یہ سچ ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ بھول جاتی ہے اس کا جغرافیہ اسے فراموش کر دیتا ہے۔تاریخ دراصل ہے کیا؟حقائق و مشاہدات کو عمل تسوید میں لانے کے عمل کو تاریخ کہا جاتا ہے۔اور کتبِ تواریخ سے ہی یہ بات ہم تک پہنچی ہے کہ حقائق و مشاہدات اور حالات و واقعات کو جمع کرنے کا عمل اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب حضرتِ انسان نے لکھنا شروع کیا تھا۔دسمبر 1971 ہماری تاریخ کا سال سویدا اور درد ناک اذیت سے عبارت ایسا سال ہے کہ جب ہمارا ایک بازو بنگلہ دیش کی صورت میں ہم سے کٹ کر جدا ہو گیا تھا۔پاکستان کی تاریخ میں سب سے اذیت ناک سانحہ ہے کہ جس سے نہ صرف پاکستان دو لخت ہوگیا بلکہ اس عظیم المیہ سے پاکستانی قوم پر نفسیاتی،معاشی،معاشرتی اور سیاسی اثرات کا مرتب ہونا فطری تھا ،خاص کر افراد کی نفسیات بری طرح متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔پاکستان کے دو لخت ہونے کے عمل کی جامع و صریح تفہیم کے لئے واقعات و تناظر کا مکمل مطالعہ ناگزیر ہے۔تاہم تاریخ کے تین کرداروں بھٹو،مجیب اور یحیٰ کے رویوں کو جس قدر اخبارات و رسائل اور کتابوں میں پیش کیا گیا ہے اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ دیگر واقعات کا اس سانحہ سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں،مگر ایسا ہرگز نہیں د یگراروں کی چالاکیوں اور چالبازیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
سقوط مشرقی پاکستان یا سقوط ڈھاکہ بھی ایک ایسا ہی کرب ناک سانحہ ہے کہ جس کے رونما ہونے میں کثیر واقعات و حقائق شامل ہیں۔اہلِ فکر و دانش آج تک اس سوال کے جواب کے متلاشی ہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان کا ذمہ دار در اصل ہے کون؟ناکام سیاسی راہنما،فوجی حکمرانوں کا ہوسِ اقتدار،بھارت کا کردار،بین الاقوامی سازش،جغرافیائی فاصلہ،ثقافتی بُعد،زبان کا فرق ،ہندو اساتذہ کا کردار یا فوجی شکست؟تمام حقائق و کردار اپنی جگہ درست مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج مشرقی پاکستان ،بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشہ پر موجود ہے۔وقت کی نزاکت اس بات کی متقاضی ہے کہ مکمل تفصیل میں نہ جایا جائے،تاہم نجماً نجماً اس کا تذکرہ ضروری ہے جس سے قارئین کو اس عظیم سانحہ کے اصل حقائق اور اسباب و عوامل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔سب سے پہلی حقیقت علیحدگی کی جغرافیائی و ثقافتی بُعد ہے جس سے بنگالی قوم و سیاستدان پوری طرح باخبر تھے بلکہ اس کی تشہیر کا کوئی موقع بھی ضائع نہیں کرتے تھے۔خاص کر بنگالی سیاستدانوں نے اس کی تشہیر کے لئے دستور ساز اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی اس کو خوب خوب اجاگر کیا۔ بنگالیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاستدان بھی کسی طور کم نہیں تھے انہوں نے بھی جلتی پہ تیل چھڑکنے کو کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا،جس کا ایک حوالہ قارئین کے لئے ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے صرف سات ماہ بعد ہی مارچ 1948 میں دستور ساز اسمبلی کے ایک مسلم لیگی رکن عزیز احمد نے کہا تھا کہ’’محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ نظام میں مشرقی بنگال کو واقعتا نظر انداز کیا جا رہا ہے‘‘ایسے بیانات کے پس منظر میں بھی کئی ایک محرومیاں مضمر تھیں۔اسی لئے تو قیام پاکستان کے بعد ہی وہ جذبہ رفتہ رفتہ سرد پڑنے لگ گیا جو آزادی اور تحریک کے دوران دیکھنے میں آیا تھا۔یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ دونوں بازوؤں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا،جو کہ جغرافیائی حفاظت کے لئے کمزوری کی ایک دلیل تھی۔اسی طرح اگر دونوں حصوں کی ثقافت کی بات کی جائے تو مشترکہ مذہب اور سیاسی جدو جہد کے علاوہ کوئی قدر مشترک دکھاء نہیں دیتی ہے۔زبان سے لے کر پہناوے اور مختلف مواقع پر رسوم و روایات تک بھی مشترکہ اقدار سے خالی تھے۔ایسے حالات میں دونوں صوبوں کو متحد اور ایک مرکز کے تحت سیاسی طور پر مضبوط کر کے چلانا اتنا سہل کام نہیں تھا ایسا صرف دو عوامل سے ہی ممکن ہو سکتا تھا ،ایک دلیر،مدبر سیاسی راہنما ئی سے اور دوسرا مضبوط آئینی نظام سے۔۔۔اگرچہ آئینی نظام کے بارے میں قائد اعظم نے برملا کہہ دیا تھا کہ ہمارا آئین اسلام کے مطابق ہی ہوگا۔تاہم قدرت نے انہیں مہلت ہی نہ دی کہ وہ قیام کے بعد زیادہ عرصہ زندہ رہ کر سیاسی و معاشی انقلاب و اصلاحات برپا کر پاتے۔قائد اعظم کے بعد سے 1958 تک کسی مضبوط سیاسی قیادت کا سہارا نہ مل سکا جس کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں ایک خلا پیدا ہوتا گیا اور دونوں حصوں کے درمیان برادرانہ تعلقات میں ایک وسیع خلیج پیدا ہوتی گئی۔سیاسی قیادت کے بعداس خلیج کی ایک بڑی وجہ سماجی طرز عمل میں تفاوت بھی تھا کیونکہ مغربی پاکستان کی سیاست پر اکثر و بیشتر وڈیروں،جاگیرداروں اور نوابوں کا تسلط تھا جبکہ مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں کی بڑی تعداد وکلا،اساتذہ اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین پر مشتمل تھی۔جس کی ایک دلیل تواریخ کتب میں اس طرح سے ملتی ہے کہ دوسری دستور ساز اسمبلی میں مغربی پاکستان کے چالیس اراکین میں سے 28 جاگیردار تھے جبکہ مشرقی پاکستان کی نمائندگی 20 وکلا اور9 ریٹائرڈ ملازمین کر رہے تھے۔اور ان میں ایک بھی جاگیر دار نہیں تھا۔لہذا مشرقی حصہ کی سیاسی پختگی اور بالیدگی کا اندازہ اسی ایک بات سے ہی ہو جاتا ہے۔بلکہ یو ں کہنا مناسب ہوگا کہ ان کے طرز عمل،مساوات اور شرح خواندگی کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے۔مزید اگر اس سانحہ میں بھارتی کردار کا جائزہ لیا جائے تو بات اظہر من الشمس ہے کہ بھارت نے کبھی بھی شیخ مجیب کے خلاف کوئی بات نہیں کی،علاوہ ازیں دونوں حصوں کی علیحدگی کے اگر سب سے بڑے عنصر کا تذکرہ کیا جائے تو وہ تعلیم اور معیشت تھی۔اور یہ دونوں شعبے مکمل طور پر ہندوؤں کے قبضہ میں تھے،صوبے کی 80 فیصد دولت پر ہندوؤں قابض تھے،جبکہ تعلیمی میدان کی اگر بات کی جائے تو مشرقی حصہ میں موجود 290 ہائی سکولزاور97 کالجز کے کل 95 فیصد پر بھی ان کا ہی کنٹرول تھا،اور ان تمام سیاسی،تعلیمی ہندو پنڈتوں کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف تھا۔جس سے مغربی پاکستان کی عوام کے خلاف سیاسی فضا کی راہ ہموار ہو گئی۔اسی طرح 1966 میں جب مجیب الرحمن نے اپنے چھ نکات پیش کئے تو پورا صوبہ بنگال چھ نکات پر لبیک کہتا ہوا قومی و سیاسی دھارے کا حصہ بن گیا۔عوامی لیگ کے شائع کردہ منشور میں مجیب الرحمن کے چھ نکات قارئین کی معلومات کے لئے نظر کر رہا ہوں۔تاکہ بات واضح ہو جائے کہ اصل میں ان نکات کے پیچھے کیا عزائم پوشیدہ تھے۔
1 ۔ملک کا طرز حکومت وفاقی اور پارلیمانی ہوگا،جس کے تحت وفاقی مقننہ اور صوبے کی مقنناؤں کے لئے انتخاب براہ راست اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونگے۔وفاقی مقننہ میں نمائندگی آبادی کی بنیاد پر دی جائے گی۔
2۔وفاقی حکومت کے پاس دفاع،امور خارجہ اور کرنسی کے شعبے ہونگے۔
3 ۔ملک کے دونوں حصوں کی الگ الگ کرنسیاں ہونگی۔جو باہمی طور پر قابلِ تبادلہ ہونگی۔
4 ۔صوبے اپنی اقتصادی پالیسی خود تیار کریں گے۔
5 ۔آ ئین کے تحت صوبوں کی زر مبادلہ کی آمدنی کے علیحدہ علیحدہ حسابات کا نظام کیا جائے گا۔
6 ۔صوبائی حکومتیں قومی سا لمیت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے لئے ملیشیا یا نیم فوجی فورس قائم کرنے کی مجاز ہوگی۔
ان چھ نکات پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سیاسی ،عسکری،بیوروکریٹس اور عومی نمائندوں نے اگرچہ ملے جلے خیالات کا اظہار ہی کیا ہے کہ اس مسئلہ کا حل سیاسی ہونا چاہئے تھا اس لئے کہ ایک میز پر آکر سیاستدان خود بخود ہی انتہائی اقدام سے پیچھے ہٹ سکتے تھے،میری ذاتی رائے میں چھ نکات سے سیاسی طالب علموں کو واضح عندیہ مل جاتا ہے کہ ان کا مقصد صرف اور صرف وفاق اور فیڈریشن کو کمزور کرنا تھا اور اس قدر کمزور کرنا تھا کہ وفاقی حکومت عملی طور پر بالکل غیر موثر اور حقیقی اختیار سے محروم ہو کر رہ جاتی اور جس کا اختتام وہی ہوتا ہو علیحدگی کی صورت میں ہو چکا ہے۔اگرچہ مجیب الرحمن نے پہلے نکتہ میں وفاقی ریاست کا ذکر بھی کیا ہے تاہم جب باقی پانچ نکات مکمل صوبائی خودمختاری بلکہ صوبائی آمریت کا اشارہ دے رہے ہوں تو پھر وفاق کی مضبوطی اور وفاقی ریاست چہ معنی؟
تاہم اس حقیقت سے بھی مفر نہیں کیا جا سکتا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ایک اور بڑی وجہ الیکشن 1970 کے بعد اس وقت کے بڑے سیاسی راہنماؤں کے بیانات بھی ہیں،جیسے بھٹو نے 21 دسمبر1970 میں ایک بیان میں واضح کیا کہ ’’گزشتہ تئیس برسوں میں امورِ مملکت میں مشرقی پاکستان کی عدم شمولیت کا مطلب نہیں کہ آئندہ بائیس برسوں تک مشرقی پاکستان،مغربی پاکستان پر حکومت کرے‘‘اسی طرح مجیب الرحمان نے بھی 3 جنوری1971 کو رمنا ریس کورس میں عوامی لیگ کے اراکین قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اکثریت کے نمائندے ہیں اس لئے ہم آئین تشکیل دیں گیاور اس راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو کچل دیا جائے گا‘‘اسی جلسہ میں ہی ’’جے بنگلہ‘‘کا نعرہ بھی بلند ہوا اور اسی سٹیج پر بنگلہ دیش کا نقشہ بھی آویزاں کیا گیا تھا جو اس بات کی طرف واضح اشارہ تھا کہ اب صرف اور صرف بنگلہ دیش ہی ان کی زندگیوں کا مقصد ہے۔یہ وہ چند حقائق و واقعات تھے جن کی وجہ سے ہمارا ایک بازو ہم سے جدا ہو گیا اور ہم ایک لخت سے دو لخت ہونے پہ مجبور ہو گئے۔اور اس حقیقت کو ہم 1974 میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقدہ لاہور تسلیم بھی کر چکے ہیں۔مگر اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں ہے کہ ہماری تاریخ کے صفحات میں اسے عظیم المیہ ہی لکھا جائے گا۔
اہم بلاگز
رنگت کا شور
خوب صورتی محض سفیدی میں نہیں اورحسن کا معیار گوری رنگت نہیں ۔ اس زندگی میں کچھ کردار ایسے ہیں جو چلتے پھرتے کہانی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہر انسان کی زندگی میں قدرت نے ایک مثبت پہلو رکھا ہوتا ہے ۔ سارہ بھی ایسا ہی ایک کردار ہے جسے پانچ برس کی عمر میں اس کے والدین آنکھوں میں مثبت خواب سجائے اسے مکتب میں بھیجتے ہیں کہ ایک روز سارہ پڑھ لکھ کر اس قوم کی خدمت کرے گی ۔ سارہ کو بدقسمتی سے بچپن ہی سے معاشرے سے وہ پیار نہ ملا جس کی وہ حق دار تھی ۔ پڑوس کے بچے اور بزرگ سب ایسے کالی کالی کہہ کر مخاطب کرتے مگر سارہ نے کبھی ماتھے پر شکن تک نہ لائی۔ سارہ کے والدین ان باتوں سے اکثر افسردہ ہوتے تھے آخر وہ کس کس کو اور کیا کیا کہہ کر سمجھاتے ۔
وقت گزرتا گیا سارہ کا مکتب میں پہلا دن اتنا بھی شان دار نہ رہا جتنی اس کو مسرت تھی ۔ مکتب کے بچے بھی اس کو کالی کلوٹی کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے ۔ سارہ سب کو بھائی اور بہن کہہ کر مخاطب کرتی لیکن کوئی اس کے ساتھ بیٹھنا تک گوارا نہ کرتا ۔ وقت گزرتا گیا سارہ نے کتابوں کو اپنا دوست بنایا ۔ ہر سال جماعت میں اول آتی رہی ۔ جماعت ہشتم میں اب زیر تعلیم تھی لیکن اس کے چہرے کی رنگت اب بھی ایک مسئلہ تھا لیکن ہر جماعت میں ایک کردار ایسا بھی تھا جس نے سارہ کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا اور وہ کردار اس کی معلمات کا تھا ۔ استاد کبھی بھی بچوں کو اس کی رنگت کی وجہ سے اس سے نفرت یا محبت نہیں کرتے ۔ ایک حقیقی استاد وہی ہوتا ہے جو بچوں میں محبت کو پروان چڑھاتا اور انھیں بلند حوصلہ فراہم کرتا ہے ۔
میڈم شمیم اپنے ادارے میں ایک قابل معلمہ کے طور پر پہچانی جاتی تھی ۔ ایک روز انہیں کلاس میں پہنچنے میں تاخیر ہوئی تو دیکھا سب بچے قہقہ لگا رہے ہیں اور وہیں ایک بچی ایسی بھی بھی ہے جو اداس بیٹھی ہے ۔ میم شمیم نے بچوں کو مخاطب کیا اور پوچھا : ” بچو ! کیا تم جانتے ہو اچھے بچے کیسے ہوتے ہیں ؟ “ جماعت سے یکے بعد دیگرے مختلف آوازیں آنے لگی : صاف ستھرے ، اچھا بولنے والے ، اچھا پڑھنے والے ، بڑوں کی بات ماننے والے ۔۔۔۔ میم شمیم نے سوال تبدیل کیا کہ برے بچے کیسے ہوتے ہیں ؟ تو جماعت کے کچھ بچے سارہ کی جانب دیکھ کر ہنسنے لگے اور کہیں سے آواز بلند ہوئی سارہ کی طرح کالے کلوٹے ۔۔۔کلاس میں بلند قہقہ لگا ۔ میم شمیم نے سب کو غصے سے مخاطب کرتے ہوئے کہا ! بچو ! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ پاک کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ ہم اس کے تخلیق کردہ انسان کی تذلیل کریں ؟ اس کو برا بھلا کہیں، کیا ہم سب ایک جسم کی مانند نہیں...
محمد علی جناح قائد اعظم کیسے بنے؟
1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کا ہندوستان میں اقتدار مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا اس لیے انہوں نے بغاوت کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی اور انہیں ہر طرح سے دبانے اور کمزور کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے انڈیا میں اپنی تجارت اور مصنوعات کو فروخت دینے کے لیے مسلمان ہنر مندوں کو گھر بٹھا دیا انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا مسلمانوں کی زبان کو متروک کرکے انگریزی زبان کو فروغ دیا گیا فارسی زبان پڑھنے والوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے یہاں تک کہ مثل مشہور ہو گئی کہ "پڑھو فارسی بیچو تیل" ۔ مسلمان پسماندہ سے پسماندہ ہوتے چلے گئے۔
ہندوؤں نےان حالات کا فائدہ اٹھایا انہوں نے انگریزی زبان سیکھ کر انگریزوں کا قرب حاصل کیا اور اپنی اس حکمت عملی کے ذریعے حکومت میں اثر و رسوخ حاصل کر لیا۔
ہندو تعداد میں مسلمانوں سے زیادہ تھے اس بنا پر وہ جان گئے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اقتدار ان کے ہاتھ آسکتا ہے انہوں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کر دیا۔
مسلمان بھی انگریزوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر "ہندوستان چھوڑ دو" تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہندو مسلم اتحاد میں جو مسلمان رہنما شامل تھے ان میں ایک نمایاں نام محمد علی جناح کا تھا جو پیشے کے اعتبار سے قانون دان تھے۔ ان کا شمار ہندوستان کے بڑے وکیلوں میں ہوتا تھا وہ ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی تھے اور ہندوستان کے عوام کے سیاسی حقوق کے علمبردار تھے مگر جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ہندو رہنماؤں کا مقصد صرف ہندو اقتدار کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ انہیں مسلمانوں کے حقوق سے کوئی سروکار نہیں چنانچہ انہوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے جو مسلمانوں کی سیاسی جماعت تھی اور ان کے سیاسی حقوق کے لیے کوشاں تھی۔
محمد علی جناح اور دیگر مسلمان زعماء یہ جان چکے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ایک علیحدہ اسلامی ریاست قائم کی جائے جہاں وہ دین اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں کیونکہ ہندو اور مسلمان دو بالکل علیحدہ قومیں ہیں جن کے افکار، نظریات، دین، مذہب اور رہن سہن کے طور طریقے اس قدر مختلف ہیں کہ یہ آپس میں مل جل کر نہیں رہ سکتے۔ اس دو قومی نظریے کی بنیاد پر محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کا آغاز کیا آپ نے تحریک پاکستان کے لیے دن رات ایک کر دیے۔
محمد علی جناح ایک با اصول بے باک اور مخلص سیاستدان تھے۔ آپ نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ دوست دشمن بھی مخالفت کے باوجود آپ کی بات ماننے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ محمد علی جناح نے اپنی و لولہ انگیز قیادت کی بدولت بکھری ہوئی مسلمان قوم کو اسلام کے...
گواہی
السلام علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ؟ مارتھا جوش سے ہاتھ ہلاتی ہوئی فریحہ کے گلے لگ گئی ۔
فریحہ نے جواباً اسے وعلیکم کہا اور دعا دی " اللہ سبحان تعالی تم سے راضی ہوں ہدایت عطا فرمائیں دونوں جہانوں کی فلاح عطا فرمائیں آمین "
فریحہ کی دعائیں سن کر مارتھا خوشی سے گویا ہوئی' اوہ آنٹی آپ نے تو میرا دن بنا دیا لو یو آنٹی ، آپ سے دعائیں ملتی ہیں تو لگتا ہے جیسے ممی دعا دے رہی ہوں ۔ فریحہ نے مسکراتے ہوئے محبت سے کہا مائیں تو اپنی اولادوں کے لئے دعا کو ہی سب سے قیمتی تحفہ سمجھتی ہیں بیٹی ۔ اچھا بتاو یہ امایہ کہاں ہے ابھی تک کلاس سے باہر نہیں نکلی ؟ ہی ہی ہی ہی ہی آنٹی آپ جانتی ہیں نا اپنی بیٹی کو مارتھا نے ہنستے ہوئے مزید کہا ' جب تک پیپر کا وقت ختم نہ ہوجائے وہ اسے ری چیک کر کر کے خود کو تھکاتی رہے گی ۔ مارتھا کی بات سن کر فریحہ بھی مسکرا دیں اور بولیں، ہاں یہ اس کی بچپن سے عادت ہے کبھی اپنے پیپرز سے مطمئن نہیں ہوتی ۔
ابھی بات یہاں تک ہی پہنچی تھی کہ امایہ دور سے آتی نظر آئی.
اماں کو اپنی بہترین دوست کے ساتھ گپ شپ کرتے دیکھ مسکرا دی ، وہ جانتی تھی کہ مارتھا اس کی اماں سے بہت محبت کرتی ہے اور بہت عزت بھی کرتی ہے ' وجہ تھی امایہ کی والدہ کا مارتھا کے ساتھ انتہائی مشفقانہ اور مخلصانہ رویہ ۔
وہ مارتھا کے کہے بغیر اس کے لئے امتحانات میں کامیابی کی دعا کرتیں ' اسے پڑھائی میں مدد دیتیں امایہ کو مارتھا کے ساتھ بہت اچھا ' عزت کا سلوک کرنے کا کہتیں نہ مارتھا کو اپنے گھر آنے سے روکتیں بلکہ امایہ کو مارتھا کے گھر خود ملوانے لے کر جاتیں ۔ ان سب باتوں کی وجہ سے مارتھا اور اس کے والدین فریحہ سے بہت عزت سے ملتے ۔
فریحہ کا سلوک مارتھا سے بالکل امایہ کی طرح کا ہوتا زمانے کی اونچ نیچ ' حالات کی خرابی سے ہر دم خبردار کرتی رہتیں 'اکیلے باہر گھومنے، جسم کو شو آف کرتا لباس پہننے سے منع کرتیں اور وہ بھی ایسے دلائل کے ساتھ کہ مارتھا من و عن ان کی بات پر عمل پیرا ہوتی ۔ لیکن اتنی محبت ' عقیدت کے باوجود ایک بات جو مارتھا کو بہت کھٹکتی تھی وہ اس نے اپنی ممی سے بھی شیئر نہ کی تھی ۔ اور وہ یہ تھی کہ فریحہ کبھی بھی عیدین کی دعوت میں مارتھا کو شریک نہ کرتیں کبھی امایہ کو کرسمس ' ایسٹر یا گڈ فرائڈے میں نہ آنے دیا نہ مبارکباد دینے دی بلکہ اگر مارتھا عیدین کی مبارکباد دیتی تو آنٹی اور امایہ مسکرا کر رہ جاتیں شکریہ تک نہ بولتیں جو کہ مارتھا کے لئے حیرت کا باعث تھا ہی ساتھ ہی تکلیف دہ بھی ہوتا ۔
اب پھر کرسمس قریب تھا اور مارتھا نے سوچ رکھا تھا کہ کالج کے اس آخری سال کو یادگار بنانے کے لئے وہ لازمی امایہ کو...
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...