نوید…کتنا سکون ہے، اس نام میں بس یہی ایک ہستی نے اس نازک ترین لمحوں کی جلن سے ٹھنڈک بخشی تھی۔ مگر کالج کی پڑھائی کے دوران وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تھے۔ اس نے میڈیکل میں داخلہ لے لیا اور نوید زندگی کے ہنگاموں میں نہ جانے شہر کب چھوڑ کر کہاں چلا گیا۔ ان ہنگاموں میں وہ پڑی پڑی ڈاکٹر بن گئی اور جلد ہی اُسے ایک اسپتال میں ملازمت مل گئی۔
ایک دن اس کی لیڈی پروفیسر اس کے وارڈ میں آگئی۔ شائد پرانا سال ختم ہورہا تھا۔ اور وہ رات نئی صبح کا استقبال کرنے کوبے قرار تھی۔ لیڈی پروفیسر نے اس کی جگہ پر ایک دوسری لیڈی ڈاکٹر کو متعین کرکے اپنے ساتھ اُسے لے گئی۔
لیڈی پروفیسر کی کار مشہور و معروف شاہراہ سے گذرتی ہوئی سنسنان راستوں پر دوڑنے لگی اور ایک جدید قسم کے ریستوران کے پاس آکر رُک گئی۔ جہاں چاروں طرف رنگ برنگی روشنیوں کے چھوٹے بڑے بلب روشن تھے۔ اور نیم عریاں ملبوسات میں حسینائیں اپنے نوجوان جوڑوں کے ساتھ رقص اور خوش گپیوں میں پیگ پر پیگ اُڑانے میں مصروف تھیں۔ اس ماحول کو دیکھ کر اُسے گھن سی آنے لگی اور اس نے محسوس کیا کہ یہ بھی کوئی تفریح کی جگہ ہے۔
چلئے اب رات زیادہ گھنی ہورہی ہے۔ واپس لوٹ چلتے ہیں اس نے کہا ٹھیک ہے چلتے ہیں۔ لیڈی پروفیسر نے جواب دیا وہ اس کے موڈ کو سمجھ گئی تھی۔ لہذا کار چلاتے وقت انہوں نے گفتگو کے موضوع کو بدل دیا۔ لیکن ان کی باتوں سے بے پرواہ وہ اپنے اس ہیولہ کے خوابوں میں کھوئی ہوئی تھی اور یہ سوچ رہی تھی کہ دُنیا کتنی بدل گئی ہے۔
اس کے پاکیزہ خیالات کے خوبصورت شیشے پر کسی نے ایک بڑا پتھر مارا تھا۔ وہ یادوں کے فرش پر پڑے ٹکڑوں کو جوڑ رہی تھی‘ سمیٹ رہی تھی۔ ان ٹکڑوں میں اس کے ماضی کی پاکیزہ کہانیاں تھیں۔ اس کے جذبات اور سوچ و فکر کی بھی تصویریں تھیں اور کبھی اس نے ہیولہ کے ہاتھوں کا لمس محسوس کر کے سرور حاصل کیا تھا اور اس کا وہ سرور کتنا بے زبان اور شرمیلا تھا۔
’’ زندگی ہے تو کیف و سرور بھی ہے۔ لیکن لذت ہی تو زندگی نہیں۔ موجیں دریا کے سطح پر اُبھرتی ہیں لیکن موج دریا تو نہیں۔ گویا نوید اس کا ہمراز تھا۔ راستہ چلتے وقت اس کے سوچ کے دائرے پھسلنے اور مسکرانے لگے’’ تم‘‘ آج بہت اُداس معلوم ہورہی ہو۔ شائد تمہاری پہلی محبت یاد آرہی ہے۔ لیڈی پروفیسر نے کہا… اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔جس میں لاشعوری طور پر اثبات کی دلیل تھی۔
’’ یہ ایٹمی زمانہ ہے افشاں ہے‘‘ چاند کیلئے تڑپنے والا چکور نہ جانے تھک ہار کے بیٹھا ہے۔ تمہارا سیارہ تو آسمان کی لا محدود اُونچائی پر جا کر نہ جانے کہاں گم ہوگیا ہے۔ اب اس کا انتظار کرنا اس کیلئے بیقرار رہنا تمہاری کم عقلی ہے۔ آج کے حالات کااستقبال کرو اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بدل ڈالو۔ اس کا نام زندگی ہے۔
پھر ایک سال کے بعد….ایسی ہی رات آئی….وہ رات کہاں تھی وہ تو اس کی زندگی کی صبح کی تھی۔ اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ہیولہ… ہا ں وہی نوید کہاں‘ کب اور کیسے اس کے ڈرائنگ روم کے صوفے پر بیٹھا مسکرا رہا ہے۔ اس کے کمرہ کی تنہائیاں اس کے مانوس قہقہوں سے گونج رہی ہیں۔ برسوں کے بعد آج اس کے مکان کا پر فضا ماحول‘ ریشمی پردوں کی سرسراہٹ‘اس کے خوابوں کے جزیرے کی یاد دلا رہے ہیں۔
’’افشاں‘‘ کھونے میں جو لذت ہے وہ پانے میں نہیں۔ زندگی کے جام سے اپنے لئے دو گھونٹ چرا لینا آسان ہے۔ مگر دوسروں کیلئے اس میں اپنے حصہ کی شیرینی ملا دینا بہت مشکل امر ہے‘‘۔ نوید نے نہایت متانت اور اطمینان سے جواب دیا۔
لیکن وہ کچھ نہ کہہ سکی۔ پھر لفظوں کا جال بنتے بنتے نوید نے افشاں کو اپنی بانہوں کے دائرے میں جکڑ کر خاموشی کا دائرہ کھینچ دیا۔ اس وقت افشاں نے محسوس کیا کہ’’ وہ سیارہ آسمان کی بلندیوں سے گزرتا ہوا اچانک ٹوٹ کر سمندر میں غرق آب ہوگیا ہے۔‘‘!