کئی مہینوں بعد سب سہیلیاں ون ڈش پارٹی میں جمع تھیں، وہ سب ایک کالج سے فارغ ہوئی تھیں، کالج میں انکاگروپ سب سے بڑا تھا، وہ خوب ہلا گلا کرتیں، اور مہینے میں ایک مرتبہ پیسے جمع کر کے بریک میں ہلکی پھلکی پارٹی بھی کر لیتیں، کالج کے چار سال پلک جھپکتے گزر گئے تھے، الوداعی پارٹی کے دن سب سہیلیوں نے طے کیا تھا کہ وہ سب ہر مہینے ایک بار ضرور اکٹھی ہوں گی، فرزانہ، شمیم، زبیدہ نے ون ڈش پارٹی کے لئے اپنے گھر پیش کر دیے، وہ سب بہت خوش تھیں لیکن کچھ عرصے میں ہی اندازہ ہو گیا کہ ہر روز کالج میں ملاقات بہت آسان تھی، اور ہر ماہ کی پارٹی میں شرکت کبھی کسی کے لئے مشکل ہو جاتی اور کبھی کسی کے لئے، اب زیادہ تر ملاقاتیں خوشی غمی کے مواقع پر یا کبھی بازار میں اچانک ہو جاتیں،اور آج کافی عرصے کی کوشش اور وعدے وعید کے بعد زبیدہ نے سب کو اپنے گھر مدعو کیا تھا۔ اس دوران عطیہ ، فریدہ اور سلمہ کی شادیاں ہو چکی تھیں، فرزانہ کی منگنی ہو گئی تھیں اور شمیم اور زبیدہ نے یونیورسٹی سے ماسٹرز کر لیا تھا۔
سب سہیلیاں اکٹھی تو ہو گئی تھیں، مگر پہلے جیسا ہلہ گلہ نہ تھا، زندگی میں آنے والی تبدیلیوں نے سب پر ہی مختلف اثرات مرتب کئے تھے، عطیہ کی صحت بہتر ہو گئی تھی، سانولہ رنگ اب مزید نکھر گیا تھا، فرید ہ کی ڈریس ڈیزائننگ اور ہیئر سٹائل بدل گئے تھے، اسکی گفتگو بار بار اسکے متمول خاندان کی جانب مڑ جاتی، جبکہ سلمہ کچھ کھوئی کھوئی سی تھی، کمبل میں لپٹا بیٹا اس کی مستقل توجہ کا مرکز تھا، کبھی وہ کھانسنے لگتا، کبھی دودھ الٹ دیتا، وہ ان سب کی باتوں میں برائے نام ہی شامل تھی، یوں بھی وہ پارٹی میں آنا نہ چاہتی تھی، زبیدہ نے اسے بڑے اصرار سے بلایا تھا۔
سلمہ کی شادی آزاد کشمیر کے دور افتادہ گاؤں میں ہوئی تھی، اسکے سسرالی رشتہ دار تو نہ تھے بس والد کی برادری سے تھے، راولپنڈی میں پلی بڑھی سلمہ کو بہت ارمانوں سے بیاہ کر سسرال لے جایا گیا، اسکے شوہر بہت اچھے انسان تھے، بہت خیال رکھنے والے، شروع میں تو سب نے ہی بہت آؤ بھگت کی مگر آہستہ آہستہ اس پر سارے گھر کا بار ڈال دیا گیا، گاؤں کی مشکل زندگی کا اسے کچھ تجربہ نہ تھا مگر گھر کے سکھ کی خاطر اس لئے اس نے ساری نزاکتوں بالائے طاق رکھ کر حالات سے سمجھوتا کر لیا۔ بیٹے کی پیدائش اسکے میکے میں ہوئی، جو ابتداء ہی سے کم وزن تھا، پھر پے در پے تکلیفیں، کبھی پیٹ میں درد کبھی کان اور گلا خراب، اور دورانِ علاج ہی مختلف ٹیسٹ کے رزلٹ میں معلوم ہوا کہ بچہ ڈاؤن سینڈروم ہے۔ سلمہ اور اسکے شوہر پر یہ خبر بجلی بن کر گری، بچہ پیدائشی طور پر ایسی بیماری کا شکار تھا جس سے صحت یابی کی اﷲ سے امید تو تھی مگر میڈیکل سائنس کافی مایوس تھی۔
ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق ہر بچے میں ابتدائی طور پر چھیالیس کرومو سومز ہوتے ہیں جو وہ یکساں طور پر والدین سے حاصل کرتا ہے، لیکن ڈاؤن سینڈروم بچے میں ایک اضافی کروموسوم ہوتا ہے جو اسکی جسمانی اور ذہنی نشو نما میں تاخیر کا سبب بنتا ہے، اور اس کے جسمانی خدو خال کو بھی متاثر کرتا ہے۔ یہ بچہ سوچ اور عمل دونوں طرح عام بچوں سے کافی پیچھے ہوتا ہے۔
اس دن بھی وہ اپنی ممانی کے ہاں آئی تھی ، اور چھ ماہ کے بچے کو گود میں اٹھائے دنیا و ما فیہا سے بے خبر بیٹھی تھی، وہ یہاں آ کر بھی ذہنی طور پر موجود نہ تھی، بات کرتے کرتے وہ خلاؤں میں دیکھنے لگتی، ممانی کے گھر انکی کزن آئی ہوئیں تھیں، جو بچوں کی ماہرڈاکٹر تھیں، وہ سلمہ سے ملیں ، بچے کو اچھی طرح دیکھا اور اس کی بیماری کے حوالے سے کئی مفید ٹپس دیں۔ انہوں نے بتایا کہ توجہ اور لگن سے ایسے بچے معاشرے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن ارد گرد کے لوگوں کی محبت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
سلمی واپس سسرال پہنچی تو سردیاں شروع ہو چکیں تھیں، جہاں دن رات میں کئی مرتبہ بجلی چلی جاتی، ایندھن کے طور پر لکڑیاں جلائی جاتیں، جن کا دھواں بچے کو اور بیمار کر دیتا، اس پر مستزاد سسرال والے گھر کے کا م کاج میں اسے کوئی چھوٹ دینے کو تیارتھے نہ بچہ بہلانے کو۔ اسکی ساس بڑے کٹھور پن سے کہتیں: ’’اگر کوئی ہنستا کھیلتا بچہ ہو تو میں اٹھا بھی لوں، یہ تو ہر وقت روں روں ہی کرتا رہتا ہے ۔۔ ‘‘۔
نند تھوڑی دیر کے لئے اٹھا لیتی، لیکن وہ بھی جلد ہی تنگ آجاتی، اور اسے جھولے میں ڈال کر کہتی: ’’وکی تم ٹھیک ہو جاؤ نا، پھر دیکھنا میں تم سے کتنا کھیلوں گی ۔۔ ‘‘۔
اور وکی اس کی تسلیوں سے بے نیاز ہولے ہولے روتا ہی رہتا، یا اس کے گلے سے خرخراہٹ سنائی دیتی کہ خود سلمہ بھاگ کر اسے پکڑ لیتی اور سینے سے لگا لیتی، اس کا بچہ تو دنیا کا سب سے پیارا بچہ تھا، اتنی خوبصورت ترچھی آنکھیں، جو اتنی کمزوری اور بیماری میں بھی کتنی متاثر کن تھی، سلمہ پہروں اس کے چہرے کو دیکھتی، پھر ساس کی آواز پر وہ اسے گودمیں دبا کر گھر کے کام کاج میں لگ جاتی، اسے اٹھا کر جھاڑو دیتی، کھانا پکاتی، بس برتن اور کپڑے دھوتے وقت وہ اسے ٹھنڈ سے بچانے کے لئے کسی کی مدد کی طلب گار ہوتی، جو اسے بہت باتیں سنا کر ملتی، اگر یہ سب باتیں اس کی ذات کے لئے ہوتیں تو شاید وہ برداشت کر لیتی مگر وہ اپنے منے کے لئے محبت کے سوا کوئی کلمہ نہ سننا چاہتی تھی، گھر والوں کی بیزار نگاہیں اور چبھتے جملے اسے اندر تک زخمی کر دیتے، شام کو شوہر گھر لوٹتے تو وہ انکا بہترین وقت ہوتا، وہ دونوں اور منا، پہاڑوں میں رات سرِ شام ہی اتر آتی ہے وہ مغرب سے پہلے کھانا تیار کر لیتی، کھانا کھا کر کچھ دیر وہ گھر والوں کے ساتھ بیٹھتے، اور سلمہ حیران رہ جاتی جب ساس امی ہاتھ بڑھا کر وقاص کو اٹھانے کی خواہش کا اظہار کرتی، شاید یہی وقت اسکے دادی کی محبت پانے کا ہوتا، سلمہ خاموشی سے دن بھرکی باتیں پی کر بچہ انہیں دے دیتی۔
آزمائش انسان کو ہلا کر رکھ دیتی ہے، جیسے وہ ہر آن طوفانوں کی زد میں ہو، اور ایسے میں ایک تنکا بھی شہتیر جتنا بڑا سہارا بن جاتا ہے، یہی حال سلمہ کا تھا، اسے جہاں بھی کسی ماہر ڈاکٹر کا پتا چلتا وہ اسکے علاج کے لئے جا پہنچتی، کبھی ڈاکٹری علاج کو چھوڑ کر حکیم کا اور کبھی ہومیو پیتھک، اگر اسے کوئی ڈاؤن سینڈروم بچہ نظر آجاتا تو وہ بھاگ کر اسکی ماں کے پاس پہنچ جاتی، اور پھر اس کے سارے اندیشے سوالوں میں ڈھل جاتے، اور ان کے جوابوں سے امید کشید کرنے لگتی، اس نے ایک چھ سالہ ڈاؤ ن سینڈروم بچے کو چلتے دیکھا تو فوراً اسکی ماں کے پاس جا پہنچی اور اس کے بتانے پر کہ وہ چار سال میں چلنے لگاتھا، اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا کہ میرا منا بھی چلے گا، کیا ہوا چار سال میں چلنے لگے،اور کتنے دن وہ اسی سرشاری میں رہی۔
ان دنوں وہ راولپنڈی میں تھی جب وقاص پر نمونیے کا حملہ ہوا، اور وہ بالکل لاغر ہو گیا، اب تو اس سے رویا بھی نہ جاتا تھا، کھانسی بھی بہت تکلیف سے آتی، وہ کچھ بہتر ہوا تو وہ واپس سسرال چلی گئی، اور ابھی سردیاں ختم نہ ہوئیں تھیں کہ ایک رات منے کی طبیعت بہت خراب ہو گئی، وہ اسے لے کر ہسپتال بھاگے مگر اس نے والد کی گود میں دم توڑ دیا، سلمہ نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے شوہر کی طرف دیکھا جو انا ﷲ وانا الیہ راجعون کہہ کر الحمد ﷲ کہہ رہے تھے، اور اﷲ سے اس صبر پر جنت میں ’’بیت الحمد‘‘ کی دعا کر رہے تھے ۔۔
سلمہ کی گود خالی ہو گئی تھی، رشتہ دار عورتوں اور محلے کی خواتین نے اسے رلانا چاہا مگر وہ خاموش رہی، بس خاموشی سے اﷲ سے دعا مانگتی رہی، اسی عرصے میں اسے اپنے اندر کچھ تبدیلی کا احساس ہوا، ڈاکٹر نے خوش خبری سنائی اور اسے طاقت کی کچھ دوائیں دیں، چند ماہ بعد بچے کے نارمل ہونے سے متعلق ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کی۔
اس روز سلمہ ماہر گائناکالوجسٹ کے کلینک میں بیٹھی تھی، انتظار کا ایک ایک لمحہ گراں تھا، ایسے جیسے جان سولی پر ٹنگی ہو، ایک گھنٹے کے انتظار کے بعدباری آئی، ڈاکٹر نے ساری رپورٹس بہت توجہ سے دیکھیں، اور مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’بی بی آپ کی رپورٹس کے مطابق آپ کے فوت شدہ بچے کے مرض کا سبب آپ کے اندر تھا، اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ بچہ بھی ڈاؤن سینڈروم ہی ہو گا‘‘ کیونکہ یہ مرض ماں کی عمر سے متعلق ہے، تیس سال کی ماؤں میں ہزار میں سے کوئی ایک اس کا موجب بنتی ہے ۔ سلمہ کے لئے یہ خبر ایسی تھی جیسے اس پر غم کا پہاڑ ٹوٹ گرا ہو، اس کے بعد ڈاکٹر نے کیا کہا، اسکے کان گویا بہرے ہو چکے تھے، اس کے شوہر نے ڈاکٹر سے صحت کے تمام امکانات پر تفصیلی بات کی، ڈاکٹرنے صاف صاف بتا دیا کہ بچے کی صحت جانچنے کے لئے تین ادوار میںیعنی ہر ٹرائسمسٹر میں ٹیسٹ ہوگا، آخری ٹیسٹ میں بچے کے ڈاؤن سینڈروم ہونے کے بارے میں سکریننگ کے ذریعے معلوم ہو سکے گا، لیکن یہ ٹیسٹ ہے ذرا رسکی، بعض اوقات بچے کو ٹیسٹ سے نقصان پہنچتا ہے، ابھی تک اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا، ہاں والدین کی ذہنی تیاری ہو جاتی ہے، ڈاکٹر اور بھی نجانے کیا کہہ رہی تھی، سلمہ کو کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔
ڈاکٹر کی باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ چند ماہ ماہ بعد ایک ٹیسٹ کروا لیا جائے جو بچے کی صحت کا تفصیلی ٹیسٹ ہے، اور اگر بچہ نارمل نہیں ہے تو ماں بچے کو مزید تکلیف میں ڈالنے کے بجائے ابارٹ کر دیا جائے۔
چند دن انتہائی پریشانی میں گزارنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس بارے میں ہم کسی عالمِ دین سے رائے لے لیتے ہیں، انہوں نے جن عالم سے رائے لی انہوں نے ساری بات سننے کے بعدایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا:
۔ ’’آپ کی ساری بات سن کر مجھے بہت دکھ ہوا ہے، خاص طور پر آپ نے اپنے ننھے منے بچے کی تکلیف کا جس طرح ذکر کیا ہے اس سے میرا دل پسیج گیا ہے اور میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ بحیثیت ماں باپ آپ کو کس قدر تکلیف پہنچی ہو گی، خاتون نے بتایا کہ دس ماہ تک آپ کا پہلا بچہ زندہ رہا اور اس نے ایک دن بھی مکمل صحت کے ساتھ نہیں گزارا، اور یہ مامتا کی ماری اسے گود میں اٹھا کر گھر کے کام کاج بھی کرتی رہی، اور اس کی دیکھ بھال بھی، اور اب نئے آنے والے بچے سے متعلق آپ کی تشویش اور پریشانی بجا ہے، اور اﷲ اپنے بندے کا کب تک امتحان لے گا اور کب اسے امتحان سے نکال لے گا، اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘۔
کیا ڈاکٹرز کی رائے کے بعد بھی میری آزمائش ختم ہو سکتی ہے؟ سلمہ نے حیرت سے پوچھا تھا۔
۔ ’’جی بالکل میری بہن، اﷲ جب کسی پر رحم کرنا چاہے تو وہ کسی کا محتاج نہیں ہے، اور اﷲ کا دامنِ رحمت بہت وسیع ہے ۔۔ ‘‘۔
مولانا صاحب کہنے لگے:
۔ ’’مجھے ان دنوں کی تکلیف کا بھی احساس ہے جو آپ نے برداشت کی، دس مہینے تک بچے کا مسلسل تکلیف میں رہنا اعصاب تھکا دیتا ہے، لیکن پھر بھی یہ دن مکمل مایوسی کے نہیں ہوں گے، آپ اس بچے کو دیکھ کر مسکرائے ہوں گے، خوش ہوئے ہوں گے، اسکی خاطر دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے ہوں گے، رب سے کچھ مانگا ہو گا، اس لئے یہ مت سوچئے کہ سب کچھ ضائع ہو گیا، وہ دعائیں جو اس وقت اس صورت میں قبول نہیں ہوئیں وہ زندگی میں کسی اور مقام پر قبولیت پائیں گی، یا جنت کا توشہ بن جائیں گی ۔۔ ‘‘۔
وہ ذرا دیر کو رکے اور پھر کہنے لگے:
۔ ’’میری بہن، یہ بھی یاد رکھئے کہ اگر یہ بچہ آپ کی زندگی میں نہ آتا، تو یہ اجر بھی نہ ملتا، یہ تو آپ کا جنت کا سفارشی ہے ۔۔ ‘‘۔
اور جب وہ مولانا صاحب کے مکتب سے نکلے سلمہ ایک فیصلہ کر چکی تھی کہ اب ڈاکٹروں اور لیبارٹریوں کے چکر لگا کر اس مستقبل میں جھانکنے کی کوشش نہیں کریگی ، وہ صحت مند ہے یا ڈاؤن سینڈروم وہ اپنے ہاتھوں اسکی زندگی کا خاتمہ نہیں کرے گی۔
رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں اس نے قرآن سمجھنے کے لئے ایک کلاس جائن کر لی، اور سحر کی گھڑیوں میں رب کو بڑے الحاح سے پکارا، وہ رب جو رات کی آخری گھڑیوں میں ساتویں آسمان پر آتا ہے اور پکارنے والے کی پکار سنتا ہے، اور جواب دیتا ہے، وہ جس کے خزانے بھرے ہوئے ہیں، اور سب کی حاجات پوری کرنے کے بعد بھی ان خزانوں میں کمی واقع نہیں ہوتی۔
وہ زیادہ تر وقت خاموش رہتی، گھر کے کام کاج میں مگن رہتی، اسے لگتا جیسے اسکے وجود میں ان کمزور دنوں میں بھی طاقت بڑھ رہی ہے، رمضان کے بعد بھی اس نے رب سے جڑے اس تعلق کو کمزور نہ پڑنے دیا، وقاص کی یاد کے ساتھ ہی اسے مولانا صاحب کے بتائے ہوئے انعامات یاد آجاتے، رات گہری ہوتی تو وہ دونوں مل کر اﷲ کے حضور جھک جاتے۔
اس نے شہرکے ایک کلینک میں رجسٹریشن کروالی، اور باقاعدہ چیک اپ کرواتی رہی۔
نرس نے اسے بیٹے کی خوشخبری سنائی تو اس نے اﷲ کا شکر ادا کیا، وہ ہسپتال سے ملحق مسجد میں بھاگا اور سب سے پہلے شکرانے کے نفل ادا کئے، سپیشلسٹ ڈاکٹر نے تفصیلی معائنے کے بعد اسے بچے کی صحتیابی اور نارمل ہونے کی خبر سنائی، اس نے سلمہ کے چہرے کی جانب دیکھا، اس کا چہرہ قبولیتِ دعا کی خوشی سے چمک رہا تھا، انہیں اور کیا چاہئے تھا، اﷲ نے مضطرب دلوں کی پکار سن لی تھی، اور انکی تکلیف کا مداوا کر دیا تھا، اس نے بچے کو گود میں لے کر اسکے کان میں اذان دی، اور اسکا نام اسماعیل رکھا، ایک مماثلت تو تھی دونوں میں، اﷲ تعالی نے پہلے کو دنبہ بھیج کر قربان ہونے سے بچا لیا تھا، اور دوسرے کے ماں باپ کے دل میں توکل کی شمع روشن کر کے اسے ابارٹ ہونے سے بچا لیا تھا ۔۔
***
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔