کردارِ سقوطِ ڈھاکہ

دسمبر میں قدم رکھتے ہی امید کا دامن خالی سا لگتا ہے الزامات ،اختلافات اور رنجشوں کا ایک بہتا سمندر ایسالگتا ہے اپنی أور کھینچ رہا ہوجہاں پاکستان کی تاریخ دلچسپ ہے وہیں کئی کردار ایسے ہیں جو چیس کے پیادوں کی طرح بکے بھی اور وزیر کی طرح دیکھے بھی ،بادشاہ کی طرح راج بھی کیا اور غلام کی طرح چھپے بھی، 16دسمبر کوجب وطن عزیز دولخت ہونے کا سوگ منائے گا تو 48سال قبل کے جذبات بھی ہوں گے لیکن نئی نسل اس سے روشناس نہیں اور نہ ہم نے کبھی چاہا ہے۔ یوم سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا، بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے مگر اس سورج اور اس کی کرنوں کو یہ معلوم نہیں خوابِ غفلت میں سوئی اقوام اتنی آسانی سے جاگا نہیں کرتیں اس کے لیے قیادت چاہیے ہوتی ہے جو مجھ جیسے ناچیز کو میسر ہوتی نظر نہیں آتی، اب کچھ نظر کرم ان کرداروں پر جنہوں نے آئین دیا مگر ملک توڑ کر ،جو سرحد کی حفاظت تو کرتے ہیں مگر ہتھیار ڈال کر ،قوم دیکھتی ہے مگر اس ڈھانچے کی مانند جو زندہ بھی ہے اور نہیں بھی۔
5 جولائی بھٹو کے اقتدار کے خاتمے اور جنرل ضیاء کے طویل اقتدار کے شروع ہونے کے حوالے سے جانا جاتا ہے ،ہماری قوم تصویر کو ایک ہی رخ سے دیکھنے کی عادی ہے اور دوسرا جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتی ، کیا بھٹو کا ہٹایا جانا بے سبب تھا؟ کیا بھٹو کی پھانسی سے اس کے گناہ دھل گئے؟ سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار بھی جنرل ضیاء ہی تھا؟یہ وہ سوال ہیں جو صرف سوال نہیں بلکہ تاریخ کے وہ داغ دار نشانات ہیں جس نے ہمارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑا یہاں اکثر لوگ دلیل یہ دیا کرتے ہیں کہ اس سب کا مرکزی ماسٹر مائنڈ بھارت تھا اب کوئی اِن شہسواروں سے پوچھے کہ 65کی جنگ آپ نے کی تھی تو دشمن سے کی یا دوست سے جواب آپکے سامنے ہوگا ،البتہ میں اس بات کو کچھ یوں کہوں گا کچھ اپنوں کہ ستم کم نہ تھے اور کچھ غیروں کی چالاکیاں تھیں مواقع فراہم کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود تھے ۔
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اقلیت ملک توڑنے کا سبب بنتی ہے اور علیحدہ وطن کے لئے کوشاں رہتی ہے کیونکہ وہ اکثریت سے متنفر ہوتی ہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی۔ مشرقی پاکستان کی آبادی جو ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی، میں اس احساس محرومی نے جنم لیا کہ وسائل کی تقسیم میں اْن سے ناانصافی اور معاشی استحصال کیا جارہا ہے جو بہت حد تک درست بھی ہے کیونکہ مشرقی پاکستان میں سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے والوں میں سے اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جو بنگالی زبان سے بھی ناآشنا تھے۔
پاکستان کو دولخت کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے ملک سے زیادہ پارٹی یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی جبکہ جنرل یحییٰ خان اور مجیب الرحمٰن کی ڈھاکہ میں ہونے والی ملاقات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی کیونکہ یحییٰ خان عدم مفاہمت کی صورتحال سے فائدہ اٹھاکراپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔بے یقینی کی ایسی صورتحال میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کا ملک دشمنوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو علیحدہ وطن کا جواز مہیا کیا جس کا اظہار انہوں نے 23 مارچ 1971ء کو’’یوم پاکستان‘‘ کے بجائے ’’یوم سیاہ‘‘ مناکر اور سرکاری عمارتوں پر بنگلہ دیشی پرچم لہرا کر کیا جس کے بعد فوج نے باغیوں سے نمٹنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا۔ اس صورتحال کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور فوج کے خلاف بنگالیوں کے قتل عام اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے جیسے منفی پروپیگنڈے شروع کردیئے۔ یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ نے 71ء کی جنگ سے بہت پہلے مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کی تنظیم مکتی باہنی کی مدد کے لئے ایک قرارداد منظور کی تھی جبکہ بھارتی فوج مکتی باہنی کے شدت پسندوں کو ٹریننگ، ہتھیار اور مدد فراہم کرنے میں پیش پیش رہی۔مکتی باہنی کے ان باغیوں نے 71ء کی جنگ سے قبل ہی پاک فوج کے خلاف اپنی گوریلا کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا اور3 دسمبر 1971ء کو جب پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تو ان باغیوں جن کی تعداد تقریباً 2 لاکھ بتائی جاتی ہے نے بھارتی فوج کا بھرپور ساتھ دیا ۔
البدر کے قیام کے لیے افرادی قوت جماعت اسلامی نے فراہم کی جو جماعت سے منسلک طلبہ تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ اور اساتذہ پر مشتمل تھی جبکہ الشمس میں دینی مدارس کے طلبہ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ اور نظام اسلام پارٹی کے بعض کارکن شامل تھے عسکری تربیت، اسلحہ اور دیگر ضروری وسائل مبینہ طور پر فوج کے متعلقہ شعبوں نے فراہم کر دیے۔ البدراور الشمس کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ فوج کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کریں گے لیکن جب 16سولہ دسمبر 1971ء کو پاکستان کی فوج نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جس کے ساتھ ہی البدر اور الشمس اکیلے باغیوں کے خلاف لڑتے رہے لیکن زیادہ تر یاتو مکتی باہنیوں کے ہاتھوں شہید کردئیے گئے جبکہ چند جان بچاکر بیرون ملک جاپہنچے۔بنگلہ دیش کی حکومت نے 2009میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمان پر بغاوت اور بنگالیوں کی نسل کشی کا مقدمہ پھر کھول دیا 11مئی 2016میں مطیع الرحمن کو شیخ حسینہ واجد کی حکومت کی جانب سے ان کو پھانسی دے دی گئی ان پر الزام تھا کہ وہ بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران مزاحمت کرنے والے البدر جنگجوؤں کی قیادت کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کو دولخت کرنے میں بھٹو، یحییٰ اور مجیب، سب نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا لیکن شکست درحقیقت صرف اور صرف ملک و قوم کے حصے میں آئی، ذوالفقار علی بھٹو کا پولینڈ اور دیگر ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی جنگ بندی کی قرارداد کو طیش میں آکر پھاڑنا اور اجلاس کا واک آؤٹ کرنا سمجھ سے بالاتر تھا کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یہ امید کی جارہی تھی کہ چین اور دیگر عالمی طاقتوں کے دباؤ میں آکر اقوام متحدہ کچھ ہی دنوں میں جنگ بندی کے احکامات جاری کردیتی تاہم قرارداد پھاڑنے کے 2 دن بعد ہی جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال دیئے اس طرح پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیااوریوں شکست مغربی پاکستا ن کا مقدر بنی۔ پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ باب کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج پاکستان ایک بار پھر اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے اور دشمن طاقتیں ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہی ہیں لیکن ایسے کڑے وقت میں حکمران اور سیاستدان اقتدار اور ذاتی مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ملکی سلامتی کی کوئی پروہ نہیں۔ افسوس کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے اب تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں