بہتر سماعت،عمدہ اکتساب’’سننا سیکھو! بولنا تو سب کو آتا ہے‘‘

سماعت کا اسلامی نظریہ
قوت سماعت انسان کو اللہ تعالیٰ کی عطاکرد ہ بیش بہا نعمتوں میں سے ایک انمول نعمت ہے۔ قرآن مجید میں سمع و بصر یعنی سننا اور دیکھنا کا ذکر 19 جگہوں پر کیا گیاہے، جن میں سے 17 مواقع پر سمع کا ذکر بصر سے پہلے آیا ہے ۔غور سے سننے اور سمجھنے کی بات سورہ فرقان میں سختی سے کہی گئی ہے’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘۔ اگرچہ انسان کو احسن تقویم اور اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے لیکن لاپروائی سے سننے والوں کو جانور قرار دیا گیا ہے۔ اگر ہم سنتے اور سمجھتے نہیں تو اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ہماری حیثیت اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں جانوروں جیسی بلکہ ان سے بھی بدتر ہوگی۔ یہ کیفیت اگرمسلسل رواں رہے تب انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب ہو جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے کہ ہدایت کی کوئی بات نہ سنتے، سمجھتے ہیں اور نہ ہی عمل کی توفیق ہوتی ہے۔ موثر سماعت اور تعمیر شخصیت کے اصول اور کورسس مغرب نے آج وضع و مرتب کئے ہیں جب کہ مسلمانوں کو یہ تعلیمات قرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں چودہ سو سال قبل ہی فراہم کی جاچکی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوہ مبارک کے ذریعے ہمارے سامنے دنیا کے سب بہترین سامع ہونے کا مثالی نمونہ پیش کیا ہے۔ احادیث اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے سے بھی ہمیں سماعت کی اہمیت کا پتا چلتا ہے’’ صحابہ کرام مجلس نبوی میں اس طرح بیٹھتے تھے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے ہیں جو ہلنے سے اُڑ جائیں گے۔‘‘لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اچھی سماعت ایک پیغمبرانہ خوبی ہے۔
سماعت کی نفسیاتی تعریف
آواز کو سننے،اس کی درجہ بندی ، تسلسل سے ترتیب دینا،بامعنی اور مہمل آوازوں کے مابین فرق کو سمجھنا اور اس کے معنی و مفہوم کو اخذ کرنا سماعت کہلاتا ہے۔باالفاظ دیگرپیغام کو وصول کرنا،تشریح کرنااور اس پرردعمل پیش کر نا سنناکہلاتا ہے۔سننا ابلاغی و ترسیلی عمل کا ایک اہم جز ہے۔آواز کو محسوس کرنا،پیغام کو اخذکرنا،اس کی تشریح اور اس پر رد عمل کا اظہار سننے کے عمل میں شامل ہے۔ دیگر اکتسابی صلاحیتوں کی طرح بچوں میں سماعت( سننے )کی عادت و مہارت کے سیکھنے کا آغاز بھی گھر سے ہوتا ہے۔اساتذہ اپنی سعی و کاوش سے بہتر اور عمدہ ماحول فراہم کرتے ہوئے نہ صرف اس صلاحیت کو تیزی سے پروان چڑھا سکتے ہیں بلکہ اسکول انتظامیہ کی مدد سے موثر سماعت کی عادات کے فروغ میں مانع عوامل پر قابو بھی پاسکتے ہیں۔بچوں کے لئے اوائل عمری سے ہی سماعت( سننے) کی بہتر تربیت کا اہتمام ضروری ہے۔ اچھی سماعت کی عادت بہتر اکتساب اور موثر گفتگو میں کلیدی کردارادا کرتی ہے۔ گردو پیش میں بکھری وسیع معلومات کے حصول میں اکتساب سے مربوط اہم مہارتوں سے لاعلمی یا سیکھنے میں تساہل اور بے پروائی کی وجہ سے طلبہ اکثر اپنی بہتر صلاحیتوں کو پیش کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔بحیثیت استاد جب آپ محتاط طریقوں سے طلبہ کی صلاحیتوں کے فرو غ کے لئے کوشاں ہیں تو لازماًدیگر اہم مہارتوں کے ساتھ آپ انھیں موثر طریقے سے سماعت کی( سننے کی) عادت و مہارت سے بھی متصف کرنا ہوگا۔ اساتذہ اکتسابی سہولتوں،وسائل اور مواقعوں سے استفادہ کرتے ہوئے سماعت(سننے) کی صلاحیت کو نہ صرف صیقل کرسکتے ہیں بلکہ اکتساب اور گفتگو کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ سماعت ایک مہارت ،فن اور ایسی جادوئی عادت ہے جو آدمی کو ہرکام میں سکون، اطمینان،آسودگی اور کامیابی فراہم کرتی ہے۔سماعت کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ولگاریورس(Wilga Rivers) کے ایک قول سے ہوتا ہے’’ جب ہم بات کرتے ہیں تو اسے دومرتبہ سنتے ہیں اگر پڑھتے ہیں تو چار مرتبہ اور لکھتے ہیں تو اسے پانچ مرتبہ سنتے ہیں‘‘۔ولگا ریورس کے قول کی روشنی میں طلبہ کوسمعی مہارتوں کی تدریس کی اشد ضرورت ہے تاکہ موثر اکتساب کویقینی بنایا جاسکے۔اساتذہ اگر سماعت کا مادہ بچوں میں پیدا نہیں کریں گے تب کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ان کی تدریس بے اثر، اکتا دینے والی ،بوریت سے لیس ، بے کیف اور ناپسندیدہ ہوکر رہ جائے گی۔سننا(Listening) ،بولنا(Speaking)،پڑھنا(Reading) اور لکھنا (Writing) یعنی (LSRW)تدریس کی چار بنیادی مہارتیں ہیں۔بچہ جس ماحول میں پرورش پاتا ہے اسی ماحول کے زیر اثر اس کی سمعی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔بولنا،پڑھنا اور لکھنا جیسی تدریسی بنیادی صلاحیتوں کا انحصار سماعت کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔
سماعت صرف کانوں کو کھلا رکھنے اور سننے کا نام نہیں بلکہ صحت کے ساتھ سننے اور اس کے مناسب ادراک و فہم کا نام ہے۔بہتر سماعت کی صلاحیت نہ صرف طلبہ کے لئے ضروری ہے بلکہ ایک اچھے انسان،استاد،منتظم،مہتمم اور رہنماکے لئے بھی اسے منظم طریقے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ عموماًلوگ انگریزی کے الفاظ Hearingاور Listeningکو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں مگر ان میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔Hearingکا مطلبہوتا ہے صرف سننا مگر Listeningکا مطلب ہے بات سننے کے ساتھ ساتھ سمجھنا۔ باالفاظ دیگرHearingکامطلب صرف سماعت اورListeningکا مطلب مو ثر سماعت ہے۔موثر سماعت(Listening) عام سماعت(Hearing عام سننے)سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔عام طور پرموثرسماعت(شعوری سماعت،تفہیمی سماعت) اور عام سماعت(غیر شعوری سماعت )ایک دوسرے سے باہم مربوط ہوتی ہیں اور اکثر دونوں کو ایک جیسا ہی تصور کیا جاتا ہے جب کہ دونوں کے درمیان نمایاں طورپر قابل فہم اور لطیف فرق پایا جاتا ہے۔ دماغ تک مختلف ذرائع سے پیدا شدہ آوازں کی قبولیت و ترسیل (Transmission) شعوری و غیر شعوری طور پر لہروں کی شکل میں ہوتی رہتی ہے۔سنناغیر شعوری سماعت(Hearing)کوکہتے ہیں اور جب دماغ شعوری طور پر صداؤں کی شنوائی میں معنی و مقصد شامل کرلیتا ہے تو اسے موثر( شعوری سماعت یاتفہیمی سماعتListening)کہاجاتا ہے۔ہارولڈ جانیس(Harold Janis) کا بیان دونوں سماعتوں کے مابین بہتر تفریق کرتا ہے ’’ موثر یاشعوری سماعت عام سننے کا نام نہیں ہے یہ آوازوں کی قبولیت کی اس سطح کا نام ہے جس میں فہم و ادراک کا کام انجام پاتا ہے اور سامع اورمتکلم دونو ں بھی تبادلہ خیال میں برابر کے شریک رہتے ہیں۔ (Listening is not merely hearing,it is a state of receptivity that permits understanding of what is heard and grants the listener full partnership in the communication process.Harlod Janis)اسی لئے شعوری طور پر سننا اسے کہتے ہیں جس میں موصول کرد ہ سمعی آوازوں میں مقصد ،مطلب و معنی کا رنگ شامل ہو۔عام سننا موثر و شعوری سماعت میں اس وقت تبدیل ہوجاتا ہے جب اس میں مقصد و معنویت کا پہلو شامل ہوجاتا ہے۔ ماسوابہروں کے سماعت ایک قدرتی صلاحیت ہے لیکن بات ا ور سمعی آوازوں کو سمجھنے کے لئے غور سے سننا ضروری ہوتا ہے۔ سماعت اس وقت موثرہو جاتی ہے جب اس کے اغراض و مقاصد مخصوصں ومعتین ہوں۔ جب کسی گفتگویا بات چیت کامطلب نہ سمجھاجاسکے تب سماعت کا عمل بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔بات چیت کے مفہوم کو سمجھناانسان کی اپنی فہم و فراست پر منحصر ہوتا ہے۔فہم اور سماعت دونوں مہارتوں کا ایک دوسرے پرانحصار ہوتا ہے اسی لئے یہ بہت ضروری ہے کہ بولنے والے کے کلام کو نہ صرف توجہ سے سنا جائے بلکہ اس سے مفہوم بھی اخذ کیا جائے۔مفہوم کا اخذ و حصول، سماعت کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔طلبہ میں باشعور وموثر سماعت کی عادت کے فروغ کے ذریعے دو گراں قدر اوصاف جاگزیں کئے جاسکتے ہیں۔
(1)موثرسماعت طلبہ میں معلومات کے اضافے کے علاوہ زبانی یاداشت (Verbal Memory)کے فروغ میں بھی ممد ومعاون ثابت ہوتی ہے۔
(2)صحت مند شعوری سماعت انسان میں سلیقہ گفتگو پیدا کرتے ہوئے شخصیت کو چارچاند لگا دیتی ہے۔سلیقہ مند گفتگو کے لئے صحت مند شعوری سماعت بے حد ضروری تصور کی جاتی ہے۔بہتر سماعت سے گفتگو میں سلیقہ اور تاثیر پیدا ہونے کی وجہ سے بین شخصی تعلقات میں بھی بہتری پیدا ہوتی ہے۔
بچوں میں سننے کی ابتدا پیدائش کے بعد ہی ہوجاتی ہے۔ابتدا میں بچوں کا مسکرانا،ہنسنا اور رونا،سننے کے ردعمل کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔اسکولی زندگی کے آغاز سے قبل ہی بچے آوازوں جیسے افراد خاندان کی آوازیں،پڑوسیوں کی آوازیں،رشتہ داروں کی آوازیں،فقیروں،راہ گیروں،پھیری والے کاروباری افراد کی آوازیں،دوکاندار،مداری وغیرہ کی آوازیں،مذہبی رسومات جیسے اذان،نماز،تلاوت ،پوجا پاٹ وغیرہ کی آوازوں سے آشنا ہوجاتے ہیں۔حصول علم و اکتساب میں سننے کا عمل اساسی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اسکول کی زندگی سے قبل بچے غیر شعوری طور پر تلفظ اور صوتیات سے واقف ہوجاتے ہیں۔اسکول انہیں فہم و ادراک فراہم کرتا ہے۔سننے کا مطلب کانوں تک پہنچنے والی ہربات نہیں ہے بلکہ صحت و فہم کے ساتھ سننے کو موثر سماعت کہاجاتا ہے۔سماعت زندگی بھر سیکھنے کے عمل اور معنی خیز ابلاغ و معاشرت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔گفتگو کے سلیقے اور سماعت کے شعور کے لئے منظم تربیت و رہنمائی درکار ہوتی ہے۔سامع سمعی پیغامات سے مقاصد کا استخراج اپنے سابقہ تجربات ،ذخیرہ علم و فہم اور شرح ارتکازسے کرتا ہے۔سماعت کا عمل ذہنی اعتبار سے تین مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
(1)پیغامات کی ترسیل کرنے والی آوازوں کو وصول کرنا
(2)آواز سے پیداشدہ محرکہ پر توجہ مرکوز کرنا
(3)سمعی محرکہ کو معنویت عطا کرنا
سمعی عمل و مہارت
اسکولس پڑھنے،لکھنے اور تقریر ی(بولنے کی) صلاحیتوں کے فروغ میں توکوشاں دکھائی دیتے ہیں لیکن سماعت جیسی اہم مہارت کے فروغ میں ان کی بے اعتنائی لائق مذمت اور قابل گرفت ہے جس کی بناطلبہ متعدد اکتسابی مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔ماہرین تعلیم و نفسیات کے مطابق پڑھنے ،لکھنے،بولنے کی مہارتوں کی طرح سننے کی مہارت بھی انسانی ترقی اور کامیابی کا لازمی جزو ہے اور اسے پروان چڑھانا ضروری ہے۔ ترقی پسند ممالک اپنے مدارس اور دیگر تربیتی اور کاروباری اداروں میں سماعت کی مہارت کی باقاعدہ تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہئے کہ وہ طلبہ کو زیادہ سننے کے بجائے بہتر سننے کی عملی تربیت فراہم کریں۔بامعنی و بامقصد سماعت کے لئے چندمخصوص مہارتوں سے ہر آدمی کا متصف ہونا ضروری ہے۔سماعت کئی پیچیدہ اور گنجلگ رویوں کے مجموعہ کا نام ہے اور ان رویوں کی بہتری سننے کی صلاحیت کے فروغ کا باعث ہوتی ہے۔ سعی و محنت کے ذریعے سمعی کارکردگی کوبہتر بنایا جاسکتاہے۔ سماعت کی کامیابی پیغام کو سن کر، معنی و مفاہیم اخذ کرتے ہوئے اس سے مربوط سوالات کے جوابات دینے پر منحصر ہوتی ہے۔سماعت میں مانع عوامل پر قابو اور مددگار عوامل و رویوں کا علم حاصل کرتے ہوئے کوئی بھی آدمی اچھا سامع بن سکتاہے۔سماعت کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے میں زبانی اور بصری(Verbal and Visual Stimuli) محرکات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔موثر سماعت میں ذہنی آمادگی کو اولیت حاصل ہے۔صوتی محرکات پر توجہ مرکوز نہ کرنے کی وجہ سے ذہن صداؤں میں پوشیدہ معنی و مفاہیم کے ادراک میں ناکام رہتا ہے ۔قوت ارتکاز کے بغیر سماعت کارگر ثابت نہیں ہوتی۔سمعی عمل کی اثر پذیری کا تعلق ذہنی و جسمانی توجہات کے دورانیہ پر منحصر ہوتا ہے۔اگر ذہن و جسم تھکا ہوا ہو تب سننے کی کیفیت بھی کم ہوجاتی ہے۔سمعی عمل کے موثر ہونے کا راست تعلق ذخیر ہ الفاظ(Vocubalory)،علم(Knowledge)اور زندگی کے تجربات پر مبنی ہوتا ہے۔صداؤں کو جب ذہن معنی و مفہوم عطا کرتا ہے تب سمعی عمل اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے۔دوران گفتگو متکلم کی جانب سے پیش کردہ غیر لفظی (Non-Verbal)پیغامات بھی سماعت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔سماعت اور اس سے وابستہ خصوصیات کا علم و ادراک اساتذہ کے لئے لازمی تصور کیاجاتا ہے تاکہ وہ طلبہ کو بہتر سامع اور عمدہ طالب علم بنا سکیں۔ اچھی سماعت اور موثر و دلکش سامع بننے کے لئے سماعت کی بہتری میں معاون رویوں پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اساتذہ تمام طلبہ میں سمعی مہارتوں کے فروغ کی اہم ذمہ داری سے سرموئے انحراف نہ کریں تاکہ ان کی گفتگو میں حسن ،دلکشی اور اثر پیدا ہو۔طلبہ میں عمدہ و مثالی سمعی عادات کے فروغ کے متمنی اساتذہ مرحلہ وار تدریسی احکامات اورحالات کے مطابق تربیت کا اہتمام کریں تاکہ سمعی رویوں میں بہتری اور عمدہ اکتساب کی راہیں ہموار ہوں۔مذکورہ رویوں کے فروغ میں ناکامی طلبہ کی اکتسابی صلاحیتوں کے انجماد کا باعث بنتی ہے اور درس و تدریس اور اساتذہ کی اہمیت و افادیت بھی گھٹ کر رہ جاتی ہے اسی لئے اساتذہ بچوں کو بات کچے کانوں سے سننے کے بجائے پکے کانوں سے سننے کی عادت ڈالیں۔ذیل میں چند ایسے اوصاف و عوامل کا ذکر کیا جارہا ہے جن کے ذریعہ پسندیدہ،پائیدارسمعی رویوں و عادات کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
(1)بات کہنا آسان مگر سننا مشکل ہوتا ہے۔ارتکاز توجہ،انہماک اور غیر جذباتی انداز سے سننا تو اور بھی مشکل ہوتا ہے ۔ سماعت کردہ الفاظ پر ذہنی و جسمانی آمادگی توجہ اور معنویت اسی وقت ممکن ہے جب آدمی ذہنی طور پر آمادہ،مطمین اور پرسکون ہو۔ اساتذہ درس و تدریس کے آغاز سے قبل طلبہ میں آمادگی ،جسمانی و ذہنی آسودگی اور توجہ کو ممکن بنائیں ۔
(2) اساتذہ گفتگو کے مخصوص اہداف و مقاصد سے طلبہ کو آگا ہ کر دیں تاکہ طلبہ گفتگو کے کلیدی جملوں کا �آسانی سے احاطہ کرسکیں۔
(3)سماعت کی کارکردگی سامع کے سماعت کردہ آوازوں کو معنی عطا کرنے پر منحصر ہوتی ہے۔ سماعت کردہ آوازوں کو سامع اپنی ذہنی لغت و فرہنگ کے مطابق معنی تفویض کرتا ہے ۔ اساتذہ ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنے والی سرگرمیوں کو روبہ عمل لائیں تاکہ طلبہ میں اچھی سماعت اور موثر اکتساب کو پروان چڑھا یا جاسکے۔
(4) گفتگو کے دوران طلبہ میں بتدریج فوراً غور و فکر اور تجزیہ و تحلیل کی عادت کو پروان چڑھائیں۔یہ عادت سماعت کردہ صداؤں سے زیادہ سے زیادہ مفاہیم و مقاصد کے استخراج میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
(5) اساتذہ طلبہ کو بات اسی تناظر میں سننے اور سمجھنے کی عادت ڈالیں جس تناظر میں مخاطب کہنا چاہتا ہے۔تناظر کا اختلاف، تعصب وبدگمانی موثر سماعت میں رکاوٹ کا باعث ہوتی ہے۔مثلاًمخاطب کچھ کہنا چاہتا ہے مگر سامع یا سامعین اسے کچھ اور سمجھ رہے ہوتے ہیں۔موثر انداز سے بات سننا ابلاغی مہارت (Communication skills)کا ایک اہم جزہے ۔ اچھا سامع مخاطب کی بات کو توجہ کے ساتھ سنتا ،سمجھتااور اپنی محافظ خانے(ذہن)میں محفوظ کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دل و دماغ میں ابھرنے والے منفی جذبات واحسا سات کو کنٹرول بھی کرتا ہے تاکہ جو بات مخاطب سمجھانا چاہتاہے اسے کماحقہ وہ سمجھ سکے۔اساتذہ طلبہمیں ارتکاز توجہ ،انہماک اور غیر جذباتی انداز سے سننے کی عادت ڈالیں۔
(6)جو تاثیر اور طاقت مؤثر انداز سے بات کہنے میں ہے وہی تاثیر اور طاقت مؤثر انداز سے بات سننے میں ہے۔اچھی گفتگو کے لیے دونوں لازم وملزوم ہیں۔اچھا سامع دوران سماعت مخاطب کے مثبت جسمانی حرکات و سکنات، چہرے کے تغیر وتبدل کے ذریعہ پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔آواز کے ساتھ چہرے کے تاثرات اورجسمانی حرکات و سکنات سے گفتگو کی معنویت و افادیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اساتذہ دوران گفتگو مخاطب کے چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھنے کی طلبہ کو تلقین کریں تاکہ اکتساب کی تاثیر میں اضافہ ہوسکے۔
(7)مخاطب کی بات کو لاپروائی و عدم توجہ کے بجائے دلچسپی و انہماک کے ساتھ سننے کی عادت طلبہ میں پختہ کرنا ضروری ہے ۔سامع کی دلچسپی مخاطب کو گفتگو پر ابھارتی ہے۔مخاطب کو گفتگو پر مائل کرنا ،آزادانہ طور پر اپنی بات رکھنے کا موقع فراہم کرناابلاغی مہارت کا اہم وصف ہوتا ہے جس سے طلبہ کو متصف کرنا اساتذہ کی اہم ذمہ داری ہے۔
(8)موثر سماعت سامع کی سوچ کی رفتارکو مخاطب کی گفتگو سے ہم آہنگ (Tune)کرنے کا نام ہے۔سماعت کے دوران متواتر غورو خوض، ذہن کے تلخیص کردہ نکات کی نظر ثانی اورتعین قدر (Evaluation) سے ذخیر ہ معلومات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔(جاری ہے)

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں