عادتیں انسانی شخصیت کی عکاس ہوتی ہیں۔عادتیں اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی۔ اچھی عادتیں جس قدرفائدہ بخش ثابت ہوئی ہیں بالکل اسی طرح بری عادتیں بھی اتنی ہی نقصان رساں ثابت ہوتی ہیں۔اچھی عادتوں کو اپنانامشکل ضرور ہے لیکن ان سے زندگی سہل اور آسان ہوجاتی ہے۔اس کے برخلاف بری عادتوں کو اپنانا بہت ہی آسان ہوتا ہے لیکن اس سے زندگی مشکل اور ابتر ہوجاتی ہے۔ ارسطوکے مطابق’’ زندگی میں ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ہماری عادات ہی کا نتیجہ ہوتا ہے‘‘۔ عادت کے بارے میں کہا گیاہے کہ یہ ابتدا میں مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہوتیہے مگر ہر گزرتے لمحے فولاد کی طرح سخت اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہے جسے ترک کرنا بہت ہی دشوار ہوجاتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ بری عادتیں قبر تک ساتھ جاتی ہیں۔عادتوں کی تشکیل اور فروغ میں والدین ،گھر ،سماج ،اسکول کے ماحول کے علاوہ اساتذہ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔طلبہ تو طلبہ والدین اور اساتذہ تک اپنی نظروں کے سامنے موجود چیزوں کو غیر اہمجان کر بے خبر اور غافل رہتے ہیں جس کی وجہ سے بچے’’خشت اول چوں نہد معمار کج،تاثریامی رود دیوار کج(معمار اگر پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے تب دیوار اگر ثریا(بلندی) تک بھی پہنچ جائے ٹیڑھی ہی ہوگی)‘‘ کے مصداق غیر پسندیدہ عادتوں کا شکار ہو کر زندگی بھربری عادتوں کے غلام ہوجاتے ہیں۔ ہر آدمی کوبہت ہی سوچ سمجھکر عادتیں اپنانا چاہئے ۔اکثر ماہرین تعلیم و نفسیات کا اس بات پراجماع ہے کہ بچے زندگی بھر اپنی ابتدائی تعلیم کے زیر اثر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ساری زندگی ان کی شخصیت پران کی ابتدائی زندگی، علم، عادتوں، رحجانات، تجربات اور نظریات کے اثرات نمایاں طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ کسی بھی بری عادت کو چھوڑنا بہت ہی مشکلہوتا ہے۔بری عادت سردی کے موسم میں ایک گرم بسترکی مانند ہوتی ہے جس میں گھسنا تو آسان ہے لیکن باہر نکلنا بہت ہی مشکل ۔
عادتوں کی تشکیل اور فروغ میں تعلیمی نصاب و معیار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔معیاری تعلیم اور اعلی کردار سازی کے زیر اثر ہی طلبہ اپنی ذہنی و تحقیقی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں پیش کرسکتے ہیں۔طلبہ میں مثبت اور صحت مند عادتوں کی تشکیل و فروغ کے لئے معیار تعلیم کو بہتر بنانے میں حکومت، والدین اور اساتذہ کے علاوہ ملک و ملت کی تعمیر سے وابستہ ہرفرد کو اپنا کردار ادا کرناضروری ہے۔تعلیم کا تربیت سے وہی رشتہ ہے جو جسم اور روح کے درمیان پایا جاتا ہے اور یہ ایک دوسرے کے بغیر ادھورے اور نامکمل ہیں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت کی اصطلاح رواج پانے کی یہ ایک معقول وجہ معلوم ہوتی ہے۔تعلیم کا تعلق جہاں معلومات کی فراہمی و فروانی سے ہے وہیں تربیت کا شعبہ سیرت و کردار کی تشکیل و تعمیر سے تعلق رکھتا ہے۔تربیت تعلیم کے زیر اثرپرورش پاتی ہے۔ تربیت کا تعلیم پر اور تعلیم کا تصور علم(World View)پر انحصار ہوتا ہے۔مختصراًتعلیم جیسی ہوگی تربیت بھی ویسی ہی ہوگی اور جیسا تصور علم ہوگا ویسی ہی تعلیم بھی ۔ ہر تصور علم ایک مخصوص تعلیمی نظام اور اس کی مطلوب شخصیت و معاشرے کو جنم دیتاہے۔ وہ معاشرہ یا افراد جواللہ کی ہدایت اورنبی کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنے کے متحمل نہ ہوں،آخرت پر یقین نہ رکھتے ہوں،دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوں،اللہ کو وحدہ و لاشریک نہ مانتے ہوں، ہدایت خداوندی کے مطابق معاملات زندگی گزارنے کے قائل نہ ہوں تب اس ورلڈ ویو سے ایک خاص قسم کا تصور علم اوراس تصور علم سے نکلنے والے مخصوص قسم کے علوم کے زیر سایہ ایسا نظام تعلیم و تربیت وجودمیں آئے گاجس کے نتیجے میں ایسے افراد و ہستیاں تیارہوں گی جوہمیشہ اس باطل معاشرے کی ضروریات کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل رہیں گی۔ ایسے تصور علم کے سائے میں تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہوئے مسلمان اگر کسی فکری انقلاب کے متمنی ہے تو ان کی عقل و دانش پر سوائے افسوس کے کچھ اور نہیں کیا جاسکتا۔ایسامعاشر ہ جو اللہ کو ایک مانے، اس کاآخرت پرایقان ہو،دنیوی معاملات میں اللہ کی کتاب و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روشنی حاصل کرے تب اس ورلڈ ویو سے ایک ایسا تصور علم اور اس تصور علم سے دیگر خاص علوم اور نظام تعلیم و منہج تربیت ابھریں گے جس سے مسلم معاشرے کے تقاضوں کی تکمیل ممکن ہے۔مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ تربیت کا انحصار ،تعلیم پر اور تعلیم کا انحصار تصور علم پرواقع ہے۔جس تعلیمی نظام کے زیر اثر ہمارے نونہال پروان چڑھ رہیں ہیں اس سے ہمارے مطلوب معاشرے کی تعمیر ،تشکیل اور تکمیل ناممکن ہے ۔اسی لئے ضروری ہے کہ تزکیہ اعمال سے قبل تزکیہ تعلیم وتزکیہ تصور علم (ورلڈ ویو)کی سخت ضرورت ہے۔تزکیہ سے مراد اچھی عادات کو اپنانا اور بری عادات سے بچنا ہے۔اچھے اور برے کا تعین تصورعلم سے ہوتا ہے ۔جیسا علم ہوگا ویسے ہی انسان کے خیالات و عقائد ہوں گے اور انسان کے جیسے خیالات ہوں گے ویسے ہی اعمال و عادتیں ہوں گی اور جیسی عادتیں ہوں گی ویسی ہی شخصیتوں کا وجود عمل میں آئے گا۔
معاشرتی زندگی میں پھیلی ہوئی اخلاقی گراوٹ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا تعلیمی معیار آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف یعنی معکوس ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں اساتذہ،ذمہ داران مدارس اور والدین کے درمیان اشتراک عمل کا فقدان پایا جاتا ہے۔والدین بچوں کی اخلاقی پستی ،بری عادتوں اور بے راہ روی کے لئے اساتذہ اور مدارس اور اہل مدارس کو ذمہ دار گردانتے ہیں جب کہ بچوں کو نیک یا بد بنانے اور مدارس میں فراہم کردہ تعلیم اور اخلاق وعادات کو پختہ کرنے میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بچے روازنہ چوبیس گھنٹوں میں سے تقریباً اٹھارہ گھنٹے اپنے گھر میں گزارتے ہیں۔بچے جو کچھاپنے بچپن اور ایام طالب علمی میں سیکھتے ہیں و ہ زندگی بھران کے ذہنوں میں محفوظ رہتا ہے۔ مو بائل فون،کیبل ٹی وی اور انٹرنیٹ جیسی فضول سہولیا ت تفریح کے نام پر مہیا کرتے ہوئے والدین بچوں کو کچی عمر میں تباہی کے پختہ سامان فراہم کررہے ہیں۔ گھر میں بچوں کے اوقات اور مشاغل سے غفلت برتنے والے والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی کوئی توقع نہ رکھیں۔ والدین کی غفلت کی وجہ سے بری عادات کاشکار بچوں کی ذہنی افتاد اسکول کی اعلیٰ سے اعلیٰ معیاری تعلیم بھی دور نہیں کر سکتی ۔ معاشرے کی زبوں حالی اور اخلا قی گراوٹ کا ایک بڑا سبب والدین کی اپنی اولاد کی تربیت سے غفلت ہے۔معاشرہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے ۔اگر فرد کی تربیت صحیح خطوط پرانجام نہ دی جائے تب ایسے افراد کے مجموعے سے تشکیل پانے والا معاشرہ زبوں حالی سے کسی بھی طور محفوظ نہیں رہ سکتا۔گھر کے ماحول کا بچوں کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اگر گھر والے نیک سیرت اورخوش اخلاق‘ بچوں سے محبت و شفقت سے پیش آنے والے‘ آپس میں اتفاق و محبت سے رہنے والے ہوں تب ان کے زیر سایہ پرورش پانے والے بچے بھی حسن و اخلاق کے پیکر اور کردار کے غازی ہوں گے۔ اس کے برعکس عیاش‘ لڑائی جھگڑا‘ گالی گلوچ کرنے والوں گھرانوں میں پرورش پانے والے بچے ان مسموم و ناپاک اثرات سے ہرگز محفوظ نہیں رہ سکتے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کو اولاد کی تربیت کی طرف خصوصی طور پر متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ’’کوئی باپ اپنے بچے کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم و تربیت دے‘ انسان کا اپنی اولاد کو ادب کی ایک بات سکھانا ایک صاع (ساڑھے تین سیر) غلہ خیرات کرنے سے بہتر ہے۔
اس مضمون میں صحت مند عادتوں کی تشکیل و فروغ کے بنیادی اور عمومی رہنمایانہ (General Guidance)نکات کا جائزہ لینے کے علاوہ تربیت کے اہم ترین اصولوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ایام بچپن و دورنوجوانی میں بچے خود کو ہر لمحہ یکسر مخالف سمتوں میں جانے والے راستوں پر کھڑے پاتے ہیں۔ ہر راستہ انھیں اپنی جانب کھینچنے لگتا ہے۔ایک طرف خوبیاں اور اچھائیاں دعوت دیتی ہیں تو دوسری جانب نفسانی خواہشات،نفس امارہ اور شیطانی وسوسوں کی جلوآرائیاں بھی انھیں اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔عقل و خواہشات ،خیر و شر ،پاکیزگی اور غلاظت کے درمیان جاری اس کشاکش میں وہی سرخرو ہوسکتا ہے جس نے ابتدائی عمر سے ہی خود سازی اور جہاد بالنفس کا اہتمام کیا ہو۔والدین،اساتذہ اور منتظمین مدارس کا فرض اولین ہے کہ وہ بچوں کو ان کی اوائل عمر سے ہی خوف خدا اور تقویٰ کے احساس سے ممیز کردیں۔جوشخص اللہ کے خوف اور تقویٰ سے آراستہ ہوجاتا ہے وہ زندگی کے ہر امتحان میں کامران و سرفراز ہوجاتا ہے۔بچوں کی تربیت صرف پڑھانے پر موقوف نہیں ہے بلکہ مختلف رویوں‘ باتوں اور باہمی تعلقات کی تعلیم و تربیت سے اس کی تکمیل انجام پاتی ہے۔ بچوں کو اللہ سے محبت کرنا اور اس کی کبریائی بیان کرنا ،اس کی حمد و ثنا اور عبادت کرنے کی عادتیں سکھانے کے ساتھ بات کرنے سے پہلے سلام کرنا‘ بڑوں کا ادب‘چھوٹوں سے شفقت، گفتگو کے آداب‘ والدین کی فرمانبرداری‘ ضروری عقائد‘ کھانے پینے کے آداب‘ حسن اخلاق‘ پاکیزگی‘ مختلف دعائیں‘ خوف خدا‘ شکر اور صبر کرنا‘ خود اعتمادی‘ سچ بولنا جیسی عادتیں سکھانی بے حد ضروری ہے۔طالب علمی کا دور تربیت اور تعمیر ذات کا بہترین زمانہ ہوتا ہے ۔ اس عمر میں برائیاں اور خراب عادتیں بچوں پر اپنا مکمل رنگ جمانے میں کامیاب نہیں ہوتی ہیں کیونکہ خرابیاں اور بری عادتیں اس عمر میں ابھی پختہ نہیں ہوئی ہوتیں ہیں جس کی وجہ سے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔آدمی کی عمر جیسے جیسے بڑھتی ہے خراب عادتوں سے چھٹکارا پانااس کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوجاتا ہے۔مولانا روم اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے راستے میں ایک خاردار درخت بویا۔راستہ چلنے والوں کو اس سے تکلیف پہنچنے لگی۔راہ گیروں نے جب اس شخص سے درخت کاٹنے کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ وہ آئندہ برس اسے کاٹ دے گااور آئندہ برس اس نے درخت کی کٹائی کو مزید ایک اور سال تک موخر کردیا۔یہ سلسلہ کئی سالوں تک یوں ہی چلتا رہاجس کے نتیجے میں درخت ہرسال بڑھتا رہا اور اس کی جڑیں مزید مضبوط اور گہری ہوتی گئی جب کہ لگانے والا آدمی ہر سال کمزور اور ضعیف ہوتا گیا۔ہماری حالت بھی اسی خاردار درخت بونے والے شخص کی مانند ہے کیونکہ انسان میں عادات وصفات روز بہ روز پختہ تر ہوتے جاتے ہیں اور اس کے ارادے اور حوصلے وقت کے ساتھ کمزور ہوتے رہتے ہیں۔
خار بن در قوت و برخاستن
خارکن درسستی و درکاستن
خار دار درخت قوی اور بلند ہوتا رہتا ہے۔جبکہ کانٹے اکھاڑنے والا کمزور ی اور ضعف کی طرف مائل ہوتا ہے(مثنوی مولانا روم)۔‘‘اصلاح نفس یعنی عادت گیری کے لئے بوڑھاپے سے جوانی اور جوانی سے بچپن بہتر ہے۔ طلبہ اپنی ابتدائی عمر میں ہی بری عادتوں کو ترک کردیں۔بری صحبتوں اور بری عادات سے ہمیشہ پرہیز کریں۔بہت سارے طلبہ عزم و ارادے کی کمزوری اور قوت فیصلہ کے فقدان کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔بارہا کوشش و عزم کے باوجود مذموم و ناپسندیدہ عادات سے چھٹکارا پانے سے وہ خو د کو عاجز پاتے ہیں۔طلبہ ہمیشہ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ خصائل رذیلہ سے چھٹکارا پانا ناممکن نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ سورہ عنکبوت میں فرماتے ہیں’’اور جنہوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم انہیں ضروراپنی راہیں سمجھا دیں گے،اور بے شک اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔‘‘(سورہ عنکبوت آیت نمبر 69) خراب عادتوں سے نجات پانے کی طلبہ کی یہ کاوشیں ان میں جستجو و جد و جہد کا مادہ پیدا کردیتی ہے اور آگے چل کر وہ سرکش نفس کو قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
شخصیت انسان کے ظاہری وباطنی اور اکتسابی و غیر اکتسابی خصوصیات (Personality Attributes)کے مجموعہ کا نام ہے۔ اگر کوئی ہم سے کسی کے بارے میں دریافت کرے تب ہم فوراً اس انسان میں پائے جانے والے چند صفات کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ محنتی،وقت کا پابند ،ذہین ،مخلص ،غصہ وریاجھگڑالو ہے ۔ بچوں کو خراب پہچان اور برے تعارف سے بچانے کے لئے انھیں منفی عادات و اطوار جیسے تکبر ،جھوٹ بولنا، غصہ کرنا،تساہل برتنا،غیبت کرنا ،چوری کرنا،گالی دینا،وعدہ خلافی کرنا ،وقت کی ناقدری کرنا،لعنت کرنا،شکایت کرنا،دوسروں کے عیبوں کی تشہیر کرنا،کسی کا مذاق اڑانااور معمولی معمولی باتوں پر ترک تعلق کرنا سے بچانا بے حد ضروری ہے۔دنیا میں صرف انسان کی اصلاح کے ذریعہ ہی امن و سکون اور محبت کی فضا پیدا کی جاسکتی ہے اور انسان کی اصلاح کا بہترین دور اس کا بچپن اور نوجوانی ہے۔والدین،اساتذہ اور تعلیم و تربیت سے وابستہ افرادوادارے بچوں کو اچھی عادات اپنانے میں مدد کریں ۔بچوں کو نماز کا عادی بنائیں تاکہ اللہ کے ساتھ ان کا اٹوٹ تعلق استوار ہو جائے۔مطالعہ کی عادت کو ایسے پروان چڑھائیں کہمطالعہان کا اوڑھنا بچھونا بن جائے۔ہم سب جانتے ہیں کہ علم میراث میں نہیں ملتا بلکہ اس کے حصول کے لئے کتابوں سے دوستی کرنی پڑتی ہے اور مطالعہ کو حرز جاں بنانا پڑتا ہے عادت ڈالیں کہ جب کبھی کوئی نیا لفظ سامنے آئے تب وہ اسے جاننے اور سیکھنے کی کوشش کریں اور اسے اپنی تحریر و گفتگو میں استعمال کریں تاکہ وہ الفاظ ان کے ذہن میں پیوست ہوجائے۔یہ عادت ذخیرہ الفاظ بڑھانے میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہے۔۔ پاک و صاف رہنے کی عادت صحت و تندرستی کے لئے بہت ہی اہم ہوتی ہے اسی لئے بچوں کو صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں۔ باقاعدگی سے روزانہ تھوڑی دیر ورزش کرنا ایک بہترین عادت ہے۔ بسیاری خوری(خوب کھانے )سے پرہیز کرنا چاہئے اور حسب ضرورت کھانا ایک عمدہ عادت ہے ۔بچوں کو اہل علم کی محفلوں میں لے جائیں اور ان میں اٹھنے بیٹھنے کی تلقین کریں۔ لوگوں سے میل ملاپ ،ملنا جلنا،خوشی اور غم میں شریک ہونا آدھی ذہانت کہلاتا ہے۔ لیکن خیال رہیں کہ میل میلاپ ملنا جلنا توازن میں رہے ۔حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں’’کم بولناحکمت ہے،کم کھانا، کم سونا عبادت اور عوام سے کم ملنا عافیت ہے۔‘‘اللہ کی نعمتوں سے فیض اٹھانا چاہئے لیکن اسراف سے بچنا چاہئے۔بچوں کو فضول خرچی کی عادت میں گرفتار ہونے سے محفوظ رکھیں۔ بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادیں کہ محنت سے کمائی ہوئی حلال روزی بہت بڑی نعمت ہے۔نعمتوں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔بچوں میں عزت نفس اور بزرگواری کی روح پیدا کی جائے۔عزت نفس انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے اللہ رب العزت نے یہ گوہر ہر انسان کی ذات میں ودیعت کیا ہے جس کی حفاظت اور نگہداشت ہر ایک کے لئے لازم ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں جابر و ظالم حکمران عوام کے استحصال اور ان کو اپنا تابعدار بنانے کے لئے سب سے پہلے ان کی عزت نفس کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کی شخصیت کی تحقیر کرتے ہیں اس بارے میں قرآن فرماتا ہے ’’پس اس نے(فرعون) نے اپنی قوم کو احمق بنادیا اور وہ اس کے کہنے میں آگئے کیونکہ وہ بدکار لوگ تھے۔‘‘(سورہ الزخرف54)
’’عادت یا توبہترین خادم ہوتی ہے یا بدترین آقا‘‘اچھی عادتیں اختیار کرتے ہوئے صحت،روزگار اور زندگی کو بہتر اور خوش گوار بنایا جاسکتا ہے۔اچھی عادتوں کے حامل افراد اکثر خوش طبع واقع ہوتے ہیں۔طلبہ بری عادتوں کو اچھی عادات سے بدلتے ہوئے زندگی میں اعلیٰ کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی جو ہدایت انبیاکے ذریعے نازل کی ہیں ان کا بنیادی مقصد ہی انسان کی شخصیت اور کردار کی صفائی ہے جسے ’’تزکیہ نفس‘‘ کہاجاتا ہے۔ ’’وہی ذات ہے جس نے ان امیوں میں ایک رسول انہی میں سے اٹھایا ہے جو اس کی آیتیں ان پر تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور (اس کے لئے) انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘َ (سورہ الجمعہ ) انسان میں مجموعی طور پر دو قسم کی صفات پائی جاتی ہیں (1)غیر اکتسابی یا فطری صفات جیسے رنگ،نسل،شکل و صورت ،جسمانی ساخت و ذہنی صلاحیتیں وغیرہ (2)اکتسابی صفات جو انسان میں ازخود یا پھر ماحول کے زیر اثر پروان چڑھتی ہیں جن میں روزمرہ کی انجان طور پر درآنے والی عادات، انسان کی علمی سطح، اس کا پیشہ، اس کی فکر وغیرہ شامل ہیں۔ ان دونوں صفات کے فروغ کو تعمیر شخصیت یا شخصیت سازی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اپنی شخصیت کو دلکش بنانے کے لئے ضرور ی ہے کہ ہم قدرتی صفات کو پروان چڑھانے کے ساتھ اکتسابی صفات کی تعمیر بھی جاری رکھیں۔قدرتی صفات کو پروان چڑھانے اور اکتسابی صفات کے فروغ کے لئے بری عادات کی اچھی عادات سے تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔صبح خیزی کیخواہش مند رات کو جلد سوجائیں تاکہ وہ صبح خیزی اور چہل قدمی کی اچھی عادت اپناسکیں۔بری عادتوں کی تبدیلی کے لئے ابتداً چھوٹے چھوٹے مثبت اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔اگرآپ کو صبح 5 بجے اٹھنا ہے اور آپ اس کے عادی نہیں ہے تب شاید یہ آپ کے لئے ممکن نہیں ہوگا اس لئے 5بجے کے بجائے بتدریج 7اور اسی طرح 6بجے نیند سے بیدار ہوجائیں تب صبح 5بجے اٹھنا مشکل نہیں ہوگا۔ ایک قدم اٹھائیے اور اس پر ثابت قدمی سے جم جائیے اور بری عادات کو ختم کرتے جایئے بعد میں ایک ایسا وقت آئے گا کہ اچھی عادتیں بغیر کسی دقت و پریشانی کے آپ کی ذات میں جمع ہوتی جائیں گی۔بچوں کی کامیاب زندگی کے لئے والدین اور اساتذہ خراب عادتوں کو ان کی ذات سے نکال کر اس کی جگہ اچھی عادتوں کو جگہ دیں۔ طلبہ دیرتک سونا،دیرتک جاگنا،کام میں تساہل کرنا،جلد فیصلہ نہ کرنا جیسی خراب عادات کوترک کرتے ہوئے اچھی عادات ایمانداری،عاجزی،صبر،ذمہ داری کا احساس،سخاوت کو اپنا کر زندگی میں فقیدالمثال کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے اعلیٰ مقام اور خلیفہ فی الارض کے منصب جلیلہ پر فائزہ کیا ہے تو ضروری ہے کہ انسان اس منصب کا لحاظ رکھے اور خود کو کسی عادت یا سہولت کا غلام نہ بنائے۔والدین ،ذمہ داران مدارس اور خاص طور پر اساتذہ بچوں میں تعلیم و اکتساب میں فروغ کے لئے اعلیٰ و عمدہ عادات جیسے فکرو تدبر کی عادت،مطالعہ کی عادت،بہتر گفت و شنید کی عادات اور منظم خود کار مطالعہ کی عادات کو فروغ دیں۔بچوں میں عمدہ عادت سازی کے لئے والدین،گھر کے دیگر افراد اور اساتذہ کا کردار مثالی ہونا چاہئے۔ والدین اور اساتذہ کی حیثیت ایک رول ماڈل(مثالی اسوہ ) کی ہوتی ہے۔طلبہ کی زندگی کو بلندی اور معنویت عطاکرنے کے لئے ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ کی زندگی مثالی ،اعلیٰ اور معیاری ہو۔بچے اپنے والدین اور اساتذہ کی حرکات و سکنات اور عادات و اطوار کا نہ صرف مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ انہیں اپنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں اس لئے والدین اور اساتذہ ایسے تمام عادتوں اور خصائل سے متصف ہوں جنہیں وہ بچوں کو اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں ۔والدین،اساتذہ،ذمہ دارن مدارس ،تعلیم و تربیت اور ملک و ملت کی تعمیر سے وابستہ افراد بچوں کی تربیت ابتدائی عمرسے ہی اس انداز و منہج سے انجام دیں کہ وہ معاشرے کے لئے ایک سرمایہ و اثاثہ بن جائیں ۔ مذکورہ ذمہ داران کی کوتاہی اور تساہل سے اگر بچے بری عادتوں کا شکار ہوجائیں تب وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے ۔
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...