موجودہ دور میں عیش و عشرت کے بے شمار ظاہری اسباب مہیاہونے کے باوجود معاشرے کا ہر دوسرا فرد بے چینی اور بے سکونی کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔ مال و دولت کی فراوانی کے باوجود کئی لوگ سکون کی تلاش میں در در بھٹکتے نظر آتے ہیں۔ زندگی پرسکون نہ ہونے کی وجہ سے طبعیت غصے، چڑچڑےپن اور ذہنی دباؤ جیسے امراض کا شکار ہوجاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں بعض اوقات ذہن میں مختلف خیالات گردش کرنے لگتے ہیں اور بات خودکشی تک جاپہنچتی ہے۔ یہ بات تو بلاشک مسلم ہے کہ مال و دولت یا شہرت وغیرہ سے سکون جیسی عظیم نعمت کو حاصل کرنا ناممکن ہے۔ بڑے بڑے بنگلے، ایئر کنڈیشنڈکمرے، نرم و گرم بستر و دیگر ذرائع آرام کے ذریعے چین و سکون کا حاصل ہوجانا بعید از قیاس ہے۔مہنگی مہنگی دوائیاں لینے کے باوجود بھی پوری رات کروٹیں بدلتے گذر جاتی ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے جسے دنیاوی ذرائع سے حاصل کرنا ناممکن ہے۔ میں نے بارہا اپنی آنکھوں سے سستا اور سادہ لباس پہنے مدارس کے طلباء کو زمین پر بستر بچھا کر گہری اور پرسکون نیند کے مزے لیتے دیکھا ہے۔ آخرکار وہ کون سا نسخہ ہے جس کو استعمال کرکے زندگی کو پرسکون بنایا جاسکتا ہے؟وہ کون سا راستہ ہے کہ جس پر چل کر زندگی میں سکون و طمانیت کی بہار لائی جاسکتی ہے؟
ہم مسلمانوں کا یہ ایمان ہے اور فرمانِ خداوندی بھی ہے کہ ہمارے لیےرسول اللہ صہ کی سنت میں زندگی گذارنے کا بہترین طریقہ موجود ہے۔جس پر عمل کرکے نہ صرف ہم اپنی زندگی کو خوشگوار بناسکتے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی سنوار سکتے ہیں۔ دراصل دلوں کے چین و سکون کا راز اللہ کے ذکر میں پنہاں ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے کہ خوب سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دلوں کا چین ملتا ہے۔(سورۃ رعد،28) ہم اپنی پوری زندگی مال ودولت کمانے میں صرف کردیتے ہیں۔ ہمیشہ ہمارا ذہن دولت کمانے کی گھتیاں سلجھانے میں مصروف رہتا ہے۔ مال کمانے کے نشے میں ہم حلال و حرام کے درمیان تمیز کرنا ہی بھول جاتے ہیں اورنتیجتًا ہم سے سکون و آرام جیسی عظیم نعمت چھین لی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو شخص میری نصیحت سے منہ موڑے گا، اس کے لیے معیشت تنگ ہوگی۔ (سورۃ طٰہٰ، 124) مفسرین کرام نے اس آیت کی مختلف تفاسیر بیان کی ہیں۔ حضرت سعید بن جبیر رضہ نے معیشت کی تنگی کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس شخص سے قناعت سلب کی جائے گی اور حرصِ دنیا بڑھا دی جاوے گی۔ یعنی ایسا شخص مال سے کبھی بھی سیر نہیں ہوگابلکہ پوری زندگی دنیا کمانے کے چکر میں مصروف رہے گا اور بالآخر موت اسے اپنی آغوش میں لے لی گی۔ دنیا میں کئی ایسی دولتمند اور شہرت یافتہ شخصیات کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے زندگی سے تنگ آکر مجبورًا خودکشی کا راستہ اختیار کیا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ مال و دولت کا حصول زندگی میں سکون و طمانیت پیدا نہیں کرسکتا۔
اس دنیا میں موجود اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اسے ہمیشہ خوشی ہی نصیب ہو،مصیبت اور تکلیف اس کے گھر کا دروازا بھی نہ کھٹکھٹائیں تو ایسا ہونا ناممکن ہے۔ زندگی خوشی اور غم کے نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ تکلیف اور خوشی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔لہٰذا ایسی سوچ آپ کی زندگی میں بے چینی اوربے سکونی کا سبب بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنا ہماری زندگی کو چین و سکون سے بھر دیتا ہے۔ایک مسلمان کو چھوٹی سی چھوٹی تکلیف کابھی اجر ملتا ہے بشرطیکہ وہ صبر کا دامن تھامے رکھے۔ اگر خوش ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرے اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرکے اس پر صبر کرے۔دونوں صورتوں میں وہ رضائے الٰہی کامستحق ٹھہرے گا اور اس کے نامہ اعمال میں انیک نیکیوں کا اضافہ ہوتا رہے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صہ نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ چار چیزیں عطا کی گئیں وہ دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں پاگیا۔ شکر کرنے والا دل، ذکر کرنے والی زبان، مصائب پر صبر کرنے والا بدن اور نیک و صالح عورت۔ معلوم ہوا کہ صبر اور شکر نہ صرف آخرت کے لیے ذخیرہ ہیں بلکہ دنیا و آخرت کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہیں۔ صبر انسان کو مصائب و تکالیف سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے اور شکر ہمیں کئی خطرناک گناہوں سے بچاتا ہے۔ ہمارے کئی سادہ مسلمان موقعہ ملتے ہی قدرت کی طرف سے عطا کی ہوئی نعمتوں کی ناقدری شروع کردیتے ہیں حالانکہ اگر ہم صرف اپنے وجود پر ہی نظر کریں تو بے شمار ایسی نعمتیں ملیں گی جن کے بدلے میں پوری زندگی سجدے میں گذار دیں تو بھی ان کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ بے صبری اور ناشکری کی وجہ سے ہمارا جسم ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے اور نتیجتًا ہماری زندگی سے چین و سکون ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ شریعت کی تعلیمات کو اپناتے ہوئے اپنے ذہن سے بےصبری، ناشکری، لالچ، حسد، کینہ وغیرہ جیسی بیماریاں نکال باہر پھینکیں اور صبر، شکر، ایثار، خلوص اور پیار جیسی نعمتوں سے اپنے ذہن کو تروتازہ رکھیں۔