ماہ ربیع الاوّل کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف در و دیوار برقی قمقموں سے سجائے جا رہے ہیں۔۔۔
مبارکباد دی جارہی ہیں۔۔۔
اک نئی عید کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔۔۔
عشق رسول کے بلند بانگ دعوے کیے جا رہے ہیں۔۔۔
منبر و محراب سے سیرت النبیؐ بیان ہو رہی ہے۔۔۔
گویا منظر کچھ بدلا بدلا سا ہے،
لیکن بات کچھ اس طرح ہے کہ خوشی بجا کیونکہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ اے بنی انسان تم پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ہم نے تم کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیے۔۔۔
محبت کے سب دعوے بجا۔۔۔
سیرت میں زلف و رخسار مبارک کی باتیں بجا۔۔۔
لیکن کیا سال میں کچھ دن یوں محبت کے خالی خولی اور ڈھونگ دعوئوں سے محبت کا حق ادا ہو جائیگا؟؟؟
کیا گھروں پر چراغاں کرنے سے مردہ دل میں بھی کوئی ایمان کی حرارت جاگے گی؟؟؟
کیا صرف صورت رسولؐ بیان کر کے سیرتِ رسولؐ کا حق ادا ہو جائیگا۔۔۔۔؟؟؟
نہیں کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔!!!!
کسی بھی صورت میں نہیں۔۔۔۔!!!
۔۔۔۔کیونکہ۔۔۔
کیا فائدہ اس چراغاں کا کہ دلِ مردہ میں حبِ نبی صلی الله عليه وسلم کی لو نہ جل سکے؟؟؟
کیا فائدہ اس محبت کا جو زبان سے تو بیان ہو لیکن حلق سے نیچے نہ اترے ہمارے جسم و جاں اس عشق میں رنگے نہ جا سکیں؟؟؟
کیا فائدہ اس سیرت النبیؐ کے بیان کرنے کا کہ جس میں نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی زلف کا ذکر ہو رخسار کا تو ذکر کر کے عوام سے داد وصول تو کروا لی جائے واہ واہ کے ڈونگرے برسا لیے جائیں لیکن نبی مکرمؐ کی سیرت سے حسن اخلاق اور دیگر اقوام کے ساتھ سلوک کو بیان نہ کیا جائے۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کو بیان نہ کیا جائے۔۔۔ ان کا، رحمتِ عالمؐ ہونے کے خصائص بیان نہ کیے جائیں۔۔۔
ہاں سب کچھ بجا تم عشق و محبت میں سب کچھ کرو لیکن خدارا اس محبت کو در ودیوار اور ممبر و محراب، زبان و کلام، بیان و انداز سے نکال کر ذرا اس دل میں بھی جگہ دو پھر دیکھو کہ کیسے یہ محبت اپنا رنگ چڑھاتی ہے؟؟؟
دیکھنا کہیں گھروں کو روشن کرتے رہو اور دلِ مردہ اسی طرح بجھا رہ جائے تو پھر یہ دعوے کسی کام کے نہیں رہیں گے ہمیں تو اس شعر کی عملی تفسیر بننا پڑیگا تب جا کر بات بنے گی۔۔۔
مصور کھینچ وہ نقشہ جس میں یہ صفائی ہو
ادھر ہو فرمانِ محمدؐ ادھر گردن جھکائی ہو