سن2002 میں جب پرائیویٹ چینلز لانچ ہوئے تو پیمرا (پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیریٹی اتھارٹی) کا قیام عمل میں آیا تاکہ ان چینلز کو ایسے ضابطوں اور قوانین کا پابند کیا جا سکے جو آئینِ پاکستان کے متقاضی ہیں ۔
آئینِ پاکستان کی قرارداد مقاصد میں مذکور ہے کہ حکومت ایسے اقدامات کو یقینی بنائے گی جو عوام کی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے میں معاون ثابت ہوں ۔ بہر حال پیمرا کا قیام خوش آئند اقدام تھا اور پیمرا کی جانب سے میڈیا کے لئے بنائے گئے اصول و ضوابط ایک اسلامی مملکت کے شایان شان تھے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ یہ قواعد وضوابط محض کاغذات کی زینت بن کر رہ گئے ۔مجھے یہ اس لئے کہنا پڑ رہا ہے کہ پیمرا کے پیش کردہ ضابطہ اخلاق میں مذکور واضح ہدایات اور شقات کے باوجود میڈیا چینلز اس سے کھلم کھلا انحراف کےمرتکب ہو رہے ہیں ۔
اشتہارات میڈیا ہاؤسز کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں اسی لئے ہر چینل کا بیشتر وقت ان کے لئے مختص ہے۔ اشتہارات کے لئے پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی شق 14 میں میڈیا مالکان کو پابند کیا گیا ہے کہ بے حیائی و فحاشی کی حوصلہ شکنی کی جائے اسلامی اقدار کے منافی پروگرامات اور اشتہارات پیش نہ کئے جائیں ۔ پھر 2015میں سپریم کورٹ کی جانب سے الیکٹرونک میڈیا کو پابند کیا گیا تھا کہ لائسنس دار اسں امر کو یقینی بنائے کہ کوئی مواد ایسا نہ ہو جو اسلامی اقدار و نظریہ پاکستان کے خلاف ہو نیز نا زیبا،اخلاق باختہ یا فحش گفتگو سے پرہیز کیا جائے ۔ اس وقت پیش کئے جانے والےاشتہارات جن میں بیوٹی کریمز، چائے اور موبائل فونز شامل ہیں ،مختصر لباس، نامناسب اچھل کود، نازیبا حرکات، ذومعنی انداز وبیان کا مرقع ہیں ۔ کچھ اشتہار تو ایسی پروڈکٹس کے ہیں جو خاص طور پرشرم وحیا کے زمرے میں آتے ہیں ان اشیاء کے اشتہارات معاشرے میں حیا و پاکیزگی کے چلن کو عام کرنے کی بجائے بے حیائی و فحاشی کو فروغ دے رہے ہیں ۔ جو پیمرا کے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔
بلاشبہ اشتہارات میڈیا چینلز کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں مگر اس کی آڑ میں ان چینلز کو فحاشی و بے حیائی کی اشاعت کی اجازت نہیں دی جا سکتی اس ضمن میں پیمرا کو چاہیئے کہ اپنا موثر کردار ادا کرےاور ضابطہ اخلاق میں مذکور قواعد و ضوابط پر اطلاق کو یقینی بنائے۔
آپ نے بلکل صحیح نشان دہی کی ہے ۔ پیمرا کو ان خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لینا چاہیے
کسی بھی ادارے کو کامیابی سے چلانے کے لئیے پہلے اس کے کچھ rules بنائے جاتے ہیں جن کے تحت وہ کام کرتا ہے، اور اگر ان rules کو follow نہ کیا جائے تو پھر یقینا” یہ اسکی ناکامی کی واضح دلیل ہوتی ہے، پھر ایسے ادارے باقی رہنا ریاست کی ناکامی ہے۔ اسی طرح پیمرا اپنے اصول وضوابط پہ خود ہی عمل پیرا نہیں۔ تو پھر اس ادارے کو بھی زیب نہیں دیتا کہ یہ اپنا سفر جاری رکھے۔ یا تو اپنے اصولوں پہ قائم رہے یا یہ ادارہ۔ہی بند کردیا جائے _
ضابطہ اخلاق ہمارے فاہدے کے لئے بنائے جاتے ہیں. یہ بات سمجہدار ذہں ہی سمجہ سکتا ہے. باغی ذہں ، خلاف جائے گا.
افسوس! کہ ہماری عوام اپنے ان دیکہے نقصان کو ترجیح دیتی ہے.
وہ قومیں ہی عروج پاتی ہیں جو اپنے اسلاف اور اقدار کو لے کر چلتی ہیں. اور جو قومیں دنیا کی بے راہ روی میں بہتی ہیں وہ گم ہو جاتی ہیں.
Boht behtreen tajzia kia. Tv ab family k saath dekhna na mumkin sa ho gaya he. Pakistan ko kis raah pe dala ja raha he. Nai nasal kin values ko follow karen ge??
بالکل ٹھیک لکھا آپ نے. عوام کے دلوں کی ترجمانی کردی. ہر کوئی پریشان ہے چینلز کی من مانی پر. سارا دن ان چینلز پر عقل سے ماوراء اشتہارات اور رات میں مذہبی عقائد کو پامال کرتے ڈراموں کی ڈرامہ بازیاں دیکھ کر سب ہی عاجز ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ہے. حقیقت یہ ہے کہ ان کو بھی حکومتی ڈنڈے کی ضرورت ہے.
safia naseem apnay bahtreeb tabsara kia ha waqai Tv channels family nai rahay fahashi phailanay walay Ad dance competition naye naslo ko tabah
karahay ha aur Allah k azab ko dawat day rahay ha inko fori rook dham ki zarurat ha
بہت اچھا تجزیہ ہے اس وقت واقعی ٹی وی چینلز کی حالت زار بے ہودگی اور بے حیائی کی تشہیر پر مبنی ہے ڈرامہ تو اپنی جگہ اب اشتہارات تک نا قابل برداشت حد تک بے حیا ئی کی دکان بن چکے ہیں ہماری انے والی نئی نسل کو باقاعدہ طور پر پلاننگ کے تحت بے راہ روی کی ترغیب دی جا رہی ہیں
صفیہ نسیم صاحبہ آپ نے بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے
واقعی اس وقت ٹی وی کے بیشتر پروگرامز اور کئی اشتہارات انتہائی بے ہودگی اور بے حیائی کا پلندہ ہیں. ان پروگراموں اور اشتہارات کو ساتھ دیکھنا تو درکنار اکیلے میں بھی نہیں دیکھا جا سکتا.
بلکل درست کہا اب فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی پروگرام اور اشتہارات نہیں دیکھ سکتے ہیں.
بلکل درست کہا آپ نے اب فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی پروگرام اور اشتہارات نہیں دیکھ سکتے ہیں.
بہت اچھی سوچ کی نماٸندگی کی ہے ۔اس وقت درحقیقت اشتہارات کی شکل میں ایک چیلنج درپیش ہے کہ جن اشیا ٕ کا شریف گھرانوں میں آپس میں ذکر تک کرنا بے حیاٸ سمجھاجاتا ہے انکے اشتہارات وہ بچوں کے ساتھ بیٹھ کے دیکھے اور انکے سوالات کا جواب دے۔
بہت اچھی سوچ ہے کی جہاں ڈرامےاور مرننگ شوز بے حیاٸ کے پرچارک ہیں وہاں اشتہارات نے تو تمام حدود ہی پھلانگ لی ہیں۔ اب بچوں کے گھر میں کیسے ٹی وی کھلے!!!!!
Very good article. Media is really out of control. Code of conducts are made to control things. Drama topics are too wierd and do not depict our society. Dressing in advertisements has become vulgar and ads are presented in a sensual way. WHY؟ How are we suppose to watch tv as a family entertainment ؟
bahtrren tabsara
Bohot behtareen tajzia
Allah hamare channel zimmedaran aur awam ko hidayat de Ameen
. Bohat behtreen tehreerhai.
اب ہمارے تمام.اشتہارات اور ڈرامے فیملی کے ساتھ تو کجا اکیلے میں دیکھنے کے لائق نہیں چھوڑے .اور پیمرا کی خاموشی کا مطلب ہے کہ یہ ادارہ ناکارہ ہو چکا ہے …
[…] دیکھ رہا ہوں یہاں پندرہ پندرہ سال کے بچے انڑنیٹ پر صرف اخلاق باختہ مواد دیکھنے میں مصروف ہے.مجھے ان صاحب کی بات سُن کر بہت […]