’’ ماں ‘‘ دنیائے تاریخ کا انوکھا مقدمہ

زندگی میں خوشی وغمی کا موجود رہنافطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔خوشی اورغمی اسی کے دائرہ اختیار میں آتی ہے ۔بھلے کوئی انگریجی علوم کا ارسطو میری بات سے انکار کرے۔ احساسات اورخواہشات کا کوئی دائرہ نہیں ہوتا۔یہ لامحدود سلسلہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ اپنا انداز بدلتا رہتا ہے ۔بعض انسانی حقوق کا بھاشن دیتے دیتے انسانیت کے دائرہ اختیار سے نکل جاتے ہیں۔بعض اپنے افکاروکردار سے صلہ رحمی کی شمع جلائے رکھتے ہیں۔ایسے انسان چاہے معاشرے میں کم ہوں مگر وہ حقیقی معنوں میں انسانیت کا زیور ہوتے ہیں ۔ان کے افکار سے روشنی منعکس ہوتی ہے تو کردار سے اذہان وقلوب پر جمی میل اترتی ہے ۔
ایسے ہی دو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے سعودی عرب کی اعلیٰ عدالت میں اپنا مقدمہ لے کر پیش ہوئے ۔سعودی عرب کا عدالتی نظام عدل پر مبنی ہے ۔وہاں لوگوں کو سالہاسال رسوائی کا سامنانہیں کرنا پڑتا ۔وہاں تاریخ پہ تاریخ دینے کاکلچر نہیں ہے ۔یہ تاریخ کابے نظیر مقدمہ زر کے ہتھیانے یا حصہ وصول کرنے کا نہیں ہے نہ ہی حکومت کو ناکوں چنے جبوانے کے لیے ہے نہ ہی زمین پر قبضہ چھٹرانے یا لینے کے لیے ہے۔یہ مقدمہ جنت نظیر سایہ ’’ ماں‘‘ کے حصول کے لیے ہے ۔ عدل کی نششت پر بیٹھے باوقار قاضی کے سامنے اپنی نوعیت کایہ پہلا مقدمہ ہے ۔دو بھائی، ایک کی عمر 70سال ہے جبکہ دوسرے کی عمر65برس ہے ۔’’ماں ‘‘ کی عمرتقریباً 90برس ہے ۔قاضی کے سامنے عظیم ماں کے یہ عظیم سپوت باادب انداز میں کھڑے محوگفتگو ہیں ۔قاضی انکے مکالمے سے ورطہ حیرت میں ہے ۔من احساس وایثار کے لیے فداء ہونے کا خواہش مند ،خیال جذبہ احساسِ صلہ رحمی سے متحیر،بدن پر کپکپی ،ہاتھوں میں جنبش ،احساس انسانیت ،خواہش حصولِ ’’ والدہ ‘‘ بڑا بھائی ماں کے سائے تلے زندگی گزار کر شکرگزار اورماں کا سایہ کھونے پر رضامندنہیں ہے آنسو آنکھوں میں موسم برسات کی مانند بہہ رہے ہیں ۔چھوٹا بھائی خدمت کے لیے اپنے قوی دلائل سے قاضی کا من موہ رہا ہے ۔دونوں ہی حق پرہیں ۔ اخلاص وخلوص کے ساتھ جنت کے حصول کے لیے کھڑے یہ دونوں بزرگ اپنے دلائل سے قاضی کوورطہ حیرت میں ڈال رہے ہیں۔
چھوٹا بھائی قاضی سے کہتا ہے قاضی صاحب میرابڑا بھائی عرصہ دراز سے ماں کی خدمت کررہا ہے ۔آپ تو جانتے ہیں ماں کے قدموں تلے جنت ہے ۔روزانہ شب وروز کی لاتعداد ساعتوں میں ماں کا چہرہ انور دیکھ کر حج مقبول کا شرف پاتا ہے ۔یہ بوڑھا ہورہا ہے ۔جسم میں پہلے والی قوت نہیں رہی ۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ ماں کا بڑا احترام کرتا ہے خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں چھوڑتا ۔قاضی صاحب اب یہ شرف مجھے حاصل ہونا چاہیے ۔میں اس سے زیادہ احسن طریقے سے ماں کی دیکھ بھال کرسکتاہوں ۔
بڑا بھائی کہتا ہے قاضی صاحب اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ میری عمر زیادہ ہورہی ہے مگر میری ہمت ،جرت اور قوت پہلے سے زیادہ جوان ہے ۔میں پہلے سے زیادہ احسن طریقے سے ماں کی خدمت کرتا ہوں ۔ قاضی دونوں کے دلائل سن کر کہتا ہے کیا ماں عدالت میں لائی جاسکتی ہے ۔دونوں بھائی کہتے ہیں جی وہیل چیئر پر ماں جی کورٹ لایا جاسکتا ہے ۔ماں کو وہیل چیئر پر عدالت میں لایا جاتا ہے ۔قاضی اپنی نششت پرآتا ہے ۔ماں کو دونوں بیٹوں کی خواہش سے اگاہ کرتا ہے اورماں سے دونوں بیٹوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پررائے طلب کرتا ہے ۔ماں بڑے ششتہ اورخوبصورتی انداز میں قاضی سے کہتی ہے میں دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیسے کرسکتی ہوں مجھے دونوں ہی بہت پیارے ہیں ۔دونوں میری آنکھوں کے تارے ہیں ۔ماں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسوہیں ۔فلک ماں کی تربیت اور زمین باادب بیٹوں کے کردار پر نازاں اورشاداں ہے ۔
قاضی سماعت کے بعد فیصلہ لکھتا ہے کہ بڑا بھائی ماں کا بہترین خدمت گزار ہے کبھی چھوٹے بھائی کو اپنے گھر آنے سے نہیں روکا نہ ہی کبھی ماں اوربیٹے کے درمیان کسی قسم کا شبہ پیدا کیا دونوں بھائیوں نے خدمت کی عمدہ مثال قائم کی ہیں ۔دوطرفہ دلائل کو سن کر عدالت اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ’’ ماں ‘‘ کی خدمت کا حق چھوٹے بیٹے کو دیا جائے اوربڑا بھائی چھوٹے بھائی کی طرح ماں سے حسن سلوک کرے ۔فیصلہ سن کر بڑا بیٹا غم سے نڈھا ل ہے آنسو آنکھوں سے بہہ رہے ہیں چھوٹا بھائی خوشی سے آنسو بہا رہا ہے دونوں ماں کی چھاتی سے لگے ہوئے ہیں اورماں دونوں کو پیار کررہی ہے اور رو رہی ہے ۔دیکھنے والے سبھی اس محبت پر شاداں وفرحاں ہیں ۔۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص چاہتا ہے ا س کی رزق میں برکت اورعمرمیں اضافہ اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے ۔
بندوں میں سب سے مقدم حق، والدین کا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کتاب و سنت میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے۔ ان کی خدمت کو جہاد سے مقدم رکھا گیا ہے۔اولاد کیلئے والدین کی خدمت و فرمانبرداری کو حصولِ جنت کا زینہ بلکہ خود والدین کو جنت کا دروازہ قرار دیا گیا اور اس شخص کو محروم و بدنصیب کہا گیا جو والدین جیسی مقدس ہستیوں کو پاکر انکی خدمت کرکے جنت کا مستحق نہ بن سکے بلکہ اس معاملے میں غفلت و کوتاہی اور والدین کی نافرمانی پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک والدین کامقام و مرتبہ اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشی و رضامندی کو والدین کی رضا مندی و خوشنودی میں اور اپنی ناراضی کو والدین کی ناراضی میں مضمر قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا’’پروردگار کی رضا والد کی رضا میں ہے اور پروردگار کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے‘‘(ترمذی، ابن حبان، الادب المفرد) ماں کے قدموں تلے جنت کی نوید سنائی گئی ہے ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہؐکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں لیکن اس کی قدرت نہیں ۔ رسول اللہ ؐ نے دریافت فرمایا:
’’کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟اس شخص نے کہا ہاں میری والدہ زندہ ہے۔ رسول اللہؐنے ارشاد فرمایا ’’ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرکے اللہ تعالیٰ سے ملو، اگر تم نے ایسا کیا تو تم حج کرنے والے، عمرہ کرنے والے اور جہاد کرنے والے (کی طرح) ہو‘‘(الترغیب و الترہیب)
ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسالت مآب ؐ نے فرمایا’’کوئی لڑکا اپنے والد کے احسانات کا بدلہ چکا ہی نہیں سکتا ہاں سوائے اس کے کہ وہ اپنے والد کو غلام پائے اور خرید کر آزاد کردے‘‘(صحیح مسلم)حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک یمنی شخص کو دیکھا کہ وہ اپنی والدہ کو پیٹھ پر اٹھائے طواف کروا رہا ہے اور ساتھ یہ شعر پڑھتا جارہا ہے (ترجمہ :سوار کو ڈراتا ہے لیکن میں ان کو خوف زدہ نہیں کرتا)پھر طواف کے بعد اس نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے دریافت کیا ، آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا؟ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا، نہیں ہرگز نہیں(عورت ولادت کے وقت جس تکلیف و مصیبت سے دوچار ہوتی ہے اس وقت کی) ایک آہ کا بھی یہ بدلہ نہیں‘‘(الادب المفرد وبیہقی)مندرجہ فیصلہ اوراحادیثی دلائل کی روشنی میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی تعلیمات اُولڈ کیئر سنٹر کے عذاب سے محفوظ رکھتی ہیں اورماں باپ کی خدمت کرنے والے دنیا اورآخرت میں کامیاب ہوتے ہیں ۔میرے پیارے دوست کالم نگاراسحاق جیلانی کے والدِ محترم رضائے الہی سے وفات پاچکے ہیں ۔اللہ تعالیٰ لواحقین کو صبر اورمرحوم کوجنت میں اعلیٰ مقام عطاکرے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں