سب بلڈوز کردو۔۔۔

بلڈوز کردو ۔۔۔۔بلڈوز کردو۔۔۔۔ سب کچھ بلڈوز کردو۔۔۔ہر وہ وعدے جو الیکشن سے پہلے کئے تھے سب کو  اپنے پیروں تلے روند دو ۔۔۔۔

الیکشن سے پہلے حکومت نے غربت کو ختم کرنے کے دعوے کئے تھے مگر اب یہ دعوے کسی اور انداز سے پورے کئے جارہے ہیں کہ غریب کو ختم کردو غربت ختم ہو جائے گی نہ غریب ہوگا نہ غربت نظر آئے گی ۔

موجودہ حکومت نے غریب کو ختم کرنے کا بہت موثر طریقہ ڈھونڈھ لیا ہے تجاوزات کے نام پر روز ایک حکم نامہ جاری کر دیتے ہیں کبھی لوگوں کے مکانات گرا دیے جاتے ہیں تو کبھی چلتی مارکیٹ ختم کر دی جاتی ہیں لوگوں  کے سامنے انکے گھر بلڈوز کردیئے جاتے ہیں نہ حکومت میں انکی سنوائی  ہے اور نہ عدالتوں  میں ۔

بے اختیار میئر کراچی کے پاس نہ شہر سے کچڑا اٹھانے کے اختیارات تھےاور نہ ترقیاتی

 بجٹ کہ وہ شہر کی ترقی کیلئے کام کر سکیں لیکن وہ تجاوزات ختم کرنے  کےنام پر لوگوں کے گھر مسمار کرنے اور روزگار ختم کرنے کیلئے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔اگر یہی ہیوی مشینیں کراچی کا کچڑا صاف کرنے  اور ترقی و بہبود کیلئے استعمال کر لی جاتیں۔۔۔۔

جن لوگوں  کے گھر اور روزگار  ختم کئے گئے ہیں انکےلئے حکومت کیا اقدامات  کر رہی ہے ان کو کیا متبادل دیا گیا ہے یا چیف  جسٹس نے ان کیلئے کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے کیونکہ آج کل چیف جسٹس صاحب ہر اس معاملے میں ان ہیں یااپنی رائے دیتے نظر آتے ہیں جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔یا پھر خبروں میں رہنے کےشوقين ہیں ۔کبھی ڈیم فنڈنگ کیلئے اپنے آپ کو کھپارہے ہیں، تو کبھی موبائل کارڈ پر ٹیکس بحال کرکے اس رقم کو ڈیم فنڈ میں شامل کرنے کی ترکیبیں سوچ رہے ہیں اور قوم سے مشورے مانگ رہے ہیں۔کبھی  بچے دو ہی اچھے کے مشورے دے رہے ہیں۔ لیکن اپنے فرائض منصبی سے لاتعلق رہ کر کوئی کس طرح سرخرو ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس اپنے محکمے کے حوالے  سے نئی تبدیلیاں عمل میں لا سکتے ہیں اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے ملک میں موجود پینڈنگ کیسز کو ارجنٹ کی بنیاد پر حل کرواسکتے ہیں اس بات کو فوکس کرسکتے ہیں کہ جو لوگ سالوں سے بغیر کسی گناہ  کے جیلوں  میں سڑ رہے ہیں انہیں انصاف  مل جائے۔ ڈیم فنڈنگ کیلیے بیرون ملک دورے کرنا اور دوسرے کام سب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اس بار گراں کے آگے جو چیف جسٹس صاحب کے ناتواں کندھوں  پر ہے۔ ملک میں ہر طرف ظلم کا راج ہے چیف جسٹس صاحب  چاہیں تو عدل کا نظام قائم کر سکتے ہیں۔

جبکہ تبدیلی حکومت نے اپنوں پر ستم اوروں  پر کرم کا فارمولہ اپنایا ہوا ہے۔ حکومت میں ہر فرد اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے  کم علم وزیروں اور مشیروں کی جتنی بڑی فوج ہے اتنے ہی فنی مظاہرے دیکھنے میں آرہے ہیں کبھی عاصمہ حدید صاحبہ اسرائیل  کی شان میں قصیدے پڑھتی نظر آتی ہیں تو کبھی بے قصور عالم دین کو جیلوں  میں ڈالنے کی خبریں آتی ہیں۔ پرائیوٹ اسکول اور مدارس کے خلاف کاروائی کے حوالے سے متضاد خبریں سامنے آرہی ہیں تو دوسری طرف یہ خبر آرہی ہے کہ ملک میں ہزار سینما بننےچاہییں ۔بنیادی مسائل سے صرف نظر کرکے مختلف مسائل میں قوم کو الجھایا جا رہاہےمسلسل بجلی گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہورہاہے روپے کی قدر کم ہو رہی ہےمگر حکومت کی جانب سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔گیس پیٹرول بجلی اور اشیاء  خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے بجائے لوگوں کے چلتے کاروبار ختم کرنے پر فوکس کیا جارہاہے۔تیس سے پچاس سال پرانی مارکیٹیں ختم کی جارہی ہیں لوگوں کو بیروزگار کرکے ملکی معیشت پر مزید بار ڈالا جارہاہے ۔

ملک میں  موجود دہشت گرد ” را “ کے ایجنٹ ہوں یا کسی دوسری تنظیم کے آئے دن کوئی نہ دہشت گرد کاروائی کر گزرتے ہیں مگر اس بات سے صرف نظر کر کے کرتاسپور بارڈر کھول دیا جاتا ہے کیا ایسے حالات میں ملک اس بارڈر کے ساتھ آنے والی دہشت گردی کا متحمل ہو سکتا ہے؟؟ ۔کشمیر میں روز کتنے مظالم ڈھائے جاتے ہیں؟؟ کتنے شہید کر دیئے جاتے ہیں ؟؟بھارت کے ساتھ ہمارا پانی کا مسئلہ شدت اختیار  کر چکا ہے آنے والی نسلوں  کی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے مگر پاکستان گرو نانت کی برسیاں منا رہا ہے۔

 دہائیوں سے پاکستانی حکومت کا یہی مسئلہ رہا ہے کہ

”ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا“ موقع اور حالات کی مناسبت سے ہمارا پالیسی اسٹینڈ کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے۔ہم ایسے بروقت اقدامات اٹھائیں کہ جو ہر لحاظ سے ملکی مفاد میں ہو۔ اٹھارہ سال ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے اور پرائی جنگ لڑنے کے بعد پھر لکیر پیٹنے کا کوئی  فائدہ نہیں رہتا۔

اربابِ اختیار کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ

شہر طلب کرے اگر تم سے علاج تیرگی

صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں