(جزیرۃ العرب سے عمرہ)
سفرِ ِ سعادت
ہمیں جزیرۃ العرب میں داخل ہوئے تیسرا دن تھا جب صاحب نے دفتر سے آتے ہی خوشخبری سنائی: ’’عمرہ کا پروگرام بن رہا ہے ان شاء اﷲ‘‘۔ کب، کیسے، کس کے ساتھ ؟؟ ایک ساتھ کئی سوال ذہن پر ابھرے، ہم نے فوراً تلبیہ پڑھنی شروع کر دی، آج تو گویا قسمت کھل گئی تھی۔ اگلے دو تین دن تیاریوں میں گزر گئے، یہ سفر مبارک بھی تھا اور عین سعادت بھی۔ نئے احرام خریدے گئے (حالانکہ پاکستان سے آنے والے سامان میں بھی ایک احرام خاص طور پر رکھا گیا تھا)، ہمیں آنے والی جمعرات کو ’’حملے‘‘ کے ساتھ جانا تھا، (’’حملہ‘‘ سعودی عرب میں بس کے ذریعے سفرِ سعادت کے لئے مستعمل ہے، شاید ہر عمومی سفر کے لئے بھی استعمال ہوتا ہو، ہم نے تو عمرے والی بسوں کے ہی عقب میں لکھے ہوئے دیکھا)، اور اس سفر کا خوشگوار پہلو یہ تھا کہ ہمارے نئے نئے دوست احباب ہمراہ تھے، یعنی اپنی کمیونٹی کے افراد اکٹھے عمرہ کرنے جا رہے تھے، ایک تو سفرِ شوق اور پھریہ قرآن کے تعلق سے جڑنے والوں کا سفربھی تھا، بس خوشی کے سارے لوازمات پورے ہو رہے تھے، اور جس کے نہ جانے کی خبر ملتی اس پر ہمیں بھی افسوس ہوتا۔
۱۳ اکتوبر کو سفر شروع ہونا تھا، اس سے پہلے ہی ہم نے خوب زادِ راہ (جوسسز، پانی، پھل، کھانا، وغیرہ) اکٹھا کر لیا، بچے اور صاحب واپس آئے تو سب کچھ تیار تھا، انہوں نے جلدی جلدی تیار ہو کر سامان باہر رکھا، ایک ڈاکٹر صاحب ہمیں لینے آگئے اور دن ڈھائی بجے سے قبل ہم مقررہ مقام پر پہنچ گئے، تقریباً سبھی لوگ پہنچ چکے تھے، بس میں داخل ہوئے تو قدرے گرمی کا احساس ہوا، اس سفر مبارک کا آغاز ہی شکوے سے نہیں ہونا چاہئے، ہم نے خود کو دعا کی جانب متوجہ کیا، آہستہ آہستہ سب افراد سیٹوں پر بیٹھ گئے، اگلی سیٹوں سے آواز بلند ہوئی، گاڑی میں ٹھنڈک کافی کم ہے، ہمارے صاحب نے ہماری طرف دیکھ کر تائید چاہی، ہم دعا کی کتاب کو پنکھا بنائے ہوا لے رہے تھے، ڈرائیور بولا: ’’صاب بس سپیڈ پکڑے گی تو ٹھنڈک بھی ہو جائے گی‘‘، ہمیں گرمی کا احساس ہوتا تو کھڑکی سے جھانک کر سپیڈ کا اندازہ کرنا چاہتے، گاڑی فراٹے بھر رہی تھی، اور اسی رفتار سے پسینہ چوٹی سے ایڑی کا سفر طے کر رہا تھا، ہم نے پھر بے بسی سے دائیں بائیں دیکھا، سبھی گرمی سے بے حال نظر آئے، سوائے ڈرائیور کے، جسے یقین تھا کہ سفر شروع ہونے پر اے سی کام کرنے لگے گا۔ چھوٹے بچے بس کی رفتار پکڑنے اور اے سی کے تکنیکی تعلق سے بے خبر منہ کھول کر رونے لگے، اب انتظامیہ کو بھی احساس ہوا کہ دس گیارہ گھنٹے کا سفر اس تنور میں نہ ہو سکے گا، انہوں نے ڈرائیور کو ذرا درشتی سے اے سی تیز کرنے کو کہا، ڈرائیور نے اپنا بیان دہرانے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ اسے ڈانٹ کر بس روکنے کا حکم دیا، ڈرائیور نے بس کنارے کی جانب کر کے روک دی، امیر صاحب نے موبائل نکالا اور حملہ آفس کا نمبر ملایا: ’’میں ۔۔۔۔۔ بات کر رہا ہوں، آپ نے جو بس بھیجی ہے اسکا اے سی کام نہیں کر رہا، ہم فلاں جگہ کھڑے ہیں دوسری بس بھیجو ‘‘، دوسری جانب سے مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی، مگر یہ کیا، دوسری جانب کی آواز (یعنی پورا مکالمہ ہمیں بھی سنائی دے رہا تھا، ) اور یہ آواز ہمارے اندازے کے مطابق گاڑی کے اگلے حصّے میں سے آرہی تھی، ایک صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو متوجہ کیا: ’’یہ تو ڈرائیور کا نمبر ملا دیا ہے آپ نے، وہی جواب دے رہا ہے‘‘، اس گفتگو کے بعد بس میں ٹھنڈک میں اضافہ تو نہ ہو سکا، البتہ سواریوں کے مزاج میں شگفتگی ضرور پیدا ہو گئی۔
پھر بس چلنے کا اشارہ ہوا، کہ بریدہ اپنے دفتر چلو، وہاں جا کر بس تبدیل کرواتے ہیں، حملہ والوں سے بات بھی ہو گئی، اور بریدہ میں ایک پٹرول پمپ پر بس روک لی گئی، نمازِ عصر کا وقت تھا، خواتین مصلی النساء (عورتوں کا نماز کا حصّہ) میں داخل ہو گئیں، اور مرد مسجد کے مرکزی حصّے میں۔ نماز ادا کر کے خواتین کمر سیدھی کرنے کو لیٹ بھی گئیں، اور آہستہ آہستہ باہر سے چائے کافی اور بچوں کی آئسکریم وغیرہ آنی شروع ہوگئی، وقت گزرنے کے ساتھ یہ خیال بھی پریشان کر رہا تھا کہ وقت گزر رہا ہے، کچھ خواتین ذکر اذکار میں، کچھ میل ملاقات میں مشغول تھیں جب کسی بچے نے آکر آواز لگائی: ’’دوسری بس آگئی!!‘‘، سب تیز قدموں سے باہر نکلے، مگر یہ کیا؟ اس بس سے مسافر باہر نکل رہے تھے، یعنی یہ دوسری عمرہ زائرین بس تھی! سب پھر واپس آگئے، اس عزم کے ساتھ کہ اب کے مصدقہ اطلاع کے بغیر باہر قدم نہ نکالیں گے۔ ایک مرتبہ پھر باہر آجانے کی آواز آئی، مگر اکثر خواتین ٹس سے مس نہ ہوئیں، پھر مردوں میں سے کسی کی آواز آئی، باہر آجائیں، باہر وہی بس کھڑی تھی، سابقہ تنور! ہم ہچکچاتے ہوئے اندر داخل ہوئے، بیٹھ کر فضا کا جائزہ لیا، گرمی میں کچھ کمی محسوس ہوئی، یہ آفتاب کے مغرب کی جانب جھک جانے کے سبب تھا، یا واقعی اے سی کی کارکردگی بہتر ہو گئی تھی ، ابھی ہم شش و پنج میں تھے کہ ایک صاحب نے ڈرائیور سے پوچھا، بھئی راستے میں تمہارا اے سی تنگ تو نہیں کرے گا، ڈرائیور نے پورے یقین سے کہا: ’’صاحب اے سی بالکل ٹھیک کام کرے گا، بلکہ اتنا ٹھنڈا کرے گا کہ آپ کو کمبل کی ضرورت پڑے گی‘‘، اس آخری دعوے کو سب نے ہی مبالغہ سمجھا، بلکہ مسکرا کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا، اب اسے کیا ٹوکنا، پہاڑی محاورہ ہے: ’’کَچھ گھوڑا تے کَچھ مدان‘‘، یعنی گھوڑا بھی موجود ہے اور میدان بھی، ابھی تصدیق ہوا چاہتی ہے۔ ابھی سفر شروع ہوئے آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ ڈرائیور کے دعوے کی تصدیق شروع ہو گئی، پہلے تو اے سی کے سوراخوں سے نکلنے والی ٹھنڈک نے سب کو مسرور کیا، سب نے اﷲ کا شکر ادا کیا، بلکہ دماغ ٹھنڈے ہوئے تو زادِ راہ کے تھیلے بھی ڈھیلے ہونے لگے، کہیں سے جوس نکلے، کہیں سے پھل، جو بھی اپنا تھیلا ڈھیلا کرتا سوغاتیں بس کے اندر چاروں جانب پھیل جاتیں، ایک صاحب کھجور اسکے خوشوں سمیت لائے ہوئے تھے، اور سب سواریاں حسبِ ضرورت اور حسبِ خواہش اپنی پسند کی کھجوریں چن رہی تھیں، مجھے نبی رحمت ﷺ کے وہ صحابی یاد آگئے جو نبی ﷺ اور اصحاب کو اپنے باغ میں لے گئے تھے اور کھجور کا خوشہ لا کر آ پ کے سامنے رکھا تھا، اور استفسار پر کہا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ آپ ﷺ اپنی پسند سے کھجوریں چن کر تناول فرمائیں، واقعی یہاں بھی خوشے میں لگی ہوئی کھجوریں پکی ہوئی بھی تھیں، ادھ پکی بھی اور کچھ سخت بھی، سب لوگ حسبِ ذائقہ لیتے جا رہے تھے، ڈاکٹر ادی (سندھی میں بہن کو کہتے ہیں، انہیں اسی نام سے بلوانا پسند ہے) ڈھیر سارے انڈے ابال کر لائی تھیں، جو بس میں ’’آنڈے، گرم آنڈے‘‘ کی صدا کے ساتھ تقسیم ہو رہے تھے، سینڈوچز بھی تھے، اور مٹھائی بھی، یہ اجتماعی سفر کی برکت تھی کہ جو کچھ بھی پیش ہوتا سب کو بانٹ کر کچھ بچ بھی رہتا، بس میں دو چار جگہ کوڑا ڈالنے کے لئے تھیلے باندھ دیے گئے تھے، اور اتنی خوشگوار فضا اور پیٹ پوجا کے بعد دعائیں مانگتے ہاتھ ڈھیلے پڑنے لگے، اورعمرہ زائرین آہستہ آہستہ نیند کی وادی میں پہنچ گئے، بس میں یہاں وہاں ہلکی پھلکی حرکت اور زادِ راہ کھلنے اور اب کی بار ان سے بچوں کے کمبل چادریں سویٹر وغیرہ نکلنے شروع ہوئے، جو لوگ حملہ بس کے ذریعے عمرے کے عادی تھے وہ پورے لوازمات کے ساتھ موجود تھے، جب کے ہم جیسے نوواردوں نے صاحب کی اکلوتی ٹوپی بھی بس کے نچلے حصّے میں بیگ میں محفوظ رکھی ہوئی تھی۔ ایک بیگم صاحبہ نے بچوں کے ٹھنڈے ہونے کی دہائی دی، ڈرائیور سے فرمائش کی گئی کہ اے سی ذرا آہستہ کر دو، وہ ٹس سے مس نہ ہوا، کچھ دیر بعد باصرار مطالبہ دہرایا گیا، پھر بھی کچھ نہ ہوا، آخر ایک ذمہ دار صاحب نے حکم دے کر کہا: ’’اے سی آہستہ کر دو، بچے ٹھنڈے ہو رہے ہیں‘‘، ڈرائیور نے بھی سپاٹ لہجے میں جواب دیا: ’’صاحب اے سی کی تار انجن کے ساتھ ایڈجسٹ کی تھی، اے سی آہستہ کروں تو انجن بند ہو جاتا ہے‘‘، اس خبر نے ہماری رہی سہی حرارت بھی منجمد کر دی، ہم نے آرام سے ہینڈ بیگ سے دوپٹہ نکال کر صاحب کی طرف بڑھا دیا، جو بس کی کھڑکی کا پردہ لپیٹ کر خود کو برفانی لہروں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
نمازِ مغرب کے لئے بس روکی گئی تو واپسی پر سب کے ہاتھ میں چائے یا کافی کے کپ تھے، ٹھنڈی ٹھنڈی بس میں گرم گرم کافی عجب مزا دے رہی تھی، زادِ راہ میں سے انڈے اور بسکٹ وغیرہ بھی نکل آئے تھے، قافلے کے لڑکے بس کی پچھلی نشست میں اکٹھے ہو گئے تھے، اور کچھ سہیلیاں ایک طرف!
ہماری بس شاید عفیف شہر سے گزری تو یہاں نماز کا وقت تھا، مسجد سے نماز کی آواز آرہی تھی اور بازار سنسان، دکانیں انواع واقسام کے سامان سے لدی ہوئی تھیں مگر نہ کوئی بیوپاری تھا نہ خریدار!! سعودی عرب میں آنے کے بعد یہ خوبصورت منظر دل میں کھب کر رہ گیا، قرآن کی آیۃ ’’والذین ان مکناھم فی الارض لأقاموا الصلاۃ ۔۔ ‘‘ کا عملی نمونہ!!
کچھ دیر بعد بس نے رفتار آہستہ کی اور اعلان ہوا کہ یہاں پر نمازِ عشاء اور عشائیہ کا وقفہ ہے، نیچے اترے، کھانے کے لوازمات اٹھائے، سامنے سرائے نما عمارت تھی جس پر تحریر تھا، ’’شقق مفروشہ مجاناً‘‘، یعنی یہ کارپٹڈ چھوٹے چھوٹے حجرے فری آف کاسٹ ہیں، یہاں پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر جس حجرے پر چاہے قبضہ کر لیجئے، اور کھانا کھا کر باقیات سمیٹ لیجئے، اگرچہ کئی حجرے ایسے تھے جہاں کھانے والوں نے بعد والوں کی سہولت کا خیال نہیں رکھا تھا، سب نے انتہائی کم وقت میں توشہ دان کھولے، ہر ایک اپنا کھانا نکال کر دوسرے حجرے والوں کو بھجوا دیتا، یہاں بھی بچے بہترین قاصد بنے ہوئے تھے، کھانے اور نماز سے فارغ ہو کر بس میں پہنچے تو جہاں چائے کی خوشبو منتظر تھی، وہاں کچھ اصحاب نئے کمبل خرید کر مزے سے لپیٹے بیٹھے تھے۔
باقی سفر اس حال میں گزرا کہ ہم سردی سے بچنے کے لئے کبھی ہاتھوں کی گرمائش سے کام لیتے اور رگڑ کے اصول سے ایک پاؤں سے دوسرے کو گرم کرتے، ہمارے ساتھ بیٹھی صاحبزادی بھی رگوں میں خون جمنے کی شکایت کر رہی تھی، اور بیٹا اپنے گالوں پر ہاتھ پھروا کر بہادر بننے کی کوشش کر رہا تھا، کہ وہ کتنی بہادری سے سردی کا مقابلہ کر رہا ہے، دانت بجائے بغیر!! خدا خدا کر کے میقات آیا، ہم تو خوش تھے، کچھ دیر مسجد میں وقت گزار آئیں گے، مگر مردوں نے اگلا سفر احرام میں گزارنا تھا، اب بے رحم اے سی کے مقابلے میں تلبیہات کی گرمی تھی، مردوں کے کمبل اتر چکے، سر ڈھانپ نہیں سکتے، کوئی سلا کپڑا، بنا ہوا سویٹر پہن نہیں سکتے، مگر تلبیہہ کی پکار نے سب کو گرم کر دیا، بقیہ سفر کہیں سے سردی کی آواز نہ سنائی دی، ہم خواتین تو ویسے ہی مزے میں تھیں، ہمارا لباس ہی ہمارا احرام تھا، سوائے چہرہ کھولنے کے!!!
ابتدائے سفر میں ہونے والی تاخیر نے ہمارا کافی نقصان کر دیا تھا، ہم مکہ پہنچ کر بھی حرم کی نمازِ فجر سے محروم تھے، ہوٹل میں نمازِ فجر ادا کر کے ہم عمرے کے مناسک کی ادائیگی کے لئے نکل کھڑے ہوئے، باہر نکلے تو کچھ اندازہ نہ تھا کہ حرم کتنا دور ہے، ایک صاحب سے سمت معلوم کر کے چلنا شروع کر دیا، ایک ٹیکسی حرم کی آواز لگا کر کھڑی بھی ہوئی مگر ہم نے کچھ زیادہ توجہ نہ دی، اتنے طویل سفر نے ویسے بھی تھکا دیا تھا، قدموں کی رفتا ر آہستہ ہونے لگی، صاحب کافی آگے نکل جاتے، پھر رک کر ہمارا انتظار کرتے، ہمارے گھٹنے سے اٹھنے والی ٹیسیں ہمیں بار بار مجبور کر دتیں اور ہم تلبیہہ کے بجائے آیاتِ شفا پڑھنے لگتے، آخر کارصاحب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو انہیں ہماری حالت کا اندازہ ہوا، ایک ٹیکسی رکی اور ہم اس میں بیٹھ گئے، جس نے حرم کے کافی قریب اتار دیا، حرم میں داخل ہوئے تو اشراق کا وقت تھا، ایک خوبصورت صبح!! حرمِ کعبہ کی صبح کا کیا کہنا!!مطاف میں قدم رکھا تو ایسے لگا ساری تھکاوٹ دور ہو گئی ہے، جسم کی بھی اور روح کی بھی!!
خانہ کعبہ کی پرشکوہ عمارت پوری شان سے کھڑی تھی، اسکے گرد گردش کرتے پروانے، اﷲ سے رحمت اور مغفرت مانگ رہے تھے، دنیا و آخرت کی بھلائیاں اور اور آگ سے نجات کے خواہش مند تھے۔ اس دن اور اس وقت طواف کرنے میں بہت مزا آرہا تھا، یہ ہماری بہت بڑی حسرت تھی کہ اﷲ اپنے گھر کے کہیں قرب و جوار میں آباد کر دے، اور ہم بار بار حاضری دے سکیں، اور یہ دعا کئی برس کے انتظار کے بعد پوری ہوئی تھی، اس عمرے کی شان ہی نرالی تھی، اور اسکا سرور بالکل جدا!!
طواف کے سات چکر پورے کر کے ’’واتخذوا من مقام ابراہیم مصلّی‘‘ پڑھتے ہوئے مطوفین کے دائرے سے نکل کر مقام ابراہیم کے عین پیچھے پہنچے اور دو رکعت نماز ادا کی، دعا مانگتے ہوئے کعبہ نگاہوں کے سامنے تھا، اپنے وجود کی کم مائیگی کا احساس ہو رہا تھا، اور رب کی بے انتہا رحمتوں کا، بے اختیار دل سے دعا نکلی: ’’ربّ اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علیّ وعلی والدیّ وان اعمل صالحاً ترضاہ، ۔۔۔ ‘‘(اے اﷲ مجھے توفیق دے کے میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پرکی ہیں، اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو راضی ہو جائے ۔۔ )۔
آبِ زم زم سے سیراب ہو کر صفا مروہ کی جانب چلے، لیکن سعی کی جانب اٹھتے قدم ڈگمگانے لگے، میری ٹانگوں کی ہمت جواب دینے لگی، وہیں سعی کے ایک ستون کے ساتھ کچھ دیر کے لئے بیٹھ گئی، میاں اور بچے پریشان، سب مل کر اﷲ سے دعا مانگنے لگے، اسی رب نے ہمت دی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھانے شروع کئے، صفا سے مروہ تک پہنچتے دو مرتبہ سستانے کو بیٹھی، حضرت ھاجر ؑ نے سات چکر کیسے لگائے ہوں گے، پانی کی تلاش بھی اور زمین پر لیٹے بچے کی فکر بھی، سبز روشنیوں کے درمیان جب شوہر اور بیٹے اور دنیا کے تمام مرد بھاگ بھاگ کر اس سعی کا اکرام کر رہے ہوتے ، میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی حضرت ھاجرؑ کے کردار کو سوچتی چلی جاتی، وہ تمام نعمتیں جو انکے ذریعے ہمیں ملیں، ان میں ایک زم زم بھی ہے، جو دوا بھی ہے، سیرابی بھی اور شفا بھی، اسکے فضائل اتنے ہیں کہ جس نیت سے استعمال کریں وہی حاصل ہوتی ہے، اور حضرت عبد اﷲؓ اسے قیامت کے دن حشر کے میدان کی پیاس سے بچنے کی دعا کے ساتھ پیتے!!
سعی کے چوتھے چکر میں جب مروہ سے صفا کی جانب جا رہے تھے، تو درمیان میں سیڑھیوں کے پاس ایک وہیل چیئر رکھی تھی، صاحب نے بیٹے سے کہا، ذرا دیکھنا کسی کی تو نہیں ہے، ہم جب تک وہاں پہنچے اسے کسی نے نہ لیا، بلکہ جو لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے وہ بھی اٹھ کر چلے گئے، ہم نے دیکھا تو اسکے سائیڈ پر لکھا تھا ’’وقف للحرمین الشریفین‘‘، بس اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے میں اس پر بیٹھ گئی، اور باقی کی سعی آسان ہو گئی، اب گزشتہ سب دعاؤں کے ساتھ انکے لئے خاص دعائیں بھی تھیں جو اس کرسی کو دھکیل رہے تھے، خاص طور پر بیٹے کے لئے جو دوہرا اجر کما رہا تھا، پھر اس عطیہ ء حرم کو ہم نے اگلے دن تک استعمال کیا۔ ہمارے بیٹے کو بار بار احساس ہو رہا تھا کہ اسے حرم سے باہر نہیں لے جانا چاہئے، اسے بھی تسلی دلائی کہ یہ اﷲ کے مہمانوں کے لئے عطیہ ہیں، استعمال کریں اور چھوڑ دیں۔
ہم حرم سے باہر نکلے، ٹیکسی لی اور شاہراہ الھجرہ کی جانب رخ کیا، اندازے کے مطابق ہوٹل کے قریب ایک پاکستانی ریستوران کے سامنے ٹیکسی سے اتر گئے، ناشتا لیکر ہوٹل کی جانب چلے، مگر معلوم ہوا، کہ یہ تو ہمارا ہوٹل نہیں ہے، گتا نما ٹرے سے چائے کے چار کپ الٹ کر سڑک پر گر چکے تھے اور ہم ’’جواہرۃ القصر الابیض‘‘ ڈھونڈ رہے تھے، ایک ٹیکسی والے کو ہوٹل کا کارڈ دکھایا تو وہ بولا، اس پر تو انکے ہوٹلوں کی پوری چین کے نام ہیں، آپ نے کس والے میں جانا ہے، اور اس صبح مٹر گشت کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ مکہ میں ہوٹلوں کی کثرت کے ساتھ ناموں کی مماثلت بھی کافی زیادہ ہے، کوئی منارۃ قصر الابیض ہے تو کوئی جواہرۃ القصر الابیض، اور اسی سے ملتے کئی نام۔ ہم نے اسکا انگریزی ترجمہ کیا تو بہت سے ہوٹل ’’وائیٹ ہاؤس ‘‘ تھے، امریکہ کا وائیٹ ہاؤس اس سے زیادہ پر تعیش ہو تو بھی ان قصر الابیض کی شان اس سے کہیں زیادہ تھی، ان میں اﷲ کے مہمان ٹھہرتے ہیں، ہم انہیں سوچوں میں گم تھے جب صاحب نے ٹیکسی روکی اور اس نے کچھ نشانیاں پوچھ کر ہمیں ہمارے ’’قصر الابیض‘‘ میں پہنچا دیا۔
چند گھنٹے بعد ہم پھر جمعہ ادائیگی کے لئے حرم کے باہر موجود تھے، اندر جانے کی گنجائش موجود نہ تھی، اس لئے ہم نے صحن میں ایک جگہ پڑاؤ ڈال دیا، جمعہ ادائیگی کے بعد ہمارے بھانجے مجاہد اور انکی بیگم حرا سے بھی ملاقات ہو گئی، ہم رات تک اکٹھے رہے، رات گئے مجاہد نے ہمیں ٹیکسی لے دی اور اپنے طور پر اسے بہت اچھی طرح راستہ سمجھا دیا، ڈرائیور نے اس وقت تو سر ہلا دیا، مگر راستے کی بھول بھلیوں میں ہوٹل پھر گم ہو چکا تھا، ڈرائیور جو شاہراہ الھجرۃ پر پہنچ کر راستہ پوچھ رہا تھا، بیٹے نے ہمیں نیند سے اٹھایا: ’’ امی جان اسے راستہ بتا دیں،ذرا بتا تو دیں رائٹ ہینڈ کو کیا کہتے ہیں؟ ہم نیم غنودگی میں بولے : سیدھے ہاتھ! اور وہ سر پکڑ کر بولا:’’ اماں جی، عربی میں‘‘ ہمارے عربی جواب سے پہلے ڈرائیور خود ہی ایک جانب مڑ چکا تھا، کیونکہ ٹریفک کی روانی میں خلل آرہا تھا، آخر کار بس گروپ کے ایک ساتھی کو صاحب نے فون کیا تو انہوں نے ڈرائیور کو سمجھایا، یوں ہم رات گئے منزل پر پہنچے۔
اگلی صبح فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد مدینہ کی جانب سفر شروع ہوا، بس فراٹے بھرتی مدینہ کی جانب جا رہی تھی، اور ہمارے دل خوشی سے سرشار!!! جس قدر درود و سلام کا ہدیہ پیش کر سکتے تھے، اسی جانب متوجہ تھے، درمیان میں کچھ دیر آرام بھی کیا، بس راستے میں دو مقامات پر رکی، اور ضروریات کی ادائیگی کے بعد پھر بس چل پڑی، مدینہ آنے سے پہلے ہی اس کی خوشبو دل و دماغ کو معطر کر رہی تھی، ظہر کی نماز کے وقت بس نے حرمِ نبوی کے بالکل قریب اتارا، اذان ہو چکی تھی، قدم تیزی سے صحنِ مسجد کی جانب گامزن تھے، بمشکل صحن میں پہنچے تھے کہ اقامت اور پھر جماعت شروع ہو گئی، جو باوضو تھے وہ پہلی رکعت ہی میں شامل ہو گئے، نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد باب عثمان بن عفان سے مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے، بس سے اترتے ہوئے جو ہدایات دی گئی تھیں، ان میں نماز کی ادائیگی کے کچھ دیر بعد کھانے اور پھر واپسی کا پروگرام تھا، مسجدِ نبوی کی اپنی ہی ایک تاریخ تھی، اتنی محبت سے بنائی گئی مسجد نے ہر دور میں محبت ہی کے مناظر دیکھے ہیں، ہر جانب حسن ہی حسن اور درو دیوار سے ٹپکتا نور!! دل چاہتا تھا بس ہماری پیشانی ہو اور حرمِ نبوی کی سرزمین ہو، رب سے مناجات کا اس سے بہتر موقع کہاں ملتا، اتنے تھوڑے سے وقت میں کیا کیا کیا جائے، اﷲ تعالی ہر لمحہ کے اجر کو بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے، اور بار بار حرمین کی جانب لے کر آئے، ہر بار شوقِ ملاقات پہلے سے دو چند ہو جائے، اور اﷲ ہمیں اپنے قلیل لوگوں میں شامل کر لے، آمین۔
وقت ہمارے ہاتھ سے پھسلا جا رہا تھا، کچھ دیر میں واپسی کا بلاوا آگیا، ہم صحنِ مسجد میں پہنچے، گروپ منتظمین نے مزیدار بریانی اور ڈرنکس کا انتظام کر رکھا تھا، ہر خاندان کو انکے افراد کے مطابق کھانا اور سفرہ(ڈسپوزیبل دسترخوان) دیا گیا، مزے دار کھانا تھا، ابھی کچھ ٹائم باقی تھا، ہمیں برقع لینا تھا، رضیہ بہن کی مہارت خوب کام آئی، روانگی کے مقررہ وقت سے پہلے ہم واپس آگئے تھے، اور اب سفر کی آخری منزل شروع ہو گئی، مدینہ سے القصیم، بس میں بیٹھتے ہی اکثر مسافر نیند کی وادی میں کھو چکے تھے، بس پٹرول ڈالنے رکی تو کئی مسافر نیچے اترے، چائے، بسکٹ، ڈرنکس اور کئی لوازمات، بس چلنے کے بعد زادِ راہ کے کئی لفافے ڈھیلے ہو رہے تھے، اور ان سے واپسی کی انٹر ٹینمنٹ کا سامان نکل رہا تھا، کسی نے کھجوریں پیش کیں، کسی نے مٹھائی، کسی نے بسکٹ اور کچھ اور بھی، آنکھیں کھلیں تو گپوں کا سلسلہ بھی چل نکلا، بچے بڑے سب ایک جیسے ہی ہو گئے، کسوٹی کھیل شروع ہوا، اور پتا بھی نہ چلا کہ کب شخصیت بوجھتے بوجھتے فلمیں اور گانے بوجھنے پر آگئے، کئی مسافر اس بے مقصد ایکٹیوٹی پر بے چین ہو رہے تھے، ایک سٹاپ پر بس رکی تو ایک ذمہ دار نے ہولے سے ایک ساتھی کے کان میں سرگوشی کی، عمرہ سفر سے واپسی پر ایسے گیمز نہیں ہونے چاہئیں، اور یہ تذکیری پیغام ایک سے دوسرے تک بڑی سرعت سے پھیل گیا، بس دوبارہ چلی تو مسافر پھر سنجیدگی اختیار کر چکے تھے، دوبارہ ذکرِ الہی کی جانب متوجہ تھے: ’’آئبون تائبون عابدون، لربّنا حامدون‘‘۔
عشاء کے بعد بس القصیم کی حدود میں داخل ہوئی تو بچوں کو یاد آرہا تھا کہ ان کا ہوم ورک ابھی تک مکمل نہیں ہے، خواتین رات کے کھانے کے لئے فکر مند تھیں ، اور چپکے چپکے انتظامات سوچے جا رہے تھے۔
یہ ایسا سفر تھا جو تا دیر یاد رہے گا، اترنے سے پہلے ایک دوسرے کا شکریہ اور آئندہ کے لئے ایسے ہی سفر کا عہد!!
***
اہم بلاگز
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہم آج تک غلط فہمیوں کا ہی شکار رہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ ہمیشہ بزرگوں ہی قربانیوں پر ہی تکیہ کیے رہے۔ ماضی کے ترانے گاتے رہے۔ آگے بڑھنے اور آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن اسباب کی ضرورت تھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ آگے کے مرحلے میں تو جانی قربانیوں کے بجائے مال کی اور صلاحیتوں کی قربانی درکار تھی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنی اپنی سیاست چمکائی۔
عوام کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ کوئی بہت غریب تو کوئی بہت امیر ہو گیا۔ کچھ زمینوں میں مربوں کے مالک بن گئے اور کچھ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ تعلیم فروخت ہونے لگی۔ اسکولوں اور کالجوں میں علم و شعور کے بجائے ڈگریوں والی تعلیم ملنے لگی۔ ملک میں ذہانت تو بہت تھی لیکن اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مغرب کے پروردہ پالیسی ساز قبضہ مافیا نے عوام کو ہر قیمت پر بے شعور رکھنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی عوام نے بھی اسی حالت میں رہنا گوارا کر لیا، اور جانے انجانے میں اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں حصہ ڈالنے لگے۔
اپنی معیشت مضبوط کرنے کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیتے چلے گئے۔ مغربی نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کی جاذبِ نظر مصنوعات کو بھی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے رکھا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بنتا کہ جو استعمال کے قابل سمجھا جائے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر ہی اس خوبصورت انداز سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیز خریدنے کا دل چاہتا ہے۔ افسوس صد افسوس! اپنے ہی ملک میں بڑے بڑے ذہین و فطین پالیسی ساز، فلاسفر اور دینی علماء بیٹھے ہیں، لیکن مجال ہے کسی نے بھی عوام کو یہ راہ بھی سمجھائی ہو کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے ہی وسائل اور ملک کی ہی بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جان ہی نہ پائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات کا سیلاب مسلم ممالک میں اس تیزی سے آیا کہ ہم لوگ آنکھیں بند کیے اس میں بہتے چلے گئے۔
اہلِ فلسطین کی بے لوث قربانیوں نے ہماری انکھیں کھول دیں۔ اب ادراک ہوا کہ ہم تو خود ہی اپنے ہاتھوں امتِ مسلمہ کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی اشرافیہ ذمہ دار ہے تو دوسری جانب عوام کا طرزِ عمل بھی قابلِ فخر نہیں رہا۔ یہودی پالیسی ساز اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے مسلمانوں سے ہی منافع کما کر مظلوم مسلمانوں کا قتلِ عام کا سامان کرتے رہے اور ایک تیر دو شکار کرنے والا فارمولا اپنایا گیا اور ہم مسلمانوں کو سالوں بے وقوف بنائے رکھا۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ پاکستان کو کم سے کم اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی قربانی دینی ہوگی۔ اپنے ملک کی مصنوعات کو فوقیت دینی ہوگی۔ معیاری اور غیر...
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
آگ کی دستک
کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں تاریخ کی بد ترین آگ نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ ہر دل رکھنے انسان کو غمگین کررہی ہے ، مکینوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک ان کے بڑے بڑے آسائشوں سے ہھرے ہوئے، ٹھنڈے ،گرم گھر جل کر خاکستر ہو جائیں گے ۔
لاس اینجلس کی ہمسایہ کاؤنٹیز میں سات مختلف جگہوں پر آگ نے تباہی مچادی ہے۔ جس میں اداکاروں اور امرا کے محلے بھی شامل ہیں۔
دولاکھ افراد نقل مکانی پر مجبورہوگئے ،55 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ، ہزاروں ایکڑ زمین پر موجود ہر چیز جل چکی ہے۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواوں کی وجہ سے آگ بجھانے کا عمل حد مشکل تھا، تین دن بعد بھی خراب موسم امدادی کاموں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
کیلیفورنیا میں بڑی آفت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ مکینوں کو امدادی کیمپوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے ،آگ بجھانے کے لئے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ 1000 سے زائد لوگ لا پتہ ہیں۔
مگردنیا ہر حکمرانی کرنے والی اے بڑی طاقت ہم انسانیت کی خاطر،کسی تعصب کے بغیر تمہاری آہوں کے ساتھ آہیں ملائیں گے ، تمہارے غم کو اپنا غم سمجھیں گے ، کھانے پینے کا انتظام کریں گے بستروں کا ڈھیر لگادیں گے،زخمیوں سے بھائی چارگی دکھائیں گے ان کے زخموں پر مرہم ہم بھی رکھیں گے کیونکہ ہم تو اس کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا،اس دین کے پیروکارہیں جو ہر انسان کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔
مگرظالموں کا ساتھ دینے والے ظالموں!
تم اس آگ کے شعلوں اور اس تباہی کو دیکھو۔۔۔
ذرا سوچو یہ آگ تو تمہاری اپنی لگائی ہوئی ہے ۔۔۔
تمہارے ہی پاس تو ایسی تباہی کے تمام ذرائع موجود ہیں۔۔۔
آگ لگانے کی ہر چنگاری تمہارے اعمال میں چھپی ہے۔۔۔
ذرا سوچوتمہارا کئی ہزار ارب ڈالر کا نقصان اس ایک معصوم جان کے برابر بھی نہیں جسے تم نے ناکردہ گناہ کے بدلے میں روند ڈالا۔۔۔
ایسے اربوں ڈالر تو تم لاشوں پر سیاست کرکے پھر کمالوگے۔۔۔۔
ذرا سوچو نسلوں کو مٹا دینے کی ہوس میں تم نے شہر مٹی میں ملا دیئے۔۔۔
ذرا سوچو زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسبپتالوں کو شرانگیزی کا اڈہ ہونے کا بہانہ کرکے نیست ونابود کردیا پھر خیموں کو بھی آگ کی بھینٹ چڑھادیا ۔۔۔
ذرا سوچو تمہارے شرمناک مظالم نے انسانیت کی عظمت کو ذلت میں بدل دیا ۔۔۔۔
مگر اس سب کے باوجود رحم کرنے والے نے اتنی بڑی آگ میں سے 5 سے 7 کے افراد کے علاوہ ہزاروں کو بچا لیا۔
کاش اس کے رحم کاایک حصہ ہی تم نے پایا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے دیگر انسانوں کو اپنے کتوں کے برابر ہی سمجھا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے مذہب کے تعصب میں ہزاروں بے قصوروں اور معصوموں کو قتل نہ کیا ہوتا ۔
کاش تم نے انسانوں سے محبت ہمارے دین سے سیکھی ہوتی تو آج تم بھی اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل کرتے۔۔۔
کاش تم نے انصاف کا درس ہماری کتاب سے سیکھا ہوتا تو آج تم دنیا کے دلوں پرحکمرانی کرتے۔۔۔
اور شاید تمہاری دنیا بھرمیں...
من کی توانائی کیلیے’’ص‘‘۔
کسی اسکالر کا بیان نظروں کے سامنے سے گزرا کہ روح اور نفس کے لئےــ’’ ص‘‘ سے شروع ہونے والی پانچ چیزوں کو اپنی ذات میں شامل کریں جو آپکے لئے’’ وٹامن ‘‘ ثابت ہونگی۔وہ پانچ چیزیں صوم، صلوات، صدقہ، صلح رحمی، صبر ہیں۔
غور کیا تو واقعی بندہ ان پانچوں باتوں کو اپنی زندگی میں شامل کرلے تو اسکی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے گی، اسکے تن اور من دونوں کو سکون اور تقویت بھی مل جائے گی۔
1_۔ صلواۃ جو قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ، ہمارا اللہ رب العزت ہی تو ہمارا مالک و خالق ہے وہی ہماری سنتا ہے اس کا قرب ہی بندگی کی علامت ہے دن میں پانچ مرتبہ اسکے دربار میں حاضری دینے سے قلب کو صرف سکون ہی نہیں ملتا بلکہ ہم سرگوشیوں میں اس سے مانگتے ہیں اسکی بے شمار نعمتوں پر اشکبار شکریہ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور ہمارا رب اپنی رحمتوں سے ہماری جھولیاں بھرتا جاتا ہے ،سبحان اللہ !
2۔ روح اور نفس کی پاکیزگی اور طاقت کے لئے دوسرا وٹامن صوم یعنی روزہ ہے جس میں بندہ صرف رب کی رضا اور خوشنودی کے لئے گرمی ہو یا سردی، دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور روزے کی حالت میں وہ اپنے نفس کو کسی بھی بدی کی طرف جانے سے سختی سے روکتا ہے یعنی روزہ ڈھال بن جاتا ہے برائیوں کے وار سے بچنے کے لئے بلکہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس بھی شدت سے ہوتا ہے اور پھر یہی کوشش اسکے لئے اجر ثواب کا ذریعہ بن جاتی ہے سبحان اللہ !
3۔ مومن حقوق العباد کے بعد حقوق العباد کی پاسداری سے ہی رب کی رضا کا مستحق بنتا ہے جو حقوق العباد کی پاسداری کا پابند ہوجائے تو وہ آس پاس کے تمام رشتوں کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتا ہے انکے حقوق ادا کرنے کو وہ اپنے لئے لازم بنا لیتا ہے ماں باپ کا رشتہ تو سب سے افضل و اعلی ہے جس سے غافل ہوکر وہ اپنی آخرت بھی گنواسکتا ہے لیکن باقی رشتوں کا بھی خیال رکھنا اسکے فرائض میں شامل ہے جس سے غافل رہ کر وہ رب کی رضا سے محروم ہوجاتا ہے یہ غفلت اسے اس دنیا میں بھی سکون نہیں دے سکتی نہ ہی اسکے رزق میں برکت ہوسکتی ہے اور نہ آخرت کی بھلائی حاصل ہوپائے گی جبکہ صلح رحمی کرنے والے کے لئے( یہ وٹامن) اسے دنیا کے ساتھ اخرت کی خوشیاں بھی عطاکرے گی ان شاءاللہ لہزا اس وٹامن کو بھی اپنی زندگی میں شامل کرنا بے حد فائدہ مند ہے سبحان اللہ !
4۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ صدقہ بلاوں کو روکتا ہے بیشک اس کا تجربہ سیکڑوں مرتبہ دیکھ بھی چکے ہیں اللہ رب العزت کے ہر حکم کے پیچھے مصلحت پوشیدہ ہے اور اسکے بندوں کے لئے دنیا وآخرت کے فائدے ہی فائدے ہیں ،مشکلات اور تکالیف میں یہ صدقہ رب کی طرف سے بندے کا مددگار بن جاتا ہے اور سامنے والے مستحق کی مدد کا ذریعہ بھی، سبحان اللہ !
5۔ زندگی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔