’’یہ16دسمبر1971 ء ہے۔ وہی ریس کورس گراؤنڈ جس میں قائداعظمؒ نے تاریخی تقریر کی تھی۔ دن کے نو بجے ہیں اور کسی تقریب کا اہتمام ہورہا ہے۔ ڈھاکہ شہر پر اداسی کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ کہیں کہیں سے گولیاں چلنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ ہزاروں افراد ریس کورس گراؤنڈ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور آنکھوں میں شعلے ہیں۔ فوجی گاڑیاں انسانی ہجوم کو چیرتی ہوئی اس میدان کی طرف جانے کی کوشش کررہی ہیں جہاں اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ اسٹیج کیا جانے والا ہے ۔ وقت جوں جوں سسکتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے، چشم فلک سے خون ٹپکنا شروع ہوگیا ہے ۔ سب کی نظریں پاکستانی افواج کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل اے اے کے نیازی پر جمی ہوئی ہیں۔جنرل کا چہرہ ستا ہوا ہے۔ شہر سے آنے والا ہجوم لحظہ بہ لحظہ بڑھتا جارہا ہے۔ سنار بنگلہ اور جے ہند کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔ بھارتی کمانڈر جنرل اروڑہ تباہ شدہ ڈھاکہ ائرپورٹ پر ہیلی کاپٹر سے اترتا ہے تو جنرل نیازی اس سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ جنرل نیازی کے ساتھ ان کا اسٹاف آفیسر بھی ہے ۔ جنرل نیازی اپنی اسٹک پرقدرے جھکے ہوئے ہیں۔ دونوں جرنیلوں کے رینک ایک جیسے ہیں مگر ان کے راستے جدا جدا!
شیورلیٹ کار ہیلی کاپٹر کے نزدیک ہی کھڑی ہے۔ دونوں جرنیل اس میں سوار ہوجاتے ہیں، ریس کورس گراؤنڈ ان کی منزل ہے۔ گراؤنڈ کے چاروں طرف بھارتی افواج نے گھیرا ڈال رکھا ہے اور اندر لاکھوں بنگالی موجود ہیں جو ہتھیار ڈالنے کی تقریب دیکھنے آئے ہیں۔
میدان کے درمیان لکڑی کی سادہ سی میز رکھی ہے۔ جس کے دونوں طرف بھارتی سپاہی قطار میں کھڑے ہیں۔ میز کے گرد پہلے جنرل اروڑہ بیٹھتے ہیں اور پھر جنرل نیازی۔ جنرل نیازی زبردست کشمکش سے دو چار ہیں۔یہ ان کی زندگی کا سب سے زیادہ ذلّت انگیز لمحہ ہے۔ مسودّہ میز پر رکھا ہے، جنرل نیازی کا ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور پھر ان کا قلم مسودے پر دستخط ثبت کردیتا ہے۔ جنرل نیازی اپنا ریوالور کھولتے ہیں اور اسے خالی کرکے جنرل اروڑہ کے حوالے کردیتے ہیں۔ ان کا چہرہ گہرے سمندر کی طرح ساکت ہے۔ ہجوم کی طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہوجاتی ہے۔ جنرل نیازی اپنی جیپ کی طرف آتے ہیں جس کا بھارتی فوج نے محاصرہ کر رکھا ہے۔ قصاب ، بھیڑیے اور قاتل کا شور بلند ہوتا ہے۔ جنرل نیازی اپنی جیپ میں بیٹھنے والے ہی ہیں کہ ایک آدمی محاصرہ توڑ کر آگے بڑھتا ہے اور جنرل کے سر پر جوتا کھینچ کر رسید کرتا ہے!
ہائے یہ رسوائی ، یہ بے بسی اور یہ بے چارگی، یہ ذلت اور یہ ہذیمت !ہماری تاریخ نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ‘‘
(الطاف حسن قریشی، ہفت روزہ صحافت 14دسمبر 1977ء بحوالہ ’’سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک‘‘ از میاں محمد افضل۔ اس منظر کی اصل ویڈیو ریکارڈنگ یوٹیوب پر بھی موجود ہے۔ )
کیا سانحہ ’’سقوط ڈھاکہ ‘‘ناگزیر تھا؟
سقوط ڈھاکہ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ تقسیم ہندوستان کے موقع پر ہونے والی قتل و غارت گری کے بعد بیسوی صدی عیسوی میں برصغیر میں اس سے زیازہ خونریزی کبھی نہیں ہوئی۔
سقوط ڈھاکہ کی کہانی اتنی سادہ نہیں کہ دو بھائی ساتھ رہتے تھے اور پھر لڑ جھگڑ کر الگ ہوگئے اور بس! ڈھاکہ کے رمنا ریس کورس گراؤنڈ میں 1948ء کے قائداعظمؒ کے جلسے سے لے کر 16دسمبر1971ء کی ہتھیار ڈالنے کی تقریب اپنے اندر جہاں ایک تاریخ سموئے ہوئے ہے وہاں تاریخ کے طالب علموں کے لیے سوچ کے نئے دریچے بھی کھولتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ناگزیر تھا؟ کیا اقتدار کی منتقلی کا یہ عمل پر امن طریقے سے نہیں ہوسکتا تھا یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ اگر علیحدگی ناگزیر تھی تو کیا سقوط ڈھاکہ کے سانحے سے بچا جاسکتا تھا؟ آئیے آج اس سوال کا جواب تاریخ کے صفحات سے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تحریک پاکستان میں بنگالیوں کا کردار:
تحریک پاکستان میں اہلِ بنگال کا کردار نمایاں رہا ہے۔ مسلم لیگ کا قیام ہو یا 1940ء کی قراداد پیش کرنا ہو۔ تحریک پاکستان میں بنگالی زعما چودھری فضل الحق، نورالامین، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین اور جوگندرناتھ منڈل وغیرہ شامل تھے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین کو ان کا جانشین مقرر کرتے ہوئے پاکستان کا دوسرا گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔
بنگالی زبان کی تحریک:
پاکستان کے دونوں حصوں میں قیام کے بعد اس وقت تناؤ پیدا ہوا جب قائداعظمؒ نے 1948ء میں رمنا ریس کورس گراؤنڈ میں اردو کو پاکستان کی واحدسرکاری زبان قرار دینے کا اعلان کیا۔ اسی وقت قائداعظمؒ کے اس اعلان کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا اور شیخ مجیب لرحمن جو اس وقت طلباء لیڈر تھے انہوں نے بنگالی طلباء کے وفد کے ساتھ قائداعظم سے ملاقات کی اور اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا۔
اس مطالبے کے حق میں ہڑتالیں اور مظاہرے چلتے رہے اور1952ء میں اس تحریک نے ایک نیا موڑ لیا جب خواجہ ناظم الدین نے جو اب لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم بن گئے تھے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے کے باوجود بحیثیت سرکاری زبان صرف اور صرف اردو کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد ڈھاکہ شہر میں شدید مظاہرے ہوئے اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں جب طلباء کے احتجاج نے شدت اختیار کرلی تو پولیس کی فائرنگ سے چند طلباء ہلاک ہوگئے ۔ ان طلبہ کی یاد میں اس جگہ ’’شہید مینار ‘‘ تعمیر کردیا گیاجس نے آگے چل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک میں ایک علامتی صورت اختیار کرلی۔ 1956ء میں بنگالی کو مشترکہ سرکاری زبان کی حیثیت دی گئی مگر اس وقت تک پلوں سے کافی پانی گزر چکا تھا۔
مشرقی پاکستان کا استحصال یا ہندو پروپیگنڈا؟
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب اس بات کا پروپیگنڈا تھا کہ مغربی پاکستان نے مشرقی حصے کے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مشرقی حصے کی پیداوار پر مغربی حصے کی اجارہ داری ہے اور یہ کہ مغربی پاکستان آبادی اور رقبے کے حساب سے مشرقی حصے کو مناسب وسائل نہیں دیتا۔ اس بات کا ہندوستان کی طرف سے اور بھارت نواز بنگالی دانشواران کی جانب سے شدت سے پروپیگنڈا کیا گیا جس نے دونوں حصوں کے باشندوں میں دوریاں پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اب مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان کا کتنا استحصال کیا؟پٹ سن جو مشرقی پاکستان کی خاص پیداوار تھی اس سے حاصل شدہ زرمبادلہ وہاں کتنا خرچ ہوا اور مغربی پاکستان میں اس کا کتنا فیصد استعمال ہوا؟ یہ ایک طویل بحث ہے اور اعداد و شمار کے یہ چکر شاید ہمارے صفحات کیلئے مناسب نہ ہوں مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مشرقی پاکستان سے ایک بڑا سرمایہ ہندو ساہوکاروں کے ذریعے غیر قانونی طور پر بھارت ضرور منتقل ہوا۔مشرقی پاکستان کی تجارت پر ہندو کاروباری افراد کا عمل دخل قبل از تقسیم سے ہی موجود تھا اور آزادی کے بعد ان ہندوؤں نے غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ کے ذریعے وہاں کا سرمایہ بھارت بھیجنا شروع کردیا جس نے مشرقی پاکستان کی فی کس آمدنی اور مجموعی قومی پیداوار G.D.P پر گہرا اثر مرتب کرتے ہوئے معاشی بدحالی اور غربت میں اضافہ کیا۔
جنرل فضل مقیم اپنی تصنیف’’1971ء کا المیہ‘‘میں رقم طراز ہیں:
’’مشرقی پاکستان سے کثیردولت بھارت جاتی رہی اور اس کے روکنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔یہ بات اس وقت سامنے آئی جب 1952ء میں اسمگلنگ روکنے کے لیے فوج کی خدمات لی گئیں اور ’’آپریشن جوٹ‘‘شروع کیا گیا ۔1956ء میں ’’آپریشن سروس فرنٹ‘‘اور 1957ء میں ’’آپریشن کلوز ڈور‘‘ شروع کیا گیا۔ آخری کاروائی صرف دو ہفتے جاری رہی صرف اس میں دس کروڑ روپے کا سونا پکڑا گیا۔‘‘
(1971ء کا المیہ از جنرل فضل مقیم)
1965ء کی جنگ:
1965ء کی جنگ نے بھی دونوں حصوں کے عوام میں دوری پیدا کی۔ مشرقی حصے میں دفاع کا مناسب بندوبست نہیں تھا۔اگرچہ جنگ مغربی حصے میں لڑی گئی تھی مگر اس دوران مشرقی حصے میں یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ مکمل طور پر بھارت کے رحم و کرم پر ہے۔ مشرقی پاکستان پر بھارت کے حملہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چین نے بھارت کو الٹی میٹم دیا تھاکہ مشرقی حصے پر حملہ کرنے پر چین غیر جانبدار نہیں رہے گا۔ اسی بات کو مشرقی حصے کے انتہا پسند لیڈروں نے اچھالا اور یہ تاثر دیا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان نے نہیں بلکہ چین نے کیا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق اس جنگ کے دوران شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کے گورنر کو علیحدگی کا اعلان کرنے کو کہا تھا۔
بنگالی مصنف عبدالودود بھویان’’ظہور بنگلہ دیش اور عوامی لیگ کا کردار‘‘ میں لکھتے ہیں،
’’ایک تو یہ نظریہ باطل ہوگیا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان میں ہے دوسرا یہ کہ دوران جنگ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہوجانے اور مشرقی پاکستان کا تعلق دنیا بھر سے کٹ جانے سے وہاں کے عوام میں احساس محرومی پیدا ہوا۔‘‘
چھ نکات:
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کے گرد گھومتی ہے۔ مجیب الرحمن نے 1970 کاالیکشن انہی چھ نکات کی بنیاد پر جیتا تھا۔ اس نے یہ نکات1966ء میں حزب اختلاف کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیے تھے جو کہ لاہور میں منعقد ہوا تھا ۔ یہ بھی مشہور ہے کہ ان چھ نکات کی خالق اس وقت کی ایوب خان حکومت تھی اور اس نے اپنے اوپر بڑھتا سیاسی دباؤ کم کرنے کے لیے یہ نکات تخلیق کیے تھے۔ ان چھ نکات میں مشرقی پاکستان کے لیے صوبائی خودمختاری کے ساتھ ساتھ علیحدہ مسلح ملیشیا کے قیام کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
اگر تلہ سازش کیس:
جنوری1968ء میں اعلان کیا گیا کہ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سول سروس کے تین افسروں کے ساتھ مل کر بھارت کی امداد سے ایک سازش تیار کی ہے جس کا مقصد مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرکے بنگلہ دیش قائم کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے شیخ مجیب الرحمن کو پاک فوج کے چوبیس جونیئر بنگالی افسران کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں ان افراد نے مشرقی پاکستان کی سرحد کے قریب بھارتی قصبے اگرتلہ میں بھارتی حکام اور فوجی افسران سے ملاقاتیں کی ہیں۔
تاریخ میں اسے اگرتلہ سازش کیس کہاجاتا ہے اور اس کیس نے مشرقی پاکستان کی آگ میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جب اس سازش کا اعلان کیا گیا اس وقت شیخ مجیب پہلے ہی جیل میں تھے۔ سازش کے ذمہ داروں کو گرفتار کرلیا گیا اور ان کا اوپن ٹرائل کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کو اس اوپن ٹرائل نے متنفر کردیا۔ دوران تفتیش سارجنٹ ظہور کی پراسرار ہلاکت نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا اور پورے مشرقی پاکستان میں آگ لگادی۔ جلسے جلوس اور جلاؤ گھیراؤ شروع ہوگئے۔ حزب اختلاف نے مجیب الرحمن کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کردیا۔ کیس کی سماعت کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ڈھاکہ میں ہجوم نے عدالت پر حملہ کردیا اور جسٹس ایس اے رحمان صاحب کو ننگے پیر عدالت سے فرار ہونا پڑا۔ مجبوراً ایوب خان کی حکومت کو شیخ مجیب الرحمن کو رہا کرنا پڑا۔
ڈھاکہ میں صدر ایوب کے اغواء کی کوشش:
دسمبر1967میں صدر ایوب نے ڈھاکہ کا دورہ کیا جس کے دوران ان کے طیارے کے اغوا کی کوشش کی گئی۔ یہ وہ واقعہ ہے کہ جس کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے مگر الطاف گوہر کی کتاب میں مختصراً اس کا ذکر ہے۔ اس واقعے کی تفصیلات پر آج تک پردہ پڑا ہوا ہے۔
الیکشن 1970ء:
یہ وہ پس منظر ہے جس میں1970ء کے الیکشن منعقد کیے گئے۔ 1970ء کے الیکشن پاکستان کی تاریخ کا وہ المناک باب ہے کہ جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا۔ الیکشن میں دو پارٹیاں ہی نمایاں تھیں ، مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی۔ دیگر جماعتوں میں قیوم لیگ، جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی شامل تھیں۔
7دسمبر1970ء کو جنرل یحییٰ خان کی مارشل لاء حکومت کے زیر نگرانی الیکشن منعقد ہوئے۔مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کا اثر پولنگ اسٹیشنز پر صاف نظرآیا۔ اس بارے میں صدیق سالک لکھتے ہیں۔
’’ضلع نواکھالی میں چوموہانی کے مقام پر ایک بارہ سالہ لڑکا بنگلہ دیش زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا ووٹ ڈالنے آیا۔ عوامی لیگ کا مخالف امیدوار اسے پکڑ کر کیپٹن چودھری کے پاس لے گیا اور شکایت کی کہ اول تو عمر کے حساب سے یہ لڑکا ووٹ ڈالنے کا اہل ہی نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ پولنگ اسٹیشن میں نعرے لگا کر قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ کیپٹن صاحب نے عرضداشت ہمدردی سے سنی مگر یہ کہہ کر کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے سے معذرت کرلی کہ میں اس کا مجاز نہیں آپ پریزائیڈ نگ افسر سے بات کریں۔‘‘
(میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا۔ از صدیق سالک)
الیکشن کا رزلٹ بہت تشویشناک تھا جس میں علیحدگی کا عنصر صاف نظر آرہا تھا۔ مشرقی پاکستان کی162میں سے 160 نشستیں عوامی لیگ نے لیں جبکہ مغربی پاکستان سے اسے کوئی کامیابی نہیں ملی۔ 300کے ایوان میں سے 160 کا مطلب تھا کہ اکثریت عوامی لیگ کے پاس تھی مگر اس میں مغربی پاکستان کی ایک سیٹ بھی شامل نہ تھی!
اسی طرح مغربی پاکستان کی138میں سے 81پیپلز پارٹی کے پاس آگئیں اور اسے بھی مشرقی حصے سے کچھ نہ ملا۔ اس طرح دونوں حصوں سے دو الگ الگ پارٹیاں اکثریت حاصل کرکے سامنے آئیں مگر پورے ملک سے کوئی مشترکہ اکثریت حاصل نہ کرسکا۔ یہی وہ صورت حال تھی جس نے ملک کا درد لکھنے والے لوگوں کو پریشان کردیا۔
شیخ مجیب الرحمن کی سیاسی قلابازی:
شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان سے الیکشن چھ نکات کی بنیاد پر لڑا تھا مگر مغربی پاکستان کے سیاستدانوں اوریحییٰ خان کی مارشل لاء انتظامیہ کو اس نے باور کرایا تھا کہ الیکشن کے بعد ان نکات میں لچک لاکر پورے ملک کے لیے قابل قبول بنایا جائے گا۔ مگر الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد شیخ مجیب الرحمن پلٹ گیا اور اس نے اعلان کیا کہ چھ نکات عوام کی امانت ہیں اور اب ان میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ 3جنوری1970کو شیخ مجیب نے ڈھاکہ میں عوامی لیگ کے قومی اور صوبائی ممبران سے چھ نکات پر قائم رہنے کا حلف سر عام لیا۔ بطور اکثیرتی پارٹی عوامی لیگ اس پوزیشن میں تھی کہ اب چھ نکات آئین کا حصہ بنواسکتی مگر مغربی پاکستان کے سیاستدان اس کے خلاف سوچتے تھے اور ان نکات کو علیحدگی کی جانب قدم گردانتے تھے۔
اِدھر ہم اُدھر تم:
13فروری کو جنرل یحییٰ خان نے اعلان کیا کہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس 3 مارچ کو منعقد کیا جائے گا۔ عوامی لیگ نے اس کا خیر مقدم کیا اور مشرقی پاکستان میں سکون کی لہر دوڑ گئی۔ مگر یہ سکون عارضی ثابت ہوا اور جلد ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے جو مغربی پاکستان میں اکثریت رکھتے تھے اس اجلاس کی مخالفت کردی۔ بھٹو نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اعلان کیا۔
’’اگر پی پی پی کو نظر انداز کیا گیا تو میں کراچی سے لے کر خیبر تک ایک طوفان برپا کردوں گا۔ ‘‘
(Daily Dawn Karachi 16 Feb 1971)
اس بیان کے بعد بھٹو کی طرف سے مخالفانہ تقاریر اور بیانات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور کسی ایسے ہی بیان کی رپورٹنگ کے دوران معروف صحافی عباس اطہر نے روزنامہ آزاد میں ’اِدھر ہم اُدھر تم‘ کی سرخی لگائی جو تاریخ کا حصہ بن گئی۔
یہاں سے اقتدار کے گندے کھیل کی وہ رسہ کشی شروع ہوتی ہے جس نے دین اور ملت کو پس پشت ڈال کر لسانیت اور عصبیت کو پروان چڑھایا جس کا نتیجہ بالآخر ملک کے دولخت ہونے کی شکل میں برآمد ہوا۔
مجوزہ قومی اسمبلی کے اجلاس کا پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیے رکھا اور فوجی حکمرانوں نے معاملے کی نزاکت کی پروا کیے بغیر بجائے اس کے کہ بھٹو پر دباؤ ڈالتے، اسے ڈھاکہ اسمبلی کے اجلاس کے لیے راضی کرتے اور بطور اکثریتی پارٹی مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کا موقع دیتے، یکم مارچ کو ریڈیو پاکستان سے اعلان کیا کہ 3مارچ کا اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے اور کسی نئی تاریخ کا اعلان بھی نہیں کیا گیا۔
آگ بھڑکتی ہے!
یکم مارچ کے اس اعلان نے مشرقی پاکستان میں وہ آگ بھڑکا دی جو آخر کار لاکھوں بے گناہوں کا خون لے کر بجھی۔ التواء کے اعلان کا سن کر گھنٹے بھر میں ہی عوامی لیگ کے کارکن اور عام بنگالی مشرقی پاکستان کی سڑکوں پر نکل آئے ۔ ڈھاکہ سے لے کر چٹاگانگ تک احتجاج شروع ہوگیا۔ جلد ہی اس احتجاج نے غیر بنگالیوں کے خلاف قتل و غارت گری اور لوٹ مار کی شکل اختیار کرلی۔ مجیب الرحمن نے اجلاس کے التواء کے خلاف2مارچ کو ڈھاکہ شہر میں اور3مارچ کو پورے مشرقی پاکستان میں ہڑتال کی اور 7مارچ کو نئے لائحہ عمل اختیار کرنے کا اعلان کیا۔
یکم مارچ کو مغربی پاکستان سے فوجی کمک سادہ لباس میں ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اتری تو ایئر پورٹ کے بنگالی عملے نے فوجی جوان پہچان لیے اور ہڑتال کردی۔ ایک جہاز کو تو ایئر پورٹ پر تباہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ مجیب الرحمن نے بیان دیا کہ جن جہازوں میں اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے ممبران اسمبلی آنے تھے ان جہازوں سے فوجی آرہے ہیں، اس کا کیا مطلب لیا جائے؟ صدیق سالک لکھتے ہیں۔
’’مجیب اب شعلے اگل رہے تھے ، ان کے الفاظ نفرت کے گولے بن کر پھٹ رہے تھے اور ہم ڈھاکہ چھاؤنی میں بیٹھے فکر مند تھے کہ کب یہ آگ پورے صوبے یا ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے!‘‘
(میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا)
2مارچ کو ڈھاکہ شہر فوج کے حوالے کردیا گیا اور دارالحکومت میں کرفیو نافذ ہوگیا ۔ عوامی لیگ کے کارکنوں نے کرفیو کے خلاف ورزی کی اور اس دوران فوج کے ہاتھوں چھ بنگالی ہلاک ہوگئے۔ اس پر مجیب الرحمن نے سول نافرمانی کا اعلان کردیا اور اس کے ساتھ ہی پورے مشرقی پاکستان میں فسادات پھوٹ پڑے۔ غیر بنگالیوں کی آبادیوں پر حملے ہونے لگے۔ لوگ فوجی چھاونیوں اور کینٹ کے علاقوں میں پناہ لینے آنے لگے۔ صرف چٹاگانگ میں ایک دن میں سو سے زائد غیر بنگالیوں کا قتل ہوا۔ ایئر پورٹ پر ٹکٹ لینے کے لیے قطاریں لگ گئیں۔ لوگ اپنا سامان اونے پونے بیچ کر مغربی پاکستان روانہ ہونے لگے۔
7مارچ آتی ہے:
7مارچ کو مجیب الرحمن نے رمنا ریس کورس گراؤنڈ میں لاکھوں کے مجمع سے خطاب کیا۔ خطرہ تھا کہ اس جلسے میں وہ آزاد مشرقی پاکستان کا اعلان کردیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ ادھر مغربی پاکستان سے28مارچ کی تاریخ اسمبلی کے اجلاس کے لیے متعین کردی گئی۔ مجیب الرحمن نے اس کا خیر مقدم کیا۔ اسی دن جنرل ٹکا خان مغربی پاکستان سے آئے اور مشرقی پاکستان کے گورنر، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور مسلح افواج کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
15مارچ کو یحییٰ خان حالات قابو میں لینے کے لیے ڈھاکہ آگئے اور مجیب الرحمن سے مذاکرات شروع کیے جو نتیجہ خیز نہ ہوسکے۔21مارچ کو بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا وفد بھی ڈھاکہ آگیا۔ یحییٰ خان، مجیب الرحمن اور بھٹو، اقتدار کے حصول کا یہ تکون ڈھاکہ میں موجود تھا اور ڈھاکہ لہو لہو ہورہا تھا ! تینوں فریق معاملے کا وہ حل چاہتے تھے کہ جس میں وہ اقتدار میں موجود رہیں۔ ایسا ممکن نہ تھا کیونکہ اکثریت بہر حال مجیب الرحمن کے پاس تھی اور بھٹو مغربی پاکستان پربنگالیوں کا اقتدار کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیارنہ تھا۔ یحییٰ خان ملک کے سربراہ کی حیثیت سے طاقتور تھا۔ مگر وہ کیا وجوہات تھیں کہ جن کی بناء پر وہ بھٹو کو قابومیں لینے سے قاصر تھا یہ بات تاریخ کے طالبعلموں کے لیے سوالیہ نشان لیے ہوئے ہے۔ !
23مارچ 1971ء :
اسی سیاسی کشمکش میں23مارچ آتی ہے، یوم قرارداد پاکستان 1971ء میں مشرقی پاکستان میں کس طرح منایا گیا، آئیے صدیق سالک ہی کی زبانی سنتے ہیں۔
’’عوامی لیگ نے اسے ’’یومِ مزاحمت‘‘ کے طور پر منایا۔ عوامی لیگ کے چند کارکنوں نے قومی پرچم جلا ڈالا، قائداعظمؒ کی تصویر پھاڑ ڈالی اور ان کا پتلا بنا کر نزر آتش کردیا۔ پاکستان کی یہ نمائندہ علامتیں ختم کرنے کے بعد آزاد بنگلہ دیش کا پرچم ہر جگہ لہرایا، مجیب الرحمن کی تصاویر جگہ جگہ آویزاں کردیں اور ریڈیو ٹیلی ویژن سے ٹیگور کا نغمہ ’’سنار بنگلہ‘‘ قومی ترانہ کے طور پر نشر کیا گیا۔ مجیب الرحمن کے گھر پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا گیا اور مجیب الرحمن نے اسے سلامی دی۔ ‘‘
25مارچ کو صدر یحییٰ خان اور مغربی پاکستان کے سیاستدان ڈھاکہ سے روانہ ہوگئے۔
آپریشن سرچ لائٹ:
آپریشن سرچ لائٹ مشرقی پاکستان میں کی جانے والی وہ فوجی کاروائی ہے جو شاید نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اگرفوجی کاروائی غلط تھی تو کیا ڈھاکہ اور چٹا گانگ کی سڑکوں پر پاکستان کا پرچم جلتے رہنے دینا چاہیے تھا؟
ڈھاکہ سے صدر یحییٰ خان کوئی سیاسی سمجھوتہ کرائے بغیر کیوں واپس آگئے؟
مغربی پاکستان کے سیاستدان اور بھٹو کسی سیاسی تصفیے کے بغیر مشرقی پاکستان کو جلتا کیوں چھوڑ آئے؟
یہی وہ سوالات ہیں جن کا جواب تاریخ پر قرض ہے۔
25اور26 مارچ 1971ء کی درمیانی شب مشرقی پاکستان کے حالات پر قابو پانے کے لیے افواج پاکستان کی جانب سے مسلح کاروائی شروع کی گئی۔ مجیب الرحمن کی پرائیوٹ آرمی پاک فوج کے ایک باغی کرنل عثمانی کی قیادت میں متحرک تھی جسے ’’مکتی باہنی‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ کرنل عثمانی مشرقی پاکستان میں متعین پولیس ،East Pakistan Rifles اور پاک فوج کے بنگالی یونٹوں سے رابطے میں تھا۔ آپریشن سرچ لائٹ کی اطلاع کرنل عثمانی اور مجیب الرحمن کو پہلے ہی ہوگئی تھی۔ مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے مسلح کارکن 25مارچ کو اندھیرا پھیلتے ہی سڑکوں پر مورچہ زن ہوگئے۔
جوں ہی افواج بیرکوں سے باہر نکلیں انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ، مگر باقاعدہ تربیت یافتہ افواج کے سامنے عوامی لیگ کے کارکن زیادہ دیر نہ ٹھہرسکے اور جلد ہی پسپا ہوگئے ۔ جیسے ہی آپریشن شروع ہوا ، ڈھاکہ ریڈیو سے مجیب الرحمن کی آواز اُبھری۔
’’آج سے بنگلہ دیش آزاد ہے ، میں عوام سے اپیل کرتا ہوں وہ جہاں بھی ہوں اور جو وسائل بھی رکھتے ہوں، ’غاصب فوج‘ کا اس وقت تک مقابلہ کریں جب تک بنگلہ دیش کی دھرتی سے پاکستانی فوج کا آخری سپاہی نکل نہیں جاتا۔‘‘
مجیب الرحمن کو گرفتار کرلیا گیا اور کچھ دن بعد اسے خاموشی سے کراچی منتقل کردیا گیا ۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے اقبال ہال اور جگن ناتھ ہال علیحدگی پسندوں کے مراکز تھے ان پر قبضہ کرلیا گیا۔ پولیس لائنز اور East Pakistan Rifels کے اہلکاروں کو غیر مسلح کردیا گیا۔ فوج نے جگہ جگہ ناکے لگا کر ڈھاکہ شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ عوامی لیگ کے رہنما روپوش ہوگئے۔ جو ہتھے چڑھے گرفتار کرلئے گئے ۔26مارچ کی صبح بھٹو کو ڈھاکہ سے روانہ کردیا گیا۔ کراچی ایئر پورٹ پر اترتے ہی انہوں نے بیان دیا، ’’شکر ہے پاکستان بچ گیا۔‘‘
خانہ جنگی:
25-26مارچ کی درمیانی شب شروع ہونے والا آپریشن سرچ لائٹ بنیادی طور پر مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کے آغاز کا سبب بنا۔ جنرل ٹکا خان کی سربراہی میں مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائیاں چلتی رہیں۔ پاک آرمی کے بنگالی یونٹ East Pakistan Rifles ، پولیس اور سول سروس کے اکثر اہلکار باغی ہوگئے اور مجیب الرحمن کے احکامات پر عمل کرنے لگے۔ پاک فوج کے حمایتی محب وطن بنگالیوں کو مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنا یا جانے لگا۔غیر بنگالیوں کی آبادیوں پر منظم حملے شروع ہوگئے ۔ پاکستانی افواج کے بنگالی سپاہی اور افسران فرار ہو کر مکتی باہنی اور قادر باہنی جیسی بنگالی علیحدگی پسند مسلح تنظیموں میں شامل ہوکر پاکستانی فوج کے سامنے آگئے۔ جنرل ٹکا خان نے ایک کے بعد ایک شہر باغیوں کے قبضے سے واپس لینے شروع کیے، مگر اس دوران قتل و غارت اور غیر بنگالیوں کی نسل کشی کے واقعات پیش آتے رہے ، دوسری طرف مشرقی پاکستان کے رہنماؤں نے پاک فوج پر الزام لگایا کہ وہ بنگالیوں کا قتل عام کر رہی ہے۔
10‘ مارچ کو مغربی پاکستان سے جنرل امیر عبداللہ خان نیازی (جو جنرل اے اے کے نیازی کے نام سے معروف ہوئے) ڈھاکہ بھیجے گئے اور انہوں نے کمانڈر ایسٹرن کمانڈ کی حیثیت سے مشرقی پاکستان کی افواج کی کمان جنرل ٹکا خان سے لے لی۔ اب جنرل ٹکا خان گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور جنرل نیازی کمانڈر ایسٹرن کمانڈ تھے۔ مشرقی پاکستان کا مستقبل انہی دونوں جرنیلوں کے ہاتھ میں تھا۔ جنرل نیازی نسبتاً سخت ثابت ہوئے اور صدیق سالک کے الفاظ میں ’’مئی کے وسط تک پورا مشرقی پاکستان فوج کے مکمل کنٹرول میں آگیا۔‘‘
مگر اس کنٹرول کا مطلب امن و امان کی بحالی ہر گز نہ تھا۔ مارچ کے آپریشن سرچ لائٹ سے لے کر دسمبر میں بھارت کے باضابطہ حملے تک مشرقی پاکستان آگ میں جلتا رہا۔ بنگالی باغیوں کی تنظیم مکتی باہنی کی تربیت باقاعدہ مشرقی پاکستان اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں چلتی رہی۔ تربیتی مراکز قائم کیے گئے اور بھارت سے اسلحہ باغیوں کو فراہم کیا جاتا رہا۔ مکتی باہنی کی طرف سے غیر بنگالی افراد پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اس ضمن میں قطب الدین عزیز کی کتاب سے کچھ حوالے پیش کیے جاتے ہیں۔
:Blood And Tears
قطب الدین عزیز صاحب تحریک پاکستان کے ایک کارکن تھے، قیام پاکستان کے بعد انہوں نے صحافی، سفارت کار اور مصنف کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ اپریل1971 ء میں وزارت اطلاعات کی جانب سے ڈھاکہ گئے اور حالات کا جائزہ لیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد اور خانہ جنگی کے دوران مشرقی پاکستان سے آنے والے مہاجرین کی داستانیں جمع کیں اور انہیںBlood And Tears کے نام سے شائع کیا۔ جس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے۔
اس کتاب کے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں،
’’24مارچ1971 ء کو بنگالی باغیوں نے ان تمام غیر بنگالیوں کو قطار میں کھڑا کیا جنہوں نے علاقے کی مسجد میں پناہ لے رکھی تھی اور پھر انہیں مشین گن کی گولیوں سے بھون کر رکھ دیا۔ میں اس وقت بے ہوش ہوگئی جب میں نے اپنے خاوند نظام الدین کو خون میں لت پت زمین پر گرتے اور تڑپتے ہوئے دیکھا۔ ‘‘ (راوی حمیدہ ، علاقہ چٹا گانگ)
’’8جنوری1972 ء کو میرے بیمار خاوند علاج کے غرض سے ہسپتال جانے کے لیے نکلے تو راستے میں مکتی باہنی والوں نے انہیں روکا اور گولیاں مار کر قتل کردیا۔‘‘ (راوی مبینہ خاتون ، علاقہ چٹا گانگ)
’’ہزاروں باغیوں نے 28,29مارچ کی رات کو سیٹلائٹ ٹاؤن جیسور پر حملہ کیا، غیر بنگالیوں کے گھروں کو لوٹا ، جلایا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا، جن میں میرے تین بیٹے بھی شامل تھے۔ میری دو بیٹیوں کو اغوا کرلیا اور مجھے بھی خنجر سے مارا۔ میں خون کے تالاب میں گر کر بچ گیا۔ بعد میں اپنی بیٹیوں کی تلاش میں جیسور کا کونا کونا چھان مارا مگر ان کا کچھ بھی پتہ نہ چل سکا۔ ‘‘ (راوی سلمیٰ خاتون، علاقہ ڈھاکہ)
یہ تو نمونے کے چند واقعات تھے جو پیش کیے گئے ورنہ پانچ سو صفحات کی کتاب Blood And Tears ایسے سینکڑوں رونگٹے کھڑے کردینے والے واقعات پر مشتمل ہے۔
البدر:
یہاں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے محب وطن بنگالیوں کا تذکرہ بھی کرتے چلیں جنہوں نے ملک کے لیے اپنی جانیں داؤ پر لگا کر پاک فوج کا ساتھ دیا اور اس کی پاداش میں آج تک سزائیں بھگت رہے ہیں۔
ان میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی طلباء تنظیم اسلامی جمعیت طلباء یا اسلامی چھاتروشنگھوکے کارکن بھی شامل تھے جنہوں نے پاک فوج کی مدد کے لیے مکتی باہنی کی طرز پر مسلح ملیشیا قائم کی اور خانہ جنگی کے دوران پاک فوج اور غیر بنگالیوں کا کھل کر ساتھ دیا۔ البدر اور الشمس ایسی ہی آزاد ملیشیا تھی جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی پاکستان کی وحدت کی خاطر دی۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت اس دور کے البدر کے رضا کاروں کو اب پھانسیاں دے رہی ہے ،جن میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر شیخ مطیع الرحمن سرفہرست ہیں جو البدر کے کمانڈر تھے۔ البدر کے دیگر کمانڈروں میں پروفیسر غلام اعظم اور عبدالقادر ملا بھی شامل ہیں جنہیں گزشتہ سالوں میں پاک فوج کی حمایت کے جرم میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
گورنر کی تبدیلی:
ڈھاکہ کے حالات مستقل بگڑتے جارہے تھے ۔ اسی دوران 3ستمبر کو جنرل ٹکا خان کو واپس بلوالیا گیا اور ڈاکٹر ایم اے مالک کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا گیا۔ 6ستمبر کو باغیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ دوسری طرف یحییٰ خان کی حکومت نے مجیب الرحمن کا آئینی حق تسلیم کرنے کے بجائے بھٹو کو غیر رسمی طور پر اقتدار میں شریک کرتے ہوئے چین جانے والے آٹھ رکنی وفد کا قائد بنادیا۔
23اکتوبر کو ڈھاکہ میں مشرقی پاکستان کے سابق گورنر منعم خان کو گھر میں گھس کر قتل کردیا گیا۔ اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں حالات تیزی سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ باغی عناصر طاقتور ہوتے گئے اور حکومت پاکستان کا اقتدار مختصر تر!
نومبر کے درمیان میں اطلاعات آنے لگیں کہ بھارتی فوج کے اہلکار سرحد عبور کرکے مشرقی پاکستان میں داخل ہونے لگیں۔
بھارت کا حملہ:
مشرقی پاکستان کی بغاوت میں بھارت کا اہم کردار تھا۔ اب جب کہ مشرقی پاکستان کے حالات قابو سے باہر تھے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے مشرقی پاکستان کی سرحدیں عبور کرلیں۔ 25نومبر 1971ء کو ایسٹرن کمانڈ نے اعلان کیا کہ بھارتی افواج باقاعدہ مشرقی پاکستان پر حملہ آور ہوچکی ہیں۔ 3دسمبرکو ریڈیو پاکستان پر حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ملک بھارتی جارحیت کا شکار ہوگیا ہے۔
پاکستان اور بھارتی افواج کا تقابل:
1971 ء کے دوران مشرقی محاذ پر پاکستانی اور بھارتی افواج کا عددی اور دفاعی سازو سامان کے اعتبار سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج گزشتہ 9ماہ سے خانہ جنگی کا شکار تھی اور بیرونی محاذ کے ساتھ ساتھ انہیں اندرونی طور پر بھی ملک دشمن قوتوں کا سامنا تھا۔ صدیق سالک کے مطابق بھارت کے پاس زمینی افواج کے آٹھ ترو تازہ ڈویژن موجود تھے جبکہ پاکستانی فوج کی ایسٹرن کمانڈ محض تین ڈویژن پر مشتمل تھی اور وہ بھی 9ماہ سے حالت جنگ میں تھی۔
فضائیہ کے شعبے میں بھارتی فوج اسّی اسکوڈن پر مشتمل تھی۔ اس کے جواب میں پاک فضائیہ کے پاس مشرقی پاکستان میں صرف ایک سکواڈرن تھا جو 16سیبرطیاروں پر مشتمل تھا اور فضائیہ کے پاس محض ایک ہوائی اڈا تھا۔
بحریہ کے شعبے میں بھارت کے پاس ’’وکرنت‘‘ نام کا ایک بحری بیڑہ تھا جس میں23ہوائی جہاز موجود تھے۔ وکرنت کے علاوہ بھارتی بحریہ میں چار بڑے جنگی جہاز اور دو آبدوزیں بھی موجود تھیں جبکہ پانچ مسلح گن بوٹ اور باروریں سرنگیں صاف کرنے والا جہاز اس کے علاوہ تھا۔ اس کے سامنے مشرقی محاذ پر پاک بحریہ صرف چار مسلح گن بوٹ پر مشتمل تھی جو کہ بحری اسمگلروں کے مقابلے کے لیے خریدی گئیں تھی!
یہ تھا پاکستانی اور بھارتی افواج کا تقابلی جائزہ جس کی بنیاد پر 1971 ء کی جنگ لڑی گئی۔
1971 ء کی جنگ! مشرقی پاکستان کا سقوط:
جنگ کا احوال کچھ اس طرح ہے کہ 3اور 4دسمبر کی درمیانی شب بھارتی فضائیہ نے جنگ کی ابتدا ء ڈھاکہ ائیرپورٹ پر حملہ کرکے کی۔ پاک فضائیہ نے بھر پور جواب دیا مگر بدقسمتی سے محض دو دن بعد یعنی 6دسمبرکو بھارتی حملوں سے ڈھاکہ ائیرپورٹ کا رن وے ناکارہ ہوگیا جو پھر کبھی قابل استعمال بنایا نہ جاسکا۔ اس طرح مشرقی پاکستان میں پاک فضائیہ دو دن کی جنگ کے بعد غیر فعال ہوگئی اور بقول صدیق سالک فضائیہ کے فائٹر پائلٹ 8دسمبر اور 9دسمبر کو مغربی پاکستان بھیج دئیے گئے جہاں پاک فضائیہ نے بھارتی تنصیبات پر حملوں سے مغربی محاذ جنگ کھول دیا تھا۔ بحری جنگ کے حوالے سے بھی پاک بحریہ کی مختصر فورس بھارتی بحریہ کامقابلہ نہ کرسکی اور جنگ کے پہلے دن ہی دم توڑ گئی۔
اس طرح 1971 ء کی جنگ مشرقی پاکستان میں بری فوج کے درمیان لڑی گئی جو جنرل نیازی کے زیرِ کمان پینتالیس ہزار ریگولر اور تہتر ہزار نیم عسکری سپاہ پر مشتمل تھی۔ بری افواج عملی طور پر خانہ جنگی کے باعث تھک چکی تھیں۔ 7دسمبریعنی جنگ کے چوتھے دن یہ صورت حال تھی کہ کئی سیکٹروں میں پاک فوج کو شکست ہوچکی تھی۔ جیسور اور جنیدہ بھارتی قبضے میں جاچکے تھے۔ پاک فوج کی سپلائی لائن کٹ چکی تھی۔ ہر محاذ سے بھارتی افواج کے آگے بڑھنے کی اطلاعات آرہی تھیں۔ 7دسمبر کو گورنر ہاؤس میں جنرل نیازی نے گورنر مالک سے ملاقات کی اور اس ملاقات کے بعد گورنر ہاؤس ڈھاکہ سے ایوانِ صدر راولپنڈی تار بھیجا گیا جس میں جنرل یحییٰ خان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ جنگ بندی کی کوشش کریں۔ 9دسمبر کو حالات مزید کشیدہ ہوگئے اور پاکستانی افواج کی دفاعی لائنیں ٹوٹنے لگیں۔ اس دن گورنر مالک کی طرف سے دوبارہ یحییٰ خان کو جنگ بندی کے لیے تار بھیجا گیا۔
چونکہ جنرل نیازی راولپنڈی بھیجے جانے والی اطلاعات میں پاک فوج کی پسپائی کا ذکر گول مول انداز میں کرتے رہے تھے اس لیے 7دسمبراور 9دسمبرکے تاروں کا جنرل یحییٰ خان نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ آخر کار جب ایسٹرن ہیڈ کواٹر سے جنرل نیازی نے اصل صورت حال راولپنڈی بھیجی تو یحییٰ خان نے معاملات کا اختیار گورنر مالک کے سپرد کردیا اور انہیں کلّی طور پر فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی۔ گورنر مالک نے اقوام متحدہ کے نمائندے کے ذریعے تجویز پیش کی کہ مشرقی پاکستان میں اقتدار 1970 ء کے الیکشن جیتنے والے نمائندوں کو منتقل کردیا جائے۔ یہ تجویز مغربی پاکستان پہنچی تو بھٹو نے شور مچا دیا کہ میں اقوام متحدہ کے ذریعے تصفیہ کروانے اور پاکستان کی مدد کے لیے چین اور امریکا سے حمایت اور عسکری امداد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور گورنر مالک کی تجاویز نے میری کوششوں کو زک پہنچائی ہے۔ اس طرح گورنر مالک کے تجاویز رد کردی گئیں۔
دوسری طرف بھٹو نے یقین دلایا کہ ہمارے زرد دوست یعنی چین اور سفید دوست یعنی امریکی جلد عسکری امداد کے لیے اپنی افواج مشرقی پاکستان بھیجنے والے ہیں۔ اس ضمن میں امریکا کا ساتواں بحری بیڑہ جلد مشرقی پاکستان کے ساحل پر لنگر انداز ہوجائے گا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں اب چین اور امریکا کی افواج کا انتظار ہونے لگا۔ 12دسمبر کو گورنر مالک کی جانب سے یحییٰ خان کوجنگ بندی کے لیے درخواست کی گئی مگر کوئی جواب نہ ملا کیونکہ سب کی نگاہیں امریکی بیڑے اور چینی افواج کی جانب تھی اور دشمن ڈھاکہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ 14دسمبر کو گورنر ہاؤس پر بھارتی فضائیہ کا حملہ ہوا اور اسے سخت نقصان پہنچا۔ مجبوراً14دسمبر کو گورنر مالک اور ان کی کابینہ کے ارکان کو ریڈ کراس کی پناہ میں آنا پڑا جس نے ڈھاکہ کا انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل غیر جانبدار علاقہ قرار دلوادیا تھا۔ ریڈ کراس کی پناہ میں آنے کے لیے گورنر مالک اور ان کی کابینہ کے ارکان کو ’’غیر جانبدار فریق‘‘ ہونے کی یقین دہانی کروانی پڑی اس طرح14دسمبر کو حکومتِ مشرقی پاکستان کا آخری دن ثابت ہوا۔ 14دسمبر کی شام کو جنرل یحییٰ خان نے گورنر مالک اور جنرل نیازی کو جنگ بندی کرنے کی اجازت دے دی۔ جنرل نیازی نے بھارتی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مانک شاہ کو امریکی قونصل جنرل کے ذریعے جنگ بندی کی درخواست کی۔ 15دسمبر کو جنرل مانک شاہ کا جواب آگیا اور عارضی سیز فائر ہوگیا۔ بھارتی افواج اب ڈھاکہ شہر کے دروازے میر پور پل تک پہنچ گئیں۔ 16دسمبر کی صبح بھارتی جنرل ناگرا پر امن طور کوئی گولی چلائے فاتحانہ شان سے ڈھاکہ میں داخل ہوگیا۔ کچھ دیر بعد میجر جنرل جیکب جنگ بندی کی دستاویز لیے ڈھاکہ پہنچ گیا اور پھر بھارتی ایسٹرن کمانڈر لیفٹنٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ بھی ڈھاکہ آگیا اور اس دن سقوط کی دستاویز پر دستخط کرلیے گئے۔ اس طرح 16دسمبر 1971 ء کو سقوط ڈھاکہ کے ساتھ پاکستان دولخت ہوگیا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)
حوالہ جات:
اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے حوالہ جات لیے گئے ہیں۔
1. Blood And Tears by Qutubuddin Aziz.
2. Pakistan divided by
Dr. Safdar Mehmood.
3. Creation of Bangladesh, Myths exploded by
Junaid Ahmed
4. Dead Reckoning by
Sarmila Bose.
5۔ میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا از صدیق سالک۔
6۔چہرے اور مہرے از مسعود مفتی۔
7۔ شکست آرزو از پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین۔
8۔ سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک از میاں افضل۔
9۔ البدر از سلیم منصور خالد۔
*۔۔۔*۔۔۔*
very nice article regarding this tragic incident ………
keep it up…
زبردست عدیل بھائی۔۔ بہت تکلیف دہ کہانی ہے، عموماً میری ہمت ہی نہیں ہوتی اس موضوع پر کچھ پڑہنے کی۔
لیکن آپکا انداز بیان اتنا دلکش ہے کہ روتے دل کے ساتھ بھی پورا ختم کرنے پر مجبور ہو گیا۔
تاریخ لکھنے کا مقصد دراصل لوگوں بالخصوص ارباب اقتدار کو تاریخ سے سبق سیکھنے کی دعوت دینا ہوتا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہر نسل سابقین کی غلطیوں کو دھرا کر نئے اور مثبت نتیجے کی توقع رکھتی ہے😭۔
جھنجھوڑتے رہیں کبھی خواب غفلت سے یہ قوم جاگے گی۔
خدا کرے زور قلم اور زیادہ
ماشاءاللہ بہت عمدہ تحریر ہے۔ آپ کو اخبار کے لئے مستقلاً لکھنا چاہیئے۔ بہت عمدہ۔
kafi dilchasp ortarikhi khani likhny ka fun to Adeel bhai koi apsae sikhy..histroy likhny ka fun kuch logo k pass hi hota hae un chand logo mae sae aik passs hae wo fun
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اوراق میں سے سیاہ ترین باب کا انتخاب صاحب تحریر کے وسیع مطالعے کا ثبوت ہے۔
تاریخ نویسی کے لئے شرط اول غیر جانبداری ہے جو عدیل سلیم کا خاصہ ہے ۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی ۔۔۔۔