بچے کسی بھی ملک و قوم کا بیش قیمت سرمایہ ہوتے ہیں اوران کی امیدوں،ارمانوں اور آرزؤں کا مرکز بھی۔ قوم کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں بچوں کی تعلیم و تربیت پر ہی استوار ہوتی ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ جو قومیں اپنے بچوں کے مستقبل کے تحفظ میں کامیاب ہوجاتی ہیں ان کا مستقبل ازخودمحفوظ ہوجاتا ہے۔ نئی نسل کا استحکا م دراصل کسی بھی ملک و قوم کے عروج وکمال کانقطہ آغاز ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائے افرینش سے ہر قوم نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر غایت درجہ توجہ مرکوز کی ۔اسلام بھی بچوں کی تعلیم و تربیت پربہت زیادہ زور دیتاہے۔ تعلیم نسواں کو نئی نسل کی تعمیرکی وجہ سے ہی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام نے جہاں ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گا ہ قرار دیا ہے وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹیوں کی احسن تعلیم و تربیت پر والدین کو جنت کی بشارت سے بھی سرفراز فرمایا ہے حتیٰ کہ آپ نے باندیوں کی تعلیم و تربیت کی بھی خاص تاکید فرمائی ۔بچوں کی تعلیم و تربیت کے باعث ہی جنت جیسی عظیم شئے ماں کے قدموں کے نیچے ڈال دی گئی۔بچوں کی تعلیم و تربیت ہی مقصود تھی کہ اسلام نے شریک حیات کے انتخاب میں بھی صورت کے بجائے سیرت کو فوقیت دینے کی تلقین کی۔بچوں کی دیگر ضروریات کی تکمیل کے علاوہ والدین پر ان کی تعلیم و تربیت کی بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ماضی قریب تک والدین گھروں میں اپنے بچوں کی اخلاقی و روحانی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ اسے امتداد زمانہ کہیئے کہ مصنوعی مصروفیت کا دور۔پہلے باپ عدیم الفرصتی کا شکوہ کرنے لگے پھر یہ وباء ماؤں سے بھی چمٹ گئی۔مادہ پرستی کے آسیب نے والدین کو اپنی اولاد کی جانب نظر التفات سے بھی روک دیا۔ اسلام نے بچوں کی ذہنی ،جسمانی اور نفسیاتی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نمازجیسی اہم عبادت کی عادت کے لئے بھی کم از کم سات سال کی شر ط رکھی اور دس سال کے بعد ہی نماز سے کوتاہی برتنے اور عدم ادائیگی پر سز ا دینے کا حکم دیا ۔لیکن مادہ پرستی نے فطری اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ماں باپ کو بچوں کی ابتدائی عمر میں ہی اسکولوں میں داخل کرنیپر مجبور کردیا۔ زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے اور خا ص طور پر مسلم معاشرے کی زبوں حالی کہ ماضی قریب میں جہاں بچے پہلے پانچ یا چھ سال کی عمر میں داخل مدرسہ کیئے جاتے تھے وہیں اب اسکولوں میں تعلیم کے آغاز کی عمر گھٹ کر ڈھائی تاتین سال ہوچکی ہے ۔ بعض اسکول تو اب ڈیڑھ سال کے بچوں کو بھی اپنے اداروں میں قبول کرنے لگے ہیں ۔ تعلیمی جبر کی انتہا یہ ہے کہ پہلے بچے اپنا آدھا دن اسکول اور باقی آدھا دن اپنے والدین اور بزرگوں کے سایے میں گزارتے تھے اب و ہی بچے باقی آدھا دن ٹیوشن کی لعنت کی وجہ سے اپنے والدین اور بزرگوں کی شفقت سے بھی محروم ہیں۔پہلے والدین بچوں کی تربیت کو اپنی ذمہ داری بلکہ فرض سمجھتے تھے لیکن آج یہ ذمہ داریاں رفتہ رفتہ اسکولوں کی صوابدید پر چھوڑدی گئی ۔اب والدین اپنی ذمہ داریوں کو تعلیم گاہوں کے حوالے کرتے ہوئے صرف ان سے باز پرس پر اکتفاء کرتے ہوئے مطمین ہوجاتے ہیں۔
تعلیمی ظلم و جبر کی وجہ سے بچے آئے دن تعلیم اور اسکولوں سے متنفر ہوتے جارہے ہیں۔ بچوں میں تعلیمسے دلچسپی پیدا کرنے اور اکتساب کو پروان چڑھانے میں آج سب سے زیادہ اسکول کے اوقات رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔طویل اسکولی اوقات کار سے بچوں کی صحت او ر ان کی نشو و نما پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ قریبی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لئے صبح 8:30بجے سردی ،گرمی اور بارش میں پہنچنا دشوار نہ سہی دور درازکے علاقوں سے اسکول آنے والے طلبہ کے لئے یہ امر یقیناً سوہان روح ثابت ہورہا ہے۔ نیند اور غذا ئیت کی کمی کی وجہ سے طلبہ متعدد عوارض کا شکار ہورہے ہیں۔ افراتفری کے عالم میں بچے صبح کا ناشتہ بھی ٹھیک طور سے نہیں کرپاتے ہیں کہ ان کو مدرسوں کی جانب ہانک دیا جاتا ہے۔ اپنے جسم کے وزن سے زیادہ بستوں کابوجھ ڈھوتے جب یہ اسکول پہنچتے ہیں ان کی جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ کا مداوا کرنے والا وہاں کوئیموجود نہیں رہتا ۔اساتذہ بچوں کا ذہنی خلفشار دور کرنے کے بجائے اپنے نصاب کی تکمیل میں دیوانہ وار جٹے ہیں ۔ آفتاب کی پہلی کرن سیتعلیمی دباؤ ،ذہنی تناؤ اور فرسٹریشن میں گھرے بچوں سے بہتر تعلیمی مظاہرے اور تخلیقی افعال کی انجام دہی کی توقع یقیناًدن میں جگنو دیکھنیسے کم نہیں ہے۔8:30تا 4بجے شام تک تھکا دینے والے تعلیمی اوقات نے طلبہ کے چہروں سے زندگی اور شگفتگی کو چھین لیا ہے ۔ان کے چہروں سے ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ صاف نظر آتی ہے۔کمرۂ جماعت کے روز مرہ کیبے جان و بے کیف معمولات بچوں میں امنگ، تازگی اور توانائی بھر نے سے قاصر ہیں۔بوجھل اور بے لطف اکتسابی معمولات طلبہ کو تخلیق ، تجرید اور تفکر سے دور کرتے جارہے ہیں۔صبح کا ناشتہ کھائے بغیر اسکول پہنچے طلبہ کو مختصر لنچ بریک میں کھانے پینے تک کا ہوش نہیں رہتا ۔مختصر بریک کو غنیمت جان کر جب کھیلنے ،کودنیلگتے ہیں تو پھردوپہر کا کھانا بھی ٹھیک ڈھنگ سے نہیں کھاپاتے اور ٹفن باکس جیسے کا ویسا گھر واپس آجاتا ہے۔گھر پہنچے نہیں کہ بغیر کچھ کھائے اور سستائے ہوم ورک کرنے بیٹھ گئے ۔ اس کے بعدٹیوشن کا آسیب انھیں اپنے شکنجے میں بھینچنیبے تاب رہتا ہے۔دیر رات تک ہوم ورک کلاس ورک پراجکٹ اور اسکول کے دیگر کام کرتے کرتے بچے مضمحل ہوجاتے ہیں اوربے سود نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔سال بھر ختم نہ ہونے والا یہ معمول بچوں میں مایوسی،اضطراب اور دباؤ کو جنم دینے لگاہے۔ تعلیم کے ایسے خوف ناک منظرنامے سے بچے سراسیماں و پریشان ہیں۔ بچوں کے چہروں پر چھائی مردنی اور زردی ان کے بچپن کے قتل کی زیر لب داستان بیان کر رہی ہے۔ طلبہ رحم طلب نظروں سے والدین ،اساتذہ اور انتظامیہ کی جانب دیکھ رہے ہیں جیسے خاموش فریادکررہے ہوں خدارا! کوئی ہے جو انھیں روزمرہ کی مشقت سینجات دلائے ۔ہے کوئی جو ان کی مشقت پر محبت اور شفقت کی پھوار برسادے۔ہے کوئی جو اان کے کھیلنے کودنے کے حقوق بحال کردے۔
باشعور لوگ جانتے ہیں کساد بازاری، معاشی بحران اور شرح نمو میں گراوٹ سے کوئی معاشرہ دیوالیہ نہیں ہوتابلکہ تعلیمی معیار کے ابتزال سے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔ملک کی کرنسی کی قیمت میں گراوٹ دیوالیہ پن کی نہیں بلکہ تعلیمی معیار کی گراوٹ معاشرے کے دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ تعلیم کو آسان اور معیاری بناکر پیش کرنے والا نظام تعلیم عوام کی ضروریات اور ارمانوں کی تکمیل میں معاون ہوتا ہے۔مسائل اور وجوہات کی نشاندہی ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے یہ کام سالوں سے ہزاروں افراد انجام دیتے چلے آر ہے ہیں۔آج معاشرے کومعیاری تبدیلی کی شدید خواہش رکھنے والے ایسے باہمت دردمند،فلاحی اداروں اور افراد کی ضرورت ہے جونظام تعلیم کے معیار کو بتدریج بہتر بناسکتے ہیں جو تعلیمی اداروں سے ہر سال بے مصرف خواندہ ، جعلی تعلیم یافتہ ہجوم کے بجائے تربیت یافتہ علم دوست ،جدت پسند،اور تخلیقی صلاحیتوں سے آراستہ نسل معاشرے کے حوالے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیوں کی سخت ضرورت ہے جو طلبہ اور اساتذہ کو تعلیمی مزدوری سے باز رکھے۔طویل تعلیمی اوقات کار کے بجائے موثر تدریس اور سود مند اکتساب کی ملک و قوم کو ضرورت ہے۔تعلیمی پالیسیوں اور تدوین نصاب سے پہلے طلبہ اور اساتذہ کے مسائل پر نظر ڈالنی بہت ضروری ہے۔ تعمیری مزدور کی طرح اساتذہ سے اور طلبہ سے بندھوا مزدور کی طرح صبح 8.30 تا 5بجے شام تک کام لینے کا طریقہ کار درس و تدریس اور اکتساب پر منفی اثرات مر تب کر رہا ہے۔نظام تعلیم کے بارے میں اکثر و بیشتر بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔تعلیمی مسائل اور کارکردگی پر ماہرین سے لے کر عام آدمی ہر کوئی اپنا نقطہ نظر پیش کرنے سے نہیں چوکتا ۔کوئی ایک حل تجویز کرتا ہے تو دوسرا ایک اور حل ۔کسی کے نزدیک تعلیم کے لئے مادری زبان اہم ہے تو کوئی انگریزی زبان میں تعلیم کا موئید نظر آتا ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ کوئی بھی اس بات پر بحث نہیں کرتا کہ زبان کے علاوہ وہ کونسے دیگر عوامل ہیں جنھیں درست اور تبدیل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ فرق بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دیگرترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام اور ہمارے تعلیمی نظام میں کیا فرق پایا جاتا ہے۔ زیر مطالعہ مضمون میں اسی فرق کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ماہرین تعلیم اور بالخصوص مسلمان ماہرین تعلیم و تعلیمی اداروں کے ذمہ دارن کے لئے لازمی ہے کہ وہ دنیا کے تجربات کی روشنی میں اپنے ملک اور معاشرے کو تعلیمی بلندیاں عطاکرے ۔مغرب کے نافع تعلیمی تجربوں سے مسلمان سرموئے انحراف نہ کریں کیوں کہ اسلام نے مسلمانوں کے حصول علم کے لئے ایک روشن ضابطہ مقرر کیا ہے ’’ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے، یہ جہاں سے ملے اسے لے لینا چاہئے‘‘(ابن ماجہ)۔یہ حدیث گواہی دیتی ہے کہ کوئی مفید جملہ، یا کام کی بات جو اسلام کے خلاف نہ ہو،جو کبھی کسی نا اہل کے منہ سے بھی نکل جاتی ہے، تو مومن کیلئے مناسب نہیں کہ اس کام کی بات کو محض اس لئے رد کردے کہ یہ ایک ناکارہ کی زبان سے نکلی ہے،بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ قیمتی اور مفید بات کو قبول کیا جائے، یہ دیکھے بغیر کہ اس کا بولنے والا کون ہے۔آج ساری دنیا ذ ہنی دباؤ سے پاک تعلیمی نظام ) Most Stress Free Education System ( کی تلاش میں اپنی بہتر توانیاں صرف کررہی ہیں۔ ذہنی دباؤ سے پاک تعلیمی نظام موثر درس و تدریس اور پر کیف اکتساب کی جان ہوتا ہے۔کرہ ارض پر موجود 169ممالک میں فن لینڈ کا نظام تعلیم ذہنی دباؤ سے پاک اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کیحوالے سے سرفہرست ہے۔فن لینڈ شمالی یورپ کا ایک بہت ہی چھوٹا ملک ہے۔ یہ دنیا میں رقبے کے لحاظ سے 65اور آبادی کے لحاظ سے 114 ویں نمبر پر آتا ہے۔اس ملک کی کل آبادی 55لاکھ ہے لیکن عالمی تعلیمی درجہ بندی کے لحاظ سے یہ چھوٹا سے ملک ساری دنیا میں پہلے مقام کا حامل ہے۔
فن لینڈ کے ماہرین تعلیم کے نزدیک بچوں کی ابتدائی عمر نہایت اہمیت کی حامل ہے اورسات سال سے کم عمر بچوں کو اسکول بھیجنا ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔نفسیاتی اعتبار سے بھی بچوں کی عمر کا یہ دور کھیل کود میں زیادہ صرف ہونا چاہئے تاکہ ان کی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھ سکیں۔ فن لینڈ میں بچوں کی اسکولی تعلیم(اول جماعت) کا آغاز سات سال کی عمر میں ہوتا ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان نہیں لیا جاتا۔سات سال سے کم عمر بچوں کے لئے خصوصی ڈے کیئر اور پری اسکول قائم ہیں جہاں بچوں کو مخصوص قسم کے کھیلوں کے ذریعے آرٹ،گفتگو(کمیونیکیشن) اور فطرت سے محبت کی عملی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ڈیوڈ وائٹ(David White) صدر شعبہ ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن سنٹر کیمرج یونیورسٹی کے مطابق بچوں کی عمر کے ابتدائی سالوں میں کھیل کود کے ذریعے تعلیم سے اکتساب کے بہترین نتائج دیکھنے میں آئیہیں۔نفسیاتی اعتبار سے بچوں میں ذہنی دباؤ سے پاک،مثبت ماحول اور آزادانہ طریقے سے اکتساب کا عمل بغیر رکاوٹ کے پروان چڑھتا رہتا ہے۔ڈے کیئر اسکولوں کا مقصد بچوں میں اپنی صحت ،دوسروں کا احترام اور جذبہ ذمہ داری کو فروغ دینا ہوتا ہے۔بچوں کی معاشرتی نشوونما پرخاص توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔بچوں کو ذہنی دباؤ سے بچانے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ فن لینڈ کے کنڈر گارٹنس کا اصل مقصد بچو ں کو آنے والی زندگی کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے نہ کہ نصابی تعلیم کے لئے تیار کرنا۔ فن لینڈ کے کسی بھی اسکول میں 195سے زیادہ طلبہ نہیں پائے جاتے۔ تعلیمی ادارے صبح نو 9:00 اور پونے دس بجے کے درمیان کھلتے ہیں اور دوپہر دو بجے اورپونے تین بجے کے درمیان بند ہوجاتے ہیں۔اسکولی اوقات میں مختلف وجوہات اورو موسمی حالات کی مناسبت سے کبھی تقدیم اور تاخیر بھی واقع ہوتے رہتی ہے۔19بچوں کے لئے ایک ٹیچر مقرر کیاجاتا ہے۔ روزانہ70منٹ پر محیط ورکشاپ طرز کے تین اور زیادہ سے زیادہ چار کلاسس ہوتی ہیں اور ہر کلاس کے درمیان20تا25منٹ کا وقفہ ہوتا ہے۔دوران وقفہ بچوں کو صحت بخش غذائیں، دودھ اور پھل وغیرہ دیئے جاتے ہیں تاکہ ان میں دماغی اور جسمانی توانائی بحال ہو۔وقفے کے دوران بچے خوب کھیل کودکے ذریعے پھر سے ترو تازہ ہوجاتے ہیں۔بچے اپنے اسکول کے پورے وقت میں 75منٹس وقفے(بریکس) میں گزارتے ہیں۔ ہفتے بھر میں اسکولوں میں صرف 20گھنٹے پڑھائی ہوتی ہے اور اساتذہ روزانہ دو گھنٹے اپنی تدریسی مہارتوں (اسکلز)کو فروغ دینے میں صرف کرتے ہیں۔ یہاں سالانہ ،میقاتی(ٹرمینل)،ماہانہ امتحان کا کوئی تصور نہیں پایا جاتاشاید اسی وجہ سے فن لینڈ کے تعلیمی نظام کو دباؤ سے پاک تعلیمی نظام(Most Stress Free Education System)ہونے کااعزاز حاصل ہے۔ثانوی سطح (میٹرک لیول) پر صرف ایک امتحان ہوتا ہے۔ فن لینڈ کے نظام تعلیم کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ طلبہ اور اساتذہ کی جب کلاسس نہیں ہوتیں تب وہ حاضر ی سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔مثلاً ہفتے کے کسی دن طلبہ یا اساتذہ کی دوپہر میں کوئی جماعت نہ ہووہ اسکول سے جاسکتے ہیں یا پھر ہفتے کے کسی دن اگر ان کی جماعت صبح گیارہ بجے شروع ہوتی ہو تو یہ اساتذہ اور طلبہ کے لئے ضروری نہیں کہ وہ وقت سے پہلے اسکول میں حاضر رہیں۔ ثانوی جماعتوں کو پڑھانے والے اساتذہ کو ہر جماعت کے بعد ایک پریڈ کا وقفہ دیا جاتا ہے۔اس لچکدار تعلیمی نظام نے جہاں طلبہ اور اساتذہ دونوں کو دباؤ سے نجات دی ہے وہیں تدریسی و اکتسابی منصوبہ بندی کے لئے ہر دوکو وافر وقت بھی فراہم کیا ہے۔فن لینڈ نے تعلیم کو آسان بنا کر پیش کرتے ہوئے دنیا کے سامنے ایک روشن مثال پیش کی ہے۔فن لینڈ کے ارباب حل و عقد لائق ستائش ہیں کہ انھوں نے تعلیم کے معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ فن لینڈ کے ایک ریاضی کے استاد سے جب پوچھا گیا کہ وہ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو اس نے مسکراتے ہوئیکہا ’’میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کے ہر سوال کو بآسانی حل کرسکتے ہیں‘‘۔
اساتذہ کا انتخاب:۔فن لینڈ میں اساتذہ کے انتخاب میں غایت درجہ احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔یہاں استاد معاشرے کا ایک قابل فخر فردہوتا ہے۔فن لینڈ میں ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئر بننے سے زیادہ مشکل اور شرف کی بات ہے۔ پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے اعلیٰ ترین نمبروں سے ماسٹرز کئے افراد کو ایک خصوصی امتحان کے بعد اسکولوں میں بطور استاد مامور کیا جاتا ہے۔ ہر سال درس و تدریس سے منسلک ہونے کے آرزو مند ہزاروں افراد کی درخواستیں پیشہ تدریس کے لئے اہلنہ ہونے کے سبب رد کردی جاتی ہیں۔ پرائمری جماعتوں کے اساتذہ کا انتخاب بہت تحقیق،چھان پھٹک،متعدد انٹرویوز اور اسکریننگ ٹسٹس کے بعد عمل میں آتا ہے۔پرائمری جماعتوں کی تدریسی کے لئے اساتذہ کے پاس پیشہ وارانہ ڈگری کے ساتھ ماسٹر ڈگری کا ہونا لازمی شرط ہے۔اس کے علاوہ اساتذہ کا خوش اخلاق ،صبر و تحمل کی بے پنا ہ قوت اور مطلوبہ تدریسی اوصاف و مزاج کا حامل ہونالازمی ہے۔ پیشہ معلمی کے لئے لازمی طور پرپوسٹ گرائجویشن میں مقالہ(تھسیز) لکھنا اور عمدہ تحریری صلاحیت کا پایاجانا بھی لازمی جزو ہے۔ فن لینڈ میں جہاں اساتذہ کے انتخاب کے لئے اتنے سخت شرائط عائد ہیں وہیں پیشہ تدریس بھی بالکل دباؤ سے پاک ہے ۔اساتذہ کو سال بھر میں صرف 600چھ سو گھنٹے ہی پڑھانیہوتے ہیں اور یومیہ طور پر ان کا تناسب زیادہ سے زیادہ چار جماعتیں(چار پیریڈ) ہوتا ہے۔ یہاں کے اساتذہ کو شاندار تنخواہیں اور دیگر مثالی مراعات بھی حاصل ہیں۔ جہاں طلبہ کے لئے ذہنی دباؤ سے پاک تعلیمی نظام یہاں رائج ہے وہیں اساتذہ پرکسی طرح کا کوئی ذہنی اور جسمانی دباؤ بھی نہیں پایا جاتا۔
اب اپنی قوم کے اساتذہ پر بھی ایک نظر ڈالئے کہ جو لوگ قوم کے مستقبل کی تعمیر پر باز مامور ہیں وہ کس قدر اہل ہیں۔ تعلیمات کا شعبہ روزگار فراہم کرنے والا سب سے بڑا شعبہ ہے لیکن اہلیت انتخاب اور جوابدہی کے تناظر میں یہی شعبہ سب سے کمزور بھی ہے۔ ابتدائی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے والے اساتذہ اور منتظمین کی قابلیت کی اگر جانچ کی جائے تو مجھے یقین ہے کہ کم از کم نصف تعداد اپنے مضمون پر عبور اور تدریسی اہلیت میں نااہل ثابت ہوجائے گی۔ان حالات میں اگر بہترین نصاب مرتب کر دیا جائے ،تنخواہوں اور دیگر مراعات میں بھی سو فیصد اضافہ کردیا جائے تب بھی کوئی واضح فرق پیدا ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ہمیں ڈنڈا اور چھڑی لیکر طلبہ کے تعاقب میں لگے اساتذہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جن کی نگاہیں اور دل بچوں کی طرح تتلی اور مور کے رنگ اور پنکھ دیکھ کر مچل جاتے ہیں۔غباروں کو اڑتا دیکھ کر جن کی خوشیوں اور مسرتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔استاد جب تک بچوں کی کیفیت ،جذبات اور نفسیات کاا درک حاصل نہیں کر لیتا ہے تب تکسکھانا تودور ،پڑھانا اور بچوں سے قربت بھی حاصل نہیں کر سکتا ۔ (جاری ہے)
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...