عادتیں انسانی شخصیت کی عکاس ہوتی ہیں۔عادتیں اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی۔ اچھی عادتیں جس قدرفائدہ بخش ثابت ہوئی ہیں بالکل اسی طرح بری عادتیں بھی اتنی ہی نقصان رساں ثابت ہوتی ہیں۔اچھی عادتوں کو اپنانامشکل ضرور ہے لیکن ان سے زندگی سہل اور آسان ہوجاتی ہے۔اس کے برخلاف بری عادتوں کو اپنانا بہت ہی آسان ہوتا ہے لیکن اس سے زندگی مشکل اور ابتر ہوجاتی ہے۔ ارسطوکے مطابق’’ زندگی میں ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ہماری عادات ہی کا نتیجہ ہوتا ہے‘‘۔ عادت کے بارے میں کہا گیاہے کہ یہ ابتدا میں مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہوتیہے مگر ہر گزرتے لمحے فولاد کی طرح سخت اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہے جسے ترک کرنا بہت ہی دشوار ہوجاتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ بری عادتیں قبر تک ساتھ جاتی ہیں۔عادتوں کی تشکیل اور فروغ میں والدین ،گھر ،سماج ،اسکول کے ماحول کے علاوہ اساتذہ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔طلبہ تو طلبہ والدین اور اساتذہ تک اپنی نظروں کے سامنے موجود چیزوں کو غیر اہمجان کر بے خبر اور غافل رہتے ہیں جس کی وجہ سے بچے’’خشت اول چوں نہد معمار کج،تاثریامی رود دیوار کج(معمار اگر پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے تب دیوار اگر ثریا(بلندی) تک بھی پہنچ جائے ٹیڑھی ہی ہوگی)‘‘ کے مصداق غیر پسندیدہ عادتوں کا شکار ہو کر زندگی بھربری عادتوں کے غلام ہوجاتے ہیں۔ ہر آدمی کوبہت ہی سوچ سمجھکر عادتیں اپنانا چاہئے ۔اکثر ماہرین تعلیم و نفسیات کا اس بات پراجماع ہے کہ بچے زندگی بھر اپنی ابتدائی تعلیم کے زیر اثر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ساری زندگی ان کی شخصیت پران کی ابتدائی زندگی، علم، عادتوں، رحجانات، تجربات اور نظریات کے اثرات نمایاں طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ کسی بھی بری عادت کو چھوڑنا بہت ہی مشکلہوتا ہے۔بری عادت سردی کے موسم میں ایک گرم بسترکی مانند ہوتی ہے جس میں گھسنا تو آسان ہے لیکن باہر نکلنا بہت ہی مشکل ۔
عادتوں کی تشکیل اور فروغ میں تعلیمی نصاب و معیار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔معیاری تعلیم اور اعلی کردار سازی کے زیر اثر ہی طلبہ اپنی ذہنی و تحقیقی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں پیش کرسکتے ہیں۔طلبہ میں مثبت اور صحت مند عادتوں کی تشکیل و فروغ کے لئے معیار تعلیم کو بہتر بنانے میں حکومت، والدین اور اساتذہ کے علاوہ ملک و ملت کی تعمیر سے وابستہ ہرفرد کو اپنا کردار ادا کرناضروری ہے۔تعلیم کا تربیت سے وہی رشتہ ہے جو جسم اور روح کے درمیان پایا جاتا ہے اور یہ ایک دوسرے کے بغیر ادھورے اور نامکمل ہیں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت کی اصطلاح رواج پانے کی یہ ایک معقول وجہ معلوم ہوتی ہے۔تعلیم کا تعلق جہاں معلومات کی فراہمی و فروانی سے ہے وہیں تربیت کا شعبہ سیرت و کردار کی تشکیل و تعمیر سے تعلق رکھتا ہے۔تربیت تعلیم کے زیر اثرپرورش پاتی ہے۔ تربیت کا تعلیم پر اور تعلیم کا تصور علم(World View)پر انحصار ہوتا ہے۔مختصراًتعلیم جیسی ہوگی تربیت بھی ویسی ہی ہوگی اور جیسا تصور علم ہوگا ویسی ہی تعلیم بھی ۔ ہر تصور علم ایک مخصوص تعلیمی نظام اور اس کی مطلوب شخصیت و معاشرے کو جنم دیتاہے۔ وہ معاشرہ یا افراد جواللہ کی ہدایت اورنبی کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنے کے متحمل نہ ہوں،آخرت پر یقین نہ رکھتے ہوں،دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوں،اللہ کو وحدہ و لاشریک نہ مانتے ہوں، ہدایت خداوندی کے مطابق معاملات زندگی گزارنے کے قائل نہ ہوں تب اس ورلڈ ویو سے ایک خاص قسم کا تصور علم اوراس تصور علم سے نکلنے والے مخصوص قسم کے علوم کے زیر سایہ ایسا نظام تعلیم و تربیت وجودمیں آئے گاجس کے نتیجے میں ایسے افراد و ہستیاں تیارہوں گی جوہمیشہ اس باطل معاشرے کی ضروریات کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل رہیں گی۔ ایسے تصور علم کے سائے میں تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہوئے مسلمان اگر کسی فکری انقلاب کے متمنی ہے تو ان کی عقل و دانش پر سوائے افسوس کے کچھ اور نہیں کیا جاسکتا۔ایسامعاشر ہ جو اللہ کو ایک مانے، اس کاآخرت پرایقان ہو،دنیوی معاملات میں اللہ کی کتاب و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روشنی حاصل کرے تب اس ورلڈ ویو سے ایک ایسا تصور علم اور اس تصور علم سے دیگر خاص علوم اور نظام تعلیم و منہج تربیت ابھریں گے جس سے مسلم معاشرے کے تقاضوں کی تکمیل ممکن ہے۔مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ تربیت کا انحصار ،تعلیم پر اور تعلیم کا انحصار تصور علم پرواقع ہے۔جس تعلیمی نظام کے زیر اثر ہمارے نونہال پروان چڑھ رہیں ہیں اس سے ہمارے مطلوب معاشرے کی تعمیر ،تشکیل اور تکمیل ناممکن ہے ۔اسی لئے ضروری ہے کہ تزکیہ اعمال سے قبل تزکیہ تعلیم وتزکیہ تصور علم (ورلڈ ویو)کی سخت ضرورت ہے۔تزکیہ سے مراد اچھی عادات کو اپنانا اور بری عادات سے بچنا ہے۔اچھے اور برے کا تعین تصورعلم سے ہوتا ہے ۔جیسا علم ہوگا ویسے ہی انسان کے خیالات و عقائد ہوں گے اور انسان کے جیسے خیالات ہوں گے ویسے ہی اعمال و عادتیں ہوں گی اور جیسی عادتیں ہوں گی ویسی ہی شخصیتوں کا وجود عمل میں آئے گا۔
معاشرتی زندگی میں پھیلی ہوئی اخلاقی گراوٹ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا تعلیمی معیار آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف یعنی معکوس ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں اساتذہ،ذمہ داران مدارس اور والدین کے درمیان اشتراک عمل کا فقدان پایا جاتا ہے۔والدین بچوں کی اخلاقی پستی ،بری عادتوں اور بے راہ روی کے لئے اساتذہ اور مدارس اور اہل مدارس کو ذمہ دار گردانتے ہیں جب کہ بچوں کو نیک یا بد بنانے اور مدارس میں فراہم کردہ تعلیم اور اخلاق وعادات کو پختہ کرنے میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بچے روازنہ چوبیس گھنٹوں میں سے تقریباً اٹھارہ گھنٹے اپنے گھر میں گزارتے ہیں۔بچے جو کچھاپنے بچپن اور ایام طالب علمی میں سیکھتے ہیں و ہ زندگی بھران کے ذہنوں میں محفوظ رہتا ہے۔ مو بائل فون،کیبل ٹی وی اور انٹرنیٹ جیسی فضول سہولیا ت تفریح کے نام پر مہیا کرتے ہوئے والدین بچوں کو کچی عمر میں تباہی کے پختہ سامان فراہم کررہے ہیں۔ گھر میں بچوں کے اوقات اور مشاغل سے غفلت برتنے والے والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی کوئی توقع نہ رکھیں۔ والدین کی غفلت کی وجہ سے بری عادات کاشکار بچوں کی ذہنی افتاد اسکول کی اعلیٰ سے اعلیٰ معیاری تعلیم بھی دور نہیں کر سکتی ۔ معاشرے کی زبوں حالی اور اخلا قی گراوٹ کا ایک بڑا سبب والدین کی اپنی اولاد کی تربیت سے غفلت ہے۔معاشرہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے ۔اگر فرد کی تربیت صحیح خطوط پرانجام نہ دی جائے تب ایسے افراد کے مجموعے سے تشکیل پانے والا معاشرہ زبوں حالی سے کسی بھی طور محفوظ نہیں رہ سکتا۔گھر کے ماحول کا بچوں کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اگر گھر والے نیک سیرت اورخوش اخلاق‘ بچوں سے محبت و شفقت سے پیش آنے والے‘ آپس میں اتفاق و محبت سے رہنے والے ہوں تب ان کے زیر سایہ پرورش پانے والے بچے بھی حسن و اخلاق کے پیکر اور کردار کے غازی ہوں گے۔ اس کے برعکس عیاش‘ لڑائی جھگڑا‘ گالی گلوچ کرنے والوں گھرانوں میں پرورش پانے والے بچے ان مسموم و ناپاک اثرات سے ہرگز محفوظ نہیں رہ سکتے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کو اولاد کی تربیت کی طرف خصوصی طور پر متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ’’کوئی باپ اپنے بچے کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم و تربیت دے‘ انسان کا اپنی اولاد کو ادب کی ایک بات سکھانا ایک صاع (ساڑھے تین سیر) غلہ خیرات کرنے سے بہتر ہے۔
اس مضمون میں صحت مند عادتوں کی تشکیل و فروغ کے بنیادی اور عمومی رہنمایانہ (General Guidance)نکات کا جائزہ لینے کے علاوہ تربیت کے اہم ترین اصولوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ایام بچپن و دورنوجوانی میں بچے خود کو ہر لمحہ یکسر مخالف سمتوں میں جانے والے راستوں پر کھڑے پاتے ہیں۔ ہر راستہ انھیں اپنی جانب کھینچنے لگتا ہے۔ایک طرف خوبیاں اور اچھائیاں دعوت دیتی ہیں تو دوسری جانب نفسانی خواہشات،نفس امارہ اور شیطانی وسوسوں کی جلوآرائیاں بھی انھیں اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔عقل و خواہشات ،خیر و شر ،پاکیزگی اور غلاظت کے درمیان جاری اس کشاکش میں وہی سرخرو ہوسکتا ہے جس نے ابتدائی عمر سے ہی خود سازی اور جہاد بالنفس کا اہتمام کیا ہو۔والدین،اساتذہ اور منتظمین مدارس کا فرض اولین ہے کہ وہ بچوں کو ان کی اوائل عمر سے ہی خوف خدا اور تقویٰ کے احساس سے ممیز کردیں۔جوشخص اللہ کے خوف اور تقویٰ سے آراستہ ہوجاتا ہے وہ زندگی کے ہر امتحان میں کامران و سرفراز ہوجاتا ہے۔بچوں کی تربیت صرف پڑھانے پر موقوف نہیں ہے بلکہ مختلف رویوں‘ باتوں اور باہمی تعلقات کی تعلیم و تربیت سے اس کی تکمیل انجام پاتی ہے۔ بچوں کو اللہ سے محبت کرنا اور اس کی کبریائی بیان کرنا ،اس کی حمد و ثنا اور عبادت کرنے کی عادتیں سکھانے کے ساتھ بات کرنے سے پہلے سلام کرنا‘ بڑوں کا ادب‘چھوٹوں سے شفقت، گفتگو کے آداب‘ والدین کی فرمانبرداری‘ ضروری عقائد‘ کھانے پینے کے آداب‘ حسن اخلاق‘ پاکیزگی‘ مختلف دعائیں‘ خوف خدا‘ شکر اور صبر کرنا‘ خود اعتمادی‘ سچ بولنا جیسی عادتیں سکھانی بے حد ضروری ہے۔طالب علمی کا دور تربیت اور تعمیر ذات کا بہترین زمانہ ہوتا ہے ۔ اس عمر میں برائیاں اور خراب عادتیں بچوں پر اپنا مکمل رنگ جمانے میں کامیاب نہیں ہوتی ہیں کیونکہ خرابیاں اور بری عادتیں اس عمر میں ابھی پختہ نہیں ہوئی ہوتیں ہیں جس کی وجہ سے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔آدمی کی عمر جیسے جیسے بڑھتی ہے خراب عادتوں سے چھٹکارا پانااس کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوجاتا ہے۔مولانا روم اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے راستے میں ایک خاردار درخت بویا۔راستہ چلنے والوں کو اس سے تکلیف پہنچنے لگی۔راہ گیروں نے جب اس شخص سے درخت کاٹنے کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ وہ آئندہ برس اسے کاٹ دے گااور آئندہ برس اس نے درخت کی کٹائی کو مزید ایک اور سال تک موخر کردیا۔یہ سلسلہ کئی سالوں تک یوں ہی چلتا رہاجس کے نتیجے میں درخت ہرسال بڑھتا رہا اور اس کی جڑیں مزید مضبوط اور گہری ہوتی گئی جب کہ لگانے والا آدمی ہر سال کمزور اور ضعیف ہوتا گیا۔ہماری حالت بھی اسی خاردار درخت بونے والے شخص کی مانند ہے کیونکہ انسان میں عادات وصفات روز بہ روز پختہ تر ہوتے جاتے ہیں اور اس کے ارادے اور حوصلے وقت کے ساتھ کمزور ہوتے رہتے ہیں۔
خار بن در قوت و برخاستن
خارکن درسستی و درکاستن
خار دار درخت قوی اور بلند ہوتا رہتا ہے۔جبکہ کانٹے اکھاڑنے والا کمزور ی اور ضعف کی طرف مائل ہوتا ہے(مثنوی مولانا روم)۔‘‘اصلاح نفس یعنی عادت گیری کے لئے بوڑھاپے سے جوانی اور جوانی سے بچپن بہتر ہے۔ طلبہ اپنی ابتدائی عمر میں ہی بری عادتوں کو ترک کردیں۔بری صحبتوں اور بری عادات سے ہمیشہ پرہیز کریں۔بہت سارے طلبہ عزم و ارادے کی کمزوری اور قوت فیصلہ کے فقدان کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔بارہا کوشش و عزم کے باوجود مذموم و ناپسندیدہ عادات سے چھٹکارا پانے سے وہ خو د کو عاجز پاتے ہیں۔طلبہ ہمیشہ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ خصائل رذیلہ سے چھٹکارا پانا ناممکن نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ سورہ عنکبوت میں فرماتے ہیں’’اور جنہوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم انہیں ضروراپنی راہیں سمجھا دیں گے،اور بے شک اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔‘‘(سورہ عنکبوت آیت نمبر 69) خراب عادتوں سے نجات پانے کی طلبہ کی یہ کاوشیں ان میں جستجو و جد و جہد کا مادہ پیدا کردیتی ہے اور آگے چل کر وہ سرکش نفس کو قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
شخصیت انسان کے ظاہری وباطنی اور اکتسابی و غیر اکتسابی خصوصیات (Personality Attributes)کے مجموعہ کا نام ہے۔ اگر کوئی ہم سے کسی کے بارے میں دریافت کرے تب ہم فوراً اس انسان میں پائے جانے والے چند صفات کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ محنتی،وقت کا پابند ،ذہین ،مخلص ،غصہ وریاجھگڑالو ہے ۔ بچوں کو خراب پہچان اور برے تعارف سے بچانے کے لئے انھیں منفی عادات و اطوار جیسے تکبر ،جھوٹ بولنا، غصہ کرنا،تساہل برتنا،غیبت کرنا ،چوری کرنا،گالی دینا،وعدہ خلافی کرنا ،وقت کی ناقدری کرنا،لعنت کرنا،شکایت کرنا،دوسروں کے عیبوں کی تشہیر کرنا،کسی کا مذاق اڑانااور معمولی معمولی باتوں پر ترک تعلق کرنا سے بچانا بے حد ضروری ہے۔دنیا میں صرف انسان کی اصلاح کے ذریعہ ہی امن و سکون اور محبت کی فضا پیدا کی جاسکتی ہے اور انسان کی اصلاح کا بہترین دور اس کا بچپن اور نوجوانی ہے۔والدین،اساتذہ اور تعلیم و تربیت سے وابستہ افرادوادارے بچوں کو اچھی عادات اپنانے میں مدد کریں ۔بچوں کو نماز کا عادی بنائیں تاکہ اللہ کے ساتھ ان کا اٹوٹ تعلق استوار ہو جائے۔مطالعہ کی عادت کو ایسے پروان چڑھائیں کہمطالعہان کا اوڑھنا بچھونا بن جائے۔ہم سب جانتے ہیں کہ علم میراث میں نہیں ملتا بلکہ اس کے حصول کے لئے کتابوں سے دوستی کرنی پڑتی ہے اور مطالعہ کو حرز جاں بنانا پڑتا ہے عادت ڈالیں کہ جب کبھی کوئی نیا لفظ سامنے آئے تب وہ اسے جاننے اور سیکھنے کی کوشش کریں اور اسے اپنی تحریر و گفتگو میں استعمال کریں تاکہ وہ الفاظ ان کے ذہن میں پیوست ہوجائے۔یہ عادت ذخیرہ الفاظ بڑھانے میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہے۔۔ پاک و صاف رہنے کی عادت صحت و تندرستی کے لئے بہت ہی اہم ہوتی ہے اسی لئے بچوں کو صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں۔ باقاعدگی سے روزانہ تھوڑی دیر ورزش کرنا ایک بہترین عادت ہے۔ بسیاری خوری(خوب کھانے )سے پرہیز کرنا چاہئے اور حسب ضرورت کھانا ایک عمدہ عادت ہے ۔بچوں کو اہل علم کی محفلوں میں لے جائیں اور ان میں اٹھنے بیٹھنے کی تلقین کریں۔ لوگوں سے میل ملاپ ،ملنا جلنا،خوشی اور غم میں شریک ہونا آدھی ذہانت کہلاتا ہے۔ لیکن خیال رہیں کہ میل میلاپ ملنا جلنا توازن میں رہے ۔حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں’’کم بولناحکمت ہے،کم کھانا، کم سونا عبادت اور عوام سے کم ملنا عافیت ہے۔‘‘اللہ کی نعمتوں سے فیض اٹھانا چاہئے لیکن اسراف سے بچنا چاہئے۔بچوں کو فضول خرچی کی عادت میں گرفتار ہونے سے محفوظ رکھیں۔ بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادیں کہ محنت سے کمائی ہوئی حلال روزی بہت بڑی نعمت ہے۔نعمتوں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔بچوں میں عزت نفس اور بزرگواری کی روح پیدا کی جائے۔عزت نفس انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے اللہ رب العزت نے یہ گوہر ہر انسان کی ذات میں ودیعت کیا ہے جس کی حفاظت اور نگہداشت ہر ایک کے لئے لازم ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں جابر و ظالم حکمران عوام کے استحصال اور ان کو اپنا تابعدار بنانے کے لئے سب سے پہلے ان کی عزت نفس کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کی شخصیت کی تحقیر کرتے ہیں اس بارے میں قرآن فرماتا ہے ’’پس اس نے(فرعون) نے اپنی قوم کو احمق بنادیا اور وہ اس کے کہنے میں آگئے کیونکہ وہ بدکار لوگ تھے۔‘‘(سورہ الزخرف54)
’’عادت یا توبہترین خادم ہوتی ہے یا بدترین آقا‘‘اچھی عادتیں اختیار کرتے ہوئے صحت،روزگار اور زندگی کو بہتر اور خوش گوار بنایا جاسکتا ہے۔اچھی عادتوں کے حامل افراد اکثر خوش طبع واقع ہوتے ہیں۔طلبہ بری عادتوں کو اچھی عادات سے بدلتے ہوئے زندگی میں اعلیٰ کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی جو ہدایت انبیاکے ذریعے نازل کی ہیں ان کا بنیادی مقصد ہی انسان کی شخصیت اور کردار کی صفائی ہے جسے ’’تزکیہ نفس‘‘ کہاجاتا ہے۔ ’’وہی ذات ہے جس نے ان امیوں میں ایک رسول انہی میں سے اٹھایا ہے جو اس کی آیتیں ان پر تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور (اس کے لئے) انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘َ (سورہ الجمعہ ) انسان میں مجموعی طور پر دو قسم کی صفات پائی جاتی ہیں (1)غیر اکتسابی یا فطری صفات جیسے رنگ،نسل،شکل و صورت ،جسمانی ساخت و ذہنی صلاحیتیں وغیرہ (2)اکتسابی صفات جو انسان میں ازخود یا پھر ماحول کے زیر اثر پروان چڑھتی ہیں جن میں روزمرہ کی انجان طور پر درآنے والی عادات، انسان کی علمی سطح، اس کا پیشہ، اس کی فکر وغیرہ شامل ہیں۔ ان دونوں صفات کے فروغ کو تعمیر شخصیت یا شخصیت سازی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اپنی شخصیت کو دلکش بنانے کے لئے ضرور ی ہے کہ ہم قدرتی صفات کو پروان چڑھانے کے ساتھ اکتسابی صفات کی تعمیر بھی جاری رکھیں۔قدرتی صفات کو پروان چڑھانے اور اکتسابی صفات کے فروغ کے لئے بری عادات کی اچھی عادات سے تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔صبح خیزی کیخواہش مند رات کو جلد سوجائیں تاکہ وہ صبح خیزی اور چہل قدمی کی اچھی عادت اپناسکیں۔بری عادتوں کی تبدیلی کے لئے ابتداً چھوٹے چھوٹے مثبت اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔اگرآپ کو صبح 5 بجے اٹھنا ہے اور آپ اس کے عادی نہیں ہے تب شاید یہ آپ کے لئے ممکن نہیں ہوگا اس لئے 5بجے کے بجائے بتدریج 7اور اسی طرح 6بجے نیند سے بیدار ہوجائیں تب صبح 5بجے اٹھنا مشکل نہیں ہوگا۔ ایک قدم اٹھائیے اور اس پر ثابت قدمی سے جم جائیے اور بری عادات کو ختم کرتے جایئے بعد میں ایک ایسا وقت آئے گا کہ اچھی عادتیں بغیر کسی دقت و پریشانی کے آپ کی ذات میں جمع ہوتی جائیں گی۔بچوں کی کامیاب زندگی کے لئے والدین اور اساتذہ خراب عادتوں کو ان کی ذات سے نکال کر اس کی جگہ اچھی عادتوں کو جگہ دیں۔ طلبہ دیرتک سونا،دیرتک جاگنا،کام میں تساہل کرنا،جلد فیصلہ نہ کرنا جیسی خراب عادات کوترک کرتے ہوئے اچھی عادات ایمانداری،عاجزی،صبر،ذمہ داری کا احساس،سخاوت کو اپنا کر زندگی میں فقیدالمثال کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے اعلیٰ مقام اور خلیفہ فی الارض کے منصب جلیلہ پر فائزہ کیا ہے تو ضروری ہے کہ انسان اس منصب کا لحاظ رکھے اور خود کو کسی عادت یا سہولت کا غلام نہ بنائے۔والدین ،ذمہ داران مدارس اور خاص طور پر اساتذہ بچوں میں تعلیم و اکتساب میں فروغ کے لئے اعلیٰ و عمدہ عادات جیسے فکرو تدبر کی عادت،مطالعہ کی عادت،بہتر گفت و شنید کی عادات اور منظم خود کار مطالعہ کی عادات کو فروغ دیں۔بچوں میں عمدہ عادت سازی کے لئے والدین،گھر کے دیگر افراد اور اساتذہ کا کردار مثالی ہونا چاہئے۔ والدین اور اساتذہ کی حیثیت ایک رول ماڈل(مثالی اسوہ ) کی ہوتی ہے۔طلبہ کی زندگی کو بلندی اور معنویت عطاکرنے کے لئے ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ کی زندگی مثالی ،اعلیٰ اور معیاری ہو۔بچے اپنے والدین اور اساتذہ کی حرکات و سکنات اور عادات و اطوار کا نہ صرف مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ انہیں اپنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں اس لئے والدین اور اساتذہ ایسے تمام عادتوں اور خصائل سے متصف ہوں جنہیں وہ بچوں کو اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں ۔والدین،اساتذہ،ذمہ دارن مدارس ،تعلیم و تربیت اور ملک و ملت کی تعمیر سے وابستہ افراد بچوں کی تربیت ابتدائی عمرسے ہی اس انداز و منہج سے انجام دیں کہ وہ معاشرے کے لئے ایک سرمایہ و اثاثہ بن جائیں ۔ مذکورہ ذمہ داران کی کوتاہی اور تساہل سے اگر بچے بری عادتوں کا شکار ہوجائیں تب وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے ۔
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔