موجودہ حکومت کے اسلام مخالف فیصلے

خان صاحب  نے اقتدار میں آتے ہی پاکستانی عوام کو کئی سارے خوبصورت خواب دکھائے تھے جن میں پاکستان کو مدینہ طرز کی اسلامی ریاست بنانا بھی شامل تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم بھی فرطِ جذبات میں یہ آس لگائے بیٹھ گئے کہ برسوں پہلے اس ملک کو جس مقصد کے تحت حاصل کیا گیا تھا شاید اب کی بار اس کی عملی صورت دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن جونہی دن گذرتے گئے امید کی زنجیر کے حلقے ایک ایک ہوکر ٹوٹنے لگے۔ پہلے گستاخانہ خاکوں پر حکومت کی وقتی خاموشی سے ذہن میں مختلف سوالات ابھرے۔ اس کے بعد عاطف میاں کے مسئلے نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ جب یہ معلوم ہوا کہ موصوف اسلام دشمن جماعت قادیانیوں کا ایک متحرک سرگرم ہے تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ ایک طرف خان صاحب خاتم الانبیاء صہ سے محبت کے دعوے کرکے عوام کو خوش کررہے تھے تو دوسری طرف اسلام دشمن شخص کو ایک اہم عہدہ سونپ کر پتہ نہیں کسے خوش کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد خان صاحب کے سارے دعوے ڈھکوسلے معلوم ہونے لگے۔

ابتدا سے لے کر ہی خان صاحب پاکستان کو مدینہ طرز کی اسلامی ریاست بنانے کا دعویٰ کرتےآرہے ہیں۔ لیکن اگر آنکھوں  سے اندھی تقلید کی پٹی اتار کر مشاہدہ کیا جائے تو موجودہ حکومت کا ایک بھی کام ریاستِ مدینہ کے موافق نظر نہیں آئے گا۔ کبھی ناموسِ رسالت صہ جیسے اہم اور نازک مسئلے پر انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو کبھی اسرائیلی کلچر کا فنکشن منعقد کرکے اسلام دشمنوں کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شراب پر پابندی کے متعلق پیش کیے گئے بل کیمخالفت کرنے اور ملکی معیشت کو مستحکم بنانےکے لیے سود کا راستہ اختیار کرنے کے بعد بھی اسلامی ریاست کے قیام کا دعویٰ کرنا کیا اسلام کے ساتھ مذاق نہیں…؟ شرعی نصوص کو توڑ مروڑ کر اپنی تشریح کرکے  اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہےتو کبھی اقلیتوں کو حقوق دینے کے چکر میں اکثریتوں کے حقوق دبائے جاتے ہیں۔ اب تو اقلیتوں کو اسلامیات جیسا اہم مضمون پڑھانے کی بھی اجازت دی جارہی ہے۔ حالانکہ ایسا فیصلہ عقلی اعتبار سے بھی درستنہیں۔ دراصل اس فیصلے کے ذریعے اقلیتوں کے ایک خاص گروہ کو سپورٹ کیا جارہا ہے، جو اسلامی لبادہ اوڑھ کر برسوں سے خود کو مسلمان ثابت کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ اب تو کرسمس اور بسنت جیسے غیر اسلامی تہوار بھی سرکاری سطح پر منائے جانے لگے ہیں۔ کیا یہ سارے فیصلے ریاستِ مدینہ کے اصول و قوائد سے مطابقت رکھتے ہیں…؟ بسنت تہوار پر انسانی جانوں کے ضیاع کی بات کی جاتی ہے تو علم سے نابلد حکومت کے نمائندے بسنت تہوار کا قربانی کے ساتھ موازنہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک کے وزیرِ اطلاعات تو فلمیں دیکھنے کے بڑے شوقین ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں بھارت سمیت تمام ملکوں کی نشریاتی مواد پر پابندی کے خلاف ہوں۔ فلم انڈسٹری کو اپنے پیروں پہ کھڑا کرنا میرا ہدف ہے۔ مزید کہتے ہیں کہ فلم انڈسٹری میں جدت کے ساتھ نئے سینما گھر بنائیں گے۔ اس وقت ملک میں سینما اسکرینز  کی تعداد 187 ہے جو گیارہ سو ہونی چاہیے۔ معلوم نہیں کہ حکومت کی اصطلاح میں ریاستِ مدینہ کی تعریف کیا ہے۔ آخر میں جب بات بگڑتی نظر آتی ہے تو “یوٹرن” کا سہارا لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے خان صاحب نے قوم سے پہلے خطاب میں جذبات میں آکر کچھ زیادہ ہی بول دیا تھا جس کی وجہ سے انہیں کئی معاملات میں یوٹرن کا سہارا لینا پڑا۔ میرے خیال میں اب وقت آچکا ہے کہ خان صاحب ریاستِ مدینہ کے معاملے میں بھی یوٹرن لے ہی لیں۔ کیونکہ اس وقت ان کے پاس صرف یوٹرن ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ اپنے گناہوں کو چھپانے کی جسارت کر سکتے ہیں۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی  حکومت سے نظامِ ریاستِ مدینہ کے قیام کی امید رکھنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ایسے میں دینی حلقے سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی طرف سے جب موجودہ حکومت کی تعریف کی جاتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔

خان صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ایمان کے لیے سیاست میں آئے ہیں۔ آج ملک کے بدلتے حالات اور اس میں  ہونے والے اسلام مخالف فیصلے نہ صرف ان کے ایمان بلکہ مستقبل میں پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ اگر حالات اسی طرح بدلتے رہے تو ہوسکتا ہے کہ ایک بار پھر ملک میں تحریکِ ختمِ نبوت جیسی کوئی تحریک چل پڑے۔ اس لیے بحیثیت ایک پرائم منسٹر خان صاحب کے اوپر یہ لازم ہے کہ وہ عوام کی ایک کثیر تعداد کو “چھوٹا طبقہ” کہنے کے بجائے ان کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں اور مل بیٹھ کر ان کے مسائل کو حل کریں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں