۔16دسمبر1971ء سے پاکستان کی تاریخ ایک سوال کی قیدی ہے: پاکستان کیوں ٹوٹا؟ اس سوال کے کئی جوابات موجود ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے کوئی جواب بھی معروضی یا Objective نہیں، بلکہ ہر جواب کی پشت پر کسی نہ کسی شخص، جماعت، طبقے یا ادارے کے مفادات رقص کناں ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کے باوجود بھی ہمیں پاکستان سے نہیں اپنے شخصی، جماعتی، طبقاتی یا اداراتی مفادات سے محبت ہے۔ ہمیں پاکستان سے محبت ہوتی تو ہم یہ جاننے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا چکے ہوتے کہ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی آرزو، اقبال کے خواب اور قائداعظم کی تعبیر کو کس نے دولخت کیا؟ پاکستان کا حکمران طبقہ اس سلسلے میں اور کچھ نہیں کرسکتا تھا تو کم از کم حمودالرحمن کمیشن کی پوری رپورٹ ہی شائع کردیتا۔ یہ رپورٹ جنرل پرویز کے دور میں شائع بھی ہوئی تو بھارت کے رسالے ’انڈیا ٹوڈے‘ میں۔ یہاں سے روزنامہ ’ڈان‘ نے اس رپورٹ کو لفٹ کیا۔ اس طرح حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے ’’کچھ حصے‘‘ ہمارے سامنے آگئے۔ لیکن حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ جان لیجیے کہ حمودالرحمن کمیشن کسی دشمن ملک کا کمیشن نہیں تھا۔ یہ کمیشن سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس حمودالرحمن کی سربراہی میں قائم کیا گیا۔ اس کے دیگر دو اراکین میں سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس ایس انوارالحق اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس طفیل علی عبدالرحمن شامل تھے۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل الطاف قادر کمیشن کے مشیر، اور سپریم کورٹ کے نائب رجسٹرار ایم اے لطیف کمیشن کے سیکریٹری تھے۔ کمیشن نے سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے 213 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے۔ کمیشن نے راولپنڈی میں یکم فروری 1972ء سے بیانات ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور 12جولائی 1972ء کو اپنی رپورٹ اُس وقت کے صدر پاکستان کے حوالے کی۔ حمودالرحمن کمیشن کی شائع شدہ رپورٹ کے پہلے حصے میں پاکستان کے ٹوٹنے کے سانحے کا ’’اخلاقی پہلو‘‘ زیر بحث آیا ہے۔ اس سلسلے میں حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کہتی ہے:
’’اب ہم 1971ء کی جنگ میں اپنی شکست کے اخلاقی اسباب کا جائزہ لیں گے، ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ کمیشن کے روبرو معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے گواہوں نے جن میں اعلیٰ اور ذمے دار فوجی اہلکار بھی شامل تھے، کہا کہ مارشل لا ڈیوٹیز سے پیدا ہونے والی بدعنوانیوں، شراب اور عورتوں کی ہوس اور جائداد اور مکانات کے لالچ کی وجہ سے اعلیٰ فوجی افسروں میں جنگ لڑنے کی خواہش ہی ختم ہوگئی تھی۔ نہ صرف یہ، بلکہ ان چیزوں سے ان کی پیشہ ورانہ اہلیت بھی متاثر ہوگئی تھی۔ یہاں تک کہ ان چیزوں سے ان کی فیصلہ کرنے کی وہ صلاحیت بھی فنا ہوگئی تھی جو کامیابی کے ساتھ جنگ لڑنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ گواہوں نے اصرار کے ساتھ یہ بات کہی کہ اچھی شہرت سے محروم لوگوں سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ پاک فوج کو فتح سے ہم کنار کریں گے۔ کمیشن پیش کی گئی شہادتوں کے تجزیے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اعلیٰ فوجی افسروں میں اخلاقی زوال کا آغاز 1958ء میں مارشل لا کے تحت خدمات انجام دینے سے ہوگیا تھا۔ جنرل یحییٰ نے 1969ء میں دوسرا مارشل لا لگایا تو اخلاقی زوال میں مزید شدت پیدا ہوگئی۔ مشرقی پاکستان کے سول معاملات میں فوج کی مداخلت اُس وقت بھی بند نہ ہوئی جب وہاں ڈاکٹر اے ایم ملک کو سول گورنر مقرر کیا گیا۔ گواہ نمبر 284 میجر جنرل رائو فرمان علی نے جو گورنر ہائوس میں میجر جنرل Civil Affairs کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، کمیشن کو بتایا کہ سابق صدر کے اعلان کے مطابق مشرقی پاکستان میں مکمل سول حکومت قائم نہ کی جاسکی۔ ڈاکٹر ملک ضعیف العمر سیاست دان تھے، ان کی شخصیت بھی کمزور تھی، وہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل نیازی کو ناراض نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے برعکس جنرل نیازی اقتدار پسند تھے اور ان کے اندر سیاسی معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی، انہوں نے کبھی سول گورنر کے لیے احترام کا مظاہرہ نہ کیا اور فوج مشرقی پاکستان میں عملاً سول ایڈمنسٹریشن چلاتی رہی۔‘‘
حمودالرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کے اس طویل اقتباس سے تین حقائق عیاں ہوکر سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی شکست میں فوج کے اعلیٰ اہلکاروں کی زوال آمادہ اخلاقیات کا اتنا اہم کردار تھا کہ حمودالرحمن کمیشن نے اس پہلو کو انتہائی اہمیت دی۔ رپورٹ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مارشل لا یا جرنیلوں کا سیاسی تسلط صرف سیاسی معنوں میں افسوس ناک نہیں ہوتا بلکہ اس سے فوج کی اخلاقیات، ایمان داری اور جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ کمیشن کی رپورٹ کا تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا عملاً اس میں کسی نام نہاد سول انتظامیہ کا کوئی کردار نہیں۔ اس لیے کہ مشرقی پاکستان میں سول انتظامیہ کا صرف نام تھا، اُس کے پاس کرنے کا کوئی کام نہ تھا، کیونکہ سارے اختیارات جرنیلوں کے پاس تھے۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے:
’’مشرقی پاکستان میں فوج نے آپریشن شروع کیا تو نہ صرف یہ کہ مناسب لاجسٹک موجود نہ تھی بلکہ فوج کے لیے کھانے پینے کی چیزوں کی بھی کمی ہوگئی۔ جنرل نیازی نے جنرل ٹکا خان سے چارج لیتے ہی فرمایا ’’میں سن رہا ہوں کہ راشن کی کمی ہوگئی ہے۔ کیا ملک میں گائیں اور بکریاں موجود نہیں؟ یہ دشمن کی سرزمین ہے، جو تمہیں چاہیے چھین لو۔ ہم برما میں یہی کیا کرتے تھے‘‘۔ جنرل نیازی کے یہ ریمارکس میجر جنرل رائو فرمان علی کی گواہی کے توسط سے کمیشن تک پہنچے۔ تاہم جنرل نیازی نے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے ایسی کوئی بات کہی تھی۔ تاہم کمیشن کے روبرو حاضر ہونے والے دیگر گواہوں نے جنرل نیازی کی تردید کی تردید کی اور کہا کہ ان کے پاس اس سلسلے میں تحریری احکامات کی شہادت موجود ہے۔ جنرل نیازی کے خلاف ایک گواہی یہ آئی کہ جب وہ جی او سی سیالکوٹ تھے تو مارشل لا کیسز میں رشوت لیا کرتے تھے۔ ان کے خلاف ایک گواہی یہ آئی کہ وہ لاہور کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے تو ان کے مسز سعیدہ بخاری نام کی خاتون سے قریبی تعلقات تھے اور یہ عورت Senorito Home کے نام سے جسم فروشی کا ایک اڈا چلاتی تھی۔ علاوہ ازیں یہ عورت جنرل نیازی کی طرف سے رشوت بھی وصول کرتی تھی اور مختلف لوگوں کے کام کراتی تھی۔ جنرل نیازی جب سیالکوٹ میں تھے تو وہاں ان کا تعلق شامنی فردوس نام کی عورت کے ساتھ تھا، اور یہ عورت بھی جسم فروشی کے کاروبار سے منسلک تھی۔ جنرل نیازی کی یہ ’’شہرت‘‘ ان کے ساتھ مشرقی پاکستان پہنچی۔ جنرل نیازی مشرقی پاکستان پہنچ کر پان کی اسمگلنگ میں ملوث ہوگئے۔ اس سلسلے میں 6 عام گواہوں نے ان کے خلاف کمیشن کے روبرو گواہی دی، تاہم اس سلسلے میں کئی فوجیوں نے بھی ان کے خلاف گواہی پیش کی۔ لیفٹیننٹ کرنل عزیز نے جو مقدمے میں 276 ویں گواہ تھے، یہ تک کہا کہ عام فوجی کہتے تھے جب یہ سب کچھ خود کرتا ہے تو ہمیں کچھ کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ جنرل رائو فرمان علی نے کمیشن کو بتایا کہ جنرل نیازی مجھ سے ناراض ہوئے تو اس لیے کہ میں نے پان کے کاروبار میں ان کی مدد نہیں کی۔ کئی اعلیٰ فوجی اہلکاروں نے بتایا کہ مشرقی پاکستان میں گڑبڑ کے دوران فوجی افسروں نے مشرقی پاکستان کے علاقے سراج گنج میں واقع نیشنل بینک سے ایک کروڑ 35لاکھ روپے لوٹ لیے۔ اس رقم کو ایک ٹرک میں چھپا کر علاقے سے نکالا جارہا تھا کہ ٹرک پکڑا گیا۔ اس سلسلے میں انکوائری کا آغاز ہوا مگر جنگ کی وجہ سے انکوائری مکمل نہ ہوسکی۔‘‘
حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے اس حصے سے ثابت ہے کہ جنرل نیازی کی اخلاق باختگی اُن کے مشرقی پاکستان پہنچنے کے بعد سامنے نہیں آئی بلکہ وہ لاہور اور سیالکوٹ میں اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے زمانے میں بھی بدنام تھے، اور یہ بات پاک فوج کی اعلیٰ ترین قیادت کے علم میں ہوگی۔ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل نیازی مشرقی پاکستان میں چپراسی کی حیثیت سے بھی بھیجے جانے کے لائق نہ تھے مگر انہیں مشرقی پاکستان میں جنگ لڑنے بھیج دیا گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل نیازی جن چیزوں کے لیے بدنام تھے خود جنرل یحییٰ بھی ان کے حوالے سے ’’مشہور‘‘ تھے، چنانچہ انہیں جنرل نیازی اپنی ہی طرح کے انسان لگتے ہوں گے۔ لیکن بہرحال حقیقت یہ ہے کہ جنرل یحییٰ خان نے جنرل نیازی کو ایسٹرن کمانڈ سونپ کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کردی۔
حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں اُن مظالم کا جائزہ بھی لیا گیا ہے جن کا مظاہرہ عوامی لیگ کے غنڈوں نے کیا۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جنرل یحییٰ نے نومنتخب اسمبلی کے اجلاس کی منسوخی کا اعلان کیا تو مشرقی پاکستان یکم مارچ 1971ء سے 3 مارچ 1971ء کے درمیان مکمل طور پر عوامی لیگ کے ہاتھ میں چلا گیا۔ اس دوران عوامی لیگ کے غنڈوں نے پاکستان پرستوں کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا اور خواتین کی عصمتوں کو پامال کیا۔ کمیشن کے مطابق معروف صحافی قطب الدین عزیز نے اپنی تصنیف Blood and Tears میں دعویٰ کیا ہے کہ عوامی لیگ کے غنڈوں نے ایک لاکھ سے پانچ لاکھ تک لوگ شہید کیے۔
حمودالرحمن کمیشن نے اس امر کا بھی جائزہ لیا ہے کہ پاک فوج نے مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کہتی ہے:
’’پاک فوج کے جوانوں اور جرنیلوںمیں بنگالیوں کے خلاف سخت نفرت تھی۔ ڈھاکا میں تعینات ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر محمد اشرف نے کمیشن کو بتایا کہ فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد بنگالی اپنے ہی وطن میں اجنبی ہوگئے۔ اعلیٰ بنگالی اہلکاروں تک کی جان، مال اور آبرو محفوظ نہ رہی۔ پاک فوج کے بریگیڈیئر اقبال الرحمن شریف نے جو گواہ نمبر 269تھے، کمیشن کو آگاہ کیا کہ انہوں نے Formations کا دورہ کیا تو جنرل گل حسن فوجیوں سے پوچھا کرتے تھے کہ تم نے کتنے بنگالیوں کو مارا؟ لیفٹیننٹ کرنل عزیز احمد خان نے بھی کمیشن کے روبرو ایسی ہی باتیں کیں۔‘‘
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 1990ء کی دہائی میں کراچی سے نکلنے والے ہفت روزہ تکبیر میں میجر جنرل رائو فرمان علی کا ایک طویل انٹرویو شائع ہوا تھا۔ اس انٹرویو میں جنرل صاحب نے افسوس کے ساتھ کہا تھا کہ مغربی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف ہر طرف نفرت پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میں 1971ء میں چند دنوں کی چھٹی پر مغربی پاکستان آیا تو میری ماسی نے مجھ سے کہا کہ بنگالیوں کا حشر نشر کردو کیونکہ وہ غدار ہیں۔ بریگیڈیئر کے منصب تک پہنچنے والے میجر صدیق سالک نے اپنی مشہورِ زمانہ اور معرکہ آراء تصنیف ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ 1969ء میں ڈھاکا کے ہوائی اڈے پر اترے تو ایک بنگالی نے ان کا سامان اٹھاکر کار تک پہنچایا۔ صدیق سالک کے بقول انہوں نے بنگالی پورٹر کو کچھ پیسے دینے چاہے تو صدیق سالک کو لینے کے لیے آئے ہوئے فوجی نے کہا کہ ’’ان حرام زادوں کی عادت خراب نہ کریں‘‘۔ اب حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ بھی یہی بتارہی ہے کہ فوج میں بنگالیوں کے خلاف سخت نفرت پھیلی ہوئی تھی۔ مگر کیوں؟ 1947ء سے 1969ء تک، اور 1969ء سے مارچ 1971ء کے فوجی آپریشن تک تو بنگالیوں نے کوئی ظلم نہیں کیا تھا۔ پھر اُن کے خلاف نفرت کیوں پھیلی ہوئی تھی؟ پاکستان کے نظریے، پاکستان کے بانیوں اور خود پاکستان سے محبت کرنے والے ہر محب وطن پاکستانی پر اس سوال کا جواب واجب ہے۔
حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق شیخ مجیب الرحمن نے دعویٰ کیا تھا کہ پاک فوج نے30 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا ہے، تاہم کمیشن نے کہا ہے کہ یہ اعداد و شمار درست نہیں۔ اس سلسلے میں حمودالرحمن کمیشن رپورٹ نے جی ایچ کیو کے فراہم کردہ اعداد و شمار کو یہ کہہ کر قبول کیا ہے کہ چونکہ اس سلسلے میں کہیں اور سے قابلِ بھروسا اعداد و شمار دستیاب نہیں، اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ آرمی ایکشن سے 26 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ میں جنرل نیازی پر کئی سنگین الزامات لگاتے ہوئے اُن کے خلاف کارروائی، بلکہ اُن کے کورٹ مارشل کی تجویز دی گئی ہے۔
-1 جنرل نیازی پر پہلا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مکمل کھلی جنگ کے امکان کو خاطر میں نہ لائے، حالانکہ بھارت کی وزیراعظم اور بھارت کے وزیر کھلی جنگ کی باتیں کررہے تھے۔ 1971ء میں بھارت اور سوویت یونین کے درمیان خصوصی دفاعی سمجھوتا ہوچکا تھا۔ بھارت 8 ڈویژن فوج پاکستان کی سرحد پر لے آیا تھا۔ بھارتی فضائیہ کے 11 اسکواڈرن پاکستان پر حملے کے لیے تیار تھے۔ بھارت کی بحریہ مشرقی پاکستان کے محاصرے کی تیاری کررہی تھی۔ جی ایچ کیو نے انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر جنرل نیازی کو خبردار کردیا تھا کہ بھارت مشرقی پاکستان میں مداخلت کرنے والا ہے۔ اس کے باوجود جنرل نیازی Forward Posture میں فوجی تعینات کرتے رہے، حالانکہ بھارت کی ممکنہ جارحیت کی صورت میں ایسا کرنا انتہائی غیر مناسب ہوچکا تھا۔
-2 جنرل نیازی پر دوسرا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ ان میں پیشہ ورانہ اہلیت کا فقدان تھا۔ وہ بھارت کی کھلی جارحیت کے اندیشے کے باوجود ابھی تک اس چکر میں پڑے ہوئے تھے کہ باغیوں کو زمین نہ ہتھیانے دی جائے تاکہ وہ وہاں بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان نہ کرسکیں۔
-3 وہ قلعہ بندی اور مضبوط مراکز کے تصور کے ممکنات کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ وہ یہ سمجھ نہ سکے کہ اگر دشمن ہمارے کسی قلعے کو فتح کرکے آگے بڑھنے لگے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کس طرح ہمارے دفاعی قلعوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ وہ مقامی آبادی کی ناراضی کو فرو کرنے کے تصور پر بھی عمل نہ کرسکے، چنانچہ 16دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکا ہوا تو ڈھاکا میں ہمارے کئی فوجی قلعے اور مضبوط مراکز موجود تھے۔
-4 وہ ڈھاکا کے دفاع کا کوئی منصوبہ تشکیل نہ دے سکے۔
-5 وہ بحران میں قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہے۔ وہ اس عسکری حکمت عملی پر عمل نہ کرا سکے کہ جب تک کسی مقام پر ہمارے 70 فیصد فوجی شہید یا زخمی نہ ہوجائیں ہمیں اپنے مقام پر جمے رہنا ہے اور انخلا پر آمادہ نہیں ہونا ہے۔
-6 حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ میں جنرل نیازی پر ایک الزام یہ لگایا گیا ہے کہ انہوں نے شعوری طور پر کسی جواز کے بغیر جی ایچ کیو کو امید شکن رپورٹیں بھیجیں۔ ان رپورٹوں کو بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ جی ایچ کیو سے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی اجازت حاصل کی جائے۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سقوطِ ڈھاکا 16دسمبر 1971ء کو ہوا مگر جنرل نیازی 6 یا 7دسمبر تک جنگ لڑنے کی خواہش کو ترک کرچکے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں پر اثرانداز ہونے اور انہیں متحرک کرنے میں ناکام تھے۔
-7 حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں جنرل نیازی پر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھارت کے کمانڈر انچیف سے ’’جنگ بندی‘‘ پر گفتگو کرنے کے باوجود نہایت شرمناک طریقے سے بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ نہ صرف یہ، بلکہ اس بات پر بھی آمادگی ظاہر کردی کہ وہ بھارت اور مکتی باہنی کی مشترکہ کمانڈ کے سامنے ہتھیار ڈالیں گے۔ انہوں نے یہ غضب بھی کیا کہ وہ بھارتی جنرل اروڑا کے استقبال کے لیے خود ہوائی اڈے پہنچے، اسے گارڈ آف آنر پیش کیا اور بھارت کے مطالبے پر ہتھیار ڈالنے کی تقریب کو ’’عوامی‘‘ بنانے پر تیار ہوگئے۔
-8جنرل نیازی پر حمودالرحمن کمیشن کے روبرو یہ الزام بھی لگا کہ انہوں نے بھارت میں جنگی قیدی کی حیثیت سے فوج کے اعلیٰ اہلکاروں کو دھمکی اور لالچ کے ذریعے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ سقوطِ ڈھاکا سے متعلق حقائق کو مسخ کرنے میں ان کی مدد کریں۔
حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ صرف جنرل نیازی پر گفتگو کرکے نہیں رہ جاتی، بلکہ وہ کئی اور اعلیٰ فوجی اہلکاروں کو کٹہرے میں کھڑا کرتی ہے۔ میجر جنرل رحیم فوج کے ایک اور اعلیٰ اہلکار تھے۔ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ نے ان پر تین بڑے الزام لگائے:
-1 پہلا الزام یہ تھا کہ انہوں نے جنگ کے دوران اپنی ڈویژن کو چھوڑ دیا اور اپنے فوجیوں کو اپنا متبادل بھی مہیا نہ کیا۔ چنانچہ فوجی اصطلاح میں ان کا ڈویژن Disintegrate ہوگیا۔ چنانچہ حمودالرحمن کمیشن نے کہا کہ دیکھنے کی ضرورت یہ ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ کیا یہ بزدلی کا شاخسانہ تھا، یا فرض سے غفلت تھی؟
-2جنرل رحیم پر دوسرا الزام یہ لگایا گیا کہ وہ اپنا ڈویژن چھوڑ کر فرار ہوئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں مکتی باہنی کا خوف لاحق تھا اور وہ اپنی جان بچانا چاہتے تھے۔ ان کی بزدلی سے پاک بحریہ کے 14، اور خود ان کے ہیڈ کوارٹر کے 4 فوجی شہید ہوگئے اور کئی زخمی ہوئے۔
-3ان پر تیسرا الزام یہ لگا کہ وہ خود تو بھاگے، اپنے ہتھیار اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔ چنانچہ ڈویژن کا مواصلاتی نظام تباہ ہوگیا اور ڈویژن کے عام فوجی حالات کے رحم و کرم پر آگئے۔
حمودالرحمن کمیشن نے بریگیڈیئر جی ایم باقر صدیقی کے ’’معاملات‘‘ کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا ہے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ان پر 7الزامات عائد کیے:
-1 ان پر پہلا الزام یہ ہے کہ ایسٹرن کمانڈ کا چیف آف اسٹاف ہونے کے باوجود انہوں نے ایسٹرن کمانڈ کو مناسب پیشہ ورانہ مشورے نہ دیے۔
-2ان پر دوسرا الزام یہ ہے کہ ایسٹرن کمانڈ کے ساتھ مل کر وہ بھی جی ایچ کیو کوکسی جواز کے بغیر مایوسی سے لبریز پیغامات ارسال کرتے رہے۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ جی ایچ کیو انہیں ہتھیار ڈالنے کی اجازت دے دے۔
-3ان پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ جنگ کی منصوبہ بندی کرنے اور فوج کے دیگر شعبوں کے کمانڈرز سے صلاح مشورہ کرنے سے گریز کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسٹرن کمانڈ کو بروقت مشورے نہ مل سکے۔
-4وہ ایسٹرن کمانڈ کو بھارتی جارحیت کے حوالے سے مناسب مشورہ دینے میں ناکام رہے، حالانکہ جی ایچ کیو انہیں اس حوالے سے بریفنگ دے چکا تھا۔
-5انہوں نے جنگ کے دوران بالکل اچانک کمانڈ تبدیل کی۔ انہوں نے اپنی ماتحت Formations کو ان کے کمانڈروں کے علی الرغم مشورے دیے جس سے فوجیوں کے ذہن میں ابہام پیدا ہوا۔
-6 سقوطِ ڈھاکا کے بعد بھی انہوں نے Signals کے کمانڈر کو بین الشعبہ جاتی ٹرانسمیٹر چالو رکھنے کی ہدایت کی۔ اس کا مقصد جی ایچ کیو سے بہادری کی سند حاصل کرنا تھا۔
-7 ان پر ایک بہت ہی سنگین الزام یہ تھا کہ جنگی قیدی کی حیثیت سے انہوں نے بھارتیوں کے ساتھ غیر ضروری دوستیاں گانٹھیں۔ یہاں تک کہ بھارتیوں نے انہیں کلکتہ میں ’’شاپنگ‘‘ کی اجازت دے دی۔ یہ سہولت کسی اور کو مہیا نہیں تھی۔
حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں بریگیڈیئر محمد باقر صدیقی کا بھی ذکر ہے۔ ان پر لگائے گئے چار میں سے دو الزامات بہت سنگین تھے:
-1ان پر ایک الزام یہ تھا کہ انہوں نے غریب پور میں جوابی حملہ کرتے ہوئے دشمن کے بارے میں مکمل معلومات حاصل نہ کیں اور نہ ہی انہوں نے خود اپنے بریگیڈ کی کمان کی، اس کے نتیجے میں پاک فوج کا بڑا جانی نقصان ہوا۔ ہمارے 7ٹینک تباہ ہوگئے اور جیسور کا دفاع خطرے میں پڑ گیا۔
-2انہیں جب معلوم ہوا کہ دشمن کے ٹینکوں نے جیسور میں ہمارا دفاعی حصار توڑ دیا ہے تو وہ اس بات کی تصدیق کے بغیر نہایت شرمناک طریقے سے جیسور کا قلعہ چھوڑ کر روانہ ہوگئے اور انہوں نے دشمن کا مقابلہ نہ کیا۔ یہ سانحہ 6 دسمبر 1971ء کو پیش آیا۔ بریگیڈیئر محمد باقرصدیقی کی ان حرکتوں کی وجہ سے جیسور کے قلعے میں موجود تمام ہتھیار اور گولہ بارود صحیح حالت میں دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔ چونکہ بریگیڈیئر صاحب قلعہ چھوڑ کر جاچکے تھے اس لیے ان کے یونٹ نے ازخود دشمن کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔
حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ میں بریگیڈیئر محمد اصلہ نیازی کے ’’کارناموں‘‘ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ محمد اصلہ نیازی پر لگائے گئے چھے میں سے تین الزامات سنگین ہیں:
-1ان پر پہلا الزام یہ ہے کہ انہوں نے شعوری طور پر اپنے فوجیوں کو ایک عسکری قلعے سے دوسرے عسکری قلعے تک لے جانے میں سنگین غلطی کی، جس کی وجہ سے ہمارے 400 فوجیوں کو دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا۔
-2 ان پر دوسرا الزام یہ ہے کہ وہ لشکا کے عسکری قلعے میں 124 زخمیوں اور بیماروں کو چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
-3لشکا کا عسکری قلعہ چھوڑتے ہوئے انہوں نے جان بوجھ کر سارا عسکری ساز و سامان بھی وہیں رہنے دیا، یہ سامان دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔
حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ میں بریگیڈیئر ایس اے انصاری کا ’’ذکرِ خیر‘‘ بھی موجود ہے۔ انہوں نے 14نومبر 1971ء کو 23ویں بریگیڈ کی کمان سنبھالی۔ انہیں دو اضلاع کے دفاع پر مامور کیا گیا تھا۔ مگر وہ ابتدا ہی سے شکست خوردگی میں مبتلا نظر آئے۔ ان کی شکست خوردگی کی وجہ سے چار علاقے دشمن کے ہاتھ لگ گئے۔ انہوں نے دشمن کے مقابلے کی کوشش ہی نہ کی، چنانچہ انہیں ان کی ذمے داری سے سبک دوش کردیا گیا، اور حمودالرحمن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہ صاحب فوج میں رہنے کے قابل ہی نہیں۔
ان تمام واقعات بلکہ سانحات کے تناطر میں حمودالرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا:
’’مشرقی پاکستان میں تعینات فوج کے تمام اعلیٰ افسر اجتماعی طور پر پاک فوج کی شکست کا سبب ہیں۔ اس مرحلے پر اعلیٰ کمان کی فرماں برداری کا مسئلہ بھی سامنے آیا۔ ڈسپلن کی پابندی کی وجہ سے فوجی اہلکار اپنے حکام کے بظاہر غلط مگر اہم فیصلوں کی پابندی کرتے گئے، یہاں تک کہ انہوں نے ہتھیار ڈالنے کے فیصلے کی بھی پابندی کی۔ حالانکہ فوجیوں کی اکثریت ملک کے دفاع اور پاکستان کی عظمت کے لیے جان نچھاور کرنے کے لیے تیار تھی۔‘‘
آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ پاک فوج کے اعلیٰ اہلکاروں میں سے کوئی شخص بھی حمودالرحمن کمیشن کو ’’داد کے قابل‘‘ نظر نہ آیا۔ حمودالرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں میجر جنرل رائو فرمان علی کی بہت تعریف کی ہے۔ ان پر شیخ مجیب الرحمن نے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے مشرقی پاکستان کو سبز سے لال کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر کمیشن نے اس الزام کو شہادت کی روشنی میں بے بنیاد قرار دیا۔ کمیشن نے انہیں ذہین، نیک نیت اور مخلص افسر باور کرایا۔ رپورٹ میں لکھا ہوا ہے کہ جنرل رائو فرمان علی کو کسی بھی موقع پر نہ اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا گیا، اور نہ انہیں کسی غیر انسانی کام میں ملوث دیکھا گیا۔ کمیشن نے رپورٹ میں یہ لکھنا بھی ضروری سمجھا کہ جنرل رائو فرمان علی اُس فوجی گروہ کا حصہ نہیں تھے جو جنرل یحییٰ کو گھیرے بیٹھا تھا اور جو جنرل یحییٰ کی حمایت کررہا تھا۔ یہ آخری بات مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس لیے کہ صدیق سالک مرحوم نے اپنی تصنیف ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو جنرل یحییٰ کو مشرقی پاکستان کی فوجی قیادت کی جانب سے بار بار مشرقی پاکستان کے دورے کی دعوت دی گئی، مگر جنرل یحییٰ نے کہا کہ ’’میرے ساتھی‘‘ مجھے مشرقی پاکستان آنے نہیں دے رہے۔ آخر یہ کون لوگ تھے جو چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان میں لگی ہوئی آگ بجھنے نہ پائے اور بالآخر پاکستان کی وحدت کو جلاکر خاکستر کردے؟ خدا کا شکر ہے جنرل رائو فرمان علی اُن لوگوں میں سے نہ تھے۔ چنانچہ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کی قومی تاریخ جنرل رائو فرمان کو ہمیشہ عزت سے یاد کرے گی۔
حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ میں سانحۂ مشرقی پاکستان کے سیاسی پس منظر پر بھی کلام کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے:
’’جنرل یحییٰ نے 25 مارچ 1969ء کو دوسرا مارشل لا نافذ کیا اور ملک پر اپنی گرفت قائم کی تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ معمولات کو بحال کرنا اور ملک میں ازسرنو جمہوریت کو متعارف کرانا چاہتے تھے، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ شخصی اقتدار کے طالب تھے۔ جن لوگوں نے اس کام میں اُن کی مدد کی تھی وہ جنرل یحییٰ کے مطمح نظر سے پوری طرح آگاہ تھے۔ جنرل یحییٰ نے حالات کی خرابی کے دوران ایک جانب شیخ مجیب اور دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کیے۔ اگرچہ انہوں نے کبھی ان سیاسی مذاکرات کو ’’ناکام‘‘ قرار نہیں دیا، اس کے باوجود جب وہ 25مارچ 1971ء کی شام ڈھاکا سے روانہ ہوئے تو اپنے پیچھے یہ ہدایت چھوڑ گئے کہ ان کے کراچی پہنچتے ہی فوجی ایکشن شروع کردیا جائے۔ کمیشن نے فوج کے جتنے سینئر کمانڈرز اور اعلیٰ سول اہلکاروں کو اپنے روبرو طلب کیا اُن سب نے یہی کہا کہ فوجی آپریشن سیاسی تصفیے کا متبادل نہیں ہوسکتا تھا۔ ان کے بقول فوجی آپریشن کے چند ہفتے بعد حالات اتنے سازگار ہوگئے تھے کہ سیاسی تصفیے کی طرف پیش قدمی کی جاسکتی تھی۔ ان کے مطابق اس کام کے لیے مئی 1971ء سے ستمبر 1971ء کا درمیانی عرصہ بہترین تھا۔ اس لیے کہ اس عرصے میں صورت حال معمول پر آگئی تھی اور حکومت کی رٹ بھی بحال ہوگئی تھی۔ کم از کم شہری علاقوں کا یہی حال تھا۔ مگر اس کے باوجود مشرقی پاکستان کے منتخب نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔ اس کے برعکس فریب کارانہ اقدامات کیے گئے۔ فوجی آپریشن کے دوران طاقت کے وسیع پیمانے پر استعمال اور پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے رویّے نے اہلِ مشرقی پاکستان میں بیگانگی پیدا کردی تھی۔ مارشل لا ایڈمنسٹریشن کی ’’بنگلہ دیش بھیجو‘‘ حکمت عملی نے حالات کو مزید خراب کیا۔ اس حکمت عملی کے تحت مشرقی پاکستان کے لوگوں کو اچانک غائب کردیا جاتا تھا۔ بہرحال اصل بات یہ کہ جنرل یحییٰ نے اس صورت حال میں بھی سیاسی تصفیے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ انہوں نے عام معافی کا اعلان کیا مگر یہ اعلان غیر مؤثر ثابت ہوا اور مشرقی پاکستان کے جو منتخب نمائندے بھارت فرار ہوگئے تھے، ان کی بڑی تعداد نے واپس آنے سے انکار کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قیمتی وقت ضائع ہوگیا، مگر بھارت نے وقت ضائع نہ کیا اور اُس نے مکتی باہنی کے تربیتی پروگرام کو آگے بڑھایا اور مشرقی پاکستان میں گوریلا جنگ شروع ہوگئی۔ اس منظرنامے میں جنرل یحییٰ نے عوامی لیگ کے نااہل قرار پانے والے نمائندوں کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرانے کا اعلان کردیا، مگر یہ انتخابات فضول مشق ثابت ہوئے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ انتخابات مارشل لا ایڈمنسٹریشن نے کرائے تھے۔ یہاں تک کہ ضمنی انتخابات میں شرکت کرنے والے نمائندوں کو بھی پاک فوج کے ایک میجر جنرل نے ’’منتخب ‘‘ کیا تھا۔ چنانچہ ضمنی انتخابات میں کامیاب ہونے والوں کی کوئی ساکھ نہیں تھی اور وہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کی ترجمانی کے قابل نہیں تھے۔ جنرل یحییٰ کے اس طرزِعمل نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے اس خیال کو تقویت بخشی کہ جرنیل اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے پر آمادہ نہیں۔ عوامی لیگ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے جنرل یحییٰ کا انکار اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہوگیا کہ عوامی لیگ کے دو بڑے رہنما یعنی شیخ مجیب الرحمن اور ڈاکٹر کمال حسین مغربی پاکستان کی قید میں تھے اور تمام دوست ممالک بھارت کے ممکنہ حملے کے تناظر میں جنرل یحییٰ کو سیاسی تصفیے کو گلے لگانے کا مشورہ دے رہے تھے۔‘‘
پاکستان میں اس خیال کو عام کیا گیا ہے کہ ملک بھٹو، یحییٰ، شیخ مجیب اور بھارت نے توڑا۔ لیکن تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قیام پاکستان کے 23 سال بعد 1970ء میں پہلی بار بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے مگر اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل نہ کیا گیا۔ کردیا جاتا تو نہ فوجی آپریشن ہوتا، نہ بھارت مکتی باہنی بناتا، نہ مشرقی پاکستان پر حملہ کرتا۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ بھی یہی کہہ رہی ہے، بلکہ اس کا اصرار ہے کہ فوجی آپریشن کے چند ہفتے بعد حالات اتنے بہتر ہوگئے تھے کہ مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جاسکتا تھا، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دوست بھی پاکستان کو مسئلہ سیاسی مذاکرات سے حل کرنے کا مشورہ دے رہے تھے، مگر جنرل یحییٰ نے کسی کی سن کر نہ دی۔ لیکن جنرل یحییٰ اسی حوالے سے تنہا نہ تھے۔ اُن کے ساتھ ایک پورا گروہ موجود تھا۔ میجر صدیق سالک کے بقول جنرل یحییٰ کہتے تھے کہ میرے پاس موجود لوگ مجھے مشرقی پاکستان نہیں آنے دے رہے۔ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ بھی یہ کہہ رہی ہے کہ جن اعلیٰ فوجی اور سول اہلکاروں نے جنرل یحییٰ کے مارشل لا کی حمایت کی انہیں معلوم تھا کہ جنرل یحییٰ کی دلچسپی ملک میں نہیں، شخصی اقتدار میں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جنرل یحییٰ کے آس پاس موجود لوگ بھی شخصی یا گروہی مفادات کے لیے کام کررہے تھے۔ چنانچہ سقوطِ ڈھاکا کا ملبہ صرف چند افراد پر ڈالنا جہالت بھی ہے اور ملک و قوم سے بددیانتی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ نے سانحۂ مشرقی پاکستان کی ذمے داری اجتماعی فوجی قیادت پر ڈالی ہے۔
اس سلسلے میں حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کا وہ حصہ بھی اہم ہے جہاں بین الاقوامی صورتِ حال اور معاملے کے سیاسی پہلو کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے:
’’یہ 1947ء ہی سے ظاہر تھا کہ بھارت مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والے کسی بھی بحران سے فائدہ اٹھائے گا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن شروع ہوا تو بڑے پیمانے پرلوگوں نے مشرقی پاکستان سے بھارت نقل مکانی کی۔ بھارت نے اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا۔ بھارت کا پروپیگنڈا اتنا زوردار تھا کہ پاکستان کی فوجی حکومت نے مشرقی پاکستان میں صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے جو کچھ بھی کیا اُس سے بین الاقوامی برادری ذرا بھی متاثر نہ ہوئی۔ صورتِ حال کو اگست1971ء میں بھارت اور سوویت یونین کے درمیان طے پانے والے باہمی تعاون کے سمجھوتے نے اور بھی خراب کردیا۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان کے دوست ممالک مثلاً ایران، چین اور امریکہ نے پاکستان کو آگاہ کردیا تھا کہ اگر بھارت کے ساتھ جنگ ہوئی تو وہ پاکستان کی کوئی عملی یا Physical مدد نہ کرسکیں گے۔ مگر جنرل یحییٰ نے اس بین الاقوامی صورت حال پر بھی توجہ نہ دی۔ جنرل یحییٰ کی حکمت عملی کا یہ پہلو بھی ناقابلِ فہم ہے کہ وہ مشرقی پاکستان پر بھارتی حملے کو سلامتی کونسل میں اٹھانے پر کیوں آمادہ نہ ہوئے؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر مشرقی پاکستان میں صورتِ حال اتنی خراب ہوگئی تھی کہ ہتھیار ڈالنا ناگریز ہوگیا تھا تو جنرل یحییٰ نے 21 ستمبر 1971ء کو سلامتی کونسل میں سوویت یونین کی قرارداد کو کیوں قبول نہ کیا؟ اس صورت حال میں جنرل رائو فرمان علی نے اقوام متحدہ کے نمائندے پال ہینری سے ملاقات کی اور مشرقی پاکستان میں مسئلے کے سیاسی حل کے حوالے سے بعض سفارشات اُن کے حوالے کیں۔ ان سفارشات کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تک پہنچانا تھا۔ اس صورتِ حال میں اگر جنرل یحییٰ ایسٹرن کمانڈ کو حکم دیتے کہ وہ کچھ عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کرے اور 16دسمبر کے بعد بھی مزاحمت کرتی رہے تو ممکن تھا کہ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوجاتی۔‘‘
ہم بچپن سے یہ پڑھ پڑھ کر تھک گئے کہ مشرقی پاکستان پر بھارت نے حملہ کیا تو کسی نے ہمارا ساتھ نہ دیا، یہاں تک کہ امریکہ نے وعدے کے باوجود اپنا ساتواں بحری بیڑا پاکستان روانہ نہ کیا۔ مگر حمودالرحمن کمیشن رپورٹ بتارہی ہے کہ سوویت یونین کے ساتھ بھارت کے معاہدے کے بعد امریکہ ہی نے نہیں بلکہ چین اور ایران نے بھی جنرل یحییٰ کو بتادیا تھا کہ بھارت کے حملے کی صورت میں وہ ہماری کوئی مدد نہ کرسکیں گے۔
حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ میں سانحے کے کئی مزید اہم فوجی پہلو زیر بحث آئے ہیں، ان پہلوئوں کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ کہتی ہے:
’’1971ء کے سانحے میں مرکزی کردار برّی فوج کا ہے۔ فوجی ہائی کمانڈ نہ صرف یہ کہ سوویت یونین اور بھارت کے معاہدے کی اہمیت کو نہ سمجھ سکی بلکہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان عسکری طاقت کے بڑھتے ہوئے فرق کو بھی نظرانداز کرتی رہی۔ پاکستان کا روایتی دفاعی تصور یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔ مگر جنرل نیازی نے کمیشن کے روبرو کہا کہ اگر ہم جنگ میں مغربی فرنٹ نہ کھولتے تو مشرقی پاکستان میں مکمل جنگ نہ ہوتی۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ ہم نے مغربی پاکستان کی سرحد پر بھارت کے ساتھ جنگ کے آغاز میں تاخیر کی اور ’مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے‘ کے فلسفے پر عمل نہ کیا۔ جنرل نیازی کے حوالے سے ایک تنازع یہ بھی ہے کہ وہ مشرقی پاکستان میں کور کمانڈر کی حیثیت سے کام کررہے تھے یا جنگی تھیٹر کے کمانڈر کی حیثیت سے؟ اگرچہ جنرل نیازی کو جنگی تھیٹر کے کمانڈر کی حیثیت سے تعینات نہیں کیا گیا تھا، مگر بہرحال وہ تھے جنگی تھیٹر کے کمانڈر ہی۔ جنرل ہیڈ کوارٹر بھی ان کے بارے میں یہی رائے رکھتا تھا چنانچہ ان کے ہتھیار ڈالنے کے فیصلے کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالنے کے بعد یہ کہا کہ جی ایچ کیو نے مشرقی پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے ان سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں مزید 8 بٹالین فراہم کی جائیں گی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شہادتوں سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوتی کہ جی ایچ کیو نے ان سے مزید کمک کے بارے میں کوئی ٹھوس وعدہ کیا تھا۔ جی ایچ کیو ان سے کہتا رہا کہ اب مشرقی پاکستان میں زمین اہم نہیں رہی، چنانچہ ایسٹرن کمانڈ کو اب ’’وقت‘‘ کے تناظر میں جنگ لڑنا چاہیے اور صرف تزویراتی اہمیت کی سرزمین کے دفاع کی فکرکرنی چاہیے۔‘‘
حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ میں Surrender کے عنوان کے تحت بھی تجزیہ مہیا کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے:
’’ کمیشن شہادتوں کے تجزیے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جنرل نیازی کو ڈالنے یا Surrender کا حکم نہیں دیا گیا۔ مگر ایسٹرن کمانڈ کی جانب سے صورتِ حال کی جو تصویرکشی کی جارہی تھی اُس کے پیش نظر جنرل نیازی کو اعلیٰ حکام نے ہدایت کی تھی کہ اگر ان کے تجزیے اور فیصلے کے تحت ڈالنا ضروری ہوجائے تو وہ ڈال دیں۔ جنرل نیازی کو اگر یہ گمان ہوتا کہ وہ ڈھاکا کا دفاع کرسکتے ہیں تو وہ ڈالنے کے حکم کو ماننے سے انکار کرسکتے تھے۔ ان کے اپنے اندازے کے مطابق ان کے پاس ڈھاکا کے دفاع کے لیے 26400 فوجی تھے۔ چنانچہ وہ دو ہفتے تک ڈھاکا کا دفاع کرسکتے تھے۔ کیونکہ دشمن کو اپنی نفری ڈھاکا کے آس پاس جمع کرنے کے لیے ایک ہفتہ درکار تھا اور دوسرا ہفتہ وہ ڈھاکا کے گرد موجود عسکری قلعے کو فتح کرنے پر صرف کرسکتا تھا۔ اگر جنرل نیازی ایسا کرتے ہوئے مارے جاتے تو وہ تاریخ بنا جاتے اور آنے والی نسلیں انہیں شجاع شخص اور ایک شہید کی حیثیت سے یاد رکھتیں۔ مگر حالات سے ظاہر ہے کہ وہ 7دسمبر 1971ء کے بعد جنگ لڑنے کی خواہش یا Will to Fight سے محروم ہوچکے تھے۔ بلاشبہ مشرقی پاکستان میں ناکامیوں کی ذمے دار ایسٹرن کمانڈ تھی، مگر جی ایچ کیو بھی اس کی ذمے داری سے بچ نہیں سکتا، کیونکہ جنگ کے منصوبے کی منظوری اسی نے دی تھی اور وہی ایسٹرن کمانڈ کی غلطیوں کی اصلاح کا ذمے دار تھا۔ ڈالنے کے عمل تک ملک کے دونوں بازوئوں کے مابین مواصلات کا نظام پوری طرح کام کررہا تھا۔ جی ایچ کیو کی ذمے داری تھی کہ وہ ایسٹرن کمانڈ کی رہنمائی بھی کرے اور اس پر اثرانداز بھی ہو۔ ایسا کرنا اس لیے ناگزیر ہوگیا تھا کہ ایسٹرن کمانڈ اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کررہی تھی۔ مگر جی ایچ کیو بھی اس سلسلے میں اپنی ذمے داری ادا کرنے میں ناکام ہوگیا۔ کمانڈر انچیف صورتِ حال سے لاتعلق رہے۔‘‘
حمود الرحمٰن کمیشن صرف حالات و واقعات کا تجزیہ کرکے نہیں رہ گیا، بلکہ اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمے داروں کے خلاف مقدمات چلنے چاہئیں۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ نے اس حوالے سے کیا کہا، اسی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
’’جنرل یحییٰ خان، جنرل عبدالحمید خان، جنرل پیرزادہ، لیفٹیننٹ جنرل گل حسن، میجر جنرل عمر اور میجر جنرل مٹّھا پر اس الزام کے تحت کھلے عام (Publicly) مقدمہ چلنا چاہیے کہ انہوں نے فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان سے اقتدار چھینا۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے 1970ء کے انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں پر دھمکیوں، ترغیب اور رشوت کے ذریعے اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ اس کا مقصد ایک جانب 1970ء کے انتخابات میں خاص قسم کے نتائج حاصل کرنا تھا، دوسری جانب اس کا مقصد یہ تھا کہ انتخابات کے بعد کچھ سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کو 3 مارچ 1971ء کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روکا جائے، مزید برآں انہوں نے باہمی اتفاقِ رائے سے ایک ایسی صورت حال پیدا کردی جو سول نافرمانی کی تحریک، عوامی لیگ کی مسلح بغاوت، بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور بالآخر پاکستان کے ٹوٹ جانے پر منتج ہوئی۔‘‘
سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے یہ ایک معروف بات ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ لگایا اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے خواہش مندوں سے کہا کہ اگر تم اجلاس میں شریک ہوئے تو تمہاری ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ بلاشبہ بھٹو کا یہ بیان تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے مگر حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مذکورہ بالا اقتباس سے ثابت ہورہا ہے کہ بھٹو نے جو کچھ کہا چھے کے ٹولے کے کہنے پر کہا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھٹو صاحب ملک توڑنے کے الزام سے بری ہوگئے، مگر اتنی بات عیاں ہوگئی کہ اُدھر تم اِدھر ہم کی پشت پر منہ بھٹو ہی کا تھا مگر زبان کسی اور کی تھی۔ ہماری قومی زندگی میں آئے دن اس بات کا ذکر ہوتا رہتا ہے کہ 1970ء کے انتخابات آزادانہ بھی تھے اور منصفانہ بھی۔ مگر حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ ظاہر کررہی ہے کہ ہر الیکشن کی طرح 1970ء کے انتخابات بھی “Managed” تھے، اور انتخابات کا جو نتیجہ نکلا، چھے کا ٹولہ وہی نتیجہ نکالنا چاہتا تھا۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کہہ رہی ہے کہ مشرقی پاکستان میں جو صورتِ حال پید اہوئی وہ خود پیدا نہیں ہوئی بلکہ وہ پیدا کی گئی تھی۔ اس سے ہمیں 1990ء کی دہائی ایک بار پھر یاد آگئی۔ ہمیں یاد ہے کہ ملک کے معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے غالباً لاہور میں کسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شیخ مجیب الرحمن کے بدنام زمانہ چھے نکات الطاف گوہر کی ’’تخلیق‘‘ تھے۔ الطاف گوہر اُس وقت زندہ تھے اور روزنامہ نوائے وقت میں کالم لکھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے کالم میں ایس ایم ظفر کے انکشاف کی تردید کی۔ اس کے جواب میں ایس ایم ظفر نے جو بیان دیا اس کا مطلب یہ تھا کے آپ پاکیٔ داماں کی حکایت کو زیادہ نہ بڑھائیںورنہ میرے پاس اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے شہادتیں بھی موجود ہیں۔ یہ تینوں چیزیں یعنی ایس ایم ظفر کا انکشاف، الطاف گوہر کی تردید اور ایس ایم ظفر کا بیان روزنامہ نوائے وقت کی فائلوں میں موجود ہیں۔ الطاف گوہر تو مر گئے، خدا کا شکر ہے کہ ایس ایم ظفر حیات ہیں۔ کیا پاکستان سے محبت کرنے والا کوئی ایسا شخص موجود ہے جو ایس ایم ظفر سے ملے اور پوچھے کہ چھے نکات الطاف گوہر نے کب اور کس کے کہنے پر تخلیق کرکے شیخ مجیب کو دیے؟ آخر کب تک پاکستان کے دولخت ہونے کی داستان جھوٹ، مکر، فریب اور پروپیگنڈے کی دھند میں کھوئی رہے گی، اور قوم کو کب معلوم ہوسکے گا کہ پاکستان کو اصل میں کس نے توڑا؟ اتفاق سے حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے شائع شدہ حصوں سے اس سوال کا واضح جواب مہیا ہورہا ہے۔
حمود الرحمٰن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جن جرنیلوں نے ملک و قوم کو بے توقیر کیا اُن پر مقدمہ چلنا چاہیے۔ اس سلسلے میں چھے جرنیلوں کے نام آگئے۔ اب مزید کرداروں سے ملیے۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق:
’’فرسٹ کور #یا کور نمبر ایک کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ارشاد احمد خان پر فرائض سے مجرمانہ غفلت کا مقدمہ چلنا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ انہوں نے شکر گڑھ تحصیل اور ضلع سیالکوٹ میں اتنی بری کارکردگی دکھائی کہ علاقے کے 500 گائوں دشمن کے قبضے میں چلے گئے۔ اس کے نتیجے میں جنوب میں فوج کا حملہ خطرات سے دوچار ہوگیا۔ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق میجر جنرل عابد زاہد پر بھی فرائض سے مجرمانہ غفلت کا مقدمہ چلنا چاہیے تھا، کیونکہ ان کی غفلت اور نااہلی سے ضلع سیالکوٹ کے علاقے پھلکیاں میں 98 گائوں دشمن کے ہاتھ لگ گئے۔ اس سے مرالا ہیڈ ورک بھی خطرے میں پڑ گیا، کیونکہ بھارتی افواج اس سے صرف 1500 میٹر کے فاصلے پہ تھیں۔ انہوں نے جی ایچ کیو کو بھی پھلکیاں کی صورت حال سے بے خبر رکھا۔ میجر جنرل بی ایم مصطفیٰ بھی مقدمے کے مستحق تھے، کیوں کہ وہ راجستھان سیکٹر میں بھارت کی ایک پوزیشن پر قبضے میں ناکام رہے۔ جنرل نیازی کا 15 الزامات کے تحت کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔ میجر جنرل محمد جمشید پر بھی فرائض سے غفلت برتنے کا مقدمہ چلنا چاہیے تھا، کیونکہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے جب وہ دشمن کے ساتھ پنجہ آزمائی کرسکتے تھے۔ میجر جنرل رحیم پانچ الزامات کے تحت مقدمے کے مستحق ٹھیرے۔ وہ مکتی باہنی کے خوف سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ بریگیڈیئر محمد اسلم نیازی چھے الزامات کے تحت مجرم قرار پائے۔
حمودالرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کچھ انکوائریوں کی بھی تجویز دی۔ ان میں سے ایک انکوائری مشرقی پاکستان میں موجود نیشنل بینک سے ایک کروڑ 35 لاکھ روپے کی چوری کی تھی۔ اس سلسلے میں جن لوگوں کے خلاف انکوائری ہونی تھی ان میں بریگیڈیئر جہانزیب ارباب، لیفٹیننٹ کرنل مظفر علی زاہد، لیفٹیننٹ کرنل بشارت احمد، لیفٹیننٹ کرنل محمد تاج، لیفٹیننٹ کرنل محمد طفیل اور میجر مدد شاہ شامل تھے۔ ایک انکوائری بریگیڈیئر حیات اللہ کے خلاف بھی ہونی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے مغربی پاکستان کے محاذ پر 11یا 12 دسمبر 1971ء کی رات کچھ خواتین کو اُس وقت اپنے بنکر میں بلایا جب بھارتی گولے ہمارے فوجیوں پر گر رہے تھے۔ایک انکوائری کا تعلق پاک بحریہ کے کمانڈر گل زرین سے تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ جنگ کے دوران محاذ سے ایک فرانسیسی جہاز کے ذریعے سنگاپور جا پہنچے، حالانکہ وہ پی ایس تیمور پر تعینات تھے اور انہیں کہیں بھی نہیں جانا چاہیے تھا۔‘‘
بدقسمتی سے نہ کسی جرنیل پر مقدمہ چلا، نہ کسی کے خلاف کوئی انکوائری ہوئی۔ جنرل یحییٰ اور جنرل نیازی مرے تو انہیں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
حمودالرحمن کمیشن کی چند سفارشات کا بھی یہاں ذکر ضروری ہے۔ حمودالرحمن کمیشن کی ایک سفارش یہ تھی کہ تمام فوجی اہلکار اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرائیں۔ اگر کسی مرحلے پر کسی افسر کے اثاثے اس کی جائز آمدنی سے زیادہ پائے جائیں تو اس کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ ایک سفارش یہ تھی کہ اخلاقی تصورات اور اقدار پر کسی قسم کی سودے بازی نہ کی جائے۔ ایک سفارش یہ بھی تھی کہ فوجی اہلکاروں کی ترقی کے سلسلے میں ان کی اہلیت کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقیات کو بھی معیار بنایا جائے۔ ایک سفارش میں کہا گیا تھا کہ فوجی اہلکاروں کے نصاب میں مذہب، جمہوریت اور سیاسی اداروں کی تکریم کے تصورات کو جگہ دی جائے۔ مسلح افواج کی تمام تقریبات میں شراب پر پابندی لگا دی جائے۔ مسلح افواج میں جنسی بے راہ روی اور کرپشن کی مختلف صورتوں کا سدباب کیا جائے۔
بدقسمتی سے ان میں سے بھی کسی سفارش پر عمل نہ ہوسکا۔ ضیاء الحق کے دور میں فوج کے اندر شراب پر پابندی لگی، مگر جنرل درانی نے اپنی کتاب اسپائی کرونیکلز میں لکھا ہے کہ آج بھی فوج میں شراب چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک دو واقعات کا ذکر بھی کیا ہے۔ لوگ حیرت اور معصومیت سے پوچھتے ہیں: پاکستان کیسے ٹوٹا؟ آپ کو یہ مضمون پڑھ کر اندازہ ہوا کہ پاکستان کیسے ٹوٹا؟
بہت خوب! مگر عوام کی اکثریت ان حقائق سے نا واقف ہے اور کسی کو ان حقائق تک پہنچنے کی جستجو بھی نہیں ہے. بس اسی پر اکتفا کرتے ہیں جو سوشل میڈیا پر پروپگنڈا چل رہا ہوتا ہے