اقدام ہی بہترین دفاع ہے

انگریزی کی مشہور مثل ہے کہ ’اَفنس اِز دا بسٹ  ڈِفنس ‘۔اگر ہمیں عزت و عافیت کے ساتھ  زندہ رہنا ہے تو اپنی استطاعت بھر حصول قوت کے سوا نہ کل کوئی اور مطلوب و  مستحسن طریقہ تھا ،  نہ آج ہے  ۔

’’اور تمہارا جہاں تک بس چلے ،زیادہ سے زیادہ قوت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے دشمنوں کو ،اپنے دشمنوں کواور اُن دشمنوں کو خوفزدہ کر سکو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے (کہ وہ تمہارے دوست نہیں ،دشمن ہیں ) تم اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹا دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہو گا ( سورہ انفال آیت ۶۰)‘‘

حصول قوت کا اقدام پہلے بھی بہترین دفاع تھا اور آج بھی ۔قرآن  کریم نے  اللہ کی دی ہوئی جان اور اللہ ہی کے عطا کردہ مال کے تحفظ کے لیے ہی ہر مسلم و مؤمن کو اپنے امکان بھر قوت کے حصول کا حکم دیا ہے اور اس ایک لفظ میں قوت کی جتنی قسمیں اس عالم امکان میں موجود ہیں وہ سب شامل ہیں   ۔علم کی قوت ،اپنے علم پر حسب توفیق و استطاعت عمل  کرنے کی قوت ،معاش و اقتصاد کی قوت ،بازوؤں کی قوت اور خارجی آلات کی قوت جس میں حرب و ضرب   ودفاع کا ہر امکانی وسیلہ شامل ہے ،اور پھر

’’اے ایمان والوجب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو ،توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی لہٰذا صبر سے کام لو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (الانفال ۴۵۔۴۶)‘‘

’’کیا تم ان سے ڈرتے ہو حالانکہ اگر تم مؤمن ہو تو اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو (توبہ ۔۱۳)اور ’’ اے ایمان والو !اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گےتو وہ تمہارے لیے ایک ایسی کسوٹی (معیار ،فرقان )فراہم کر دے گا (جس سے تمہارے اندر  حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت  پیدا ہو جائے گی )وہ  تمہاری برائیوں کی پردہ پوشی کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا اور اللہ تو بڑا فضل کرنے والا ہے (انفال ۲۹)’’اور جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کا کوئی راستہ ضرور نکال دیتا ہے   (یعنی جو بھی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی  نہ کوئی راستہ ضرور پیدا کردے گا)اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ جا تا ہو اور جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے کافی ہے کہ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے اور اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک مقدار مقرر کر رکھی ہے (سورہ طلاق ۲۔۳)‘‘ اور متفق علیہ صحیح حدیث ہے کہ ’’جو اپنی جان کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ۔۔اور جو اپنے مال کے دفاع میں مارا گیا وہ بھی شہید ۔۔‘‘

لیکن صرف ہم ہی نہیں دنیا کے تمام مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو ’مہجور ‘بنا رکھا ہے ۔پڑھتے تو ہیں لیکن  سمجھ کے نہیں پڑھتے اور جب سمجھتے ہی نہیں تو عمل کوکون روئے ۔

ہمارے ساتھ آج وطن عزیز سمیت پوری دنیا میں اور بالخصوص چین ،میانمار اور مغربی ایشیا میں ہورہا ہے ۔اگر ایک طرف  ان کا سبب ہماری ہی بد اعمالیاں ،بے اعتدالیاں ،بد اخلاقیاں اور مختلف طرح کی انتہا پسندیاں  ہیں  تو دوسری طرف ہماری حد درجہ بے حسی ،بے عملی اورایثار و انفاق سے عاری بدترین خود غرضی کا نتیجہ ۔

عزیزی برہان فتح محمد کے دل کا یہ درد ہمارا بھی ہے  کہ ایک طرف توہمیں اپنے مدارس سے کثیر تعداد میں ایسے فارغین نہیں ملتے جو ہر طرح کے تعصب سے پاک ہوں ،جو اختلافات میں الجھے رہنے اور دوسروں کو بھی  اسی میں پھنسائے  رکھنے کے بجائے خود کو مسلم کہنے والے سبھی مراجع سے اعلیٰ ظرفی اور کشادہ دلی سے استفادہ کرتے ہوں  اور وسعت نظری سے اسلام راستین کے  قرآنی ضابطہ حیات  اور صحیح و خالص اُسوہ حسنہ کی ترجمانی پر قادر ہوں ،جو  اپنے سوا دوسرے مسلمانوں کی آرا کے بھی  قدر داں  ہوں اور جن کے دم سے مسالک نہیں دین ِ ،یعنی اللہ کا پسندیدہ دین ،اسلام پروان چڑھے !اس لیے کہ دین میں مسلک ہیں ،مسلک میں دین نہیں ہے ! اور یہ کہ دین ہے تو مسلک بھی ہے ورنہ دین کے بغیر مسلک کس کا ؟

اصلاح فساد ،استیصال ِ ظلم اور قیام انصاف  کی ہماری کوششیں اس وقت تک بار آور نہیں ہو سکتیں جب تک ہمارے مدرسوں ،کالجوں ،جامعات ،دار ہائے علوم اوریونیورسٹیوں سے  فارغ طلبا کی ایسی کھیپ بر آمد نہ ہو جو اپنی صحیح قرآنی (اسلامی) فکر کے ساتھ اپنے اپنے مضامین اختصاص کی ماہر بھی ہو۔ہماری  یہ مہارت دوسروں سے افضل اس لیے ہونی چاہیے کہ ہم  علم نافع کے امین ہیں ۔بنی نوع انسان اور انسانیت کے لیے غیر مفید اور غیر نفع بخش علم کا اسلام دین اللہ سے کوئی واسطہ نہیں ۔یہی ہماری پہچان تھی جو پچھلے پانچ چھے برسوں میں تقریباً گم ہو چکی ہے ۔جو علم اور جو تعلیمی ادارے ہمارے اہل علم و دانش کو اس شناخت سے محروم کریں وہ نہ صرف امت  مسلمہ عالمیاں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے آخری حد تک مضرت رساں ہیں ۔یہ سارے ایٹم اور ہائڈروجن بم ،کیمیاوی اور حیاتیاتی اسلحے اور عظیم و کثیر تباہی والے سبھی ہتھیار (WMDs)اسی علم ِ غیر نافع یا علم کے غیر مفید انسانیت دشمن استعمال کا شاخسانہ ہیں جس کی اسلام ہر گز اجازت نہیں دیتا ۔

برادرم جاوید فلاحی کا یہ مشورہ صائب ہے کہ علمائے کرام ،واعظین عظام اور تمام اہل علم و قلم کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ ملت کے اجتماعی شعور کو زندہ کریں اور اہل ثروت میں یہ شعور پیدا کریں کہ وہ ہر قیمت پر اسراف سے  خود کو بچائیں اور دوسروں کے لیے حقیقی قرآنی ’انفاق فی سبیل اللہ ‘ کا عملی نمونہ بنیں۔ وہ اپنی حلال کمائی کا غالب حصہ عبادت گاہوں کی غیر ضروری  اور اسراف کی حد میں آنے والی تزئین و آرائش پر صرف کرنے کے بجائے  اور ایک بار فریضہ حج و عمرہ کی ادائگی کے بعد ہر سال حج اور نفلی عمرہ کرنے اور ہر سال عتبات عالیات کی زیارت کرنے کے بجائے ملک ،ملت اور سماج  کی تعلیمی ترقی  ،تہذیبی و ثقافتی اور علمی ورثے کی حفاظت اور علمی  و معاشی میدان میں پسماندہ و درماندہ لوگوں کی  مدد کرنے کے لیے خرچ کریں ۔یہ وہ کام ہیں جنہیں عصر حاضر کے ہر سیاسی ،معاشی  اور عدالتی نظام  نے نظر انداز کر رکھا ہے ۔یہ سبھی کام اُن تمام نام نہاد دینی کاموں سے بہتر ہیں جن پر مخصوص حالات میں ثواب کا وعدہ اگر ہے بھی تو وہ کام  ثواب ِجاریہ کے زُمرے میں بہر حال نہیں آتے بلکہ جس شکل میں اور جن سماجی حالات میں وہ سارے کام کیے جارہے ہیں اُن میں  ثواب کے بجائے عذاب کے موجب بننے کے امکانات کہیں زیادہ ہیں ! لیکن نافع علم کے سیکھنے اور سکھانے اور اللہ کے دیے ہوئے مال اور جانوں کی حفاظت کی خاطر حصول قوت میں صرف ہونے  والا مال تو اللہ کی راہ میں خرچ کیے جانے والے مال کے برابر ہے ۔اللہ سبحانہ کا یہ وعدہ سورہ انفال کی آیت ساٹھ میں صراحتاً موجود ہے !

سورہ  ءا َنفال کی مذکورہ  آیت ساٹھ میں اپنے امکان بھر حصول قوت کے عام حکم کے ساتھ رباط الخیل کا بھی ذکر ہے  یہ وہ مخصوص جنگی گھوڑا ہے جو آج بھی صرف اتنی ہی رقم میں مل جاتا ہے جتنی ایک ماروتی ۔۸۰۰خریدنے میں صرف ہو سکتی ہے لیکن اس کی جو خصوصیت ہے وہ دنیا کے کسی اور نسل کےگھوڑے (یا پالتو مویشیوں میں ) نہیں پائی جاتی کہ ’رباط الخیل‘ ‘ نام کا گھوڑا اپنے مالک کے دشمن کی آمد کو اکیس کلو میٹر (یا  اکیس میل )دور ہی  سے بھانپ لیتا ہے اور اپنے طریقوں سے اپنے مالک کو ہوشیار کر دیتا ہے ! اس کی تفصیلات لندن میں شایع ’انسائکلو پیڈیا آف ہارسز ‘میں رباط الخیل کے ذیل میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں