دیتی ہے اور احساس سے ہی تہذیب و تمدن کی آبیاری ہوتی ہے۔ انسان کو اپنے ذہنی سانچے کی ساخت درست رکھنے کے لئے ضمیر کی آواز پر کان دھرنے یا پھر زندگی کے ہر موڑ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ رہنمائی فراہم کرنے والی ایک مثالی شخصیت کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔جواساتذہ طلبہ کو اپنے ضمیر کی آواز درست انداز میں سننے اور اس پر عمل کرنے کا سلیقہ سکھادیتے ہیں درحقیقت وہی روحانی والدین اور قابل تکریم رہبر ہیں۔سوچ اور غور و فکر انسان کو آفاق (ظاہری دنیا)وانفس(اپنی ذات) کی جانب متوجہکرتی ہے ۔ ہر ذہن کا غوروفکر کرنے کا اپنا ایک طریقہ و انداز ہوتاہے۔ بعض لوگوں میں فطری طور پر یہ صلاحیت زیادہ ہوتی ہے کہ ادھر کوئی سوال آیا ادھر ان کے ذہن میں فوراً جواب بھی عود کر آگیا۔ اس کے برعکس بعض افراد کوبہت دیر تک اپنے ذہن کو کسی ایک نکتے پہ توجہ مرتکز رکھنے کی سعی و جستجو کرتے دیکھاگیا ہے حتیٰ اکثر لوگوں کے ذہن میں بات قسطوں اور درجوں میں کھلتی ہے۔ ایک وقت میں ایک حد تک ہی بات اْن کی سمجھ میں آتی ہے اور پھر جب وہ مزید غور جاری رکھتے ہیں تو اسی بات کا ایک اور زاویہ یا ایک اور درجہ اْن کے ذہن میں درآتا ہے۔جب کوئی سوال انسان کے ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے یہ غوروفکر کے عمل کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔جس کی مثال نیوٹن کے ذہن میں گردش کرنے والا سوال ’’ سیب درخت سے ٹوٹ کر زمین پر ہی کیوں گرا؟‘‘ ہے۔ بے شک سیب کازمین پر گرنا عام لوگوں کے لئے کوئی خاص اور اور اہمیت کا حاملواقعہ نہ ہو اوربعضکو اس امر پر غور کرنا مہمل و فضول بھی محسوس ہو۔لیکن یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ کوئی بھی سوچ فضول،مہمل اورلایعنی نہیں ہوتی ۔ انسانی ذہن اسے فضول،لایعنی یا مہملگردانتا ہے۔سوچ ہر لمحہ بقاواستمرار کے مراحل سے گزرتی رہتی ہے اور اسے فضول،مہمل اور لایعنی کہہ کر معطل ہونے نہیں دینا چاہئے۔
کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا اور خوابوں و خیالوں میں کھوئے ہوئے رہنا سوچ کی پہلی اور ادنیٰ منزل ہے۔اعلیٰ سوچ کھلی آنکھ سے نہ صرف خواب دیکھتی ہے بلکہ خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے ایک فکر ی رویہ بھی اختیار کرتی ہے جسے ہم نظریہ (vision)کہتے ہیں۔ذہن ماضی کے تجربات ،حال کی آگہی اور مستقبل کی پہنائیوں کی جب تخیلی تجسیم انجام دیتا ہے تب تخیلات اپنی پرواز ،قوت تخلیق اوراختراع پر محیط ایک فکر(سوچ) میں ڈھل جاتے ہیں۔ میرے نزدیک سوچ ماضی کا جھروکہ ،حال کا روزن اور مستقبل کا ایک زینہ ہے۔جو آپ سوچتے ہیں وہی آپ ہوتے ہیں۔ عام طور پر سوچ کی دو اہم قسمیں بتلائی جاتی ہیں۔
(1)تخریبی /مجتمع سوچ (Convergent Thinking)؛۔اس سوچ کے حامل کے پاس محدود زاویہ نگا ہ پایا جاتا ہے کسی بھی مشکل کا ا ن کے پاسصرف ایک ہی حل پایا جاتا ہے کوئی دوسرا حل ان کے پاس نہیں ہوتا ۔یہ فکری تحدیدات کے عادی ہوجاتے ہیں ۔ان کی سوچ محدود اوررواجی ہوتی ہے ۔اس قسم کی فکر کی قرآن بھی مذمت کرتا ہے ۔اس فکر کے حامل افراد لکیر کیفقیر ہوتے ہیں۔کسی قائم شدہ رائے یا نظریہ کے خلاف جانا تو دور یہ سوچنے کی بھی جسارت نہیں کرتے۔خواہ وہ رائے کیسی کیوں نہ ہو۔
(2) منتشر،متنوع سوچ(Divergent Thinking) ؛۔متنوع و منتشر سوچ کے حامل افراد دیگر آراء کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ان کے پاس مشکل و مسئلہ کا صرف ایک حل نہیں ہوتا بلکہ یہ مسائل کے مختلف حل پیش کرتے ہیں۔متنوع سوچ کے حامل افراد کا دامن گوناگوں جوابات و مسائل کے حل سے بھرا رہتا ہے۔
مذکورہ بالا اقسام کے علاوہ ماہرین نفسیات کے نزدیک سوچ کی مندرجہ ذیلمزید اقسام پائی جاتی ہیں۔طلبہ میں غوروفکر کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے اساتذہ کا سوچ کی ان اقسام سے واقف ہونا لازمی تصور کیاجاتا ہے۔
(1)۔سوچ کی پہلی قسم مدلل سوچ (Logical Imagination/thinking)ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جو موجودہ رویوں رائجTrends) (رجحانات و میلانات اور فکری رخوں کی اچھائیوں کمیوں اور خرابیوں پر بحث کرکے نئے فکری رجحانات کی راہ ہموار کرتی ہے۔
(2)۔دوسری قسم تنقیدی سوچ (Critical Thinking) کی ہے۔ یہ گہری قسم کی ہے جس میں باریک بینی، دقیقہ رسی مبصرانہ اور متعرضانہ نظر کے ساتھ موجودہ صورت حال کی بنیادی کمزوریوں اور خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے مستقل کی تصویر پیش کرنے میں موجوہ آگہی کی کمی و کوتاہی کو آشکار کیا جاتا ہے اور اگراسے دور کردیا جائے تو ایک نیا مستقبل رونما ہوجاتا ہے۔
(3)۔تیسری قسم تخلیقی سوچ (Creative Thinking)کی ہے ۔یہ موجودہ کیفیت، رجحان میں اضافہ ،ر توسیع، آمیزش ، کمی بیشی یا تردید و توثیق پر مبنی سوچ نہیں ہے بلکہ موجودہ تصورات کو ٹھکراتے ہوئے بالکل نئے انداز میں نئے طریقے سے نئے مقصد کی تلاش کے آغاز کا نام ہے۔
(4)۔چوتھی قسم تجزیاتی سوچ(Analytical Thinking)ہے ۔تجزیاتی سوچ ایک منطقی مرحلہ واری انداز پر مبنی ہوتی ہے جس میں کثیر و گنجلک معلومات کو مختلف چھوٹے چھوٹے اجزاء واکائیوں میں پیش کیا جاتا ہے۔
تنقیدی سوچ (Critical Thinking)؛۔
کسی بات یا خیال کے ہر پہلو کو دیکھنے اور متضاد خیالات کوپرکھنے اور بیان کرنے کی صلاحیت کو تنقیدی سوچ کہاجاتا ہے۔ معقولیت اور غورو فکر کی اساس پر کسی بات یا نظریے کو پرکھنے اور اس کے مطلوبہ نتائج تک رسائی حاصل کرنے کو تنقیدی فکر کہاجاتا ہے۔ تخلیقی سرگرمیوں کے فروغ میں آزادانہ غوروفکر ،بحث و مباحثہ اور تنقیدی فکر بہت اہم ہوتی ہے۔تنقیدی فکر پر مبنی تربیت آدمی کو صحیح و درست فیصلہ کرنے کے لائق بناتی ہے۔تنقیدی فکر معلومات کو ماہرانہ طریقے سے سمجھنے ،پرکھنے اور تجزیہ کرنے کے بعد بامعنی نتائج اخذ کرنے کے لائق بناتی ہے۔مغربی تعلیمی نظام نے اس روش کو اس قدر عام کردیا ہے کہ میڈیکل سائنس ،الیکٹرونکس،خلائی سائنس ہر میدان میں اسی کا بول بالاہے۔تنقیدی فکر سائنس و ٹیکنالوجی کی طرح زندگی کے دیگر شعبہ جات میں بھی اہمیت کی حامل ہے۔تنقیدی فکر کی تربیت تعلیمی ادارہ جات میں کامیابی سے انجام دی جاسکتی ہے۔اس نکتے میں کوئی دروغ اور مبالغہ نہیں ہے کہ ’’تنقیدی فکر ہی تعلیمی نظام کا مطلوبہ نتیجہ ہوتی ہے اور اساتذہ کا یہ فرض ہے کہ وہ طلبہ میں تنقیدی فکر و مزاج کو پروان چڑھانے کی تربیت فراہم کریں۔ اگر اساتذہ خود اس سے تہی دست ہوں گے تب بچوں میں تنقیدی فکر کو پروان چڑھانے کی ان سے توقع رکھنا بے کار و عبث ہے۔ہما رے تعلیمی نظام کو یاداشت کی جانچ اور رٹہ طریقے سے گریز کی اشد ضرورت ہے تاکہ طلبہ میں تنقیدی سوچ اور جدت طرازی پیدا ہوسکے۔روایتی طرز تعلیم کے تناظر میں مشہور فلسفی برٹرینڈرسل نے کہا تھا کہ’’ مروجہ تعلیم ،ذہانت اور آزادی رائے کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘‘۔ مطالعہ شدہ معلومات،دیکھے سنے حقائق پر رائے زنی کے لئے تنقیدی سوچ کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔واضح،عیاں شفاف افکارسے لیس شخص ،اپنی ذات اور دوسروں سے استفہام(سوال) کے ذریعے اپنے اندر تنقیدی سوچ کو پروان چڑھا سکتا ہے۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب منظور شدہ وتسلیم کردہ نظریات، تنقید ،تجزیہ و تفتیش کے دوران شکست و ریخت ،بیخ کنی ،تبدیلی ا ور تغیر کے عمل سے گزرتے ہیں تو ان کی کوکھ سے کئی جدید افکار اور نظریات جنم لیتے ہیں۔ اساتذہ اپنے متنوع (Divergent)سوالات سے طلبہ کو اپنی تنقیدی فکر کو بروئے کار لانے کا موقع فراہم کریں۔ذیل میں تنقیدی فکر کو مہمیز کرنے میں معاون چند کارآمد طریقوں کو بیان کیاجارہاہے ۔
مطالعہ کردہ مواد پرناقدانہ غوروخوص؛۔طلبہ جب کسی کتاب یا ذرائع سے کوئی متن یا مواد کا مطالعہ کر تے ہیں تو انھیں ان کے پسندید ہ موضوعات،عنوانات کا انتخاب کرتے ہوئے اس پر اپنے نتائج،آرااور دعوے پیش کرنے کا موقع فراہم کریں ۔ان کے ذہن کو سوالات و دیگر مشقوں کے ذریعے للکاریں تاکہ وہ سوچنے اور سوالات کے معتبر و معیاری جوابات دے سکیں۔اس طرح کی سرگرمیوں سے نئی افکار و خیالات ان کے ذہنوں میں درآئیں گے ۔ ایسی سرگرمیوں سے پہلے سے قائم شدہ نظریات و افکار کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کا جذبہ فروغ پانے کے علاوہ ان میں سنجیدگی سے ناقدانہ انداز میں غوروفکر کا مادہ بھی پروان چڑھتا ہے۔
سنی سنائی باتوں پر ناقدانہ غورو خوص؛۔ اساتذہ بچوں کو پڑھائے جانے والے اسباق یا دیگر ذرائع سے نشر ہونے والی معلومات کو توجہ وانہماک سے سماعت کرنے کی تربیت فراہم کریں۔ انھیں آگاہ کریں کہ اگروہ معلومات کو غورسے نہیں سنے گئے تب انھیں یہ باتیں و معلومات سننے کا دوسرا موقع نہیں ملے گا۔ انھیں فراہم کردہ اہم معلومات کو وقت ضرورت تجزیہ و تعریف کے لئے اپنے ذہنوں میں محفوظ کرلینے کی تلقین کریں۔ کسی ذہنی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل طلبہ کو معلومات کی تصدیق،تجزیہ،استعمال کے متعلق جواز پیش کرنے کی ہدایت دیں۔اگر ممکن ہوتو انہیں اپنے عملی نتائج کو مختلف حالات میں نافذ و منطبق کرنے کے لئے بھی واضح ہدایات فراہم کریں۔
دیکھی دکھائی معلومات پر ناقدانہ غورو خوص؛۔ طلبہ کا آئے دن تصاویر یا متن و عبارات والفاظ کی شکل میں صخیم معلومات سے سامنا ہوتا رہتا ہے۔اگر بچوں کے پسندیدہ مواد کو موثر طریقے سے بروئے کار لایا جائے تب یہ طلبہ کے ذہنوں میں خیالات کی تجسیم میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔یہ سرگرمی بچوں میں پہلے سے ذہن میں مرتسم حقائق و معلومات کا جدید معلومات و حقائق سے موازنہ و باہمی تعلق کے تلاش کا مادہ پیدا کرتی ہے۔
تخلیقی سوچ(Creative Thinking)؛۔کامیابی اور کامرانی کا آغاز تخلیقی سوچ سے ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی ایجاد، دریافت ، کارنامہ، کوئی معرکہ تخلیقی سوچ کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ تخلیقی سوچ گزرے ہوئے وقت پر بحث و تبصرہ سے بالاتخیل ہے۔ تخلیقی سوچ کیا ہے؟ اس سوال کاسادہ ساجواب یہ ہے کہ کوئی کام کرنے کے لیے کوئی نیا بہتر طریقہ اختیار کرنا دراصل تخلیقی سوچ ہے۔ تخلیقی عمل دماغ میں جاری تین عوامل کے تعاون سے وجود میں آتا ہے جن میں اول ارتکاز یعنی کہ توجہ کا کسی ایک جانب مبذول ہونا ، دوم تخیل یعنی کہ کسی بھی چیز کو اس کے مروجہ اصول سے ہٹ کر سوچنا اور سوم جائزہ یعنی کہ کسی بھی شے کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرنا۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ تینوں حصے برابر کام کرتے رہیں تو تخلیقی صلاحیت کو ابھرنے کا زیادہ موقع نہیں مل پاتا ہے لیکن اگر کسی بھی ایک عمل میں کمی کی جائے تو دوسرا عمل زیادہ ذہنی توانائی استعمال کرتا ہے جس سے نت نئے اور اچھوتے خیالات ذہن میں پروان چڑھتے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق ایک اوسط ذہنی صلاحیت کا حامل شخص بھی اپنے ذہن کو اسی ڈگر پر تربیت دے کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکتا ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کی بیشمار تعریفیں بیان کی گئی ہیں لیکن عام فہم الفاظ میں تخلیقی فکر کا مطلب دیئے گئے حالات، الفاظ یا چیزوں کی مدد سے ایک نئی سوچ، ترکیب یا کسی بھی مسئلے کا حل نکالنا تخلیقی فکر کہلاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق تخلیقی فکر قدرتی طور پر معیاری اسکول اور گھر کے موافق ماحول سے پروان چڑھتی ہیں ۔ اسی لئے اسکول سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے بچوں کی سوچ پر مثبت اثرڈالے اور انہیں معاشرے کے لئے مفید بنائے۔اگرابتدائی دس سالوں میں بچوں کی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر خصوصی توجہ دی جائے اور انہیں بہت سے نئے الفاظ سکھائے جائیں تو بچے نہ صرف تعلیمی میدان میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں بلکہ زندگی کے دیگر معاملات بھی احسن انداز میں سرانجام دینے کے قابل ہوجاتے ہیں۔تعلیمی شعبے میں کی جانے والی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کامیاب افراد کی کامیابی میں تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتیں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں 150 اس کے برعکس وہ افراد جو بچپن میں اپنی تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ نہیں کرپاتے وہ اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقعوں سے محروم رہتے ہیں۔ تعلیمی سرگرمیوں میں معاونت کرنے والی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ بچوں کی رائے اور نظریے کو اہمیت دی جائے اوراسکول اور کلاس میں ایک ایسا محفوظ ماحول فراہم کیا جائے جس میں بچے بلا خوف و خطر اپنے نظریات اور رائے کااظہار کر سکیں۔
انسانی دماغ میں دو کھرب خلیے ہوتے ہیں اور ہر خلیہ کسی نہ کسی حس یا صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ ایک عام انسان جو شعوری سطح پہ زندگی گزارتا ہے ان دو کھرب خلیوں میں سے ساری زندگی فقط سو ڈیڑھ سو خلیوں کا ہی استعمال کر پاتا ہے۔ ہم جنہیں دانشمند یا نابغہ روزگار(Genius) کہتے ہیں وہ بھی دماغ کے صرف دو، سوا دو سو خلیے ہی استعمال کرنے پر قادر ہو پاتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی ذہن کی صلاحیتوں کا کتنا بڑا ذخیرہ استعمال میں آئے بغیر ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ہمیں اس خدا داد ذخیرے کو جس قدر ممکن ہوسکے اپنے استعمال میں لانے کی کوشش اور جدوجہد کرنی چاہئے۔آدمی غوروفکر کے ذریعے اپنی شعوری حالت و کیفیت کو پروان چڑھانے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دماغی خلیوں کے استعمال پر قدرت پیدا کرلیتا ہے۔ نت نئی ایجادات و دریافتوں کا سہرا انہی کے سر بندھتا ہے جو غوروخوص اور سوچ وفکر کی عادت کو اپناتے ہیں۔ غور و فکر کے خو گر افراد لایخل مسئلوں کے حل دریافت کرتے ہوئے بنوع نوع انسان کی ترقی اور ذہنی ارتقاء میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ محمد بن موسیٰ الخوارزمی کی تخلیقی سوچ اس کی ایک عمدہ مثال ہے جس نے جس نے نوعِ انسانی کو نا معلوم مقداروں کو معلوم کرنے کا طریقہ سکھایا۔الخوارزمی سے کسی تمسخرانہ انداز میں کہا خود کو بہت بڑے عالم گردانتے ہوئے صرف یہ تو بتادو کہ میری جیب میں کتنے سکے موجود ہیں۔خوارزمی کہتا ہے کہ مجھے غیب کا علم تو نہیں ہے لیکن اگر تم کوئی اشارہ ہی دے دو تو میں بتادوں گا۔وہ شخص کہتا ہے کہ میری جیب میں اتنے سکے ہیں کہ اگران کو اتنی ہی تعدا دے سے ضرب دے کر ان کے دوچند کو اس میں جمع کردیا جائے تو وہ اصل کے دس گنا ہوجائے گا۔ محمد بن موسیٰ الخوارزمی اپنے عصا سے زمین پر کچھ لکیریں، کچھ خانے بنا کر کہتا ہے کہ تمہارے کہنے کے مطابق تمہاری جیب میں کل آٹھ سکے ہیں۔محمد بن موسیٰ الخورزمی کی اس تخلیقی فکر نے دنیا کو دودرجی مساوات (Quadratic Equation)کا کلیہ دیا۔خوارزمی میں اتنی دانش مندی کہاں سے آئی؟دراصل خوارزمی میں قرآن میں غوطہ زن ہونے کی وجہ سے غوروفکر کا ایسا خوگر ہوگیا کہ اس کاذہن گہرائیوں و پہنائیوں میں اترتا چلاگیا اور نامعلوم مقداروں تک پہنچنے کا اس نے ایک بہترین کلیہ و فارمولہ وضع کیا۔ اس کلیے کے طفیل سائنس داں نامعلوم مقدار کو معلوم کرنے کے خوارزمی کے کلیے پر عمل کرتے ہوئے خلا تک جا پہنچے ہیں۔آج ہم اقوام مغرب کی تقلید پر مجبور ہیں کیونکہ ہم نے تحقیق سے نہ صرف منہ موڑا ہے بلکہ اس سے اپنا دامن ہی چھوڑا بیٹھے ہیں۔اس روش کو ہمیں ترک کرنا ہوگا۔تقلید و نقالی بھلے آسان و سہل ہو لیکن اس کا انجام ذلت و توہین کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔تقلید و نقالی اجتماعی تو کجا انفرادی طور پر بھی گوارا نہیں کی جاسکتی ۔ذلت و رسوائی سے عزت و بلندی کا راستہ غوروخوص اور تفکر و سوچ سے ہوکرگزرتا ہے ۔آج ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر غورو فکر کی مثبت عادتوں کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملت کی عظمت رفتہ کو بحال کیا جاسکے۔
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...