سیرت النبیؐ کی روشنی میں غربت کے خاتمہ کیلئے تجاویز

ایثار واخوت :
باہمی ایثار واخوت غربت کو ختم کرنے میں بڑی ممدوو معاؤن ثابت ہوسکتی ہے ۔کسی بھی انسانی معاشرے میں لوگوں کے درمیان معاشی تفاوت کا پایا جانا یعنی بعض کا صاحبِ ثروت و دولت اور امیرو غنی ہونا بعض کا ضرورت مند اور غریب و مفلس ہونا ایک فطری امر ہے اور اس میں خالق کائنات کی حکمتیں اورمصلحتیں پوشیدہ ہیں ۔بعض الناس کا غریب مکاؤ مہم یا اولادِ آدم کی کثرت کو روکنے جیسے اقدامات کرنا غیرفطری امر ہے ۔یاد رکھنا چاہیے جن اقوام نے غربت کے خاتمے کے لیے ایسی تدابیر اختیار کیں وہ اپنا انجام بھگت رہے ہیں جاپان بوڑھوں کی اماجگاہ بن چکا ہے ۔چین اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرچکا۔ یورپ کی اپنی آبادی اس فکر کی وجہ سے معدوم ہوچکی ہے غیرملکی باشندے ان کی اصل پر غالب آنے والے ہیں ۔آسٹریلیا ہر سال اپنی آبادی کو مینٹین کرنے کے لیے غیرملکی افراد کو اپنے ملک میں آباد کررہا ہے ۔حکومت وقت اسلامی فلاحی ریاست کا نعرہ لے کر غیراسلامی اعمال سرانجام دینے کی ناکام کوشش کررہی ہے یاد رہے کہ شریعت محمدیہ درجاتِ معیشت میں سوشلزم کی طرح غیر فطری مساوات کی تو قائل نہیں البتہ اس نے حق معیشت میں بغیر کسی تفریق کے جملہ انسانوں کو برابر قرار دیا ہے۔ اس کے لئے اس نے بالعموم خوشدلانہ، رضاکارانہ اور برادرانہ مواسات یعنی باہمی ہمدردی و غمخواری کی تعلیمات سے کام لیا ہے۔ اس لئے غربت و افلاس کا مسئلہ زیادہ تر تو شریعت محمدیہ کی انہی بے نظیر و بے مثال اور مؤثر تعلیمات سے حل ہوجاتا ہے باقی کسر قانون کی مدد سے نکال لی جاتی ہے۔
قانون کی حاکمیت :
وطن عزیز کا المیہ ہے کہ یہاں حکومت کے کام عدلیہ اورعدلیہ کے کام سرد مہری کا شکارہیں ۔عدلیہ کا نظام اور عدلیہ کے معیار پر بے شمار مثبت تنقید کی جاسکتی ہے ۔عدلیہ کی سیاست میں مداخلت وطن عزیز کو بہت دور لے جائے گی جس کے بھیانک اثرات کئی عشروں سے تک دیکھے جائیں گے، اگر چیف جسٹس صاحب نے ہی عوامی فلاحی فیصلے کرنے ہیں تو انہیں اپنی جاب سے استعفیٰ دینا چاہیے ۔پاکستان کا نظام پارلیمانی ہے انہیں الیکشن لڑنا چاہیے ۔پھر پارلیمنٹ میں جاکر قانون سازی کرنی چاہیے ۔چیف جسٹس کے فیصلوں سے محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں جوڈیشل مارشل لا نافذہے ۔بہت ہی اچھا ہوتا چیف جسٹس صاحب سود کا خاتمہ کرنے کے لیے سیمپوزیم کانفرنس کرتے یا اردو زبا ن کے نفاذکے لیے جدجہد کرتے ۔کمیٹیاں بناتے یا غریب طلباء کو یونیورسٹیوں میں فری تعلیم جیسے اقدام کے لیے گٹھ جوڑ کرتے مگر بنیادی کاموں کو چھوڑ کر وہ کام سرانجام دینا جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہوں ناقابل فہم ہے ۔البتہ ریاست لوگوں کو اولاد کی تربیت اورنگہداشت کے لیے کو مہم لانچ کرسکتی ہے جس سے شعور اجاگر ہو پھر بات وہیں آئے گی ہمارے وطن عزیز کا تعلیمی نظام کمزور ہے ۔شعور کی کمی ہے لیڈرشپ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔خاں صاحب چیف جسٹس کی خوشامد میں مگن ہیں۔قوم تماشادیکھ رہی ہے کہ کس طرح وطن عزیز کو ترقی سے ڈی ریل کیا گیا ہے ۔کرپشن کے بت سے ابھی تک کچھ خاص برآمد بھی نہیں ہوا۔بڑے چور دندناتے پھر رہے ہیں ۔
یہ بات عدل و انصاف اور اسلام کے مزاج کے خلاف ہے کہ کچھ لوگ تو ضروری خوردو نوش، لباس، تعلیم، علاج معالجہ کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہوں اور ساتھ ہی ایک طبقہ عیش و عشرت فضول خرچیوں اور اپنے اللوں تللوں سے ان غربت کے مارے لوگوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑکے۔ ایک اسلامی معاشرے میں اس امر کی قطعاً گنجائش نہیں۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے کوئی آدمی حتی کہ سربراہ مملکت بھی عام لوگوں کے مقابلے میں بودوباش، کھانے پینے اور دوسرے انسانی حقوق میں کوئی امتیاز نہیں رکھتا ہے۔ VIP اور غیر VIP کی تقسیم غیر اسلامی ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر کون دنیا میں VIP ہوسکتا ہے اس کے باوجود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دولت کدہ میں دو دو مہینے آگ نہیں جلتی تھی۔ آپ کے لئے کبھی کپڑوں کا کوئی جوڑا تہہ کرکے نہیں رکھا گیا۔ دس لاکھ مربع میل رقبہ کے حکمران کی رہائش جس ایوان صدر یا وزیراعظم ہاؤس میں تھی اس کا طول و عرض آج بھی گنبد خضریٰ سے معلوم کیا جاسکتا ہے اور اس قدسی صفات سیدالعرب والعجم کی رہائش گاہ کے سامان زیست اور کل دنیا کی تفصیل اور چشم دید گواہی آج بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ازواج مطہرات میں سے ہر ایک زوجہ محترمہ یا خاتون اول کا حجرہ کس قسم کے سنگ مرمر، ساگوان کی لکڑی اور امپورٹڈ سامان سے بنایا گیا تھا۔ اس کی تفصیل آج بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا’’عیش کوشی سے بچو کیونکہ اللہ کے بندے عیش کوشی نہیں کرتے‘‘چیف جسٹس صاحب آٹھ لاکھ ایک سوررپیہ تنخواہ وصول کرتے ہیں معزز چیف صاحب کو آدھی تنخواہ غریبوں پر صرف کرنی چاہیے موجودہ حکومت کی تمام نمائندگان کو یہی عمل اختیار کرنا چاہیے یقیناًاس اقدام سے بے نظیر مثال قائم ہوگی جو رہتی دنیا تک یاد رہے گی اوراس اقدام سے یقیناًوطن عزیزترقی وخوشحالی کے راستے پر گامزن ہوگا۔
اس عنوان کی ضمن میرے دوست جناب پروفیسر عبدالحمید ہزاروی رقمطراز ہیں کہ ’’ہر دور میں فقر وافلاس انسانی زندگی کا المیہ رہا ہے اس کے خاتمے کیلئے کئی ایک تحریکیں معرض وجود میں آئیں۔ غربت و افلاس کو مٹانے کے نعرہ مستانہ کی بدولت مختلف ادوار میں کئی لوگوں کی لیڈرشپ کی دھاک قائم رہی۔ بڑے بڑے شعرا، علماء ، فلاسفرز اور حکماء کے اعصاب پر روٹی سوار نظر آتی ہے۔ اسی کوحضرت فریدالدین گنج شکر دین کا چھٹا رکن قرار دیتے ہیں تو بقول کسے چناں قحط سالے شود در دمشق۔۔۔ کہ یاراں فراموشش کردند عشق (جب دمشق میں قحط سالی پڑ گئی تو دوستوں کو بھوک کی وجہ سے عشق و محبت کو بھی بھلانا پڑ گیا)۔ لیکن طرفہ تماشہ یہ کہ آج دنیا کے مختلف نظام ہائے معیشت میں اس غربت کو ختم کرنے کی جس قدر کوششیں کی جاتی ہیں اس قدر یہ بڑھ رہی ہے۔اسلام روزاول سے غربت او اس کے علاج، غریبوں کے حقوق کی پاسداری اور روحانی کے ساتھ ساتھ ان کی مادی ضروریات کی کفالت پر بھی زور دیتا رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات دولت کی پیداوار اور حصول سے لے کر معاشرے میں موزوں تقسیم اور خرچ تک کی ہدایات ارشاد فرماتا ہے۔ اس حوالے سے اسلام کا نظام اقتصاد کس وسعت اور گہرائی کا حامل ہے؟ اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب قرون اولیٰ کے حقیقی معنوں میں اسلامی معاشی تعلیمات پر مبنی معاشروں کے احوال و واقعات سے آگاہی نصیب ہوتی ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے دولت اللہ تعالیٰ کی ایک امانت ہے لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ مالک حقیقی کی ہدایات کے مطابق اس کو خرچ کیا جائے۔ محنت، کاوش اور جد و جہد کرنا بندے کا کام ہے لیکن اس پر ثمرات فقط اللہ تعالی کی مرضی اور منشا سے مرتب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔جاری ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں