’’مغربی آزادی اور اسلامی معاشرہ‘‘

موجودہ دور میں آزادی ایک ایسا موضوع ہے جوپوری دنیا میں بشمول اسلامی و سیکولر ریاستوں میں زیر بحث ہے۔اسلامی معاشروں میں بھی مغربی معاشرہ کے زیر اثر آزادی کا جنوں بڑھتا جا رہا ہے ۔اسلامی شعار کی مختلف ذرائع ابلاغ سے غلط تشریح پیش کرکے انتشار و اختلاف کی فضا بنا ئی جارہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشروں جیسی آزادی نے اسلامی معاشرے سے مسلمانوں کو دور کردیا ہے۔مغرب میں جس آزادی کا دور دورہ ہے وہ مذہب ، جنسی آزادی ہے ۔اس آزادی کے طوفان نے ایسی دھول اڑائی ہے کہ مسلمان بے محابااس کا جنون کی حد تک عاشق ہو گیاہے۔بندھنوں کی عظمت کو نظر انداز کر دیا ۔جہاں خاندانی ریلیشن اور فیملی تعلقات میں خوش فہمیوں کے بیج بونے تھے ،وہاں اپنی شخصیت کے نوکیلے کونوں سے اختلافات کے قلعے بنا دیئے گیے۔
مغربی معاشرے کے مفکروں نے کہا تھا انسان ایک جانورہے اور یہ اپنی فطرت میں مجلسی ہے ،تو ظاہر ہے کہ یہ میل جو ل کا محتاج ہوگا ۔تعلقات کارسیا ہوگا۔رشتوں کی رسی میں بندھا ہوگا ۔اور اس کے ساتھ ساتھ مغربی معاشرے نے ایک مفروضہ یہ بھی چھوڑا کہ انسان کے لیے کلی آزادی اتنی ہی ضروری ہے ،جتنی کہ وہ تعلقات بنانے میں اور بندھنوں میں بندھنے کے لیے آزاد ہے۔اس مفروضے کا بنیادی مقصد اسلامی معاشرے سے خوبیوں کو ختم کرنا ،مادیت کی لاحاصل راہوں کو ہموار کرنا ،آزادی کی حد بندیوں کو توڑنا، تحقیق میں سادگی کے پردوں کو تار تار کرنا ،خلوص اور سچائی سے پَرے اپنے مفادات کاتحفظ کرنا ،ہیومن سوسائٹی کے بنیادی ’’سیل ‘‘ میں مغربی آزادی کے جرثومے شامل کرنا اور مسلمان معاشروں میں انسانی اوصاف جمیلہ کو وہموں ، کمزوریوں اور ناپسندیدگیوں کی نظر کرنا تھا ۔اس میں مغرب کسی حد تک کامیاب ہو چکا ہے ۔
جو لوگ شادی کو جنسی تعلق سمجھتے ہیں وہ بہت بڑی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔اسلامی معاشرے میں شادی کو ایک درس گاہ سمجھا جاتا ہے ۔جہاں افراد ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر جینا سیکھتے ہیں۔ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھتے ہیں۔آپس کی طبیعتوں میں ڈھل جاتے ہیں۔اختلاف رائے کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں ۔رواداری ،خوش رہنا سیکھتے ہیں۔ جب بچے ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے ۔اس کے برعکس مغربی معاشرے نے آزادی کو اتنا فروغ دیا کہ شادی ’’عظیم درس گاہ ‘‘ سے ’’ ازدواجی رشتہ ‘‘ میں بدل گئی ۔نتیجتاََ خاندانوں ،فیملیوں کی اہمیت قائم نہ رہی۔ طلاق جیسے انتہائی حساس اسلامی مسئلے کو میڈیا کے ذریعے تین لفظی کلمہ بنا دینا بھی مغربی آزادی کے رسیا ؤں کی چال ہے۔مغربی معاشرے کے طوفانوں نے ایسا جکڑا کہ ’’مسلمان ‘ ‘ جو دنیا میں اس روئے زمین پر سب سے ’’اہم ‘‘ تھے،مغرب کی زہریلی ہواؤوں نے ان کو طبعاََ اکھاڑ پھینکا۔ مرد جس پر پریپریشن (Preparation ) کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس نے متحرک ہونا چھوڑ دیا ۔عورت نے بے خوف نقاب اتار پھینکا ۔بچوں نے فاصلے مٹا کر پسند نا پسند کے دلیرانہ فیصلے کرنے کا اختیار اپنا لیا ۔ اسلامی معاشرہ جسے ساری دنیا کے سامنے ایک آئڈیل اور مثالی معاشرے کی بنیاد سمجھا جاتا تھا اورمغربی معاشرے کی درستی بھی اسلامی معاشرے کی مرہون منت سمجھاجاتاتھا،اسلامی معاشرے کے پرُرونق محلوں کو مسمار کردیا گیا ۔اور مسلمان ’’ اہم ‘‘ سے ’’غیر اہم‘‘کی زنجیروں میں قید ہو کر رہ گئے ۔
یہ بات جانتے ہوئے کہ مغربی معاشرے نے ایک کریش تہذیب سے نمو پائی ہے۔اس کے طیارے میں صرف ایکسلیٹر ہے بریک نہیں ۔ اس کے لینڈنگ کے پہیے جام ہو چکے ہیں ۔سب جانتے ہیں کہ اس کا خوف ناک حادثہ ہونے والا ہے لیکن کوئی ماننے کو تیا ر ہی نہیں نہ کوئی سنتا ہے ۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج کئی اسلامک اسٹیٹس بھی جنسی بے راہ روی کو قانونی تحفظ دینے کے درپے ہیں۔ ہم جنس پرستی کو بنیادی انسانی آزادی کا نام دینے اور اس کے لیے کی جانی والی کوششوں میں ہم آواز بنی ہوئی ہیں ۔عرب میں اسلام کا آنا ایک بہت بڑا واقعہ تھا ۔قرآن کا نزول اور رویہ حیرت انگیز تھا ۔قرآن نے عقل و خرد ،علم و حکمت کو بلند مرتبہ عطا کیا ،قرآن کے پیغام اور آپ ﷺ کے کردار سے صحرا نشین عرب ساری دنیا کے لیے رہنما بن گئے ۔وہ ہر طبقہ میں ترقی کے زینے چڑھتے گئے ۔ نصف صدی کے اندر علم وعمل کے ان متوالوں نے آدھی دنیا کو اپنا اسیر و مسخر کر دیا تھا۔اسلام اُن کا مذہب ہے جو مطاہرہ فطرت پر غور غوض کرتے ہیں ۔جو اپنی تہذیب پر فخر کرتے ہیں ۔جو اپنے اہم ہونے کی حاکمیت کو دائم رکھتے ہیں ۔
اسلام کی آزادی بے محابا نہیں ہے۔اس میں توازن ہے ۔بندھن ہیں ۔حدود ہیں ۔اہمیت و غوروفکر کی دعوت ہے ۔اسی طرح حقوق کی آزادی کے بندھن سے متعلق اسلام میں 193 احکامات ہیں ۔مسلمان مغرب کے لئے اتنے اہم تھے کہ ان کی لکھی ہوئی سائنس و فلکیات کی کتابیں یورپی درس گاہوں میں چار سو سال تک پڑھائی جاتی رہیں۔کیوں کہ مغرب یہ بات جانتا تھا کہ علم کا سب سے معتبر و مستند ذریعہ اسلام اور قرآن ہے۔مسلمان جب اپنی تہذیب و معاشرے میں اہم تھے اور اپنے تاریخی ورثے کو اپنایا ہوا تھا ،تب مسلمانوں نے بہت سی لازوال ایجادات کر ڈالیں ۔مثلاََ: تھرما میٹر ، اصطرلاب ، پنڈولم والی گھڑی ، قطب نما ، لیکن اب مسلمانوں نے اپنے اہم ہونے کو نمائشی طور پر سجا رکھاہے۔ مسلمانوں میں اسلامی معاشرہ، اسلامی تہذیب نظر ہی نہیں آتی ، لیکن مغربی تہذیب کو یہ سات پردوں سے بھی نکال لاتے ہیں ۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں