کئی مہینوں بعد سب سہیلیاں ون ڈش پارٹی میں جمع تھیں، وہ سب ایک کالج سے فارغ ہوئی تھیں، کالج میں انکاگروپ سب سے بڑا تھا، وہ خوب ہلا گلا کرتیں، اور مہینے میں ایک مرتبہ پیسے جمع کر کے بریک میں ہلکی پھلکی پارٹی بھی کر لیتیں، کالج کے چار سال پلک جھپکتے گزر گئے تھے، الوداعی پارٹی کے دن سب سہیلیوں نے طے کیا تھا کہ وہ سب ہر مہینے ایک بار ضرور اکٹھی ہوں گی، فرزانہ، شمیم، زبیدہ نے ون ڈش پارٹی کے لئے اپنے گھر پیش کر دیے، وہ سب بہت خوش تھیں لیکن کچھ عرصے میں ہی اندازہ ہو گیا کہ ہر روز کالج میں ملاقات بہت آسان تھی، اور ہر ماہ کی پارٹی میں شرکت کبھی کسی کے لئے مشکل ہو جاتی اور کبھی کسی کے لئے، اب زیادہ تر ملاقاتیں خوشی غمی کے مواقع پر یا کبھی بازار میں اچانک ہو جاتیں،اور آج کافی عرصے کی کوشش اور وعدے وعید کے بعد زبیدہ نے سب کو اپنے گھر مدعو کیا تھا۔ اس دوران عطیہ ، فریدہ اور سلمہ کی شادیاں ہو چکی تھیں، فرزانہ کی منگنی ہو گئی تھیں اور شمیم اور زبیدہ نے یونیورسٹی سے ماسٹرز کر لیا تھا۔
سب سہیلیاں اکٹھی تو ہو گئی تھیں، مگر پہلے جیسا ہلہ گلہ نہ تھا، زندگی میں آنے والی تبدیلیوں نے سب پر ہی مختلف اثرات مرتب کئے تھے، عطیہ کی صحت بہتر ہو گئی تھی، سانولہ رنگ اب مزید نکھر گیا تھا، فرید ہ کی ڈریس ڈیزائننگ اور ہیئر سٹائل بدل گئے تھے، اسکی گفتگو بار بار اسکے متمول خاندان کی جانب مڑ جاتی، جبکہ سلمہ کچھ کھوئی کھوئی سی تھی، کمبل میں لپٹا بیٹا اس کی مستقل توجہ کا مرکز تھا، کبھی وہ کھانسنے لگتا، کبھی دودھ الٹ دیتا، وہ ان سب کی باتوں میں برائے نام ہی شامل تھی، یوں بھی وہ پارٹی میں آنا نہ چاہتی تھی، زبیدہ نے اسے بڑے اصرار سے بلایا تھا۔
سلمہ کی شادی آزاد کشمیر کے دور افتادہ گاؤں میں ہوئی تھی، اسکے سسرالی رشتہ دار تو نہ تھے بس والد کی برادری سے تھے، راولپنڈی میں پلی بڑھی سلمہ کو بہت ارمانوں سے بیاہ کر سسرال لے جایا گیا، اسکے شوہر بہت اچھے انسان تھے، بہت خیال رکھنے والے، شروع میں تو سب نے ہی بہت آؤ بھگت کی مگر آہستہ آہستہ اس پر سارے گھر کا بار ڈال دیا گیا، گاؤں کی مشکل زندگی کا اسے کچھ تجربہ نہ تھا مگر گھر کے سکھ کی خاطر اس لئے اس نے ساری نزاکتوں بالائے طاق رکھ کر حالات سے سمجھوتا کر لیا۔ بیٹے کی پیدائش اسکے میکے میں ہوئی، جو ابتداء ہی سے کم وزن تھا، پھر پے در پے تکلیفیں، کبھی پیٹ میں درد کبھی کان اور گلا خراب، اور دورانِ علاج ہی مختلف ٹیسٹ کے رزلٹ میں معلوم ہوا کہ بچہ ڈاؤن سینڈروم ہے۔ سلمہ اور اسکے شوہر پر یہ خبر بجلی بن کر گری، بچہ پیدائشی طور پر ایسی بیماری کا شکار تھا جس سے صحت یابی کی اﷲ سے امید تو تھی مگر میڈیکل سائنس کافی مایوس تھی۔
ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق ہر بچے میں ابتدائی طور پر چھیالیس کرومو سومز ہوتے ہیں جو وہ یکساں طور پر والدین سے حاصل کرتا ہے، لیکن ڈاؤن سینڈروم بچے میں ایک اضافی کروموسوم ہوتا ہے جو اسکی جسمانی اور ذہنی نشو نما میں تاخیر کا سبب بنتا ہے، اور اس کے جسمانی خدو خال کو بھی متاثر کرتا ہے۔ یہ بچہ سوچ اور عمل دونوں طرح عام بچوں سے کافی پیچھے ہوتا ہے۔
اس دن بھی وہ اپنی ممانی کے ہاں آئی تھی ، اور چھ ماہ کے بچے کو گود میں اٹھائے دنیا و ما فیہا سے بے خبر بیٹھی تھی، وہ یہاں آ کر بھی ذہنی طور پر موجود نہ تھی، بات کرتے کرتے وہ خلاؤں میں دیکھنے لگتی، ممانی کے گھر انکی کزن آئی ہوئیں تھیں، جو بچوں کی ماہرڈاکٹر تھیں، وہ سلمہ سے ملیں ، بچے کو اچھی طرح دیکھا اور اس کی بیماری کے حوالے سے کئی مفید ٹپس دیں۔ انہوں نے بتایا کہ توجہ اور لگن سے ایسے بچے معاشرے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن ارد گرد کے لوگوں کی محبت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
سلمی واپس سسرال پہنچی تو سردیاں شروع ہو چکیں تھیں، جہاں دن رات میں کئی مرتبہ بجلی چلی جاتی، ایندھن کے طور پر لکڑیاں جلائی جاتیں، جن کا دھواں بچے کو اور بیمار کر دیتا، اس پر مستزاد سسرال والے گھر کے کا م کاج میں اسے کوئی چھوٹ دینے کو تیارتھے نہ بچہ بہلانے کو۔ اسکی ساس بڑے کٹھور پن سے کہتیں: ’’اگر کوئی ہنستا کھیلتا بچہ ہو تو میں اٹھا بھی لوں، یہ تو ہر وقت روں روں ہی کرتا رہتا ہے ۔۔ ‘‘۔
نند تھوڑی دیر کے لئے اٹھا لیتی، لیکن وہ بھی جلد ہی تنگ آجاتی، اور اسے جھولے میں ڈال کر کہتی: ’’وکی تم ٹھیک ہو جاؤ نا، پھر دیکھنا میں تم سے کتنا کھیلوں گی ۔۔ ‘‘۔
اور وکی اس کی تسلیوں سے بے نیاز ہولے ہولے روتا ہی رہتا، یا اس کے گلے سے خرخراہٹ سنائی دیتی کہ خود سلمہ بھاگ کر اسے پکڑ لیتی اور سینے سے لگا لیتی، اس کا بچہ تو دنیا کا سب سے پیارا بچہ تھا، اتنی خوبصورت ترچھی آنکھیں، جو اتنی کمزوری اور بیماری میں بھی کتنی متاثر کن تھی، سلمہ پہروں اس کے چہرے کو دیکھتی، پھر ساس کی آواز پر وہ اسے گودمیں دبا کر گھر کے کام کاج میں لگ جاتی، اسے اٹھا کر جھاڑو دیتی، کھانا پکاتی، بس برتن اور کپڑے دھوتے وقت وہ اسے ٹھنڈ سے بچانے کے لئے کسی کی مدد کی طلب گار ہوتی، جو اسے بہت باتیں سنا کر ملتی، اگر یہ سب باتیں اس کی ذات کے لئے ہوتیں تو شاید وہ برداشت کر لیتی مگر وہ اپنے منے کے لئے محبت کے سوا کوئی کلمہ نہ سننا چاہتی تھی، گھر والوں کی بیزار نگاہیں اور چبھتے جملے اسے اندر تک زخمی کر دیتے، شام کو شوہر گھر لوٹتے تو وہ انکا بہترین وقت ہوتا، وہ دونوں اور منا، پہاڑوں میں رات سرِ شام ہی اتر آتی ہے وہ مغرب سے پہلے کھانا تیار کر لیتی، کھانا کھا کر کچھ دیر وہ گھر والوں کے ساتھ بیٹھتے، اور سلمہ حیران رہ جاتی جب ساس امی ہاتھ بڑھا کر وقاص کو اٹھانے کی خواہش کا اظہار کرتی، شاید یہی وقت اسکے دادی کی محبت پانے کا ہوتا، سلمہ خاموشی سے دن بھرکی باتیں پی کر بچہ انہیں دے دیتی۔
آزمائش انسان کو ہلا کر رکھ دیتی ہے، جیسے وہ ہر آن طوفانوں کی زد میں ہو، اور ایسے میں ایک تنکا بھی شہتیر جتنا بڑا سہارا بن جاتا ہے، یہی حال سلمہ کا تھا، اسے جہاں بھی کسی ماہر ڈاکٹر کا پتا چلتا وہ اسکے علاج کے لئے جا پہنچتی، کبھی ڈاکٹری علاج کو چھوڑ کر حکیم کا اور کبھی ہومیو پیتھک، اگر اسے کوئی ڈاؤن سینڈروم بچہ نظر آجاتا تو وہ بھاگ کر اسکی ماں کے پاس پہنچ جاتی، اور پھر اس کے سارے اندیشے سوالوں میں ڈھل جاتے، اور ان کے جوابوں سے امید کشید کرنے لگتی، اس نے ایک چھ سالہ ڈاؤ ن سینڈروم بچے کو چلتے دیکھا تو فوراً اسکی ماں کے پاس جا پہنچی اور اس کے بتانے پر کہ وہ چار سال میں چلنے لگاتھا، اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا کہ میرا منا بھی چلے گا، کیا ہوا چار سال میں چلنے لگے،اور کتنے دن وہ اسی سرشاری میں رہی۔
ان دنوں وہ راولپنڈی میں تھی جب وقاص پر نمونیے کا حملہ ہوا، اور وہ بالکل لاغر ہو گیا، اب تو اس سے رویا بھی نہ جاتا تھا، کھانسی بھی بہت تکلیف سے آتی، وہ کچھ بہتر ہوا تو وہ واپس سسرال چلی گئی، اور ابھی سردیاں ختم نہ ہوئیں تھیں کہ ایک رات منے کی طبیعت بہت خراب ہو گئی، وہ اسے لے کر ہسپتال بھاگے مگر اس نے والد کی گود میں دم توڑ دیا، سلمہ نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے شوہر کی طرف دیکھا جو انا ﷲ وانا الیہ راجعون کہہ کر الحمد ﷲ کہہ رہے تھے، اور اﷲ سے اس صبر پر جنت میں ’’بیت الحمد‘‘ کی دعا کر رہے تھے ۔۔
سلمہ کی گود خالی ہو گئی تھی، رشتہ دار عورتوں اور محلے کی خواتین نے اسے رلانا چاہا مگر وہ خاموش رہی، بس خاموشی سے اﷲ سے دعا مانگتی رہی، اسی عرصے میں اسے اپنے اندر کچھ تبدیلی کا احساس ہوا، ڈاکٹر نے خوش خبری سنائی اور اسے طاقت کی کچھ دوائیں دیں، چند ماہ بعد بچے کے نارمل ہونے سے متعلق ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کی۔
اس روز سلمہ ماہر گائناکالوجسٹ کے کلینک میں بیٹھی تھی، انتظار کا ایک ایک لمحہ گراں تھا، ایسے جیسے جان سولی پر ٹنگی ہو، ایک گھنٹے کے انتظار کے بعدباری آئی، ڈاکٹر نے ساری رپورٹس بہت توجہ سے دیکھیں، اور مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’بی بی آپ کی رپورٹس کے مطابق آپ کے فوت شدہ بچے کے مرض کا سبب آپ کے اندر تھا، اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ بچہ بھی ڈاؤن سینڈروم ہی ہو گا‘‘ کیونکہ یہ مرض ماں کی عمر سے متعلق ہے، تیس سال کی ماؤں میں ہزار میں سے کوئی ایک اس کا موجب بنتی ہے ۔ سلمہ کے لئے یہ خبر ایسی تھی جیسے اس پر غم کا پہاڑ ٹوٹ گرا ہو، اس کے بعد ڈاکٹر نے کیا کہا، اسکے کان گویا بہرے ہو چکے تھے، اس کے شوہر نے ڈاکٹر سے صحت کے تمام امکانات پر تفصیلی بات کی، ڈاکٹرنے صاف صاف بتا دیا کہ بچے کی صحت جانچنے کے لئے تین ادوار میںیعنی ہر ٹرائسمسٹر میں ٹیسٹ ہوگا، آخری ٹیسٹ میں بچے کے ڈاؤن سینڈروم ہونے کے بارے میں سکریننگ کے ذریعے معلوم ہو سکے گا، لیکن یہ ٹیسٹ ہے ذرا رسکی، بعض اوقات بچے کو ٹیسٹ سے نقصان پہنچتا ہے، ابھی تک اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا، ہاں والدین کی ذہنی تیاری ہو جاتی ہے، ڈاکٹر اور بھی نجانے کیا کہہ رہی تھی، سلمہ کو کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔
ڈاکٹر کی باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ چند ماہ ماہ بعد ایک ٹیسٹ کروا لیا جائے جو بچے کی صحت کا تفصیلی ٹیسٹ ہے، اور اگر بچہ نارمل نہیں ہے تو ماں بچے کو مزید تکلیف میں ڈالنے کے بجائے ابارٹ کر دیا جائے۔
چند دن انتہائی پریشانی میں گزارنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس بارے میں ہم کسی عالمِ دین سے رائے لے لیتے ہیں، انہوں نے جن عالم سے رائے لی انہوں نے ساری بات سننے کے بعدایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا:
۔ ’’آپ کی ساری بات سن کر مجھے بہت دکھ ہوا ہے، خاص طور پر آپ نے اپنے ننھے منے بچے کی تکلیف کا جس طرح ذکر کیا ہے اس سے میرا دل پسیج گیا ہے اور میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ بحیثیت ماں باپ آپ کو کس قدر تکلیف پہنچی ہو گی، خاتون نے بتایا کہ دس ماہ تک آپ کا پہلا بچہ زندہ رہا اور اس نے ایک دن بھی مکمل صحت کے ساتھ نہیں گزارا، اور یہ مامتا کی ماری اسے گود میں اٹھا کر گھر کے کام کاج بھی کرتی رہی، اور اس کی دیکھ بھال بھی، اور اب نئے آنے والے بچے سے متعلق آپ کی تشویش اور پریشانی بجا ہے، اور اﷲ اپنے بندے کا کب تک امتحان لے گا اور کب اسے امتحان سے نکال لے گا، اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘۔
کیا ڈاکٹرز کی رائے کے بعد بھی میری آزمائش ختم ہو سکتی ہے؟ سلمہ نے حیرت سے پوچھا تھا۔
۔ ’’جی بالکل میری بہن، اﷲ جب کسی پر رحم کرنا چاہے تو وہ کسی کا محتاج نہیں ہے، اور اﷲ کا دامنِ رحمت بہت وسیع ہے ۔۔ ‘‘۔
مولانا صاحب کہنے لگے:
۔ ’’مجھے ان دنوں کی تکلیف کا بھی احساس ہے جو آپ نے برداشت کی، دس مہینے تک بچے کا مسلسل تکلیف میں رہنا اعصاب تھکا دیتا ہے، لیکن پھر بھی یہ دن مکمل مایوسی کے نہیں ہوں گے، آپ اس بچے کو دیکھ کر مسکرائے ہوں گے، خوش ہوئے ہوں گے، اسکی خاطر دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے ہوں گے، رب سے کچھ مانگا ہو گا، اس لئے یہ مت سوچئے کہ سب کچھ ضائع ہو گیا، وہ دعائیں جو اس وقت اس صورت میں قبول نہیں ہوئیں وہ زندگی میں کسی اور مقام پر قبولیت پائیں گی، یا جنت کا توشہ بن جائیں گی ۔۔ ‘‘۔
وہ ذرا دیر کو رکے اور پھر کہنے لگے:
۔ ’’میری بہن، یہ بھی یاد رکھئے کہ اگر یہ بچہ آپ کی زندگی میں نہ آتا، تو یہ اجر بھی نہ ملتا، یہ تو آپ کا جنت کا سفارشی ہے ۔۔ ‘‘۔
اور جب وہ مولانا صاحب کے مکتب سے نکلے سلمہ ایک فیصلہ کر چکی تھی کہ اب ڈاکٹروں اور لیبارٹریوں کے چکر لگا کر اس مستقبل میں جھانکنے کی کوشش نہیں کریگی ، وہ صحت مند ہے یا ڈاؤن سینڈروم وہ اپنے ہاتھوں اسکی زندگی کا خاتمہ نہیں کرے گی۔
رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں اس نے قرآن سمجھنے کے لئے ایک کلاس جائن کر لی، اور سحر کی گھڑیوں میں رب کو بڑے الحاح سے پکارا، وہ رب جو رات کی آخری گھڑیوں میں ساتویں آسمان پر آتا ہے اور پکارنے والے کی پکار سنتا ہے، اور جواب دیتا ہے، وہ جس کے خزانے بھرے ہوئے ہیں، اور سب کی حاجات پوری کرنے کے بعد بھی ان خزانوں میں کمی واقع نہیں ہوتی۔
وہ زیادہ تر وقت خاموش رہتی، گھر کے کام کاج میں مگن رہتی، اسے لگتا جیسے اسکے وجود میں ان کمزور دنوں میں بھی طاقت بڑھ رہی ہے، رمضان کے بعد بھی اس نے رب سے جڑے اس تعلق کو کمزور نہ پڑنے دیا، وقاص کی یاد کے ساتھ ہی اسے مولانا صاحب کے بتائے ہوئے انعامات یاد آجاتے، رات گہری ہوتی تو وہ دونوں مل کر اﷲ کے حضور جھک جاتے۔
اس نے شہرکے ایک کلینک میں رجسٹریشن کروالی، اور باقاعدہ چیک اپ کرواتی رہی۔
نرس نے اسے بیٹے کی خوشخبری سنائی تو اس نے اﷲ کا شکر ادا کیا، وہ ہسپتال سے ملحق مسجد میں بھاگا اور سب سے پہلے شکرانے کے نفل ادا کئے، سپیشلسٹ ڈاکٹر نے تفصیلی معائنے کے بعد اسے بچے کی صحتیابی اور نارمل ہونے کی خبر سنائی، اس نے سلمہ کے چہرے کی جانب دیکھا، اس کا چہرہ قبولیتِ دعا کی خوشی سے چمک رہا تھا، انہیں اور کیا چاہئے تھا، اﷲ نے مضطرب دلوں کی پکار سن لی تھی، اور انکی تکلیف کا مداوا کر دیا تھا، اس نے بچے کو گود میں لے کر اسکے کان میں اذان دی، اور اسکا نام اسماعیل رکھا، ایک مماثلت تو تھی دونوں میں، اﷲ تعالی نے پہلے کو دنبہ بھیج کر قربان ہونے سے بچا لیا تھا، اور دوسرے کے ماں باپ کے دل میں توکل کی شمع روشن کر کے اسے ابارٹ ہونے سے بچا لیا تھا ۔۔
***
اہم بلاگز
رنگت کا شور
خوب صورتی محض سفیدی میں نہیں اورحسن کا معیار گوری رنگت نہیں ۔ اس زندگی میں کچھ کردار ایسے ہیں جو چلتے پھرتے کہانی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہر انسان کی زندگی میں قدرت نے ایک مثبت پہلو رکھا ہوتا ہے ۔ سارہ بھی ایسا ہی ایک کردار ہے جسے پانچ برس کی عمر میں اس کے والدین آنکھوں میں مثبت خواب سجائے اسے مکتب میں بھیجتے ہیں کہ ایک روز سارہ پڑھ لکھ کر اس قوم کی خدمت کرے گی ۔ سارہ کو بدقسمتی سے بچپن ہی سے معاشرے سے وہ پیار نہ ملا جس کی وہ حق دار تھی ۔ پڑوس کے بچے اور بزرگ سب ایسے کالی کالی کہہ کر مخاطب کرتے مگر سارہ نے کبھی ماتھے پر شکن تک نہ لائی۔ سارہ کے والدین ان باتوں سے اکثر افسردہ ہوتے تھے آخر وہ کس کس کو اور کیا کیا کہہ کر سمجھاتے ۔
وقت گزرتا گیا سارہ کا مکتب میں پہلا دن اتنا بھی شان دار نہ رہا جتنی اس کو مسرت تھی ۔ مکتب کے بچے بھی اس کو کالی کلوٹی کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے ۔ سارہ سب کو بھائی اور بہن کہہ کر مخاطب کرتی لیکن کوئی اس کے ساتھ بیٹھنا تک گوارا نہ کرتا ۔ وقت گزرتا گیا سارہ نے کتابوں کو اپنا دوست بنایا ۔ ہر سال جماعت میں اول آتی رہی ۔ جماعت ہشتم میں اب زیر تعلیم تھی لیکن اس کے چہرے کی رنگت اب بھی ایک مسئلہ تھا لیکن ہر جماعت میں ایک کردار ایسا بھی تھا جس نے سارہ کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا اور وہ کردار اس کی معلمات کا تھا ۔ استاد کبھی بھی بچوں کو اس کی رنگت کی وجہ سے اس سے نفرت یا محبت نہیں کرتے ۔ ایک حقیقی استاد وہی ہوتا ہے جو بچوں میں محبت کو پروان چڑھاتا اور انھیں بلند حوصلہ فراہم کرتا ہے ۔
میڈم شمیم اپنے ادارے میں ایک قابل معلمہ کے طور پر پہچانی جاتی تھی ۔ ایک روز انہیں کلاس میں پہنچنے میں تاخیر ہوئی تو دیکھا سب بچے قہقہ لگا رہے ہیں اور وہیں ایک بچی ایسی بھی بھی ہے جو اداس بیٹھی ہے ۔ میم شمیم نے بچوں کو مخاطب کیا اور پوچھا : ” بچو ! کیا تم جانتے ہو اچھے بچے کیسے ہوتے ہیں ؟ “ جماعت سے یکے بعد دیگرے مختلف آوازیں آنے لگی : صاف ستھرے ، اچھا بولنے والے ، اچھا پڑھنے والے ، بڑوں کی بات ماننے والے ۔۔۔۔ میم شمیم نے سوال تبدیل کیا کہ برے بچے کیسے ہوتے ہیں ؟ تو جماعت کے کچھ بچے سارہ کی جانب دیکھ کر ہنسنے لگے اور کہیں سے آواز بلند ہوئی سارہ کی طرح کالے کلوٹے ۔۔۔کلاس میں بلند قہقہ لگا ۔ میم شمیم نے سب کو غصے سے مخاطب کرتے ہوئے کہا ! بچو ! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ پاک کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ ہم اس کے تخلیق کردہ انسان کی تذلیل کریں ؟ اس کو برا بھلا کہیں، کیا ہم سب ایک جسم کی مانند نہیں...
محمد علی جناح قائد اعظم کیسے بنے؟
1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کا ہندوستان میں اقتدار مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا اس لیے انہوں نے بغاوت کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی اور انہیں ہر طرح سے دبانے اور کمزور کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے انڈیا میں اپنی تجارت اور مصنوعات کو فروخت دینے کے لیے مسلمان ہنر مندوں کو گھر بٹھا دیا انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا مسلمانوں کی زبان کو متروک کرکے انگریزی زبان کو فروغ دیا گیا فارسی زبان پڑھنے والوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے یہاں تک کہ مثل مشہور ہو گئی کہ "پڑھو فارسی بیچو تیل" ۔ مسلمان پسماندہ سے پسماندہ ہوتے چلے گئے۔
ہندوؤں نےان حالات کا فائدہ اٹھایا انہوں نے انگریزی زبان سیکھ کر انگریزوں کا قرب حاصل کیا اور اپنی اس حکمت عملی کے ذریعے حکومت میں اثر و رسوخ حاصل کر لیا۔
ہندو تعداد میں مسلمانوں سے زیادہ تھے اس بنا پر وہ جان گئے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اقتدار ان کے ہاتھ آسکتا ہے انہوں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کر دیا۔
مسلمان بھی انگریزوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر "ہندوستان چھوڑ دو" تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہندو مسلم اتحاد میں جو مسلمان رہنما شامل تھے ان میں ایک نمایاں نام محمد علی جناح کا تھا جو پیشے کے اعتبار سے قانون دان تھے۔ ان کا شمار ہندوستان کے بڑے وکیلوں میں ہوتا تھا وہ ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی تھے اور ہندوستان کے عوام کے سیاسی حقوق کے علمبردار تھے مگر جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ہندو رہنماؤں کا مقصد صرف ہندو اقتدار کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ انہیں مسلمانوں کے حقوق سے کوئی سروکار نہیں چنانچہ انہوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے جو مسلمانوں کی سیاسی جماعت تھی اور ان کے سیاسی حقوق کے لیے کوشاں تھی۔
محمد علی جناح اور دیگر مسلمان زعماء یہ جان چکے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ایک علیحدہ اسلامی ریاست قائم کی جائے جہاں وہ دین اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں کیونکہ ہندو اور مسلمان دو بالکل علیحدہ قومیں ہیں جن کے افکار، نظریات، دین، مذہب اور رہن سہن کے طور طریقے اس قدر مختلف ہیں کہ یہ آپس میں مل جل کر نہیں رہ سکتے۔ اس دو قومی نظریے کی بنیاد پر محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کا آغاز کیا آپ نے تحریک پاکستان کے لیے دن رات ایک کر دیے۔
محمد علی جناح ایک با اصول بے باک اور مخلص سیاستدان تھے۔ آپ نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ دوست دشمن بھی مخالفت کے باوجود آپ کی بات ماننے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ محمد علی جناح نے اپنی و لولہ انگیز قیادت کی بدولت بکھری ہوئی مسلمان قوم کو اسلام کے...
گواہی
السلام علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ؟ مارتھا جوش سے ہاتھ ہلاتی ہوئی فریحہ کے گلے لگ گئی ۔
فریحہ نے جواباً اسے وعلیکم کہا اور دعا دی " اللہ سبحان تعالی تم سے راضی ہوں ہدایت عطا فرمائیں دونوں جہانوں کی فلاح عطا فرمائیں آمین "
فریحہ کی دعائیں سن کر مارتھا خوشی سے گویا ہوئی' اوہ آنٹی آپ نے تو میرا دن بنا دیا لو یو آنٹی ، آپ سے دعائیں ملتی ہیں تو لگتا ہے جیسے ممی دعا دے رہی ہوں ۔ فریحہ نے مسکراتے ہوئے محبت سے کہا مائیں تو اپنی اولادوں کے لئے دعا کو ہی سب سے قیمتی تحفہ سمجھتی ہیں بیٹی ۔ اچھا بتاو یہ امایہ کہاں ہے ابھی تک کلاس سے باہر نہیں نکلی ؟ ہی ہی ہی ہی ہی آنٹی آپ جانتی ہیں نا اپنی بیٹی کو مارتھا نے ہنستے ہوئے مزید کہا ' جب تک پیپر کا وقت ختم نہ ہوجائے وہ اسے ری چیک کر کر کے خود کو تھکاتی رہے گی ۔ مارتھا کی بات سن کر فریحہ بھی مسکرا دیں اور بولیں، ہاں یہ اس کی بچپن سے عادت ہے کبھی اپنے پیپرز سے مطمئن نہیں ہوتی ۔
ابھی بات یہاں تک ہی پہنچی تھی کہ امایہ دور سے آتی نظر آئی.
اماں کو اپنی بہترین دوست کے ساتھ گپ شپ کرتے دیکھ مسکرا دی ، وہ جانتی تھی کہ مارتھا اس کی اماں سے بہت محبت کرتی ہے اور بہت عزت بھی کرتی ہے ' وجہ تھی امایہ کی والدہ کا مارتھا کے ساتھ انتہائی مشفقانہ اور مخلصانہ رویہ ۔
وہ مارتھا کے کہے بغیر اس کے لئے امتحانات میں کامیابی کی دعا کرتیں ' اسے پڑھائی میں مدد دیتیں امایہ کو مارتھا کے ساتھ بہت اچھا ' عزت کا سلوک کرنے کا کہتیں نہ مارتھا کو اپنے گھر آنے سے روکتیں بلکہ امایہ کو مارتھا کے گھر خود ملوانے لے کر جاتیں ۔ ان سب باتوں کی وجہ سے مارتھا اور اس کے والدین فریحہ سے بہت عزت سے ملتے ۔
فریحہ کا سلوک مارتھا سے بالکل امایہ کی طرح کا ہوتا زمانے کی اونچ نیچ ' حالات کی خرابی سے ہر دم خبردار کرتی رہتیں 'اکیلے باہر گھومنے، جسم کو شو آف کرتا لباس پہننے سے منع کرتیں اور وہ بھی ایسے دلائل کے ساتھ کہ مارتھا من و عن ان کی بات پر عمل پیرا ہوتی ۔ لیکن اتنی محبت ' عقیدت کے باوجود ایک بات جو مارتھا کو بہت کھٹکتی تھی وہ اس نے اپنی ممی سے بھی شیئر نہ کی تھی ۔ اور وہ یہ تھی کہ فریحہ کبھی بھی عیدین کی دعوت میں مارتھا کو شریک نہ کرتیں کبھی امایہ کو کرسمس ' ایسٹر یا گڈ فرائڈے میں نہ آنے دیا نہ مبارکباد دینے دی بلکہ اگر مارتھا عیدین کی مبارکباد دیتی تو آنٹی اور امایہ مسکرا کر رہ جاتیں شکریہ تک نہ بولتیں جو کہ مارتھا کے لئے حیرت کا باعث تھا ہی ساتھ ہی تکلیف دہ بھی ہوتا ۔
اب پھر کرسمس قریب تھا اور مارتھا نے سوچ رکھا تھا کہ کالج کے اس آخری سال کو یادگار بنانے کے لئے وہ لازمی امایہ کو...
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...