حضرت علی ؑ کا قول ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی معرفت بھی حاصل کر لی’مَن عَرفَ نفسہ عرف رَبًہ ‘۔ اور خود کو پہچاننے کا بہترین ذریعہ قرآن ہے جس کے لیے سرورِ کونین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے‘‘ ۔اور قرآن کا دعویٰ ہے کہ اِس میں ہر رَطب و یابس ،ہر خشک و تر یعنی انسان، دنیا اور کائنات کا ہر راز اور انسان کی ضرورت کی ہر چیز موجود ہے ۔وہ شفا بھی ہے اور رحمت بھی ۔جس میں سے ہر کوئی اپنا حصہ بہ شرط ِسوال ،بہ شرط ِطلب ِِصادق اور بقدرِ ظرف، لے سکتا ہے۔ لیکن، قرآن سے کامل اِستفادہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم اُس زبان سے بھی واقف ہوں جس میں قرآن نازل ہوا ہے ۔جو لوگ صرف ترجمے پر اکتفا کرتے ہیں اُن کے لیے قرآن کی روح اور قرآن کے مغز کو پانا ممکن نہیں ۔
’’اَنڈَر اِسٹینڈ قرآن اکیڈمی‘‘ اپنی ویب سائٹ www.understandquran.co.inکے ذریعے ،بہ توفیق الٰہی انیس سو اٹھانوے سے اِسی کام میں مصروف ہے۔اس کا مقصد یہ ہےکہ عام مسلمان قرآن کے بنیادی پیغام کو سمجھ سکےاور ایک ایسی نسل تیار ہو جو قرآن سمجھ کر پڑھنے پر قادر ہو ،اس کے احکامات پر عمل کرے اور دوسروں تک بھی اُس کے پیغامِ ِ فلاح و نجات کو پہنچا نے کا فرضِ منصبی ادا کر سکے ۔
کیونکہ بد قسمتی سے آج بھی مسلمانوں کی غیر عرب(عجمی) اکثریت ،یعنی جن کی مادری زبان عربی نہیں ہے ،نماز اور قرآن سمجھے بغیر پڑھتی ہے اور اس فیض سے محروم رہتی ہے جو قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے ساتھ مشروط ہے۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ عرب دنیا بھی پوری طرح قرآن سے کہاں فیض یاب ہو رہی ہے ۔درست ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ سمجھنے کے باوجود اس پر کما حقہ عامل نہیں!عرب حکمرانوں اور ان کے غلاموں کی اکثریت تو آج بھی عرب نسل پرستی ،قبیلہ پرستی اور قوم پرستی کے ابلیسی شکنجے سے باہر نہیں آسکی ہے اور ’اِنًَ ًَ اَکرَمَکُم عند اللہ اتقٰکم‘ کے یقین سے محروم ہے ! جس کا ایک اَدنیٰٰ سا ثبوت یہ ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین سے تو رشتہ ولایت قائم کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے جب کہ قرآن نے ایسا کرنے سے صریحاً منع کر رکھا ہے ، اور غیر عرب ’عجمی ‘ مسلمانوں کے ساتھ آج بھی چودہ سو سال پہلے کے غلاموں جیسا سلوک روا رکھتے ہیں !
خیر، یہ تکلیف دہ ذکر تو جملہ معترضہ کے طور پر نکل آیا ،ہمارے اِس کالم کا موضوع تو القرآن اکیڈمی ہے جس کو بیس سال قبل حیدرآباد میں ڈاکٹر عبد العزیز عبد الرحیم نے قائم کیا تھا اور جس نے اِس عرصے میں اپنی نہایت آسان اور جدید ترین طریقہ تعلیم پر مبنی کتابوں اور CDsکے ذریعے غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے ۔ اکیڈمی کی کتابیں ،سیڈیز اور پوسٹرس وغیرہ اردو ،ہندی ،تلگو ،تمل ،ملیالم اور بنگالی زبانوں کے علاوہ انگریزی ،ترکی ،فرانسیسی ،اسپینی (ہسپانوی)،چینی ،انڈونیشی بھاشا ،ملیشیائی ’مالے ‘اور بوسنیائی زبانوں میں شایع ہو چکی ہیں ۔
ہندستان کے علاوہ ،ملیشیا ،انڈونیشیا ،ہانگ کانگ ،ماریشس،انگلینڈ، ناروے ،جنوبی افریقہ ،نائجیریا اور سری لنکا میں اُن کے قرآنی عربی کلاسز جاری ہیں۔ چینل فور ٹی وی، روبی ٹی وی اور امریکہ کے ’گائڈ اَس ٹی وی Guideus TV پر بھی اُن کے دَروس(اَسباق) کا سلسلہ جاری ہے ۔
انٹر نٹ پر مذکورہ بالا ویب سائٹ کے ذریعے سن دو ہزار چار میں یہ پروگرام شروع ہوا تھا جس سے اب تک دنیا کے پچاس ممالک کےکئی لاکھ افراد مستفید ہو چکے ہیں ۔آپ گوگل پر اَنڈر اِسٹینڈ قرآن ،ٹرن قرآن یا قرآنی عربک (Understand Quran,Turn Quran ,or Quranic Arabic ) کچھ بھی ٹائپ کریں انڈر اسٹینڈ قرآن کی ویب سائٹ کھل جائے گی جس پر یہ تمام کورسز موجود ہیں ۔
’آؤ قرآن اور نماز سمجھیں ‘ کے نام سے دو حصوں میں جو کورس تیار کیا گیا ہے وہ قرآن کے پچپن ہزار الفاظ پر محیط ہے ۔یہ کورس کم از کم دو ماہ اور زیادہ سے زیادہ چھے مہینے میں مکمل کیا جا سکتا ہے ۔قرآن کریم میں تقریباً اٹھتر ہزار الفاط ہیں ۔یعنی ان کورسز کے ذریعے نماز کے مکمل اَذکار سمیت ہم نہایت آسانی سے قرآن کے ستًر فی صد سے زائد الفاظ سیکھ جاتے ہیں ۔جس کے بعد باقی ماندہ تیس فی صد الفاظ کا سیکھنا کچھ مشکل نہیں رہ جاتا ۔
ہم نے القرآن اکیڈمی کا تعارف اس لیے کرایا ہے کہ ہم خود اس کے درس نمبر تیرہ کے ایک کلاس میں شرکت کر چکے ہیں اور کورس کی پہلی کتاب جس میں اُنیس اَسباق (دروس) ہیں ،ہمارے پاس موجود ہے جو پچاس فی صد قرآنی الفاظ پر محیط ہے۔ قرآنی عربی سیکھنے کا ،سر ِ دَست ،اس سے اچھا ،کوئی اور نصاب یا طریقہ ہمارے علم میں نہیں ہے ۔
ہم تو بس اتنا چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اور ہماری نئی نسل اور قوم کے دیگر افراد نماز اور قرآن سمجھ کر پڑھنے لگیں اس لیے کہ’ عمل‘ کا مرحلہ’ سمجھے بغیر‘ شروع ہی نہیں ہو سکتا۔ جس دن ہم نے اس نصب العین کو پا لیا وہی ہماری کایا پلٹ کا پہلا دن ہوگا۔ اِن شاءاللہ ۔ہماری موجودہ خواری ،ذلت ،مسکنت ،بے بسی ،بے کسی ،علم سے دوری، اہل علم کی بے عملی اور عزت و اقتدار سے محرومی کا بنیادی سبب ہمارا تارکِ قرآن ہونا پوری طرح عاملِ قرآن نہ ہونا اور اُد خلوا فی السلم کافًۃ‘کا مصداق نہ ہوناہے۔ قرآن کو طاق نسیاں کی زینت بناکر اور قرآن کو ’مہجور ‘بنا کر ہم اگر عزت ، امن اور غلبے کے خواہاں ہیں تو ظاہر ہے کہ اِس خواہش کو حماقت اور جہالت کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ۔قرآن کے بغیر ،قرآن کو چھوڑ کے اور قرآن کو مہجور بناکے ،ہمیں کچھ نہیں ملنے والا ۔
ہماری گزارش ہے کہ اپنے گھروں ،خاندانوں ،ہاؤسنگ سو سائٹیوں، کالونیوں ،محلوں اور مسجدوں میں اِس کورس کو ،یا کسی کے پاس قرآنی عربی سیکھنے اور قرآن فہمی کا اِس سے بہتر کوئی کورس ہو،تو اُس کو، متعارف کرائیں تاکہ نماز اور قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا سلسلہ پھر سے چل پڑے اور ہم بھی اُسی اِعزاز و اِکرام کے مستحق قرار پائیں جو ہمارے بعض خوش نصیب اور باعمل اسلاف کو حاصل تھا ۔
قرآن کو جانے اور پہچانے بغیر ہم خود کو بھی نہیں پہچان سکتے اور خود کو پہچانے بغیر اپنے خالق و مالک اور پروردگار کو پہچاننا بھی ممکن نہیں ۔ فھل من مدکر ؟