جیسے پنچھی کو قید کر کے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اب کبھی نہیں اڑ سکتا اور اسے پنجرے نے اپنا اسیر بنا لیا ہے اور وہ اڑنا بھول گیا ہے مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ پنچھی کی فطرت میں اڑنا ہی تو ہے۔ اسے جتنا مرضی قید کر لیا جائے اسے تو انتظار رہتا ہے کہ کب موقع ملے اور وہ اڑ جائے۔کب پنجرے کا دروازہ کھلا ملےاور وہ اڑ جائے۔ وہ مرتے دم تک اس موقع کی تاک میں لگا رہتا ہے اور وہ کبھی اڑنے کی آرزو نہیں چھوڑ سکتا ہے کیونکہ یہی اس کی فطرت ہے اور یہی منصب ۔
اگر وہ اڑنے کی آرزو چھوڑ دے تو وہ پنچھی نہیں ہو سکتا ۔ اگر اسے مرنے سے قبل ایک سانس کے لیے بھی اڑنے کا موقع ملا تو وہ اڑ جائے گا اور ہاں وہ تو اپنی اڑان کے لیے موت کو بھی پھولوں کا ہار سمجھ کر قبول کرے گا۔
ایسی ہی حالت اس انسان کی ہے جو کچھ کرنے کے لیے بے تاب ہو مگر اسے موقع نہ مل رہا ہو کہ وہ اپنے جوہر دکھا سکے مگر وہ انہیں دکھانے کے لیے بے تاب ہو، وہ ہواؤں میں اڑنے کے خواب دیکھتا ہو مگر اس کے پاؤں معاشرتی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہوں اور وہ انہیں توڑنے کی بھر پور کوشش کر تا ہو اور اپنی منزل کو حاصل کرنے کی بے چین رہتا ہے ۔ لوگ اور معاشرتی حصار سمجھتے ہیں کہ وہ اس پر غلبہ پا کر اسے قیدی بنا لیں گے اور وہ بنا بھی لیتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ اس کی فطرت میں اڑنا ہے اور وہ اس کی فطرت پر کبھی غلبہ نہیں پا سکتےہیں ۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے بڑے بڑے لیڈروں نے جب بغاوت کی تحریک شروع کی ،زمانے کو بدلنا چاہا تو دنیا نے ان کی مخالفت کی ، انہیں ہر طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا حتی کہ ان کے اپنوں نے بھی ۔ انہیں قید کیا گیا ،بندی بنایا گیا جیلوں میں ڈالا گیا قتل کیا گیا مگر کیا وہ انہیں دبا پائے ان کی تحریک کو ختم کر پائے ،بالکل نہیں ۔وہ ان تمام پابندیوں کے باوجود کچھ بھی دبا نہیں پائے ،حتی کہ لوگ انہیں جتنا دباتے تھے وہ اور اوپر اٹھتے تھے کیونکہ وہ اپنی فطرت سے آگاہ تھے وہ معاشرے کو بدلنے والے تھے ۔
انسان کے لئے سب سے اہم تو یہ ہے کہ وہ اپنی فطرت کو سمجھے اور اس سے آگاہی حاصل کریں اور اس کے مطابق اپنی منزل کا انتخاب کرے کیونکہ وہ زندہ ہونے ،کھانے پینے اور مرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ وہ تو اعلی فطرت پر بنایا گیا جو زمانوں کی قید سے آزاد ہو کر انہیں بدلنے پر قدرت رکھتا ہے یہ اس پر مالک کائنات کا فضل ہے ۔اور ایسے میں جب انسان اس جستجو میں سرگرم عمل رکھتا ہے تو جہاں قدرت اسے بڑے انعامات سے نوازتی ہے وہی اسے کڑے امتحانات کا سامنا رہتا ہے اور یہی اصل مرحلہ ہے کچھ لوگ اور زیادہ تر لوگ اس مرحلے سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں اور پھر وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنی منزل سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔اب ان کا ایک ہی کام ہے دوسروں کو ڈرانا اور آگے بڑھنے سے روکنا وہ انہیں خوف، ذمہ داریوں اور زمانے کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کر تے ہیں ۔ انہیں الزامات سے نوازتے اور جو ان کی قید سے آزاد نہیں ہو پاتے وہ بھی انہی کی طرح نامراد رہتے ہیں مگر جو صاحب منزل ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور ہر امتحان دیتے ہیں ،ہر تنقید اور طنز کے تیر برداشت کرتے ہیں مگر ثابت قدم رہتے ہیں تو انہیں خدا واحد کی مدد حاصل ہوتی ہے جو انہیں منزل تک لے جاتی ہے اور پھر زمانہ و مقاں کے انداز بدلتے ہیں اور پھر وہی لوگ جو دیوار تھے ان کے پیروکار بن جاتے ہیں ۔
ملاحظہ ہو مری بھی اڑان پنجرے میں
عطا ہوئے ہیں مجھے دو جہان پنجرے میں
ہے سیرگاہ بھی اور اس میں آب و دانہ بھی
رکھا گیا ہے مرا کتنا دھیان پنجرے میں
اس ایک شرط پر اس نے رہا کیا مجھ کو
رکھے گا رہن وہ میری اڑان پنجرے میں
یہیں ہلاک ہوا ہے پرندہ خواہش کا
تبھی تو ہیں یہ لہو کے نشان پنجرے میں
مجھے ستائے گا تنہائیوں کا موسم کیا
ہے میرے ساتھ مرا خاندان پنجرے میں
فلک پہ جب بھی پرندوں کی صف نظر آئی
ہوئی ہیں کتنی ہی یادیں جوان پنجرے میں
خیال آیا ہمیں بھی خدا کی رحمت کا
سنائی جب بھی پڑی ہے اذان پنجرے میں
طرح طرح کے سبق اس لیے رٹائے گئے
میں بھول جاؤں کھلا آسمان پنجرے میں ۔۔
(اکھلیش تیواری)