پہلے تولو،پھر بولو

کسی بھی فوج کے سپہ سالار ،امیر، کمانڈر یا لیڈر کیلئے ضروری ہے کہ وہ دور اندیش ہو معاملہ فہم ہو علم بھی رکھتاہو اور امانتدار ہو اور حفاظت کرنے والا بھی ۔

عرب کے جاہل ترین معاشرے نے نبی محمدﷺ  کی امانتداری کی خوبی کو خوبی کے طور پر پہچانا اور حجر اسود کے نصب کرنے کے موقع پر سب پکار اٹھے امین آگئے امین آگئے.

پھر بعثت کے ابتدائی ایام میں مکے میں صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر نبی محمدﷺ  جب اسلام کی دعوت کیلئے لوگوں کو پکارتے ہیں یا صباح اور لوگوں کے مجمع سے مخاطب ہوتے ہیں اور کہتے کہ اگر میں تم سے کہوں  کہ پہاڑ کے پیچھے سے دشمن  کی فوج آرہی ہے تو کیا تم اس بات کایقین کروگے اس وقت مجمع میں موجود تمام افراد آپؐ کی سچائی کی گواہی دیتے ہیں۔

ہجرت کا موقع آتا ہے اور مکےکے کفار جس ہستی کی جان لینا چاہتے ہیں ان کے پاس ہی شہر بھر کی امانتیں ہوتی ہیں۔جسے حضرت  علی ادا کرنے کے بعد ہجرت کرتے ہیں ۔

سچائی  اور ایمانداری لیڈر کی شان ہوتی ہے۔لیڈر ان صفات  سے مالامال ہوتے ہیں اور اسی کی مثالیں ہمیں دیگر انبیاء کرام کی سیرت سے ملتی ہیں ۔بنی اسرائیل  حضرت موسی علیہ السلام کے دور کو عہد زریں کہتے ہیں جبکہ  بنی اسرائیل  کے عروج کا دور حضرت یوسف علیہ السلام  کا دور ہے اور اس دور کی شروعات اس طرح ہوتی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے سے نکلنے کے بعد عزیز مصر کو یہ پیشکش  دیتے ہیں کہ (جس پر قرآن پاک سورہ یوسف میں گواہی دے رہا ہے ) “آپ ملک کے خزانے  میرے سپرد کر دیجئے میں حفیظ بھی ہوں اور علیم بھی۔“

سچائی  ،امانتداری ،دیانتداری  اور اپنے قول کا پکا ہونا انبیاء علیھم السلام کی صفات ہیں ان صفات کا نہ ہونا منافق  کی نشانی ۔

تو پھر آج  نام نہاد لبرل طبقہ اور نام نہاد عالم دین کس طرح عمران خان کے یوٹرن کا دفاع  کررہے ہیں جبکہ اسلام کہتا ہے کہ مومن تو وہ ہے کہ جب بات کرے تو سچ بولےاور وعدہ کرے تو وعدہ خلافی  نہ کرے اور یہ کہاوت بھی ہے کہ پہلے تولو پھر بولو۔

میرا وزیر اعظم عمران خان کو صرف ایک مشورہ ہے کہ آپ کے ارد گرد موجود کرپٹ اور خوشامدی ٹولہ آپ کی حکومت کو چلنے نہیں دے گا اور یہ وہی طبقہ ہے جو آج آپ کی حکومت میں ہیں اور کل یو ٹرن لیکرکسی دوسرے کی حکومت میں شامل ہوجائینگے اور ایسے لوگوں  کو کیا کہتے ہیں آپ خوب سمجھتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ فوراً  سے پہلے اپنے لئے ایک سچےدیندار، دیانتدار  اور معاملہ فہم شخص کی خدمات حاصل کرلیں جیسے عزیز مصر نے حاصل کی تھیں۔ان کی صحبت  میں رہتے ہوئے آپ کی اپنی صفات نکھر کر سامنے آئینگی اور اس ملک کی گاڑی چل پڑے گی ورنہ جس طرح کے اقدامات آپ کی حکومت اٹھا رہی ہے کہ اللہ تعالی اس شر سے اس ملک کو محفوظ رکھے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں