ایک قوم کی تعمیر و ترقی میں معیاری تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔لیکن اگر یہی تعلیم اپنی تہذیب و تمدن اور روایات سے ہٹ کر حاصل کی جائے تو اس سے فائدہ حاصل کرنا تو درکنار الٹا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ نصوص سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صہ کی تعلیم و تربیت سے خواتین اور مرد دونوں مستفید ہوئے۔ یہ آپ صہ کی تعلیم و تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو علمی کمالات کی بنیاد پر معلمہ صحابہ کرام رضہ کہا جاتا ہے۔یہاں یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے دینی یا دنیوی تعلیم حاصل کرنا شرعی نقطہ نظر سے جائز نہیں۔ زندگی کے ہرایک شعبے میں شریعت کے احکام موجود ہیں۔ لہٰذا زندگی کے کسی شعبے کو اسلامی تعلیمات سے خارج سمجھنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ اسی طرح دینی تعلیم سے قطع نظر صرف عصری تعلیم کے حصول کو ضروری سمجھنا نامناسب ہے۔ کیونکہ دنیاوی تعلیم اس وقت تک مفید ثابت نہیں ہوسکتی جب تک اس سے دینی تعلیم بھی نہ ملائی جائے۔ دینی تعلیم کے بغیر دنیوی تعلیم ناقص اور غیر سود ہے۔
پاکستان میں خواتین کی تعلیم سے دوری کی کئی وجوہات ہیں۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں بنسبت اسکول کے خواتین کی شرح انتہائی کم پائی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے ہرانسمینٹ کیسز کی وجہ سے اکثر والدین کو اپنی بیٹیوں کی تعلیم سے زیادہ ان کی عفت اور آبرو کی فکر ہوتی ہے۔ والدین اس خوف میں مبتلا ہوتے ہیں کہ کہیں ان کی بیٹیوں کی عصمت اور پاکیزگی پر کوئی الزام نہ آجائے۔
مخلوط تعلیمی نظام بھی تعلیمِ نسواں کو فروغ دینے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مذکورہ نظام کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں مغربی کلچر تیزی کے ساتھ عام ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کا مستقبل خطرے میں ہے۔ ملک میں بڑھتا ہوا گرل فرینڈ اور بواءِ فرینڈ کلچر اسی نظام کی مرہونِ منت ہے ۔ ایسے اداروں میں بچے سدھرنے کےبجائے بگڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا اصول”دفعِ ضرر جلبِ منفعت پر مقدم ہوتا ہے” کی رو سے ایسے تعلیمی نظام میں اپنے بچوں کو پڑھانا شرعًا و عقلًا ناجائز ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ “تعلیمِ نسواں ایک مختلف چیز ہے اور مخلوط تعلیم ایک جداگانہ چیز ہے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط وہی بے دین اور بے حمیت یورپ زدہ لوگ کرتے ہیں جو فروغِ تعلیمِ نسواں کی آڑ میں مخلوط تعلیم کو عام کرنا چاہتے ہیں۔” (ہمارا تعلیمی نظام، ص: 32)
اسی طرح معاشی مسائل کی وجہ سے بھی تعلیمِ نسواں تعطل کاشکار ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے ایک غریب سارا دن محنت، مزدوری کرنے کے باوجود اپنے گھر کا خرچہ پورا نہیں کرسکتا تووہ اپنی بیٹی کوتعلیم دلانے کے لیے بڑی بڑی فیسیں کیسے برداشت کرسکتاہے۔ کئی بار بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کو اپنے خوابوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ دونوں کی فیس برداشت کرسکے۔ لہٰذا ایک بہن ، بھائی کے مستقبل کے لیے اپنی خوشیوں کی بلی چڑھادیتی ہے۔ بعض والدین یہ سوچتے ہیں کہ بیٹی تو ویسے بھی پرائے گھر کی مہمان ہے، ایک نہ ایک دن اسے یہ گھر چھوڑ کر جانا ہے، اس لیے وہ پڑھ لکھ کر کیا کرے گی…!؟
ان تمام مسائل کو حل کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ لوگوں میں تعلیمِ نسواں کی اہمیت کو اجاگر کرنا، غریب لوگوں کو مفت تعلیم دینا، بڑھتے ہوئے ہراسمینٹ کے واقعات کا سدِ باب کرنااور مخلوط تعلیمی نظام کو ختم کرنے سے ہی تعلیمِ نسواں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔دوسری صورت میں ایسے نظام کے ہوتے ہوئے نہ تو خواتین کی تعلیم کو عام کرنا ممکن ہے اور نہ ہی ایسی تعلیم کا کوئی فائدہ ہے۔ کیونکہ جب ایسی تعلیم کا نتیجہ سامنے آئے گا تو ہر کوئی کفِ افسوس ملتا ہوا یہی کہے گا کہ
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ ہم راہ پر تھے
روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلامی حدود میں رہ کر خواتین کا تعلیم حاصل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔ اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مردوں اور عورتوں کے لیے الگ تعلیمی نظام مہیا کرے۔ کیونکہ اگر مقصد تعلیمِ نسواں ہے تو یہ تعلیم مخلوط نظام کے علاوہ بھی دی جاسکتی ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف اسلامی اصول کی خلاف ورزی سے بچا جاسکتا ہے بلکہ بآسانی تعلیمِ نسواں کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج ملک میں رائج مخلوط تعلیمی نظام اور اس کے بڑھتے ہوئے نقصانات کی وجہ سے خواتین کی ایک کثیر تعداد تعلیم جیسی عظیم دولت سے محروم ہے۔