سارک سربراہ کانفر نس اوربھارتی ہٹ دھرمیاں 

آٹھ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون، سارک کو قائم ہوئے 33 برس ہوچکے ہیں لیکن ماہرین کا کہناہے کہ اس تنظیم کے قیام سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ ابھی تک پوری نہیں ہوسکیں ہیں ۔بیشتر ماہرین کے خیال میں سارک کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں، بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ہے۔ فوجی اور سیاسی اعتبار سے ان دو روایتی حریفوں کے درمیان کشمیر اور سیاچین سمیت کئی دیگر متنازعہ معاملات ہیں جو خطے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں جبکہ کشادہ ذہن اورزمینی حقائق سے آگاہی رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ بھارتی ہٹ دھرمیاں سارک کانفرنس کے اہداف کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔پاکستان ہمیشہ مذکرات اورمفاہمت کا خواہاں رہا ہے دوسری جانب بھارت نے ہمیشہ مثبت امن کوششوں کو سپوتاز کیا ہے ۔بھارت 2016میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا اورہمسایہ ممالک کو بھی اپنے موقف پر کھڑا کرنے کی ناجائز کوشش کی بھارت سمیت چار ممالک کی جانب سے جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کے پاکستان میں منعقد ہونے والے سربراہ اجلاس میں شرکت سے انکار کے بعد یہ اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔
اس اجلاس کے ملتوی ہونے سے خطے کی منفی تصویر دنیا کو دیکھنے کوملی ۔دنیا میں یہ تاثر شدت سے محسوس کیا گیا کہ ایشیاء میں کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ سارک سربراہ کانفرنس ہی ملتوی ہوگئی ہے ۔نریندر مودی نے بھرپور کوشش کی ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی دنیاسے تنہاکردے جس کا وہ برملا اظہار بھی کرچکا مگر اسے ندامت کے سوا کچھ نہیں ملا۔بھارت کی امن دشمنی کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے ۔سابقہ روایات کے عین مطابق بھارت نے پھر وہی کھیل کھیلا ہے ۔بھارت کا خیال ہے کہ ایسے اُچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے پاکستان کشمیر پر اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے گا تو یہ مودی جی کا وہم ہوگا پاکستان کشمیریوں کی حق خودارادیت کا کل بھی سب سے بڑ ا سپورٹر تھا آج بھی ہے اورآئندہ بھی رہے گا۔
اس مرتبہ جب پاکستان میں دوبارہ سارک سربرہ کانفرنس ہونے جارہے ہی تو بھارتی وزیرخارجہ ششماسوراج نے نریندر مودی کی شرکت سے انکار کردیا ہے ۔یہ اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب پاک بھارت کرتارپور راہداری کوریڈور تعمیر ہونے جارہا ہے جس کا باقاعدہ افتتاح وزیراعظم عمران خان نے کردیا ہے ۔اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو مذکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا توپاکستان دو قدم آگے بڑھے گا۔بھارت اپنے جارحانہ اقدام سے خطے کے امن کو نقصان پہنچانے کے در پر ہے۔گزشتہ ایک ماہ میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں 40سے زائد کشمیریوں کو شہید کرچکا ہے ۔یہ جبر وبربریت ،ظلم وتشدد ،قیدوبند کب تک چلے گا اگر بھارت نے اپنی انتہاپسندانہ روش نہ بدلی تو یہ ظلم بھارت کو نگل جائے گاکیونکہ ظلم کو دوام نہیں ہے ۔
بھارت ایک ایسا ملک ہے جو خطے میں اپنے تئیں اجارہ داری قائم کر چکا ہے اسی زعم کے پیش نظر وہ دیگر ممالک کیساتھ من مرضی کا برتاو اختیارکرتا ہے، بھارتی وزیرخارجہ نے ایک بار پھرثابت کردیا ہے کہ وہ امن کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے یہ جانتے ہوئے بھی کہ انیسویں سارک سربراہ کانفرنس کے بعداس سارک سربراہ کانفرنس کا ملتوی ہونا مناسب نہیں ہے ۔بھارت پاکستان کو دباؤ میں لانا چاہتا ہے ۔منفی اورغیر سفارتی انداز اپنا کر علاقائی امن کو نقصان پہنچانے کے در پے ہے ۔بھارت رقبے، آبادی اور وسائل کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے اسی وجہ سے مودی جی کہہ چکے ہیں کہ دنیاکو بھارت کی ضرورت ہے بھارت سوکروڑ لوگوں کا ملک ہے ۔بھارت انسانوں اورمصنوعات کی منڈی ہے اسی زعم میں وہ دیگر ہمسایہ ممالک پر اپنا رعب جمائے رکھتا ہے ۔ ان سب ممالک میں صرف پاکستان ہی ہے جو آزادانہ حیثیت میں اس کے مدمقابل کھڑا رہتا ہے اور سارک میں بھارتی ڈکٹیشن قبول نہیں کرتا اسلئے جب بھی اسلام آباد میں سربراہ کانفرنس یا وزرائے خارجہ کا اجلاس ہونا ہوتا ہے وہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کردیتا ہے ۔
گزشتہ سارک سربراہ کانفرنس کو معطل کرنے کے لیے بھارت نے جوازگھڑا تھا کہ بھارت دہشت گردی سے متاثرہے اوردہشت گردی پاکستان کی پیدا کردہ ہے جبکہ ساری دنیا کو خبرہے کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک پاکستان ہے 75000ہزار شہریوں اور آرمڈ اورسول فوجیوں کی قربانیاں پاکستان نے پیش کی ہیں پاکستان نے دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے ۔
پاکستان نے بھارت کے اس جھوٹ کو ناکام بنایا ۔بین الاقوامی دنیا کو بھارت کے اس دہشت گردانہ اقدام کو رد کرنا چاہیے اور بھارت پر زور ڈالنا چاہیے کہ وہ اپنے حل طلب معاملات میز پر بیٹھ کرحل کرے ۔
اگر سارک تنظیم نے اسی طرح لولے لنگڑے انداز میں چلنا ہے تو اس اپاہج تنظیم کے وجود کیا ضرورت ہے ۔بین الاقوامی دنیا میں متعدد فورم موجود ہیں مگر اس طرح کسی فورم پر نہیں ہوتا کہ کوئی ملک اپنی ذاتی ہٹ دھرمیوں کی بنیاد پر علاقائی تنظیم پر اثر انداز ہوتا ہو ۔ اگر بھارت ہر چند سال بعد کانفرنس کو ناکام بنانے کیلئے کوئی نہ کوئی نیا حربہ آزمانے کی روش ترک کرنے کیلئے تیار نہیں تو اس تنظیم کو ختم کردیا جائے یا بھارت کی رکنیت معطل کردی جائے ۔اب وقت آگیاہے کہ دنیا کوبتایا جائے کہ مودی اوراس کی ٹیم امن کی راہ میں رکاوٹ ہے اس کے ساتھ مزید نہیں چلاجاسکتا ہے ۔
اس مرتبہ اگر بھارت اپنی روش نہ بدلے تو اس کی آرتھی جلاکر آخری رسومات ادا کرکے اسے دفن کردیا جائے اور اس قبر پر تختی لگا دی جائے کہ یہ سارک سربراہ کانفرنس بھارت کی تنگدلی اور ذہنی پسماندگی کے بسبب مٹی کے ڈھیر کے نیچے دفن ہوچکی ہے ۔اس باغ کو اچھی روایات قائم کرنے کے لیے لگایا گیا تھا مگر بدقسمتی سے بھارت نے اس باغ کو ویران کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔امن کے باغ کواجاڑنے اور پھولوں کو مسلنے سے بھارت باز نہیں آیااسی وجہ سے اس اتحاد کی آخری رسومات ادا کی جارہی ہیں تاکہ پوری دنیا بھارت کے دہشت گردانہ چہرے کوپہچانے۔بھارت بے ثمر درخت ہے اور اس کا سایہ دھوپ کی شدت کم نہیں کرتا اس کی ٹہنیاں خار دار تاروں کی مانند ہیں جونقصان کاباعث ہیں ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں