پرانے سال کے تحائف  

ہر بدلتا دن اور ہر بدلتی گھڑی لوگوں کی زندگیوں میں  تبدیلی لاتی ہے یہ تبدیلی اچھی یا بری ہو سکتی ہے آج کل تبدیلی کا نام سنتے ہی کیا بچے کیا بڑے سبھی کا ذہن ایک ہی طرف جاتا ہے اور جائے بھی کیوں نہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کی طرف لوگ متوجہ ہوئے۔ پانی بجلی، مہنگائی  اور بیروزگاری سے تنگ عوام نے پرانے چہروں کی تبدیلی کیلئے انہیں  ووٹ  دیا مگر بےسود ۔

تبدیلی کے نام پر وہی پرانے دھندے بلکہ اور بھی دو ہاتھ آگے۔ بجلی مہنگی، گیس نایاب، لوگوں  کے چلتے کاروبار ختم، تجاوزات کے نام پر لوگوں کے گھر مسمار ، ناموس رسالت پر حملے، نصاب میں تبدیلیاں، اسلامیات پڑھانے کیلئےاقلیتی کوٹہ مختص، جامعات میں ثقافت کے نام پر عریانی کو فروغ، شراب پر پابندی کے بل کی مخالفت، آئی ایم ایف سے قرضہ لینے اور بیرون ملک کشکول لیکر پھرنے کی روایت برقرار ،امراء اور وزراء کیلئے کھلی چھوٹ اور غریب عوام ٹیکس  کے شکنجے میں، غیر رجسٹرڈ مدارس بند کرنے اور گیاره  سو نئے سینما بنانے کا حکم نامہ جاری، الیکٹرانک میڈیا کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ فحش و حیا سوز مناظر دکھائیں قطع نظر اسکےکہ پورے سال میں کتنے ہی ماں باپ کو اپنے معصوم بچوں کی لاشیں وصول کرنی پڑیں۔ جمعہ  کے خطبے میں خطیبوں پر پابندی عائد ،علماء  قید اور جاسوس رہا کئے  گئے، ڈیم بنانے کیلئے بھیک کا عمل جاری ہے اور سینما  کیلئے اربوں  روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے ،کرسمس کے تہوار کو سرکاری سطح پر منایا گیا اور علامہ اقبال و بابائے قوم کے یوم پیدائش سے غفلت برتی گئی، شاتم رسول کی یاد میں منائے جانے والے ہندو تہوار بسنت کو سرکاری سطح پر منائے جانے کا اعلان کیا گیا جوکہ دراصل عوام کے خون سے ہولی کھیلنے سے مترادف ہے۔وہ عوام جو پہلے ہی بنیادی ضرورت نہ ہونے کے باعث در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔کراچی شہر کے رہائشی علاقوں میں چار چار دن تک پانی و گیس کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔سی این جی پمپ غیر معینہ مدت کیلئے بند کردیئے جاتے ہیں۔صنعتوں کو گیس کی فراہمی روک دی جاتی ہے اس بات سے قطع نظر کہ صنعت کا پہیہ چلے گا تو ملک کا پہیہ چلے گا ہسپتالوں سے مریض واپس کر دیئے جاتے ہیں کہ گیس و بجلی کی عدم فراہمی کے باعث سرجری نہیں ہوسکتی۔اندرون سندھ چلے جائیں گنے کے کاشتکار  دھرنا دیئے بیٹھے ہیں کہ جن داموں میں ان سے مل مالکان گنا خریدتے ہیں اس سے کئی گنا مہنگی جلانے کی لکڑی ہے ۔آئے دن گھروں سے افراد اٹھالئے جاتے ہیں یا راہ چلتے غائب کر دیئے جاتے ہیں اور انکے ورثاء در در کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں۔چیف  جسٹس صاحب جنکا کام عدل و انصاف  کی فراہمی تھا وہ خاندانی منصوبہ بندی اور ڈیم فنڈنگ پروجیکٹس میں الجھے ہوئے ہیں۔

یہ پرانے سال کے تحائف ہیں جو تبدیلی کے نام پر لوگوں  کو دیئے گئے۔

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کے مصداق نئے سال کے نئے تحائف کیا ہونگے یہ تو آنے والا نیا سال ہی بتائے گا۔

بحیثیت مسلم امہ ہم اس کشتی کے مسافر  ہیں جو طوفان کی زد میں ہےقیامت صغری کے مناظر ہر مسلم خطے میں دکھائی  دے رہے ہیں شامی فلسطینی کشمیری مدد کی امید لئے ایٹمی قوت پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں مگر پاکستان اندرونی سازشوں اور مسائل سے نبردآزما ہے۔ تھوڑا غم تو تھوڑی خوشی ۔۔۔۔۔۔افغانستان  امریکہ کے تسلط سے آزاد ہونے جارہا ہے خدا کرے کہ آنے والا نیا سال کشمیر شام اور فلسطین کیلئے آزادی کی نوید لائے اور پاکستان  کو نااہل حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کرے۔ ان شاءاللہ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں