’’16 دسمبر :عزم تعلیم کا دن‘‘

بہت سے حادثات ایسے ہوتے ہیں جو ملک ،قوم، معاشرے کو ایسی کیفیت سے دوچار کردیتے ہیں جن کی حرارت نسلوں تک محسوس کی جا سکتی ہے۔ 16 دسمبر اب ہماری تاریخ کاحصہ بن چکا ہے۔16 دسمبر جب بھی آتا ہے ہمارے دلوں کو چھلنی کردیتا ہے۔سولہ دسمبر ہمیں ایک دوسرے کے قریب کردیتا ہے۔یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ اگر قومی عزت و آبروکو قائم رکھنا ہے تو پھر یک جہتی اور اتحاد کی رسی کو پکڑلو۔یہ دن ہمارے لیے روشنی کا مینارہ بن چکاہے۔اس دن آرمی پبلک اسکول میں شہید ہونے والے بچوں ،ان کے اساتذہ کا لہو ہمیں لو دیتا رہتا ہے۔یہ ہمیں یاددلاتا ہے کہ ہم عزمِ تعلیم کے لیے قربان ہوگیے۔تم بھی دشمن کے آگے سر نہ جھکانا۔یہ لہو جو کتابوں کے پنوں کو لال کرگیا یہ قوم کو ہوش میں لانے کے لیے کافی ہے کہ قوم کاقیمتی اثاثہ دشمن نے مٹادیا ۔والدین اپنے بچوں کے جنم دن کو بڑے اہتمام سے مناتے ہیں۔آج کے دن ہم شہید بچوں کے والدین کے احساسات سے باخوبی واقف ہیں ۔
ہمارا معاشرہ جلد بھول جانے والی بری عادت کا شکار ہے۔آرمی پبلک اسکول پشاورکے بچوں نے قوم کو ایک رخ دیا ۔مستقبل کا تعین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس دن کو عزم تعلیم کے طور پرمنایا جایے۔ بچوں کو بتایا جایے کہ قومیں ان کے دم سے ترقی کرتی ہیں۔تعلیم ان کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ زندہ رہنے کے لیے سانس کا تسلسل ۔پشاور میں اتنا بڑا حادثہ رونما ہوا جس کے اثرات ،غم واندوہ کے بے پایاں جذبات دور تک دیکھے اور سنے گئے۔اس کے بعد بھی کاروان تعلیم بڑی آب و تاب سے جاری رہا ۔یاد رکھنا چاہیے کہ جو قومیں احسان فراموشی کرتی ہیں ،خداا ن سے کفران نعمت کے بدلے اپنے انعامات چھین لیتا ہے۔شہید بچوں کے ایک ایک قطرے کا قوم پر احسان ہے۔ہمیں اس کا بدل تعلیم کے بے حساب فروغ سے دینا ہے۔اس عظیم قربانی کو قلم کی نوک سے یاد رکھناہے۔ہم مستقبل کے کئی خواب اس دن کی تاریخی حیثیت سے منسلک کرسکتے ہیں۔شہید ہونے والے بچوں نے جو مستحکم راستہ قوم کو دیا ،اس کی حفاظت کرسکتے ہیں۔
شہر اقتدار سے شہر قائد تک ناجانے کتنے ہی بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ہزاروں نہیں لاکھوں بچوں نے اسکول کی دیواروں کو تکتے تعلیم کی حسرت لیے اپنی جوانیاں خاک کردیں۔60 فیصد بچے ایسے ہیں جن کی بنیادی تعلیم کی ضرورت ہے ۔کئی نوجوان علم کی روشنی نہ ہونے سے بے روزگاری نے ان کی نسلوں تک کو دیمک لگادی ہے۔دنیا کے کئی ممالک تعلیم کے لیے معاشی ،معاشرتی ،اقتصادی ،دفاعی جنگیں لڑرہے ہیں۔اندرونی ،بیرونی مخاصمت کا تعلیم کی خاطر خطرات مول لینے کو تیار ہیں لیکن تعلیم پر کسی چیز کو اہمیت نہیں دے رہے۔دل کی شریانیں پھٹ کر حلق میں آجاتی ہیں جب ہمارے نوجوان کو تعلیم کے لیے دھکے کھاتا دیکھتے ہیں۔نظام تعلیم میں اصلاحات کی باتیں کرنے والے کبھی کسی بورڈ میں عام آدمی کی حیثیت سے چکر لگا لیں ۔ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ لوگ اسمبلیوں کے راستے بھول جائیں گے۔تعلیم کی راہیں دشوار گزار سنگلاخ وادی کا منظر پیش کرتی ہیں۔ تعلیم ہمارے اتنے ہی قریب ہے جتنا خوش بو کا شیشی میں بند ہونا،لیکن تعلیم پرلگی خاردار تاریں تماشہ گاہ کے سوا کچھ نہیں۔
تعلیم کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں ہم نے دی ہیں۔جس کی ماضی قریب کی مثال سولہ دسمبر کی ہے۔دشمن نے ہمارے گھر میں گھس کر ہمیں للکارا۔ہماری پست ہمتی اور غیر دفاعی حکمت عملی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم کو ہمیشگی کرب لگاگیا۔افسوس کہ حادثات سے قومیں سبق حاصل کرتی ہیں مگر ہم نے روایتی سیاست جاری رکھی۔جس پیغام کو دشمن نے ہمارے بچوں کے لہو سے لکھا تھا اسے ہم نے اپنی انا پرستی ،اقرباپروری کے پانی سے دھو دیا ۔پنجاب ،سندھ ،بلوچستان، خیرپختونخواہ سمیت ملک کا کونہ کونہ تعلیم کے لیے ترس رہا ہے۔ہمارا تعلیمی سیکٹر آخری سانسیں لے رہا ہے۔ہمارے نوجوان نے اسی محرومی کو سر پہ سوار کرکے مغرب کی ذہنی غلامی کو قبول کرلیا ہے۔اس اسیری نے انہیں اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔ان کی صبحیں بے روشن ہیں۔ان کی راتیں تاریک گھاٹی بن چکی ہیں۔ایک وہ دور تھا جس میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور شاہینوں کے جد امجد علامہ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب اس قوم کے ہونہار وں کے لیے خواب دیکھا کرتے تھے،آج ہم ان خوابوں کی کرچیاں چن رہے ہیں۔دیکھا جائے تو یہ دور نوجوانوں کا ہے۔بس اسے ہمت ،حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔اگر ہم اپنے ینگ ٹیلنٹ کا ہاتھ پکڑ لیں تو یہ اس ملک کو کے ٹو کی طرح بلند کر دیں گے۔پوری دنیا اس بات کی معترف ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ہماری چھوٹی سی بچی بلینئر بل گیٹس کے ہوش اڑا دیتی ہے۔یہاں کی خواتین اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ہر شعبے میں پاکستانی اول نمبر ہیں ۔پھر بھی ہمارے مقابل ہم سے کئی گناہ آگے ہیں۔آخر کیوں؟
کوریا ہم سے بعد آزاد ہوا ۔1960 میں پاکستان ،کوریا نے نئے دور کا آغاز ایک ساتھ کیاتھا۔دونوں ملکوں میں آمریت تھی۔ہمارے جنرل ایوب خان کچھ نہ کر سکے مگر کوریا کے جنرل پالک چوانگ نے مستقبل کو دیکھ لیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آج کوریا مستحکم ملک ہے جس کا ہم کسی بھی طرح سامنا نہیں کرسکتے۔کوریا میں آپ کو انگریزی بولنے والے خال خال اور نیشنل زبان بولنے والے ہر جگہ مل جائیں گے۔دنیا تاریخ میں نہیں رہتی،بلکہ حال میں جیتی ہے۔اور ہم 71 سال سے ماضی سے نہ نکل سکے۔دنیا نے اتنی تیز رفتار ترقی کی ہے جس سے ہماری آنکھیں چندھیا جائیں۔منھ کھلا کا کھلا رہ جائے۔اور ہم ابھی تک رینگ رہے ہیں۔ایسے مسائل کا سد باب محدود سوچ سے نہیں غور فکر کے بڑے سمندر سے کیا جاسکتا ہے۔اس کے لیے ہمیں ماضی کی زنجیروں کو توڑ کر حال میں جینا ہوگا۔عزم تعلیم کی لو ہر جگہ روشن کرناہوگی۔ یہی16 دسمبر کا اصل پیغام ہے ۔آج پوری قوم کا ایک ہی اعلان ہونا چاہیے کہ تعلیم کو عام کرو۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں