قرآن پا ک کی پہلی آیت میں جہاں علم و قلم کا ذکر ہے وہیں 750مقامات پر انسان کو غو ر و فکر اورتفکر کی دعوت دی گئی ہے اور اسے سوچ وفکر پر مائل کیا گیا ہے۔قرآن کی بے شمار آیات کائنات میں بکھری اللہ کی لاتعداد نشانیوں پر غورو فکر کی ہمیں دعوت دیتی ہیں۔ قرآن کبھی ہماری توجہ ہواؤں کی تصریف و تصرف کی جانب مبذول کرواتا ہے تو کبھی سورج ،چاند ،ستاروں کی گردش، دن رات اور موسم کی تبدیلیوں پر غوروفکر اور سوچنے کی ہمیں دعوت دیتاہے۔ قرآن میں کہیں نباتات کی روئیدگی اور اس کی مختلف منازل حیات کا ذکر ملتا ہے تو کہیں حیوانات کی تخلیق اور ان سے حاصل ہونے والے فوائدکے متعلق غورو خوص کا تذکرہ دیکھنے میں آتاہے۔کہیں عالم آفاق میں واضح قدرت الہی کے شواہد کی جانب توجہ کی اپیل دیکھنے میں آتی ہے تو کہیں اپنے اندر کی دنیا میں جھانکنے کی تلقین وتاکید بھی واضح انداز میں کی گئی ہے ۔الغرض قرآن کامعتدبہ حصہ انسان کو اپنے اندر و باہر کی دنیا میں سوچنے اورغورو فکر کرنے کی مسلسل دعوت دیتاہے ۔ یوں تو ہر کوئی سوچنے اور غور وفکر کی اہمیت سے واقف ہے لیکن ایسے کتنے لوگ ہیں جو حقیقت میں غور و فکر کرناجانتے ہیں اور اسے مناسب طور پر بروئے کار بھی لاتے ہیں۔ ایک مشہور فلسفی کے شہرۂ آفاق قول کی روشنی میں ہم سوچ اور شخصیت کے درمیان پائے جانے والے اٹوٹ رشتے کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں ’’چونکہ میں سوچ سکتا ہوں اس لئے میں ہوں۔‘‘ سوچنے کی صلاحیت انسان میں ودیعت کردی گئی ہے۔ انسان میں دماغ کا پایا جانا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسے غورو فکر کی صلاحیت سے متصف کیا گیا ہے۔ خالق کائنات کا انسان کو غورو فکر کی صلاحیت سے سرفراز کرنا خود اس بات کا اعلان ہے کہ وہ تحقیق اور جانچ و پرکھ کی راہ پر گامزن رہے۔ لیکن لوگوں نے غور و فکر اور تحقیق اور تدبر کو خاص لوگوں سے وابستہ کرکے خود کو غوروفکر اور تدبر سے آزاد کر لیا ہے۔یہ ایک غلط رجحان ہے۔ جب اللہ نے ہر آدمی کو غوروفکر اور سوچنے کی صلاحیت سے سرفراز فرمایا ہے تو ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر اس کو مناسب طریقے سے بروئے کار لائیں۔
ہمارا نظامِ تعلیم ذہن کی جن چند خاص صلاحیتوں کو نکھارنے اور بروئے کار لانے پر اپنی تمام توجہ صرف کرنے پر اکتفا کیئے ہوئے ہے جس میں حافظے اور یاداشت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔حافظے اور یاداشت کی اہمیت سے کوئی سرموئے انحراف نہیں کرسکتا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف حافظے اور یاداشت کو ہی اہمیت دی جائے اور دیگر ذہنی صلاحیتوں کو یکسر نظرانداز کردیا جائے۔اس صورت حال کی اصلاح بے حد ضروری ہے۔جب تک طلبہ کو باقاعدگی سے سوچنے اور غوروفکر سکھانے کا اہتمام نہیں کیا جائے گا تب تک بچوں میں اس صلاحیت کے ابھرنے ،نکھرنے اور پروان چڑھنے کی امید تو کی جاسکتی ہے لیکن ایسی امیدیں بہت کم ہی حقیقت میں ڈھلتی ہیں۔سوچنے اور غوروفکر سکھانے کے باقاعدہ اہتمام کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ پہلے خود یہ سمجھنے کی کوشش کر یں کہ سوچنا کیا ہے ؟یہ کس طرح انجام پاتا ہے اور اسے کس طرح بہتر بنا یا جاسکتا ہے؟یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ انسانی ذہن خیالات کی آماجگاہ ہے اس میں ہر پل نت نئے خیالات آتے رہتے ہیں۔نظام کائنات میں بکھری اطلاعات و معلومات خیالات کی صورت میں انسان کے ذہنی اسکرین پر نشر ہوتی رہتی ہے۔ خیالات کو وصول کرنے اور انہیں معنی و مفہوم فراہم کرنے میں فطرت نے انسان کو آزاد رکھا ہے۔آدمی موصول شدہ خیالات کو جس زاویہ نظر سے دیکھتا ہے وہ اس کا طرز فکر کہلاتا ہے۔اگر طرز فکر میں ہمدردی ،ایثار و قربانی کا رنگ پائے جاے تو آدمی اپنے ہر خیال کو مثبت اور تعمیری انداز میں لیتا ہے اگر طرز فکر منفی ،خودغرضی اور لالچ کے زیر اثر ہو تب وہ ہر خیال کو منفی انداز میں اپنائے گا۔اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے ان کا مشن انسان کو وحدانیت،صلہ رحمی،ہمدردی،ایثار و قربانی ،محبت اور بھائی چارے کی خوبیوں سے متصف کرنا تھا۔انسان جب یہ خوبیوں سے متصف ہوجاتا ہے تب اس کی فکر تعمیری ہوجاتی ہے اور تعمیر کے خوگر انسان کسی بھی قسم کی تخریبی فکر و سرگرمیوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں۔معلمی چونکہ ایک انبیائی مشن ہے اس لئے ضرور ی ہے کہ اساتذہ طلبہ کو مثبت اورتعمیری انداز میں سوچنے اور غورو فکر کرنے کی تربیت کا اہتمام کریں۔اس مضمون میں طلبہ میں سوچنے اور غوروفکر کی صلاحیت کو پروان چڑھانے والے عناصر و عوامل کا احاطہ کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے تعلیمی محقق جان گڈلاڈ(John Goodlad) کی تحقیق کے مطابق ایک بڑی تشویشناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ اساتذہ کمرۂ جماعت کے اپنے معلنہ وقت میں ایک فیصد وقت بھی بچوں کو غور وفکر اور توجیہ واستدلا ل پر مائل کرنے پر صرف نہیں کررہے ہیں۔اکثر اساتذہ بچوں کی یاداشت سے چند معلومات کے اعادہ یا باز آوری کو ہی درس و تدریس اور اخذ واکتساب سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ کمرۂ جماعت میں صرف سیکھی ہوئی باتوں او رمعلومات کو رواجی و روایتی انداز میں اگلانے کے عمل سے بچے غو ر و خوص اورفکرو تدبرسے دورہوتے جار رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ حقیقت میں ہمارے کلاس رومس میں بچوں کو سرے سے سوچنایاغورو فکرکرنا سکھایا ہی نہیں جارہا ہے اور نہ ہی اس صلاحیت کو پروان چڑھانے والے اقدامات و تدابیر اساتذہ سر انجام دے رہے ہیں۔واضح طور پر اساتذہ کو احساس ہونا چاہئے کہ صرف نصابی مہارتوں جیسے اچھاپڑھنے کے طریقے جان لینے،حقائق کو یادکرنے،مظاہرہ کردہ تجربات دہرانے،متن پڑھنے اور لکھنے سے بچوں میں غور و فکر اور تدبر کی تربیت کی انجام دہی قطعی نا ممکن ہے۔کلاس روم میں اکتسابی سرگرمیوں کے دوران اگر طلبہ کو سوچنے اور غور و فکر کرنے کی مہارت سکھادی جائے تو یہ معلومات کاحصول اور اس پر عمل آوری میں مددگار ثابت ہوتی ہے جس کی وجہ سے بچے معلومات ا ور اشیاء کو استدلالی(منطقی) انداز میں تنقید و تجزیہ کی کسوٹی پر پرکھنے لگتے ہیں ۔سوچنے کی صلاحیت سے بچے اپنے تخیل کو تخلیقی روپ میں ڈھال دیتے ہیں۔فروغ تعلیم کے لئے کوشاں اساتذہ کمرۂ جماعت میں غور و فکر کا ماحول پیدا کرتے ہوئے طلبہ کو سوچنے اور غو ر و فکر کا سلیقہ و طریقہ سکھائیں اور غور و فکر کو پروان چڑھانے میں معاون وسائل و مواقع فراہم کریں تاکہ وہ ایک اچھے اور بہتر مفکر و مدبر بن سکیں۔اساتذہ تدریجاً تمام مناسب و موزوں مواقع کو بروئے کار لاتے ہوئے طلبہ میں از خود غور و فکر کرنے اور سوچنے کی صلاحیت کو پروان چڑھائیں۔
جدیدتحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ طلبہ میں بہتر غور و فکر ( سوچنے )کی عادت فطری طور پر فرو غ نہیں پاتی ہے ۔انہیں ترغیب و تحریک کے ذریعہ بتدریج غور و فکر کا عادی بنا یا جاسکتا ہے۔یہ بات میں یہاں بیان کرنا بے حد ضروری سمجھتا ہوں کہ کمرۂ جماعت میں روز مرہ کی تدریس کے دوران مناسب منصوبہ بندی،توجہ اور نتیجہخیز طریقہ ہائے تدریس کے ذریعے اساتذہ بچوں میں غور و فکر کی صلاحیت کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ اساتذہ کمرۂ جماعت میں وقوع پذیر حالات کو مناسب انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے ایسے سوالات ، اکتسابی ذمہ داریاں اور تعلیمی سرگرمیاں طلبہ کو تفویض کریں جو انہیں غور وفکر پر مائل کرسکے۔ تعلیمی سرگرمیوں اور اسباق پر مبنی سوالات کے روایتی اور مروجہ سکہ بند جوابات دینے سے طلبہ کو باز رکھیں۔ حقائق و واقعات کو نئے زاویہ سے دیکھنے اورسوچنے کی تاکید و تلقین سے طلبہ میں غورو فکر کی صلاحیت فروغ پانے کے علاوہ انہماک ، توجہ اور بہتر تفہیم کی صلاحیت بھی از خو د پروان چڑھنے لگتی ہیں اور ان کے ذہن میں نئے نظریات سر ابھار نے لگتے ہیں۔اساتذہ روایتی طریقہ تدریس پر ہر گزاکتفاء نہ کریں اور یا د رکھیں کہ آج کا دور مسابقت ،جدیدیت اور سائنس و ٹکنالوجی کا دور ہے اور آئے دن زندگی کے ہر شعبے میں تیز رفتار تبدیلیاں وقوع پذیر ہیں اگر اساتذہ طلبہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کریں گے تب ان کی تدریس و تعلیم بے رنگ و بے مقصد ہوکر رہ جائے گی۔ اساتذہ کمرۂ جماعت میں اختراعی تدریسی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے طلبہ کو تخلیقی و اختراعی انداز میں غوروخوص اور فکر و تدبر کے قابل بنائیں۔سوچنے کی اضافی مشقوں سے طلبہ میں غورو فکر کی عادت پروان چڑھتی ہے۔حاصل کردہ علم و معلومات پر گہرائی و گیرائی سے غورو فکر کے عادی ہوجاتے ہیں اس کے علا وہ گہرے دھیان کی عادتطلبہ میں تخلیقی تخیلات اور اختراعی نظریات کی پیدائش کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے وہ مسائل کوناقدانہ انداز میں حل کرنے کے لائق ہوجاتے ہیں۔تمام تدریسی و اکتسابی مہارتوں کے فروغ کے لئے مشق بے حد ضروری ہے تاکہیہ عادتیں طلبہ کی زندگی کا جزو لاینفک بن جائے اور وہ ایک مطمین اور اور آسودہ زندگی بسر کرسکیں۔
دماغ میں محٖفوظ کردہ معلومات کی توضیع و تشریح کے معیار کا راست تعلق غوروفکر اورسوچنے کے معیار پر منحصر ہوتا ہے۔دماغ کا بالائی حصہ(Frontal Lobe)سوچنے،غوروفکر اور تجزیہ کا اہم مرکز ہوتا ہے۔دماغ کے اس حصہ کو لگاتار سوچنے ،غوروفکر اور توجیہ و تعلیل سے متحرک رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔دماغ اپنی یاداشت میں معلومات کو الفاظ،تصاویر،خیالات،رجحانات اور حقائق وغیرہ کئی شکلوں میں ذخیرہ کرتا ہے۔جب آدمی سوچتا ہے تو دماغ کو ان اشیاء،خیالات، واقعات،تصاویر،رجحانات اور حقائق کو تلاش کرنے ان کا تقابل و تجزیہ کرتے ہوئے ذخیرہ شدہ معلومات کو مربوط کرنے کا حکم دیتا ہے۔سوچنے کے عمل کے دوران نئی معلومات پیدا ہوتی ہیں۔ توضیع و تشریخ کردہ معلومات سے پیدا شدہ خیالات کا تعلق دماغ کو فراہم کردہ سرگرمیوں کی مقدار اور قوت فکر پر منحصر ہوتاہے۔دماغ کے معلومات پر عمل آوری(Information Processing) کی صلاحیت کو ادراکی صلاحیت (Cognition capacity)کہاجاتا ہے۔ مواد کی تیز یافت بازیابی کے لئے معلومات کو دماغ میں منظم اور معنی خیز انداز میں ذخیرہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔سوچنے اور غورو فکر سے دماغ میں جمع کردہ معلومات و مواد کے درمیان بہتر رابطہ پیدا ہوتا ہے۔ مختلف دماغی سرگرمیوں توجیہ و استدلال اورغوروفکر کے ذریعے دماغی زرخیزیت و صلاحیت میں نمایاں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
سوچ کے مختلف مرحلے
تخیل (Mental Manipulation) و استدلال (Mental Exploration) ذہنی عمل ہے جس کا راست تعلق سوچ اور غورو فکر سے پیوست ہوتا ہے۔1976کی بلوم کی تقسیم(Bloom’s Taxonomy) کے مطابق غورو فکر اور سو چنے کی مہارت چھ مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ اساتذہ کی ان چھ مراحل سے واقفیت و آگہی جہاں انہیں ایک بہتر مفکر بناتی ہے وہیں طلبہ میں سوچنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے اور عام و سادہ واقعات کو بھی مختلف اندازہ سے سوچنے کی صلاحیت سے لیس کردیتی ہے۔ جب یہ چھمتذکرہ مہارتیں دانشمندانہ انداز سے اکتسابی مطالبات (Learning Challenges)سے مربوط کر دی جاتی ہے تب یہ اہم دانشوارانہ آلات(Intellectual Tools)کا کام انجام دیتی ہیں۔
(1)پہلا مرحلہ ،علم(knowledge)؛۔یہ مرحلہ معلومات کی حقیقی بازیافت(Factual Recall)پر مشتمل ہوتا ہے۔اس مرحلے میں یاد کیئے ہوئے یا ذخیرہ کردہ مواد کی بازیافت انجام پاتی ہے۔بازیافت یا یاداشت کی جانچ پر مبنی سوالات سے غورو فکر اور سوچنے کے اس مرحلے کو تحریک حاصل ہوتی ہے۔
(2)دوسرا مرحلہ سمجھ،فہم یا ادراک (Comprehension)؛۔طلبہ جب کسی خاص فکر و خیال کی وضاحت کرتے ہیں تب یہ فکری مرحلہ برسرکار ہوتا ہے سمجھاو، وضاحت کرو،فرق کرو اور درجہ بندی کر و وغیرہ جیسے سوالات سمجھ ،فہم و ادراکی مرحلہء فکر (Comprehension)کے فروغ میں معاون ہوتے ہیں۔
(3)تیسرا مرحلہ اطلاق(Application)؛۔طلبہ کو جب چند کلیات،ضابطوں ،اصولوں،رجحانات، کسی ایک نئے نکتہ نظر سے کسی کلیے ،رجحان یا اصول کی تعمیم(Generalisation)کے اظہار کے لئے سوالات کیئے جاتے ہیں تب اطلاقی مرحلہ فکر مہمیز ہوتاہے۔معلومات کے اطلاق پر مبنی سوالات و مواقع غوروفکر اور سوچنے کی صلاحیت کو بہتر بناتے ہیں اور معلومات و علم کی پختگی میں بھی اہم کردار انجام دیتے ہیں۔
(4)چوتھا مرحلہ تجزیہ(Analysis)؛۔جب طلبہ کوچیزوں کے درمیان مماثلت،رشتے اورفرق کا پتا لگا کر ان کا تجزیہ کرنے کو کہاجاتا ہے تب غورو فکر اور سوچ کا چوتھا مرحلہ تجزیہ(Analysis)فعال ہوجاتا ہے۔یہ مرحلہ چونکہ عمدہ دانشوری اور بہترین معلومات پر مبنی ہوتا ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ پایے کی غورو فکر کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔
(5)پانچواں مرحلہ ترکیب /آمیزش(Synthesis)؛۔اس میں مرحلے میں سوچ و فکر کا اعلیٰ مظاہر ہ دیکھنے میں آتا ہے۔یہ مرحلہ سنجیدہ فکراور اعلیٰ ذہانت پر مشتمل ہوتا ہے جہاں طلبہ اپنے حافظے میں محفوظ خیالات اور حاصل کردہ معلومات ،نظریات و رجحانات کو مجتمع کرتے ہوئے نئے نتائج اخذ کرنے اور نئے خیالات ونمونوں کی ترکیب و آمیزش میں مصروف رہتے ہیں۔غوروفکر اور سوچ کا یہ مرحلہ نہایت تخیلاتی اور کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔
(6) چھٹواں مرحلہ تعین قدر،تشخیص(Evaluation)؛۔اس مرحلہ غورو فکر میں طلبہ سے قابل قدر فیصلے صادر ہوتے ہیں۔فکرانگیزتجزیہ،موثر تعین و تشخیص(Effective Assessment)،موازنہ و برعکس(Compare and Contrast)سوچ طلبہ کواہم تنائج اخذ کرنے کے قابل بناتی ہے۔متذکرہ مواقع و حالات کی فراہمی کو تعلیمی عمل میں بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
بہتر طریقے سے سوچنے کی حوصلہ افزائی کریں؛۔
طلبہ کے سیکھنے (اکتساب)کی پیشرفت میں سوچ اور غورو فکر کا عنصر سب سے نمایاں کردار اداکرتاہے ۔ اساتذہ بچوں کوایسے وسائل و مواقع فراہمکریں جو ان کی سوچ اور غورو فکر کی صلاحیت کو پروان چڑھانے میں معاون و مددگار ہوں۔ آزادانہ غورو فکر کے لئے اساتذہ طلبہ کی حوصلہ افزائی کریں۔ طلبہ کومثبت غوروفکر کاعادی بنائیں تاکہ وہ اکتسابی عمل کو پورے جوش و خروش اور جذبے سے تمام عمر انجام دے سکیں۔ اچھی اور کارآمد عادات کی سعی و کاوش پر تعریف و توصیفکے ذریعے ، تخلیقی صلاحیتوں ، قو ت تخیل کی برقراری کو یقینی بناتے ہوئے اور مثبت و ساز گار ماحول کی فراہمی کے ذریعے اساتذہ بچوں میں آزادانہ سوچ اورغورو فکر کی عادت کو پروان چڑھانے میں کامیاب حاصل کرسکتے ہیں۔مختلف حالات میں تاثرات کی عکاسی کرنے والے متنوع متعدد سوالات کے ذریعے بھی سوچنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔اساتذہ طلبہ کوازخود تفکر کی عادت سے متصف کریں تاکہ وہ موقع ومحل کے مطابق کامیاب طریقے سے مطالب و معنی کو اخذکرسکیں۔اساتذہ اپنی متحرک و موثر تدریس کے ذریعے نوخیز ذہنوں کو عقل و دانش اور تفکر کی ایسی سطحوں پر لے جاتے ہیں جہاں وہ خود کو آزدانہ طور پر غور وفکر اور سوچنے کی متحمل پاتے ہیں۔طلبہ کو ایسے حالات سے دوچار کریں کہ غوروفکر کے علاوہ ان کے لئے کوئی چارہ نہ ہو اور سوچنا ان کے لئے اشد ضروری ہوجائے۔طلبہ سے ان کے اسکول کی تقریبات وپروگراموں کی منصوبہ بندی ، مختلف سرگرمیوں کے انعقاد ،نظم و ضبط کی برقراری میں معاون تدابیر تعلیمی ،تفریحی ،کھیل کود کی سرگرمیوں اور دیگر انتظامی و تنظیمی امور پر تبادلہ خیال کے ذریعے ازخود تفکر اور غورو خوص کی عادت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ غور وفکر کے مادے کو مہمیز کرنے میں معاون چند سوالات باقاعدگی سے طلبہ کو تفویض کریں۔ اساتذہ طلبہ کی گفتگو کو موثربنانے کے لئے ان کی زبان دانی پر توجہ مرکوز کریں۔سماجی تعامل(میل ملاپ) اور معلومات کا ذخیرہ عمدہ سوچ اور غوروفکر کے اہم باب(دروازے) کہلاتے ہیں۔ اساتذہ طلبہ کو غورو فکر اور سوچنے پر مائل کرنے کے لئے کمرۂ جماعت میں منظم اور محتاط طریقے سے تبادلہ خیال کا اہتمام کریں۔مختلف عقائد ،نظریات و ثقافت کے حامل افراد سے بچو ں کو متعارف کروائیں تاکہ ان سے میل میلاپ اور ارتباط کے وجہ سے سوچنے اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت کو بال و پر حاصل ہوسکے۔بچوں کو مطالعہ کتب پر مائل کریں اور مطالعہ کردہ کتابوں کے خاص مواد پر اپنے تجزیاتی،ناقدانہ اور تخلیقی آرا پیش کرنے کو کہیں ۔یہ سرگرمیاں سوچنے کی مہارتوں کو فروغ دینے میں بے حد معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ (جاری ہے)
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...