آپریشن زدہ پاکستان

کچھ نا کچھ کہیں نا کہیں کچھ نیا روز ہی ہوتا ہے ، یوں دنیا ہر روز بدلتی ہے ،اس بدلتی دنیا کے اثرات ہر فرد پر کسی نا کسی طرح سے پڑتے ہیں یہ اور بات ہے کہ افراد اپنی مصروفیات اور مشینی زندگیوں میں ایسے بدلاؤ کی اہمیت کو جگہ دے پاتے ہیں یا نہیں یا پھر یہ بدلاؤ خود بخود لوگوں کی زندگیوں میں گھس بیٹھئے کی طرح شامل ہوجاتا ہے ، کیبل ٹی وی سے سب ہی واقف ہونگے ایک مخصوص تعداد چینلز کی کیبل پر نشر کی جاتیں ہیں اب ان چینلز میں کسی نئے چینل کا اضافہ ہوجائے تو کیا فرق پڑتا ہے بلکہ گھر والے یہ بتاتے ہیں کہ ایک اور چینل بڑھ گیا ہے ۔ اس کا ہمارے مزاج سے کچھ لینا دینا نہیں۔
پچھلے چالیس سالوں میں دنیا میں کیا کچھ بدل گیا ، اس بدلاؤ سے پاکستانی بھی مستفید ہوئے لیکن باقی دنیا سے تھوڑا دیر سے، کوئی کہتا ہے ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں اور کوئی کہتا ہے نہیں اتنا بھی پیچھے نہیں ہیں ۔ ایک جواز یہ بھی ہے کہ ہماری ایٹمی تکنیک جدید ترین ہے یا کم ازکم ہمارے پڑوسی سے تو زیادہ موثرہے ، اسی طرح کی کچھ ایسی چیزیں ہیں جن میں واقعی بہت دیر کرچکے ہیں ۔ جن میں سب سے اول نمبر پر ہمارا تعلیمی نظام ہے اور ہماری ترقی میں دیر یا سستی کا بنیادی ماخذ بھی تعلیم پر عدم توجہ ہی ہے ۔
پاکستان ترقی کیا کرتا ، یہاں تو پچھلے چالیس سالوں ادھیڑ بن کا سلسلہ چلا آرہا ہے جس کیلئے سدباب کیلئے باربار مختلف نوعیت کے عمل جراحی یعنی آپریشن جاری ہیں۔ گوکہ دہشت گردی عالمی مسلۂ ۲۰۰۱ میں پیدا ہوا لیکن پاکستان اسکی زد میں تقریباً بیس سال پہلے سے مبتلا تھا ، لیکن مخصوص لفظ دہشت گردی کہ صحیح معنی ۲۰۰۱ کے بعد واضح ہوئے اور خوب ہوتے چلے گئے۔ اوائل میں تو اسلام کو دہشت دگردی کی وجہ بنانے کی کوشش کی گئیں لیکن پھر پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے میں عافیت جانی۔ ۱۹۹۲ میں کراچی سے شروع ہونے والے آپریشن نے ملک کو اس لفظ سے شناسائی کرائی (اس آپریشن کی وضاحت پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا )۔ آپریشن مکمل ہوئے بغیر مختلف شکلیں بدلتا ہوا اپنے اس انجام پر پہنچا جہاں اسے آپریشن کرنے والوں کی پشت پناہی کرنے والوں نے غلط قرار دیا۔ یہ دور مخصوص میڈیا کا دور تھا ، کراچی کیساتھ ساتھ ملک کو تاریخی نقصان پہنچا۔ اس آپریشن نے کراچی کی اور کراچی والوں کی سوچ ہی بدل کر رکھ دی۔ پاکستان ۲۰۰۱ کے بعد ایک ایسے عالمی آپریشن کا حصہ بن گیا جس میں پاکستان اور پاکستانیوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا لیکن یہ آپریشن ابھی تک اپنے منطقی انجام کی راہ تلاش کر رہا ہے ۔یہ ایک ایسا آپریشن ہے جس میں پاکستان نے مالی و جانی دونوں طرح کا بھرپور نقصان اٹھایا ہے ، اسکولوں میں دہشت گردی کے ہولناک واقعات ہوئے، ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بری طرح سے نشانہ بنایا گیا ، بازاروں میں خون ریزی کی گئی ۔دنیا نے پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا لیکن ہماری امن کیلئے کی جانے والی کوششوں کی پذیرائی نہیں کی گئی۔ اس آپریشن کے متوازی ایک ملکی سطح پر آپریشن ضرب عضب کا اعلان کیا گیا جس کا مقصد ملک کے ہر حصے میں موجود دہشت گردوں کا خاتمہ یقینی بنایا جائے ، یہ آپریشن بھی ابھی جاری ہے لیکن اس آپریشن نے ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بہت منظم طریقے سے کاروایاں کیں اور بڑے بڑے اہداف حاصل کئے۔ آج پاکستان کی صورتحال کافی حد تک بہتر ہے بلکل کسی ایسے مریض کی طرح جو ایک طویل عرصے انتہائی نگہداشت میں رہنے کے بعد جنرل وارڈ میں منتقل کیا گیا ہو۔ابتک جتنے بھی آپریشن کئے گئے بشمول ۱۹۹۲ کے پڑوسی ملک کا بھرپور عمل دخل سامنے آیا، ملک میں ہر قسم کی بد امنی دراصل پڑوسی ملک کی پیدا کردہ ہے۔
پاکستان نے بہت حد تک دہشت گردی جیسے موذی مرض پر قابو پالیا ہے جس کا سہرا ہماری عسکری قیادت اور انکی جارحانہ حکمت عملیوں کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔ پاکستان کی حکومت نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم اور پاکستان کی ترقی کیلئے ایک آپریشن کا آغاز کیا ہے اور اسے باقاعدہ طور پر کرپشن (بدعنوانی ) سے پاک پاکستان کا نام سے پکارا جا رہا ہے ۔ یہ وہ آپریشن ہے جسکی مکمل کامیابی اسوقت تک ممکن نہیں جب تک ہم لوگ یعنی ہر پاکستانی ایک سپاہی کا روپ دھارلے ۔ پاکستان نے بڑے بڑے معرکہ سر کرلئے اس میں تو کوئی ہاتھی گھوڑے بھی نہیں لگنے صرف قوم کو حقائق کا ساتھ دینا چاہئے ، پاکستان کی بقاء کی خاطر ناصحیح اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر آنکھیں کھولیں اور رازوں پر سے پردے اٹھنے دیں ۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے کہا تھا یا قدرت نے ان سے کہلوادیا تھا کہ پاکستان کو کوئی طاقت واپس نہیں کرسکتی(اسے ختم نہیں کرسکتی)۔پاکستان ، پاکستانیوں کے اتحاد کا منتظر ہے اور اس انتظار میں انگنت زخم سہہ رہا ہے ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں