اسکول کا لفظ یونیورسٹی سے بھی زیادہ وسیع معنویت کا حامل ہے۔لفظ اسکول بیشک انگریزی سے مستعار لیاگیاہے لیکن کثرت استعمال سے اب یہ اردو قبیل کا ہی لگتاہے۔اسکول ایک ایسی کار گاہ ہے جہاں مردم سازی کا کا م انجام دیا جا تا ہے اور قلب و ذہن کو نور بخشا جا تا ہے۔اسکول انسان کو دولت احتساب سے آراستہ کرتے ہوئے انسانیت کی نگرانی و حفاظت پر ما مور کر تا ہے۔اسکول ایک متحرک اور فعال ادارہ ہو تاہے جہاں زندگی کا نمو اور حرکت دونوں پا ئے جاتے ہیں اسکولو ں کا جمود قوموں کے زوال کا با عث بنتاہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے زوال سے لیکر آزادی ہند اور ما بعد آزادی معدودے چند کہ آج تک ایسے اسکولوں کا مسلم معاشرے میں فقدان ہے جہاں سے قوم پروری کے نغموں کی صدا بلند ہوئی ہو اور مسلم قوم کی تعمیر کی بنیادوں کو استوار کیا گیاہو۔مسلم حکومتوں کے زوال کے بعد مسلمانان ہند فطری طور پر یا پھر ایک منظم سازش کے تحت احسا س کمتر ی کا شکار ہو گئے ۔ ایسے نا مساعد حالات میں ان کو جو نصاب تعلیم فرا ہم کیا گیا وہ ان کو صرف اور صرف غلام بنا سکتا تھا یہ تو ایک فاتح قوم کا مغلوب قوم سے برتاؤتھالیکن المیہ تو یہ ہے کہ آج مسلم معاشرے میں ایسے اسکولوں کی بہتات ہے جو کہ ہر وقت یہ اعلان نشر کرتے نہیں تھکتے کہ وہ قوم کی تعمیر اور اس کے استحکام میں ہر اول دستہ کا کام انجام دے رہے ہیں لیکن یہ مسلمانوں میں غیر متزلزل یقین اور حوصلہ پید ا کر نے میں نا کام ہوگئے ہیں جو کہ قوم مسلم کا خا صہ ہے۔ کسی بھی قوم و ملت کے مستقبل کی پرورش ان کے اپنے مدارس میں ہو تی ہے اگر وہ مدارس ہی مقتل کا کام انجام دیں تو انھیں کسی دشمن کی حاجت نہیں رہتی۔ مغرب جو آج جدیدیت کا علم بردار ہے او ر ہر کس و ناکس نے اس نام نہاد جدیدیت کو اپنے اوپر لاد رکھا ہے اورمغرب کی اندھی تقلید کو باعث افتخار سمجھا جا رہا ہے درحقیقت یہ غور طلب بات ہے کہ ہمارے مسلم اسکولوں میں آج جو نظام تعلیم رائج ہے اسے کس نے کب اور کیوں رائج کیا اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ جو مقاصد اغیار کے نظام تعلیم کے با نی کے تھے اگر وہی مقاصد ہمارے تعلیمی اداروں کے بھی ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ ا س نظام کو جاری رکھا جائے اور اس کی جزئی اصلاح ہی کا فی ہے۔ اکثر و بیشتر ذمہ داران مدارس کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ موجودہ تعلیمی نظام جس کے وہ مقلد ،خوشہ چیں بلکہ پیرو ہیں مسلم دشمن انگریز حکومت کے ایجنٹ لار ڈ میکالے کا رائج کر دہ ہے ۔ اس نظام تعلیم کا منشاء و مقصد واضح تھا کہ اس کے ذریعہ ایسے نوکر پیشہ افراد بلکہ ذہنی غلاموں کی فوج تیار کی جا سکے جو قومی حمیت کے جذبے سے عاری ہوں۔ آج ہمارے تعلیمی ادارے مغربی نظام تعلیم کو من و عن قبول کر تے ہوئے اور صرف دینی تعلیم کے ایک محدود و مخصوص مضمون کو نصاب میں داخل کرتے ہوئے اگر امید کر تے ہیں کہ اس سے ایک آزاد مسلم نسل جو نوکر ی پیشہ ہونے کے بجائے دنیا کی نیابت کا فریضہ انجام دے گئی تو یہ ایک خام خیالی نہیں تو اور کیاہے۔ مدارس میں بچوں کو اس لئے بھیجا جا تا ہے کہ وہ تعلیم و تر بیت سے آراستہ و پیراستہ ہو کر جہاں بانی کا کام انجام دیں گے اور خلق خدا کی خدمت ان کا نصب العین ہوگا۔ دالدین کے یہ مقاصد ہو نہ ہو اہل مدارس قوم سازی تو درکنار تعلیمی مقاصد بھی وضع کر نے میں نا کام ہو گئے ہیں۔ آج مسلم تعلیمی اداروں کا ایک وسیع جا ل وجود میں آچکا ہے لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ تمام ادارے شخصی اور ذاتی منفعت کے مقصد کے تحت وجود میں آئے ہیں ان کا قوم کی تعمیر و ملی وقار کی بحالی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کے بیشتر والیان و مالکان مدارس جن کا تعلیم و تعلم سے دور کا بھی رشتہ نہیں ہے وہ بھی تعلیم اداروں کے قیام کے ذریعے قوم و ملت کی مٹی پلید کرنے میں مشغول ہیں۔ آج کل تعلیمی اداوروں کے قیام میں غیر سنجیدہ اصحاب کو مصروف دیکھتے ہوئے ایک مشہور زمانہ واقع کا تذکرہ ضروری محسوس ہو تاہے کہ کس طرح تاجرین تعلیمات نے علم کی تعمیر ی طاقت کو محض حصول دولت کا ذریعہ بنالیا ہے۔ امکنہ اور آبکاری کے ٹھیکیدار دو دوستوں نے اپنے تعمیر ی اور آبکاری کی ٹھیکداری میں ہونے والے نقصانات کی پابجائی کے لئے تعلیمی تجارت اپنانے کا فیصلہ کیا ۔ دونوں نے مختلف شہروں میں اسکول قائم کئے تعمیری ٹھکیدار کا اسکول چل پڑا لیکن آبکاری کے ٹھیکدار کے مقدر میں یہاں بھی نا کامی لکھی ہوئی تھی ۔ آبکاری کے ٹھیکیدار نے نا کامی کا تذکرہ اپنے دوست سے کیااو ر تعلیمی تجارت میں اس کی کامیابی کا راز دریافت کیا۔ کامیاب دوست نے اپنے ناکام دوست کو بتا یا کہ یہ تجارت تو بالکل ہی آسان ہے ایک اہل صدر مدرس کے تقرر کے ذریعہ کامیابی با آسانی حا صل کی جا سکتی ہے کیونکہ ما باقی امور کی انجام دہی وہ خود کر لے گا۔ نا کام دوست نے سوال کیا کہ اچھے صدر مدرس کے انتخاب کا طریقہ کا ر کیا ہے۔پہلے دوست نے کہا کہ اس نے صدر مدرس کے عہدے کے لیئے اشتہا ر دیا اور امیدواروں سے بہت ہی کٹھن سوالات کیئے اور اسے ایک اچھا صدر مدرس مل گیا۔نا کام دوست نے انٹرویو کے با بت پوچھے جا نے والے سوالات کی نوعیت دریافت کی۔ کامیاب دوست نے بتایا کہ اس نے ایک سوال” آپ کے والدین کو ایک لڑکا ہے اور وہ آپ کا بھائی بھی نہیں ہے توبتاؤ کہ وہ کون ہے”۔دوسرے دوست نے قدرے اضطراب سے درست جواب کے بارے میں پوچھا۔تعمیر ی ٹھیکدار جو اب اسکول کرسپانڈنٹ بن چکا تھا کہتا ہے کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ خودد اگروال ہے۔ ناکام کرسپانڈنٹ کو تشفی ہوئی کہ اب وہ ایک قابل صدر مدرس کے انتخاب کے ذریعہ اپنی تعلیمی تجارت کو چمکاسکتاہے۔ اس نے بلا کسی تاخیر اخبارات میں صدر مدر س کی جا ئیداد کے لئے اشتہار دے ڈالا۔کئی لوگ انٹرویو کے لئے آئے جن میں لائق بھی تھے فائق بھی تھے اور چند جعلی اسنادات کے حامل بھی تھے اور چند کے پاس اعلی عہدوں پر فائز ارباب اقتدار کی سفارشات بھی تھیں۔ ان تمام میں ٹھیکدار نے ایک امیدوار کو پسند کیا جو کہ حکمران جماعت کے وزیر کاسفارشی بھی تھا ناکام کرسپانڈنٹ نے سوال کیا کہ بتاؤ کہ تمہارے والدین کو ایک لڑکا ہے اور وہ تمہارا بھائی بھی نہیں ہے تو وہ کون ہے۔امیدوار صدر مدرس نے کہا کہ صاحب آپ نے نہایت ہی مشکل سوال کر ڈالا آپ تعلیم سے متعلق سوالات کر یں کہ کس طرح سے شریر طلباء کا سامنا کیا جا سکتاہے اور کس طرح سے ایک کند ذہن طالب علم کو ذہین اور ہشیار بنایا جا سکتاہے۔ اس طر ح کے مشکل سوال کا جواب جو آپ نے پوچھا ہے میں نہیں دے سکتا۔پھربھی کیونکہ آپ نے سوال پوچھ ہی لیا ہے تو مجھے ایک دن کا وقت دیجئے کہ میں آپ کے سوال کا جواب دے سکوں۔اس دوران امیدوار صدر مدرسی نے کئی فہیم و ذکا اشخاص سے رابطہ قائم کیا لیکن کسی نے بھی اس کے سوال کا جواب نہیں دیا بالاخر اس نے اپنے ہم پیشہ دوست سے پوچھا کہ دوبے بتاؤ کہ تمہارے والدین کو ایک لڑکا ہے اور وہ تمہارا بھائی بھی نہیں تو وہ کون ہے۔دوبے نے فورا کہا کہ بے وقوف یہ تو بہت ہی آسان سوال ہے یہ تو میں خود ہوں۔ امیدوار صدر مدرسی بہت خوش ہو اور دوسرے دن اپنے باس کے پا س پہنچا اور کہا کہ جناب مجھے جواب مل چکاہے کہ وہ کون ہے۔ٹھکیدار نے پوچھا کہ بتاؤ وہ کون ہے صدر مدرس نے کہا کہ جناب وہ تو دوبے ہے اسکول کرسپانڈنٹ نے کہا کہ نہیں نہیں وہ دوبے نہیں ہے بلکہ وہ اگروال ہے۔یہ کہانی فرضی بھی ہو سکتی ہے لیکن آج کل بیشتر مدارس کے بانیان کا حال بھی اس کہانی سے مختلف نظر نہیں آتاہے لیکن تعلیمی ٹھیکداروں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ تعلیم تجارت نہیں اور وہ اس کو آلودہ نہ کر یں۔ اسی تناظر میں آکسفورڈ یو نیورسٹی کے ما ہر تعلیم پروفیسر ہاوف میان شدت سے محسو س کر تے ہیں کہ تعلیم سے وابستہ افرادو اداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ تعلیمی اقدار سے سر موئے انحراف نہ کر یں ۔ عہد حاضر کے اسکولوں کی فعالیت ان کے لئے شدید تکلیف کا باعث ہے کہ نا لائق اسکول انتظامیہ اور غیر تعلیم یافتہ و غیر تجربہ کار اساتذہ کے ہا تھوں طلبا کا نا قابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔وہ اس بات کے موئید ہے کہ ا سکول انتظامیہ تعلیمی اقدار اور مقاصد کا لحاظ رکھیں اور ان پر عامل بھی ہوں۔ اور جو یہ نہیں کر سکتے ہیں ان کو اس مقدس پیشہ سے دور ہی رہنا چاہیئے۔مسلمانوں کی تعمیر و ترقی میں تعلیمی اداروں کا کردار ایک اہم مسئلہ ہے قوم مسلم کے زوال و پسماندگی کا سبب صحت مند فکری رجحان کے حامل اسکولوں کا فقدان ہے عصری علوم کی تر ویچ میں مصروف اسکول و تعلیمی ادارے فکری طور پر مفلوج نظر آتے ہیں ہمارے سیاست داں، مفکرین اورعلماء تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دے رہے ہیں جس کی وہ متقاضی ہے۔ تعلیم کو جتنی اہمیت اسلام دشمن طاقتوں نے دی ہے اس کا عشرہ عشیر اہمیت بھی آج ہم دینے سے قاصرہیں۔ارباب علم و دانش یعنی کہ ذمہ داران مدارس کو چاہیئے کہ مغرب کی اندھی تقلید کو اپنا شعار نہ بنائیں بلکہ عصری علوم و فنون میں اجتہادی بصیرت پیدا کریں فکری غلامی کی بندیشوں کو توڑ کر اپنے مدارس کا نصاب اسلامی اصولوں کی روشنی میں متعین کر یں۔عصری جدید علوم کے سسٹم اور نصاب کو از سر نو ترتیب دیں۔ مدارس کی فضاء کو عین اسلامی ما حول کے مطابق بنائیں۔ تمام علوم کو مادہ پرستی کی لعنت سے پاک کریں اور ان کو اسلامی افکار کے مطابق ڈھالیں۔ان اقدامات کے بغیر مسلمانوں کی تعمیر و تشکیل مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتی ہے۔ سچ ہے کہ یہ کام نہایت دشواراور صبر طلب ہے اور مکمل نظام تعلیم کی تبدیلی کے لئے ایک لمبا عر صہ بھی درکار ہوگا۔ہو سکتاہے کہ اس کام کی تکمیل میں ہماری اپنی زندگی کھپ جائے اور یہ حقیقت ہے کہ قوم کی تعمیر اور انقلاب کی پرورش کے لئے ہمیشہ وقت لگتاہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ لارڈ میکالے کے ۵۷ ۸ ۱ میں لگائے گئے تعلیمی پودوں کے کڑوے کسیلے پھل آج تک معاشرے کو بد مزہ و پراگندہ کر رہے ہیں اور اگر پھر بھی ہم آرام طلبی کی وجہ سے اس متبرک کام کو پس پشت ڈال دیں تو ہم آنے والی نسلوں کے مجرم کہلائیں گے۔یہ با ت نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ ا ب صرف ایک پیریڈ(گھنٹہ) مذہبی تعلیم دینے کا نہیں رہا۔آج جو نظام تعلیم ہمارے مسلم اسکولوں اور کالجوں میں رائج ہے ان کو مکمل بدلنا پڑے گاجس کی وجہ سے ہم قومی خودداری اور ملی شعور سے محروم ہو گئے ہیں ہمیں اس تعلیمی نظام سے گلوخلاصی کی ضرورت ہے جس نے ہم کو مغرب کا فکری غلام بنادیا۔آج یہ با ت لکھتے ہوئے ہچکچاہٹ نہیں ہو تی ہے کہ اسکولوں سے تعلیم و تر بیت مفقود ہوچکی ہے یا پھریہ مغربی تسلط اور غلط طریقہ کار کی وجہ سے بے اثر ہو چکی ہے۔مسلم مدارس آج اپنی مقصد یت کو کھو رہے ہیں ان کی تر جیحات بدل گئی ہیں بانیان مدارس کے لئے تعلیم و تدریس ایک پیشہ بلکہ تجارت بن گئی ہے ما ضی میں مسلم درس گاہیں صرف کتابی علم کا مر کز نہیں تھیں بلکہ یہ ملی تعمیرکی فیکٹریاں ہوا کر تی تھیں۔تعلیمی اداروں کے سیاہ و سفید کے ما لک در س گاہوں کا جائزہ لیں اور اندازہ کر یں کہ یہ درس گاہیں جو ما ضی میں مردم سازی کا کا م انجام دیتی تھیں وہ مقصد تعلیم و تربیت سے کتنی دورجاچکی ہیں اور تعلیمی تجارتی منڈیوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔تعلیم کا نظام اسلام کے دور اولیں سے حکمراں طبقہ اور دولت مند گھرانوں کی ذمہ داری تصور کیا جا تا تھالیکن آج کے معاشرے میں ایسا لگتاہے کہ دولت مند گھرانوں سے سخاوت کا جنازہ نکل چکاہے اور وہ قوم کی تعلیم و تربیت میں اپنا تعاون نہیں کے برابر ادا کر رہے ہیں جسکی بنا پر معاشرہ طبقاتی کشمکش کا شکار ہوکر رہ گیاہے۔متمول اور دولت مند گھرانوں کو چاہیئے کہ ملت کے وقار کی بحالی کے لئے ابتدائی تعلیم سے لیکر اعلی تعلیم تک تعلیمی ادارے قائم کر یں اور ان کی کفالت کی ذمہ داری بھی لیں تبھی وہ اللہ کے پاس اجر کے مستحق ہو ں گے۔والدین اس بھروسے کے ساتھ اپنے بچوں کو مدارس کا رخ دکھارہے ہیں کہ وہ فراغت کے بعد دین ود نیا میں نام کمائیں گے اب یہ اہل مدارس کا کام ہے کہ ان نا تراشیدہ قیمتی نگینوں کو اپنی کار گاہ مہارت میں چمکاکرانمول بنا ئیں اور اس بات کا خا ص خیال ر کھیں کہ یہ نگینے اگر ایک بار چٹک گئے تو پھر کوئی طاقت ان کو جوڑنہیں سکتی۔
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...