سودن کی حکومتی کارکردگی اورمنڈلاتے خطرات

وزیراعظم فرماتے ہیں :یوٹرن لیے بغیرکوئی بڑالیڈرنہیں بن سکتا،موصوف کوخود بھی بڑالیڈرہونے کا دعویٰ ہے،سووہ بھی یوٹرن لینے کا ہنرجانتے ہیں،جس کے شواہد محتاج بیان نہیں۔ صدر صاحب کیوں پیچھے رہ جاتے،سوانھوں نے بھی ہانک لگادی:میں نے سیاسی زندگی میں کئی کئی باریوٹرن لیاہے۔اگریوٹرن لیناسب سے بڑالیڈر ہونے کی نشانی ہے تو ہم درجہ وار پہلانمبرآصف علی زرداری کو،دوسرا فواد چوہدری کو اور تیسرامحترم وزیراعظم کو دینے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔اگر دینی سیاست کی بات کی جائے تو ڈاکٹر طاہرالقادری اس میدان میں لاثانی ہیں اور اگر سیاست کا یہی چلن رہا،تولافانی بھی وہی رہیں گے۔اس یوٹرن کی سیاست کی کوکھ سے مزیدکیاکچھ جنم لیتاہے؟
پردہ اٹھنے کی منتظرہے نگاہ
دیکھیے کیا دکھائے ہے یہ سین
فی الحال تواسرائیل کوتسلیم کرنے کے ایسے ایسے دلائل تراشے جارہے ہیں کہ تاریخ عالم اورحق وصداقت کو دانتوں پسینے آجائیں،ابلیس بھی شرماجائے اور خود اہل اسرائیل بھی اپنے پاکستانی دوستوں کی دانش وبینش پر عش عش کراٹھیں کہ گُرو!یہ باتیں تو ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھیں۔ان خودساختہ دلائل کی دھند میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے خیالات کا کوئی پاس ولحاظ ہے اور نہ ہی دیرینہ دوست سعودی عرب کا کوئی خیال،بلکہ چوں کفرازکعبہ برخیزدکے مصداق خود سعودیہ کے قصرسلطنت سے بھی اسرائیل کے حق میں آوازیں ہی نہیں سننے کو مل رہیں،باقاعدہ اقدامات بھی ہورہے ہیں ۔
دختر قو م وملت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے سلسلے میں کچھ خوش کن خبروں کی امید تھی،وہ بھی دم توڑ گئی ہے ۔بہن فوزیہ صدیقی جس جوش وجذبے سے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کرنے گئی تھیں،واپسی میں مایوسی کی باتیں کررہی ہیں۔اللہ کرے،ہماراتاثر غلط ہو،لیکن دیوار پرلکھی حقیقت سے نظریں چرانے سے وہ بدل نہیں جایا کرتی،امید کی جارہی تھی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اپنے مجوزہ خط میں عمران خان سے جو توقعات باندھی ہیں،کپتان ان پرپورااترنے کی کوشش کریں گے،لیکن بات آگے بڑھتی نظر نہیں آرہی۔حکومت کی نفسیات کچھ اس قسم کی ہیں کہ اس ایشو کو لے کر پوائنٹ اسکورنگ بھی ہوتی رہے اورکرنا کرانا بھی کچھ نہ ہو۔
انڈسٹری کی حالت یہ ہے کہ چھوٹے سے لے کربڑے تاجرتک،گاہک سے لے کردکان دارتک،سپلائر سے لے کر ہول سیلرتک،حتی کہ پتھارے لگاکر اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کا سامان کرنے والے مزدور سے لے کرکھیتوں میں ہل جوتنے والے کسان ودہقان تک،سبھی پریشان ہیں۔سب غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں۔ٹیکس پر ٹیکس او رٹیکس وصولی کے جوش میں غریب کے چولہے کو بجھانے والے اقدامات،پہلے بچت بازاروں اور یوٹیلٹی اسٹوروں کی بندش اور اب تجاوزات کے خاتمے پر نصف صدی سے قائم کاروبارکی مسماری،مہنگائی وگرانی کا عفریت،غرض کچھ بھی اچھے مستقبل کا پتا نہیں دے رہا۔
شہر قائد کی بات کیجیے،توپانی کی لائنیں سوکھے تو عرصہ ہوگیا،اب پانی کے حصول کے دوسرے ذرایع مثلاً:فلٹر پلانٹس،ٹینکروغیرہ بھی نشانے پر ہیں۔ظاہر میں یوں نظر آرہاہے کہ غربت کو ختم کرنے کے لیے غریب کوختم کرنے والی پالیسی پر عمل کیا جارہاہے۔لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی اسی تیزی سے بڑھ رہاہے،جس تیزی سے بلوں کی مالیت میں اضافہ ہورہا ہے۔شہر قائد کے باسی بھتا مافیا اوردہشت گردوں سے نجات پر بڑے مسرور تھے،مگر یہ نعمت بھی اب خطرے میں لگ رہی ہے۔رینجرزکے دم سے ہی یہ امن وامان کی فضا قائم ہے۔اس کے لیے دیرپا اور سنجیدہ اقدامات دور دور تک نظر نہیں آتے۔حکومت کے سو دن کی کارکردگی کے بارے میں فواد چوہدری جتنے بھی بلند بانگ دعوے کریں،خد الگتی کہیے توتیل کی دھارجس رخ کی نشان دہی کررہی ہے،وہ خوش کن نہیں۔مولانافضل الرحمن کی باتوں کوذاتی رنجش کہہ کرمستردکرنادن بدن مشکل ہوتاجارہاہے۔
مانا،کہ آسیہ مسیح کے کیس میں دیاجانے والافیصلہ بیرونی دباکانتیجہ تھا۔۔۔۔لیکن اس کے بعدتواترسے جوکچھ ظہورمیں آرہاہے،اس میں حکومتی بیانات اوراقدامات سے شکوک مزیدگہرے ہوتے جارہے ہیں۔وزیراعظم صاحب نے قوم سے خطاب میں اس فیصلے کی تائیدکی۔اس کی تاویل کی جاسکتی تھی کہ یہ پیرافضل قادری کے فوج اورریاست مخالف بیان کافوری ردِعمل تھااورفی البدیہہ تقریرکے جوش میں کچھ زیادہ بول گئے۔لیکن تواترسے ایسے بیانات اوراقدامات،فوادچوہدری کوتوچلیں قوم سنجیدہ نہ بھی لے۔۔۔۔لیکن،پہلے وی وی آئی پی شخصیات کی سیکورٹی سے باریش اہل کاروں کوہٹانا، اس کیس کی سماعت کرنے والے جج حضرات کے محافظ اہل کاروں کی جانچ پڑتال،ان کے حلیے سے آگے بڑھ کرباقاعدہ ان کے مسلک وفرقے اوردینی رجحانات کے بارے میں انٹرویوز،کم ازکم ریاستِ مدینہ میں ایساتوکچھ نہیں تھا۔وہاں اس بات کاتصوربھی حرام کے درجے میں تھاکہ کسی بیرونی دباکوخاطرمیں لایا جائے۔ ریاستِ مدینہ کے اولین حکم ران سرکاردوجہاںﷺکاتوحکم تھاکہ گستاخِ رسول کوقتل کیاجائے۔فتح مکہ کے موقع پربھی گستاخِ رسول کسی رعایت کامستحق قرارنہ پایاتھا،جب بڑے بڑے دشمنوں کے لیے بھی بارگاہِ رسالتؐ پناہ سے امن کے پروانے جاری ہورہے تھے۔ایک طرف اعلان تھا:جواپنے گھرمیں بیٹھارہے اسے امان ہے،جوابوسفیان کے گھرمیں پناہ لے اسے امان ہے اوردوسری طرف منادی ہورہی تھی:عبداللہ ابن خطل اگرکعبے کے مقدس غلاف سے چمٹاہوابھی مِل جائے تواس کی گردن اڑادو۔اسی ریاستِ مدینہ کے دوسرے حکم ران پہلے خلیفہ راشدؓگستاخانِ رسولﷺ ومدعیانِ نبوت کی سرکوبی کے لیے لشکربھیجتے ہوئے نصیحت فرماتے تھے:اگرتمھیں خبرملے کہ دشمن نے مدینے پرحملہ کردیااورہمیں تہہ تیغ کردیاہے یہاں تک کہ جنگل کے درندے ہماری بوٹیاں نوچ رہے ہیں،تب بھی واپس نہ آنا۔ریاستِ مدینہ میں گستاخِ رسولﷺ کی توایک ہی سزاتھی کہ اس کے ناپاک وجودسے اس دھرتی کوپاک کردیاجائے۔آپ کے دعوے ریاستِ مدینہ کے ہیں اورآپ نے پوری ریاستی مشینری کوایک گستاخ عورت کے دفاع میں لگارکھاہے۔آپ بجائے ریاست کی طرف سے نظرثانی کی اپیل دائرکرنے کے تواترسے فرمارہے ہیں:ریاست عدالتی فیصلے کے ساتھ کھڑی ہے۔وہ عدالتی فیصلہ جس نے ہرمسلمان کے دل کوچھلنی کردیاہے،جس پرخوشی کے شادیانے واشنگٹن اورویٹی کن،آئرلینڈاورہالینڈ،اٹلی اوردہلی میں بجائے جارہے ہیں۔خان صاحب!یہ قوم پیٹ پرپتھرباندھ سکتی ہے،بھوکی رہ سکتی ہے،لیکن آقاؐ کی عزت وناموس پرسمجھوتانہیں کرسکتی،اس کے عوض ملنے والی خوش حالی پرچارحرف بھیجتی ہے۔
آقاﷺکے غدارکواللہ تعالی اسی دنیامیں نشانِ عبرت بناتاہے۔زیادہ دورکیوں جاتے ہیں،مسلم لیگی حکومت نے بھی ایک عاشقِ رسول ﷺکے معاملے میں قومی امنگوں اوردینی تقاضوں کے مقابلے میں بیرونی آقاؤں کی خوش نودی کومقدم رکھا،تودوتہائی اکثریت کے باوجوداللہ تعالی نے اسے نشانِ عبرت بناکردکھادیا۔ایک فرعون صفت ڈکٹیٹرعاشقانِ رسولﷺ کومکے دکھادکھاکرکہتاتھا:تمھیں وہاں سے ہِٹ کروں گاکہ تمھیں پتابھی نہیں چلے گاکہاں سے ہِٹ کیاگیاہے۔آج اللہ کے قہروغضب کابھی وہاں سے نشانہ بناہے کہ ڈاکٹربھی نہ جان پائے تھے کہ اسے کہاں سے ہِٹ کیاگیاہے؟جوبیماری سامری اورابرہہ کولگی تھی،اللہ نے اسے بھی اس بیماری میں مبتلاکردیاہے۔معصوموں کے جسموں کوفاسفورس بموں سے جلانے اورپگھلانے والے کاجسم آج اندراندرسے پگھل رہاہے۔آپ کونہ تودوتہائی اکثریت حاصل ہے نہ وہ مشرف کی سی کروفر،آپ کی حکومت توبھان متی کاکنبہ ہے جوبیساکھیوں پرقائم ہے۔اللہ کے قہروغضب کوآوازنہ دیں۔ناموسِ رسالتؐ کے معاملے میں بھیگی بلی بننے کے بجائے جرات سے بیرونی قوتوں کوجواب دیں۔آپ نے ایمانی غیرت دکھائی توقوم کے ہرمردوزن اورہرپیروجواں کواپنے شانہ بہ شانہ کھڑاپائیں گے۔ورنہ جس گستاخ عورت کاکیس شہبازبھٹی،سلمان تاثیر کی جانیں لے بیٹھا،ممتاز قادری جیسے سچے عاشق رسول ﷺکو سولی دی گئی،کہیں آپ کی حکومت بھی نہ لے ڈوبے۔
ہم نیک وبدحضورکوسمجھائے دیتے ہیں
****

حصہ
mm
مولانا محمد جہا ن یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے سینئر ریسرچ اسکالرہیں اور مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں