مشرق وسطیٰ سیاست میں ایک نئی تبدیلی۔۔

خبر ملی کہ شامی دارالحکومت دمشق میں متحدہ عرب امارات سفارت خانہ کھول رہا ہے۔یو اے ای کا سفارت خانہ 2011ء کے اوائل میں صدر بشارالاسد کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کے آغاز کے بعد بند کردیا گیا تھا۔

اور آج کی خبر ہے کہ بحرین کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ شام میں بحرین کا سفارت خانہ کام جاری رکھے گا۔ اسی طرح منامہ میں بھی شام کا سفارت خانہ اپنا کام انجام دے رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان فضائی پروازوں کا سلسلہ بھی بنا منقطع ہوئے جاری ہے۔ (العربیہ نیوز)

کچھ بعید نہیں کہ کل سعودی عرب کی طرف سے اسی طرح کی “خوشخبری” آئے۔ یو اے ای اور بحرین سعودی عرب کے اتحادی ہیں چاہے قطر کا معاملہ ہو یا یمن کا۔

مشرق وسطیٰ کے کرنٹ صورتحال میں یہ “تبدیلی” کیسے آئی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ امریکی صدر کا گزشتہ دنوں دیا جانے والا بیان جس میں انہوں نے شام سے فوجی دستے واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ اس بیان پر خلیجی ممالک نے تشویش کا اظہار کیا کہ امریکہ کے نکلنے سے شام کے مستقبل میں ایران اور ترکی کا کردار بڑھ جائے گا۔ خلیجی ممالک ایران کے خلاف سخت موقف ہمیشہ سے رکھتے رہے ہیں۔ 2011 سے سعودی عرب اور ترکی شام کے اشو پر ایک جیسا موقف نہیں رکھتے اور اب سعودی صحافی کی انقرہ میں پر اسرار موت کے تناظر میں ترکی کے ساتھ بھی انکے تعلقات کشیدہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اب تازہ خبر سنیے بی بی سی کے مطابق شام میں حکومت حامی فوجیں ملک کے شمال میں واقع اہم شہر منبج میں گذشتہ چھ سال میں پہلی بار داخل ہوئی ہیں۔

یہ شہر کرد جنگجؤوں کے کنٹرول میں رہا ہے مگر امریکہ کے شام سے انخلا کے بعد امریکہ حامی کرد فورسز کو خوف تھا کہ ہمسایہ ملک ترکی ان کے خلاف کارروائی نہ شروع کر دے۔

اطلاعات کے مطابق شامی فوجوں نے کردوں کی درخواست پر اس شہر پر قبضہ کیا ہے۔

بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد ایران اور روس کی سپورٹ سے اپنے مخالفوں پر غالب آ رہے ہیں۔ 2011 کے بعد سے خلیجی ممالک مائنس بشار کرکے انکے متبادل اپنے پسندیدہ شامی قیادت لانے کے خواہاں نظر آتے تھے مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو دیکھتے ہوئے انہوں نے یوٹرن لیا ہے تاکہ بشار الاسد سے تعلقات دوبارہ قائم کرکے ایران و ترکی کے کردار کو کم کیا جا سکے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں