ڈاکٹر آفتاب اپنی کلینک میں مریضوں کا چیک اپ کرنے میں مصروف تھے۔ اچانک ایک انجان آدمی ہاتھ میں پستول لیے کمرے میں داخل ہوا۔ ماسک کی وجہ سے سوائے آنکھوں کے اس کا پورا چہرا ڈھکا ہوا تھا۔ اس نے نفرت بھری نگاہوں سے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ” تم اسلام کے نام پر نوجوانوں کوگمراہ کررہے ہو……! آج تمہیں اس کا انجام بھگتنا پڑے گا۔”
“بھئی میں نے کس کے……”جملہ پورا کرنے سے پہلے ہی پستول سے نکلی ہوئی گولی نے ان کا کام تمام کرچکی تھی۔
ــــــــــــــ
ڈاکٹر آفتاب کے قتل کی خبر پورے شہر میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ گھر کے باہر ان کے چاہنے والوں کی بھیڑ جمع ہوچکی تھی ۔ نیوز چینلز پر بار بار ان کے قتل کی خبر نشر کی جارہی تھی۔ چونکہ وہ ایک مشہور و معروف کالم نگار بھی تھے اس وجہ سے میڈیا نے اس معاملے میں انتہائی سنجیدگی اختیار کرلی تھی۔ میڈیا کا بڑھتا ہوا دباؤ دیکھ کر حکومت کو کچھ فکر لاحق ہوئی اور کیس ڈویژن کے قابل آفیسر انسپکٹرعمر فاروق کے حوالے کردیا گیا۔
اگلی صبح انسپکٹرعمر فاروق ڈاکٹر آفتاب کی کلینک میں موجود تھے۔ “میں کلینک کے آس پاس رہنے والوں سے ملنا چاہوں گا۔ اور واردات کے وقت جتنے بھی لوگ یہاں موجود تھے، ان کو بھی یہاں بلواؤ” ایس پی نے حوالدار اکرم سے کہا اور وہ اثبات میں سر ہلا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ انسپکٹر فاروق نے سب سے پہلے کمرے میں موجود ایک ایک چیز کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد وہ کلینک کے آس پاس والوں سے ڈاکٹر کے متعلق معلومات لیتے رہے۔ چند گھنٹوں کے بعد حوالدار کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ سادہ کپڑوں میں ملبوس دو نوجوان بھی تھے۔ “سر صرف یہ دونوں اس وقت کلینک میں موجود تھے۔”
“یہ حادثہ کیسے پیش آیا ……؟ اور تو تم لوگ اس وقت کہاں بیٹھے تھے؟” انسپکٹر فاروق نے ان سے پوچھا
“سر ہم دونوں ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں موجود تھے۔ اچانک ایک نقاب پوش آدمی ہاتھ میں پستول لیے کمرے میں داخل ہوا اور ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ “تم اسلام کے نام پر نوجوانوں کو گمراہ کررہے ہو” اس کے بعد اس نے ڈاکٹر صاحب پر گولی چلائی اور پھر فورًا وہاں سے نکل گیا۔” ان میں سے ایک نے تفصیل بتائی
“تم دونوں آپس میں کیا لگتے ہو اور کیا کرتے ہو؟” انسپکٹر فاروق نے ان دونوں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا
نوجوان جو پہلے سے ہی سہمے ہوئے تھے، سوال سنتے ہی خوفزدہ ہونے لگے۔
“سر ہم دونوں بھائی ہیں۔یہاں پاس ہی ایک بھٹی میں کام کرتے ہیں۔ ” ایک نے ہمت کرتے ہوئے جواب دیا
“ٹھیک ہے تم جاسکتے ہو” انسپکٹر فاروق کا اشارہ ملتے ہی دونوں کمرے سے باہر نکل گئے ۔
ــــــــــــ
رات کے تقریبًا بارہ بج چکے تھے۔ حوالدار اکرم اور انسپکٹر فاروق ٹھٹھرتی سردی میں چائے کے ڈھابے پر بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ انسپکٹر فاروق کافی دیر سے کرسی پر ٹیک لگائے کچھ سوچ رہے تھے۔اسی حالت میں اس نے اکرم سے سوال کیا”تمہیں کیا لگتا ہے اکرم…… یہ کس کی حرکت ہوسکتی ہے؟”
اکرم نے منہ سے چائے کا کپ ہٹا کر میز پر رکھا اور بولا “معلوم نہیں سر……سات دن مسلسل کڑی تفتیش کرنے اور طویل سوچ بچار کے بعد بھی میں کوئی نتیجہ نہیں نکال سکا۔”
“مجھےایک چیز معلوم ہوئی ہے اکرم! جواس کیس کے لیے اہم کڑی ثابت ہوسکتی ہے”
“کیا چیز سر……؟” اکرم یک دم اچھل کر سیدھا بیٹھ گیا
انسپکٹر فاروق نے چائے کی ا یک چسکی لی اور بولے “ڈاکٹر آفتاب ایک اچھے ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے رائٹر بھی تھے۔ میں نے ان کی کچھ تحریریں بھی پڑھی ہیں۔ وہ خصوصًا اسلامی موضوعات پر کافی جاندار اور واضح لکھتے تھے۔ انہوں نے چند ماہ قبل ہی اسٹوڈنٹ کی ایک تنظیم کا بنیاد رکھا تھا جو فلاحی اور سماجی کام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں اسلام کی تبلیغ بھی کرتی ہے۔ نہ صرف اتنا بلکہ کافی سالوں سے ہر اتوار کو ڈاکٹر صاحب کے گھر پر ایک تقریب ہوتی تھی جس میں نوجوانوں کی اسلامی طرز پر تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ذہن میں پیدا ہونے والے اسلام مخالف اعتراضات کے جواب بھی دیے جاتے ہیں۔”
انسپکٹر فاروق ایک لمحے کے لیے رکے اور پھر گویا ہوئے”اکرم جب میں نے قاتل کے الفاظ سے پر غور کیا تو ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کوئی تو ڈاکٹر صاحب کے ان کاموں سے ناخوش تھا۔ ان کی علمی قابلیت، زندہ دلی، جذبۂ ایثار اور خوش اخلاقی کی وجہ سےنوجوانوں کی ایک کثیر تعداد ان کی گرویدہ بن چکی تھی۔ لہٰذا یہ قتل ڈاکٹر صاحب کو ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کے مشن کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا ہے”
انسپکٹر فاروق کی باتیں سن کر اکرم کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ اس نے ایک لمحہ رکنے کے بعد کہا “لیکن سر جب ڈاکٹر آفتاب اسلام کی ہی تبلیغ کررہے تھے تو قاتل نے ان کو اسلام کے نام پر قتل کیوں کیا؟”
اکرم کا سوال سن کر ایس پی فاروق کے چہرے پر ایک طویل مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
” تم بھی کتنے سادے ہو اکرم! کیا تمہیں معلوم ہے کہ قبائلی جنگجوؤں کو اکسانے والے کون ہوتے ہیں؟ یہ لوگ قبائلی نہیں ہوتے۔ بلکہ دشمن ممالک کے ٹرینڈ ایجنٹس ہوتے ہیں۔ جو سادہ قبائلیوں کو حقوق اور غیرت کے نام پر ملک کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔حالانکہ وہ نام تو حقوق کا لیتے ہیں لیکن ان کا مقصد صرف اور صرف ملک کی ترقی اور امن و سلامتی کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ یہاں بھی معاملہ اس سے مختلف نہیں۔”
” سر تو پھر اس قتل کے پیچھے کون ہوسکتا ہے؟”
“بہت جلد پتہ چل جائے گا اکرم…… انشاء اللہ چند ہی دن بعد قاتل سلاخوں کے پیچھے ہوگا۔” انسپکٹر فاروق نے کہا اور چائے پینے میں مصروف ہوگئے۔
ــــــــــــ
رات کے دو بج رہے تھے۔ گاڑی کسی کے انتظار میں بنگلے کی گیٹ کے باہر کھڑی تھی۔اچانک سوٹ میں ملبوس ایک شخص ہاتھ میں سوٹ کیس لیے بنگلے سے نکلا اور جلدی جلدی گاڑی میں بیٹھ گیا۔
“چلو……” اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور سے کہا۔ وہ بری طرح ہانپ رہا تھا اور اس کا چہرہ پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔ شاید وہ گاڑی تک دوڑتا ہوا آیا تھا۔
“کہاں چلنا ہے صاحب……؟” ڈرائیور نے کہا
ڈرائیور کا جواب سن کر وہ طیش میں آگیا۔ اس نے تقریبًا چیختے ہوئے کہا “تم بے وقوف تو نہیں ہوگئے……تمہیں معلوم ہے کہ مجھے ایئرپورٹ جانا ہے ایئر پورٹ……”
اسی اثنا میں کسی نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اندر آکر سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا “اتنی جلدی بھی کیا ہے مرزا صاحب…… ہمیں بھی لیتے جائیے نا ایئرپورٹ……”
“کک کون ہو تم……؟” اس نے ڈرتے ہوئے کہا
“ہم آپ کے اپنے ہی ہیں مرزا صاحب ……” دوسری طرف سے کار کا دروازہ کھلا اور دوسرا آدمی اندر آکر سیٹ پر براجمان ہوگیا۔ مرزا صاحب کے دائیں بائیں دو اجنبی بیٹھ چکے تھے۔
“تت تم جانتے نہیں مجھے…… مم ” مرزا صاحب ہکلانے لگے تھے۔
“ہم آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں مرزا صاحب…… یقین نہیں آتا تو دیکھ لیں۔” اسی وقت کار کی اندرونی لائیٹ روشن کی گئی ۔ مرزا صاحب کے دائیں اور بائیں انسپکٹر فاروق اور اکرم موجود تھے۔
ــــــــــــ
” انسپکٹر عمر فاروق کا ایک اور عظیم کارنامہ……ڈاکٹر آفتاب کا قاتل پکڑلیا گیا۔ پولیس نے شہر کے مشہور بزنس مین مرزا بشیر احمد کو ڈاکٹر آفتاب کے قتل کے جرم میں گرفتار کرلیا ہے۔ مزرا بشیر رات شہر چھوڑ کر بھاگ رہے تھے لیکن انسپکٹر فاروق کی بروقت کاروائی کی بدولت ان کو حراست میں لے لیا گیا۔” صبح سویرے نیوز چینلز پر یہ خبر بریکنگ نیوز بنی ہوئی تھی۔
انسپکٹر فاروق اپنی آفس میں موجود اہلکاروں کو کیس کے متعلق بتا رہے تھے۔ “شروعات میں جب میں نے ڈاکٹر آفتاب کے متعلق معلومات حاصل کی تو چند ایسی شخص سامنے آئے جو ڈاکٹر صاحب کی اسلامی سرگرمیوں کے مخالف تھے۔ اس لسٹ میں مرزا بشیر ٹاپ پر تھے۔ کیونکہ اس نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف ایف آئی آر داخل کروائی تھی کہ یہ ہر اتوار کو نوجوانوں کی ذہن سازی کرکے ان کو کچھ جماعتوں کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔ لیکن پولیس نے جب تفتیش کی تو حقیقت اس کے بلکل برعکس تھی۔ “
“لیکن سر آپ کو یقین کیسے ہوا کہ مرزا بشیر ہی اصلی قاتل ہیں۔” ایک اہلکار نے سوال کیا
انسپکٹر فاروق معمول کی طرح سوال سن کر مسکرائے اور پھر جواب دیا ” جس دن مجھے مرزا پر شک ہوا اسی دن سے میں نے اس کا فون ٹیپ کرنا شروع کیا۔ تب معلوم ہوا کہ مرزا کا پورا نیٹورک ہے جو اسلام کے نام پر سادہ اور جذباتی مسلمانوں کو گمراہ کرتا ہے۔ ان کو اکساتا ہے اور پھر اسلام کے نام پر ان سے جرائم کرواتا ہے۔ اسی دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ مرزا کو اس کام کے لیے بیرون ممالک سے مدد بھی ملتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ گرہیں کھلتی چلی گئیں اور بالآخر مرزا کے خلاف ٹھوس ثبوت حاصل کرنے کے بعد ہم نے مل کر مرزا کو پکڑ لیا۔”
“ہم نے نہیں سر آپ نے……” اکرم کا جملہ سن کر سب کی ہنسی نکل گئی اور سارے اہلکار کھڑے ہوکر انسپکٹر فاروق کے لیے تالیاں بجانے لگے۔