جب پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں مار دی گئی‎

دن بھر کام کرکے وہ بہت تھک گئی تھی لیکن پھر بھی نیند اس سے کوسوں دور تھی اسے اپنا گھر اپنے مٹی کےکھلونے اور اپنی سہیلیاں بہت یاد آرہی تھیں وہ جانتی تھی کہ یہی اسکا مستقبل ہے صرف اسکا ہی نہیں اسکے جیسی ساری ہی لڑکیوں کا۔ اس سے بڑی دوبہنیں بھی اسی طرح اماں اور ابا کے ساتھ شہرکسی بیگم صاحبہ کے گھر کام کیلئے گئیں اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں۔۔۔اماں اور ابا نے کب انکو یاد کیا جو اسے کرتے ہونگے۔۔۔۔یاد کا احساس اسے مزید تڑپا گیا ۔۔۔آنسو بہنے کو تیار تھے مگر پوچنے والا کوئی نہ تھا۔۔۔نہ جانے وہ کب سوئی ۔۔۔۔صبح ہوتے ہی بیگم صاحبہ کی آواز سنائی  دی اور وہ اپنے کام میں جت گئی ۔۔۔ایک کے بعد ایک کام ۔۔۔سانس لینے کی فرصت نہیں ۔۔۔۔آخر کو وہ انسان تھی مگر جن کی وہ زر خرید غلام تھی وہ کب یہ بات جانتے تھے ۔۔۔انکے نزدیک اسکی حیثیت مشین سے بڑھکر تھی ۔۔۔مشین تو پھر بھی آرام کر سکتی تھی۔۔۔ لوڈشیڈنگ کا فائدہ لےسکتی تھی۔۔۔ مگر وہ نہ بیمار ہو سکتی تھی اور نہ دن میں آرام کر سکتی تھی ۔۔۔۔وہ بنت آدم تھی ۔۔۔۔ اس سے کسی قسم کی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ اس کی مالکن بھی بنت آدم تھی وہ بنت آدم جو ترقی و عروج کی راہوں پر گامزن آدمیت کا فن کھو چکی ہے۔۔۔ اپنے حسن کو دکھانے  کی دلداده  اور اپنے گھر کو سنوارنے ، سجانےاور دوسروں سے داد وصول کرنے میں نہ جانے وہ کتنی ہی معصوم بچیوں پر زیادتیاں کر جاتی ہے وہ یہ نہیں جانتی کہ اسکے گھر میں موجود کام کرنے والی اسکےلئے قبر کے عذاب اور آخرت کے عذاب کاموجب بن سکتی ہے۔۔۔۔اپنی ذات کے آگے کسی کو کچھ نہ سمجھنے والی امیر گھروں کی بنت آدم جن کم عمر بچیوں کو اپنے گھروں میں ملازمائیں  رکھتی ہیں وہ انکو ملازم سمجھنے سے قبل اپنے ہی جیسی انسان سمجھ لیں تو یہ انکے جق میں بھی بہتر ہو اور معاشرے کے حق میں بھی۔۔

آج کے دور میں فرعونیت صفت بنت آدم پانچ چھ ہزار ماہانہ کے عوض کمسن ملازمہ کو زرخرید غلام سمجھتی ہیں ۔اور انکے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرتی ہیں۔۔۔ایسے جرم معاشرے میں عام ہوتے جارہے ہیں خصوصا پنجاب میں۔۔۔۔ آئے دن اسطرح کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں حکومت پاکستان اور شیریں مزاری صاحبہ کو اس پر ایکشن لینا چاہیے اور گھروں میں کام کرنے والی ملازموں  کیلئے قانون سازی ہونی چاہئے ۔۔۔جبتک  بنیادی ضروریات  غریب عوام کی دسترس سےباہر ہونگی ،ملک سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ نہیں ہوگا عظمی جیسی بچیاں آئے دن بے موت ماردی جائینگی۔

حکومت  وقت کو اور معاشرہ میں موجود درندہ صفت افراد کو اس اٹل وقت سے ڈرنا چاہیے جب زندہ گاڑی ہوئی  لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں