سماعت کا اسلامی نظریہ
قوت سماعت انسان کو اللہ تعالیٰ کی عطاکرد ہ بیش بہا نعمتوں میں سے ایک انمول نعمت ہے۔ قرآن مجید میں سمع و بصر یعنی سننا اور دیکھنا کا ذکر 19 جگہوں پر کیا گیاہے، جن میں سے 17 مواقع پر سمع کا ذکر بصر سے پہلے آیا ہے ۔غور سے سننے اور سمجھنے کی بات سورہ فرقان میں سختی سے کہی گئی ہے’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘۔ اگرچہ انسان کو احسن تقویم اور اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے لیکن لاپروائی سے سننے والوں کو جانور قرار دیا گیا ہے۔ اگر ہم سنتے اور سمجھتے نہیں تو اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ہماری حیثیت اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں جانوروں جیسی بلکہ ان سے بھی بدتر ہوگی۔ یہ کیفیت اگرمسلسل رواں رہے تب انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب ہو جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے کہ ہدایت کی کوئی بات نہ سنتے، سمجھتے ہیں اور نہ ہی عمل کی توفیق ہوتی ہے۔ موثر سماعت اور تعمیر شخصیت کے اصول اور کورسس مغرب نے آج وضع و مرتب کئے ہیں جب کہ مسلمانوں کو یہ تعلیمات قرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں چودہ سو سال قبل ہی فراہم کی جاچکی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوہ مبارک کے ذریعے ہمارے سامنے دنیا کے سب بہترین سامع ہونے کا مثالی نمونہ پیش کیا ہے۔ احادیث اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے سے بھی ہمیں سماعت کی اہمیت کا پتا چلتا ہے’’ صحابہ کرام مجلس نبوی میں اس طرح بیٹھتے تھے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے ہیں جو ہلنے سے اُڑ جائیں گے۔‘‘لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اچھی سماعت ایک پیغمبرانہ خوبی ہے۔
سماعت کی نفسیاتی تعریف
آواز کو سننے،اس کی درجہ بندی ، تسلسل سے ترتیب دینا،بامعنی اور مہمل آوازوں کے مابین فرق کو سمجھنا اور اس کے معنی و مفہوم کو اخذ کرنا سماعت کہلاتا ہے۔باالفاظ دیگرپیغام کو وصول کرنا،تشریح کرنااور اس پرردعمل پیش کر نا سنناکہلاتا ہے۔سننا ابلاغی و ترسیلی عمل کا ایک اہم جز ہے۔آواز کو محسوس کرنا،پیغام کو اخذکرنا،اس کی تشریح اور اس پر رد عمل کا اظہار سننے کے عمل میں شامل ہے۔ دیگر اکتسابی صلاحیتوں کی طرح بچوں میں سماعت( سننے )کی عادت و مہارت کے سیکھنے کا آغاز بھی گھر سے ہوتا ہے۔اساتذہ اپنی سعی و کاوش سے بہتر اور عمدہ ماحول فراہم کرتے ہوئے نہ صرف اس صلاحیت کو تیزی سے پروان چڑھا سکتے ہیں بلکہ اسکول انتظامیہ کی مدد سے موثر سماعت کی عادات کے فروغ میں مانع عوامل پر قابو بھی پاسکتے ہیں۔بچوں کے لئے اوائل عمری سے ہی سماعت( سننے) کی بہتر تربیت کا اہتمام ضروری ہے۔ اچھی سماعت کی عادت بہتر اکتساب اور موثر گفتگو میں کلیدی کردارادا کرتی ہے۔ گردو پیش میں بکھری وسیع معلومات کے حصول میں اکتساب سے مربوط اہم مہارتوں سے لاعلمی یا سیکھنے میں تساہل اور بے پروائی کی وجہ سے طلبہ اکثر اپنی بہتر صلاحیتوں کو پیش کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔بحیثیت استاد جب آپ محتاط طریقوں سے طلبہ کی صلاحیتوں کے فرو غ کے لئے کوشاں ہیں تو لازماًدیگر اہم مہارتوں کے ساتھ آپ انھیں موثر طریقے سے سماعت کی( سننے کی) عادت و مہارت سے بھی متصف کرنا ہوگا۔ اساتذہ اکتسابی سہولتوں،وسائل اور مواقعوں سے استفادہ کرتے ہوئے سماعت(سننے) کی صلاحیت کو نہ صرف صیقل کرسکتے ہیں بلکہ اکتساب اور گفتگو کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ سماعت ایک مہارت ،فن اور ایسی جادوئی عادت ہے جو آدمی کو ہرکام میں سکون، اطمینان،آسودگی اور کامیابی فراہم کرتی ہے۔سماعت کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ولگاریورس(Wilga Rivers) کے ایک قول سے ہوتا ہے’’ جب ہم بات کرتے ہیں تو اسے دومرتبہ سنتے ہیں اگر پڑھتے ہیں تو چار مرتبہ اور لکھتے ہیں تو اسے پانچ مرتبہ سنتے ہیں‘‘۔ولگا ریورس کے قول کی روشنی میں طلبہ کوسمعی مہارتوں کی تدریس کی اشد ضرورت ہے تاکہ موثر اکتساب کویقینی بنایا جاسکے۔اساتذہ اگر سماعت کا مادہ بچوں میں پیدا نہیں کریں گے تب کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ان کی تدریس بے اثر، اکتا دینے والی ،بوریت سے لیس ، بے کیف اور ناپسندیدہ ہوکر رہ جائے گی۔سننا(Listening) ،بولنا(Speaking)،پڑھنا(Reading) اور لکھنا (Writing) یعنی (LSRW)تدریس کی چار بنیادی مہارتیں ہیں۔بچہ جس ماحول میں پرورش پاتا ہے اسی ماحول کے زیر اثر اس کی سمعی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔بولنا،پڑھنا اور لکھنا جیسی تدریسی بنیادی صلاحیتوں کا انحصار سماعت کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔
سماعت صرف کانوں کو کھلا رکھنے اور سننے کا نام نہیں بلکہ صحت کے ساتھ سننے اور اس کے مناسب ادراک و فہم کا نام ہے۔بہتر سماعت کی صلاحیت نہ صرف طلبہ کے لئے ضروری ہے بلکہ ایک اچھے انسان،استاد،منتظم،مہتمم اور رہنماکے لئے بھی اسے منظم طریقے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ عموماًلوگ انگریزی کے الفاظ Hearingاور Listeningکو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں مگر ان میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔Hearingکا مطلبہوتا ہے صرف سننا مگر Listeningکا مطلب ہے بات سننے کے ساتھ ساتھ سمجھنا۔ باالفاظ دیگرHearingکامطلب صرف سماعت اورListeningکا مطلب مو ثر سماعت ہے۔موثر سماعت(Listening) عام سماعت(Hearing عام سننے)سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔عام طور پرموثرسماعت(شعوری سماعت،تفہیمی سماعت) اور عام سماعت(غیر شعوری سماعت )ایک دوسرے سے باہم مربوط ہوتی ہیں اور اکثر دونوں کو ایک جیسا ہی تصور کیا جاتا ہے جب کہ دونوں کے درمیان نمایاں طورپر قابل فہم اور لطیف فرق پایا جاتا ہے۔ دماغ تک مختلف ذرائع سے پیدا شدہ آوازں کی قبولیت و ترسیل (Transmission) شعوری و غیر شعوری طور پر لہروں کی شکل میں ہوتی رہتی ہے۔سنناغیر شعوری سماعت(Hearing)کوکہتے ہیں اور جب دماغ شعوری طور پر صداؤں کی شنوائی میں معنی و مقصد شامل کرلیتا ہے تو اسے موثر( شعوری سماعت یاتفہیمی سماعتListening)کہاجاتا ہے۔ہارولڈ جانیس(Harold Janis) کا بیان دونوں سماعتوں کے مابین بہتر تفریق کرتا ہے ’’ موثر یاشعوری سماعت عام سننے کا نام نہیں ہے یہ آوازوں کی قبولیت کی اس سطح کا نام ہے جس میں فہم و ادراک کا کام انجام پاتا ہے اور سامع اورمتکلم دونو ں بھی تبادلہ خیال میں برابر کے شریک رہتے ہیں۔ (Listening is not merely hearing,it is a state of receptivity that permits understanding of what is heard and grants the listener full partnership in the communication process.Harlod Janis)اسی لئے شعوری طور پر سننا اسے کہتے ہیں جس میں موصول کرد ہ سمعی آوازوں میں مقصد ،مطلب و معنی کا رنگ شامل ہو۔عام سننا موثر و شعوری سماعت میں اس وقت تبدیل ہوجاتا ہے جب اس میں مقصد و معنویت کا پہلو شامل ہوجاتا ہے۔ ماسوابہروں کے سماعت ایک قدرتی صلاحیت ہے لیکن بات ا ور سمعی آوازوں کو سمجھنے کے لئے غور سے سننا ضروری ہوتا ہے۔ سماعت اس وقت موثرہو جاتی ہے جب اس کے اغراض و مقاصد مخصوصں ومعتین ہوں۔ جب کسی گفتگویا بات چیت کامطلب نہ سمجھاجاسکے تب سماعت کا عمل بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔بات چیت کے مفہوم کو سمجھناانسان کی اپنی فہم و فراست پر منحصر ہوتا ہے۔فہم اور سماعت دونوں مہارتوں کا ایک دوسرے پرانحصار ہوتا ہے اسی لئے یہ بہت ضروری ہے کہ بولنے والے کے کلام کو نہ صرف توجہ سے سنا جائے بلکہ اس سے مفہوم بھی اخذ کیا جائے۔مفہوم کا اخذ و حصول، سماعت کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔طلبہ میں باشعور وموثر سماعت کی عادت کے فروغ کے ذریعے دو گراں قدر اوصاف جاگزیں کئے جاسکتے ہیں۔
(1)موثرسماعت طلبہ میں معلومات کے اضافے کے علاوہ زبانی یاداشت (Verbal Memory)کے فروغ میں بھی ممد ومعاون ثابت ہوتی ہے۔
(2)صحت مند شعوری سماعت انسان میں سلیقہ گفتگو پیدا کرتے ہوئے شخصیت کو چارچاند لگا دیتی ہے۔سلیقہ مند گفتگو کے لئے صحت مند شعوری سماعت بے حد ضروری تصور کی جاتی ہے۔بہتر سماعت سے گفتگو میں سلیقہ اور تاثیر پیدا ہونے کی وجہ سے بین شخصی تعلقات میں بھی بہتری پیدا ہوتی ہے۔
بچوں میں سننے کی ابتدا پیدائش کے بعد ہی ہوجاتی ہے۔ابتدا میں بچوں کا مسکرانا،ہنسنا اور رونا،سننے کے ردعمل کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔اسکولی زندگی کے آغاز سے قبل ہی بچے آوازوں جیسے افراد خاندان کی آوازیں،پڑوسیوں کی آوازیں،رشتہ داروں کی آوازیں،فقیروں،راہ گیروں،پھیری والے کاروباری افراد کی آوازیں،دوکاندار،مداری وغیرہ کی آوازیں،مذہبی رسومات جیسے اذان،نماز،تلاوت ،پوجا پاٹ وغیرہ کی آوازوں سے آشنا ہوجاتے ہیں۔حصول علم و اکتساب میں سننے کا عمل اساسی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اسکول کی زندگی سے قبل بچے غیر شعوری طور پر تلفظ اور صوتیات سے واقف ہوجاتے ہیں۔اسکول انہیں فہم و ادراک فراہم کرتا ہے۔سننے کا مطلب کانوں تک پہنچنے والی ہربات نہیں ہے بلکہ صحت و فہم کے ساتھ سننے کو موثر سماعت کہاجاتا ہے۔سماعت زندگی بھر سیکھنے کے عمل اور معنی خیز ابلاغ و معاشرت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔گفتگو کے سلیقے اور سماعت کے شعور کے لئے منظم تربیت و رہنمائی درکار ہوتی ہے۔سامع سمعی پیغامات سے مقاصد کا استخراج اپنے سابقہ تجربات ،ذخیرہ علم و فہم اور شرح ارتکازسے کرتا ہے۔سماعت کا عمل ذہنی اعتبار سے تین مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
(1)پیغامات کی ترسیل کرنے والی آوازوں کو وصول کرنا
(2)آواز سے پیداشدہ محرکہ پر توجہ مرکوز کرنا
(3)سمعی محرکہ کو معنویت عطا کرنا
سمعی عمل و مہارت
اسکولس پڑھنے،لکھنے اور تقریر ی(بولنے کی) صلاحیتوں کے فروغ میں توکوشاں دکھائی دیتے ہیں لیکن سماعت جیسی اہم مہارت کے فروغ میں ان کی بے اعتنائی لائق مذمت اور قابل گرفت ہے جس کی بناطلبہ متعدد اکتسابی مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔ماہرین تعلیم و نفسیات کے مطابق پڑھنے ،لکھنے،بولنے کی مہارتوں کی طرح سننے کی مہارت بھی انسانی ترقی اور کامیابی کا لازمی جزو ہے اور اسے پروان چڑھانا ضروری ہے۔ ترقی پسند ممالک اپنے مدارس اور دیگر تربیتی اور کاروباری اداروں میں سماعت کی مہارت کی باقاعدہ تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہئے کہ وہ طلبہ کو زیادہ سننے کے بجائے بہتر سننے کی عملی تربیت فراہم کریں۔بامعنی و بامقصد سماعت کے لئے چندمخصوص مہارتوں سے ہر آدمی کا متصف ہونا ضروری ہے۔سماعت کئی پیچیدہ اور گنجلگ رویوں کے مجموعہ کا نام ہے اور ان رویوں کی بہتری سننے کی صلاحیت کے فروغ کا باعث ہوتی ہے۔ سعی و محنت کے ذریعے سمعی کارکردگی کوبہتر بنایا جاسکتاہے۔ سماعت کی کامیابی پیغام کو سن کر، معنی و مفاہیم اخذ کرتے ہوئے اس سے مربوط سوالات کے جوابات دینے پر منحصر ہوتی ہے۔سماعت میں مانع عوامل پر قابو اور مددگار عوامل و رویوں کا علم حاصل کرتے ہوئے کوئی بھی آدمی اچھا سامع بن سکتاہے۔سماعت کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے میں زبانی اور بصری(Verbal and Visual Stimuli) محرکات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔موثر سماعت میں ذہنی آمادگی کو اولیت حاصل ہے۔صوتی محرکات پر توجہ مرکوز نہ کرنے کی وجہ سے ذہن صداؤں میں پوشیدہ معنی و مفاہیم کے ادراک میں ناکام رہتا ہے ۔قوت ارتکاز کے بغیر سماعت کارگر ثابت نہیں ہوتی۔سمعی عمل کی اثر پذیری کا تعلق ذہنی و جسمانی توجہات کے دورانیہ پر منحصر ہوتا ہے۔اگر ذہن و جسم تھکا ہوا ہو تب سننے کی کیفیت بھی کم ہوجاتی ہے۔سمعی عمل کے موثر ہونے کا راست تعلق ذخیر ہ الفاظ(Vocubalory)،علم(Knowledge)اور زندگی کے تجربات پر مبنی ہوتا ہے۔صداؤں کو جب ذہن معنی و مفہوم عطا کرتا ہے تب سمعی عمل اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے۔دوران گفتگو متکلم کی جانب سے پیش کردہ غیر لفظی (Non-Verbal)پیغامات بھی سماعت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔سماعت اور اس سے وابستہ خصوصیات کا علم و ادراک اساتذہ کے لئے لازمی تصور کیاجاتا ہے تاکہ وہ طلبہ کو بہتر سامع اور عمدہ طالب علم بنا سکیں۔ اچھی سماعت اور موثر و دلکش سامع بننے کے لئے سماعت کی بہتری میں معاون رویوں پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اساتذہ تمام طلبہ میں سمعی مہارتوں کے فروغ کی اہم ذمہ داری سے سرموئے انحراف نہ کریں تاکہ ان کی گفتگو میں حسن ،دلکشی اور اثر پیدا ہو۔طلبہ میں عمدہ و مثالی سمعی عادات کے فروغ کے متمنی اساتذہ مرحلہ وار تدریسی احکامات اورحالات کے مطابق تربیت کا اہتمام کریں تاکہ سمعی رویوں میں بہتری اور عمدہ اکتساب کی راہیں ہموار ہوں۔مذکورہ رویوں کے فروغ میں ناکامی طلبہ کی اکتسابی صلاحیتوں کے انجماد کا باعث بنتی ہے اور درس و تدریس اور اساتذہ کی اہمیت و افادیت بھی گھٹ کر رہ جاتی ہے اسی لئے اساتذہ بچوں کو بات کچے کانوں سے سننے کے بجائے پکے کانوں سے سننے کی عادت ڈالیں۔ذیل میں چند ایسے اوصاف و عوامل کا ذکر کیا جارہا ہے جن کے ذریعہ پسندیدہ،پائیدارسمعی رویوں و عادات کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
(1)بات کہنا آسان مگر سننا مشکل ہوتا ہے۔ارتکاز توجہ،انہماک اور غیر جذباتی انداز سے سننا تو اور بھی مشکل ہوتا ہے ۔ سماعت کردہ الفاظ پر ذہنی و جسمانی آمادگی توجہ اور معنویت اسی وقت ممکن ہے جب آدمی ذہنی طور پر آمادہ،مطمین اور پرسکون ہو۔ اساتذہ درس و تدریس کے آغاز سے قبل طلبہ میں آمادگی ،جسمانی و ذہنی آسودگی اور توجہ کو ممکن بنائیں ۔
(2) اساتذہ گفتگو کے مخصوص اہداف و مقاصد سے طلبہ کو آگا ہ کر دیں تاکہ طلبہ گفتگو کے کلیدی جملوں کا �آسانی سے احاطہ کرسکیں۔
(3)سماعت کی کارکردگی سامع کے سماعت کردہ آوازوں کو معنی عطا کرنے پر منحصر ہوتی ہے۔ سماعت کردہ آوازوں کو سامع اپنی ذہنی لغت و فرہنگ کے مطابق معنی تفویض کرتا ہے ۔ اساتذہ ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنے والی سرگرمیوں کو روبہ عمل لائیں تاکہ طلبہ میں اچھی سماعت اور موثر اکتساب کو پروان چڑھا یا جاسکے۔
(4) گفتگو کے دوران طلبہ میں بتدریج فوراً غور و فکر اور تجزیہ و تحلیل کی عادت کو پروان چڑھائیں۔یہ عادت سماعت کردہ صداؤں سے زیادہ سے زیادہ مفاہیم و مقاصد کے استخراج میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
(5) اساتذہ طلبہ کو بات اسی تناظر میں سننے اور سمجھنے کی عادت ڈالیں جس تناظر میں مخاطب کہنا چاہتا ہے۔تناظر کا اختلاف، تعصب وبدگمانی موثر سماعت میں رکاوٹ کا باعث ہوتی ہے۔مثلاًمخاطب کچھ کہنا چاہتا ہے مگر سامع یا سامعین اسے کچھ اور سمجھ رہے ہوتے ہیں۔موثر انداز سے بات سننا ابلاغی مہارت (Communication skills)کا ایک اہم جزہے ۔ اچھا سامع مخاطب کی بات کو توجہ کے ساتھ سنتا ،سمجھتااور اپنی محافظ خانے(ذہن)میں محفوظ کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دل و دماغ میں ابھرنے والے منفی جذبات واحسا سات کو کنٹرول بھی کرتا ہے تاکہ جو بات مخاطب سمجھانا چاہتاہے اسے کماحقہ وہ سمجھ سکے۔اساتذہ طلبہمیں ارتکاز توجہ ،انہماک اور غیر جذباتی انداز سے سننے کی عادت ڈالیں۔
(6)جو تاثیر اور طاقت مؤثر انداز سے بات کہنے میں ہے وہی تاثیر اور طاقت مؤثر انداز سے بات سننے میں ہے۔اچھی گفتگو کے لیے دونوں لازم وملزوم ہیں۔اچھا سامع دوران سماعت مخاطب کے مثبت جسمانی حرکات و سکنات، چہرے کے تغیر وتبدل کے ذریعہ پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔آواز کے ساتھ چہرے کے تاثرات اورجسمانی حرکات و سکنات سے گفتگو کی معنویت و افادیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اساتذہ دوران گفتگو مخاطب کے چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھنے کی طلبہ کو تلقین کریں تاکہ اکتساب کی تاثیر میں اضافہ ہوسکے۔
(7)مخاطب کی بات کو لاپروائی و عدم توجہ کے بجائے دلچسپی و انہماک کے ساتھ سننے کی عادت طلبہ میں پختہ کرنا ضروری ہے ۔سامع کی دلچسپی مخاطب کو گفتگو پر ابھارتی ہے۔مخاطب کو گفتگو پر مائل کرنا ،آزادانہ طور پر اپنی بات رکھنے کا موقع فراہم کرناابلاغی مہارت کا اہم وصف ہوتا ہے جس سے طلبہ کو متصف کرنا اساتذہ کی اہم ذمہ داری ہے۔
(8)موثر سماعت سامع کی سوچ کی رفتارکو مخاطب کی گفتگو سے ہم آہنگ (Tune)کرنے کا نام ہے۔سماعت کے دوران متواتر غورو خوض، ذہن کے تلخیص کردہ نکات کی نظر ثانی اورتعین قدر (Evaluation) سے ذخیر ہ معلومات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔(جاری ہے)
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...