زندہ قومیں راستے بناتی ہیں… پہاڑ کھود کر

بہت عرصہ قبل میں نے ایک انگریز مفکر کا مقولہ پڑھا تھا کہ جب تک میری قوم میں ایسے سر پھرے موجود ہیں جو کسی نظریے کو ثابت کرنے کے لئے اپنا گھر بار داؤ پر لگاکر اس کی تحقیق کرتے رہیں، کسی چیز کی تلاش میں صحراؤں میں گھومتے رہیں اور پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں کو سر کرنے کی جد وجہد کرتے نظرآتے رہیں، اس وقت تک مجھے اپنی قوم کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔

اس کے برعکس ہماری حالت یہ ہے کہ کھانے، پینے، پہننے، مغرب کی نئی نئی مصنوعات فخر سے خریدنے سے ہم کو فرصت نہیں ہے۔ ایک ہزار سال تک دنیا کو دینے کے بعد پچھلے کئی سو سال سے ہم نے دنیا سے کچھ لیا ہی ہے ، دیا کچھ نہیں ہے۔

خبر آئی  کہ مکمل طور سے معذورانگریز سائنس دان سٹیفن ہاکنگ کے ۱۹۶۶ کے پی ایچ ڈی مقالے کو کیمبرج یونیورسٹی نے اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیا تو چند دن کے اندر پانچ ملین (پچاس لاکھ) لوگوں نے اس ویب سائٹ پر جاکر اسے پڑھا اور ان میں سے پانچ لاکھ لوگوں نے اس مقالے کو ڈاؤن لوڈ یعنی کاپی بھی کیا۔ کیا اس کی مثال کسی موجودہ عرب یا مسلم سوسائٹی میں مل سکتی ہے؟ ہمارے جرائد ومجلات یکے بعد دیگرے بند ہورہے ہیں۔ ہماری اردو کتابیں جو پہلے ایک ہزار کی تعداد میں چھپتی تھیں، اب صرف پانچ سو کی تعداد میں چھپتی ہیں کیونکہ کوئی خریدتا نہیں ہے۔بڑے سے بڑے مصنف ومحقق ومورخ کی کوئی قدر نہیں اگر وہ کسی بڑے منصب پر نہ بیٹھا ہو۔ہاں ،ہمارے محلّوں میں ریستوران ، کباب کے ٹھیلے اور دوا فروشوں کی دکانیں خوب چل رہی ہیں۔

ہاکنگ کا مذکورہ مقالہ کوئی ناول نہیں ہے بلکہ ’’مسلسل وسعت پانے والی خارجی دنیاؤں کے اوصاف‘‘ (Properties of Expanding Universes) کے بارے میں ہے (یہ وہی نظریہ ہے جسے قرآن پاک میں ’’وانا لموسعون‘‘ (الذاریات۴۷(کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے) ۔ اور یہ مقالہ ایک ایسے آدمی نے لکھا ہے جو چلنے، پھرنے، بولنے اور حتی کہ لکھنے سے بھی قطعاً معذور ہے۔ اس کی عبقریت کو دیکھتے ہوئے برطانوی حکومت اور معاشرے نے اس کو ہر طرح کی سہولت بہم پہنچائی ہے جس میں ایک عجیب وغریب کمپیوٹر بھی شامل ہے جو ہاکنگ کی دماغی لہروں کو سمجھ کر اسے کمپیوٹر پر الفاظ کی شکل دے دیتا ہے۔ ہاکنگ کے یہ خیالات نہ صرف سائنسی دنیا میں بہت اہمیت اور دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں بلکہ اکثر اخبارات کی سرخیوں کی زینت بھی بنتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ہاکنگ جیسا شخص کب کا کڑھ کڑھ کر مرچکا ہوتا یا کسی چور اہے پر معذوروں والی گاڑی میں بیٹھا بھیک مانگ رہا ہوتا۔ہمارے معاشرے میں کسی عبقری، جو معذور بھی نہ ہو، کے لئے بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ برسوں قبل امریکہ سے طب میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹرہر گوبند کھورا نااپنے ملک کی خدمت کے جذبے سے سرشارہندوستان واپس آگئے توحکومت نے ازراہ کرم خسروی انہیں ایک دیہی علاقے کی کلینک میں بحال کردیا۔ بیچارا اپنا ٹوٹا ہوا دل لے کر پھر امریکہ چلاگیا اور چند سالوں کے بعد جب اسے اپنی تحقیق پر نوبل انعام ملا تو ہندوستان میں اسے بڑے فخریہ انداز میں بیان کیا جانے لگا ۔اس کے جواب میں ڈاکٹر کھورانا نے صرف ایک لائن کا بیان جاری کیا:’’ یہ اعزاز مجھے ایک امریکی شہری کی حیثیت سے ملا ہے‘‘۔

بہر حال ضرورت ہے کہ ہم اپنے رویوں کو بدلیں۔ حقیقی علم رکھنے والوں اور اس کے متلاشیوں کے لئے راستے کھولیں اور ایسے مشغلے اپنائیں جو ہمیں دنیا کی قوموں کے سامنے سرخروکریں۔آج ہماری پہچان ایک ایسے گروہ کی ہوچکی ہے جو اپنی مادی اور دنیاوی خواہشات کو ہر صحیح اور غلط طریقے سے پورا کرنے میں مست ہے اور دوسروں کے مکمل طور پر خوشہ چیں ہونے پر پوری طرح مطمئن ۔

حصہ
mm
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔.

جواب چھوڑ دیں