یہ یوٹرن نہیں کھلی منافقت ہے

نبی مہربان حضرت محمدؐ کے ارشاد پا ک کا مفہوم ہے کہ دنیا میں جس فر د کے دو چہرے ہوں گے قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی ،یہ بڑی خوفناک بات ہے ،مگر آج ہم اس بات کا خیال رکھنے اوراس کو سوچنے سے بھی قاصر ہیں ۔ ہم اپنے عمل سے ثابت کررہے ہیں کہ ہمارے دوچہرے ہیں ۔ہماراایک چہرہ وہ جو سب کے سامنے ہوتا ہے ، ایک وہ ہے جوہمارے اپنے سامنے ہوتاہے،جو دوسروں کے سامنے ہے اس کا سب کو علم ہے جو اپنے سامنے ہے وہ ہمیں خود کو معلوم ہے ،سیاست ،صحافت ،معیشت ،کھیل ،تعلیم سمیت تمام ہی شعبوں کو دیکھ لیجئے سب میں یہی حال ہے ،ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اورکہتے ہیں اس سے مکر بھی آسانی سے جا تے ہیں ۔
اقتدار میں آنے سے قبل کپتان کو سیاسی مخالفین ’ ’یو ٹرن خان ‘‘کہتے تھے ،جس کا وہ اوران کے ساتھی بہت برا منانے تھے۔مگر اب کپتان نے اس کی وضاحت کردی ہے ،ان کا کہنا ہے کہ وقت اور حالات کے تناظر میں جو لیڈر یو ٹرن نہ لے وہ لیڈر نہیں ہے ۔وقت اور حالات کے حساب سے یوٹرن لینا ضروری ہے۔اس کا مطلب صاف الفاظ میں یہی ہے کہ نظریہ ضرورت کے تحت یو ٹرن لینا نہ صرف بہتر ہے بلکہ ضروری بھی ہے ،وہ نظریہ ضرورت جسے ماضی میں دفن کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں ،عدالت عظمیٰ نے بھی سابقہ حکمرانوں کے طرز عمل کی نفی کرتے ہوئے نظریہ ضرورت دفن کرنے کی بات کی تھی۔
بہت دنوں سے ہم بھی یہ سوچ رہے تھے کہ کپتا ن نے اپنے جلسوں میں جو باتیں کی تھیں یا جوقوم سے وعدے کیے تھے وہ پورے ہوتے نظر آرہے اورہر بات میں یوٹرن کی جھلک نظرآرہی ہے ۔عوام کو ریلیف دینے ،مہنگا ئی ختم کرنے سمیت دیگر وعدے کیاہوا ہو گئے ۔نتیجتاً اقتدار میں آنے کے بعد صورتحال قوم کے سامنے ہے ۔عمران خان نے اپنے جلسوں میں ہمیشہ ماضی کی حکومتوں اوران کے منصوبوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اورایک جلسے میں تو یہاں تک کہہ گئے کہ ہم بھکاری نہیں بنیں گے ،خودکشی کرلیں گے مگر آئی ایم ایف یا کسی اور عالمی ادارے کے پا س بھیک مانگنے نہیں جائیں گے۔
کپتان نے اپنے خطابات اور انٹرویوز میں کہا تھا کہ وفاقی کابینہ محدود ہوگی اور اس کا دائرہ 20 وزراسے زائد نہیں ہوگامگر اس وقت وفاقی کابینہ 6مشیروں اور5معاونین کے ساتھ 39پر مشتمل ہے ۔کپتان نے اپنے جلسوں میں یہ بھی کہا تھا کہ ہم غیروں کی جنگ نہیں لڑیں گے ۔سابقہ حکمرانوں نے اپنے ملک کو غیروں کی جنگ میں جھونک دیا ،آج کی صورتحال مختلف ہے، امریکا بہادر کے خلاف ایک جملہ بھی مناسب نہیں ،ہم یہ نہیں چاہتے کہ دنیا سے مخالفت مول لے لی جائے اورپاکستان دنیا میں تنہا ہوجائے۔دنیا کے ساتھ قدم باقدم ضرور چلا جائے لیکن اس کا اثر نہ لیا جائے۔ نہ ان کی تہذیب اوراحکام کو اپنے اوپر مسلط کی جائے ۔آسیہ ملعونہ کے معاملے میں بھی بہت سے ابہام سامنے آئے ہیں ۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عوام صورتحال سے لاعلم تھے مگر اسی دھرنے کے دوران مختصرخطاب میں وہ عوام کو سب کچھ بتا بھی گئے۔کپتان نے عوام سے خطاب میں دھرنا دینے والوں کو سخت پیغام دیا ،بعد میں دھرنا ختم کرانے کیلئے مذاکرات کیے۔اس سے قبل قوم سے ایک اور خطاب میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ دھرنوں سے نہیں ڈرتے ،حکومت کے خلاف دھرنے کر نے ہیں تو کرلیں ،وہ ان سے نہیں ڈرتے بلکہ انہوں نے تو دھرنے والوں کو کھانا پہنچانے کی بھی آفر کردی تھی ۔تحریک لبیک سے معاہدے کے تحت دھرنا ختم کیا گیا ۔پھر وزیر اعظم کا بیان آیا دھرنا ختم نہ ہوتا تو حکومت چلی جاتی ۔اقتدار میں آنے سے قبل وہ اسلام آباد میں حکومت گرانے کیلئے دھرنا دیئے ہو ئے تھے۔
شیخ رشید لوٹے تھے ۔پرویز الٰہی ڈاکو تھے۔پارلیمنٹ پر لعنت بھیج کر اسمبلی سے استعفے کی بات اورپھر اسی اسمبلی واپس آکر براجمان ہو گئے۔70سال میں قوم کو عمران خان کی صورت میں لیڈر نظرآیا تھا ۔لوگ انہیں سچا انسان سمجھتے تھے ۔ا ن گفتگو میں اخلاص چھلکتا تھا ۔لگتا تھا کہ وہ قوم کے بڑے ہمدرد ہیں اور وہ اس کیلئے سود مند ثابت ہوں گے ۔قوم انہیں امید کی آخری کرن سمجھتے تھے،لیکن 100روزہ حکومت میں تضاد بیانیاں سامنے آئی ہیں وہ قوم کیلئے ناقابل یقین ہیں ۔ قوم اس صورتحال پر مخمصے کا شکار ہے ۔عمران خان ایک لیڈر کے یو ٹرن کو اتنااہم سمجھتے ہیں تو کوئی بعید نہیں کہ وہ کرپشن کے خلاف اس سخت اعلان پر ہی یوٹرن نہ لے لیں جس کا اعلان انہوں نے قوم سے خطاب میں کیا تھا کہ ملک لوٹنے والے سن لیں انہیں کوئی این آراو نہیں ملے گا ،کرپشن کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔پھر وہ کوئی اور دعویٰ کریں اوراس پر یو ٹرن لیں ۔
میڈیااورسوشل میڈیا پر کپتان کے یو ٹرن کے بیان پر طرح طرح کی باتیں کی جارہی ہیں ۔وزیر اعظم نے ایک موقع پر میڈیا سے اپنی گفتگو میں علامہ محمد اقبال کا ایک شعر پڑھا تھا اور اسے اپنا پسندیدہ شعر قراردیا تھا ۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اس شعر کے تناظرمیں ہم بھی عمران خان کو ایک سچا لیڈر سمجھتے تھے ۔لیڈر کوسچا ہی ہونا چاہیے ۔یوٹرن دورنگی کی دلیل ہے۔چھوٹ کا عکاس ہے۔حقیقت میں سیاست کوعبادت کہا جائے تو یہ عبادت والی سیاست کی بھی نفی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں غلطیاں بھی لیڈروں سے ہوتی ہیں ،ان کیلئے اصلاح کی بھی گنجائش ہوتی ہے ۔کپتان کی حکومت کو ابھی سودن پورے نہیں ہوئے، وقت موجود ہے۔بہتری کی گنجائش ہے ۔غلطیاں ٹھیک کی جاسکتی ہیں ۔عوام نے انہیں موقع دیا ہے ،بڑی ٹیم دی ہے،لیکن کپتان کی پرواز میں کوتاہی نہیں آنی چاہیے۔

حصہ
mm
1988 میں زمانہ طالب علمی سے قلم قبیلے کا حصہ بنے۔بچوں کی کہانیوں سے لکھنے کا آغازکیا ۔1997میں میٹرک کے بعد صحافت کے پیشے سے بطور سب ایڈیٹرمنسلک ہوئے۔2000سے 2012 تک روزنامہ جسارت کراچی میں بطور ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر ذمہ داریاں انجام دیں ۔مختلف نیوز چینلزمیں بھی کام کا تجربہ حاصل کیا۔آپ جامعہ اردوسے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں ۔کرنٹ افیئر ،بچے اورمعاشرہ آپ کے تحروں کا مرکزومحور ہیں ۔قلم کو اصلاح اورخدمت کیلئے استعمال کرناان کامقصد حیات ہے۔شاعری سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں ۔آپ اچھے کمپیئر بھی ہیں۔آج بھی ایک قومی سطح کے اخبار سے بطورسینئرسینئرسب ایڈیٹر منسلک ہیں ۔آپ رائٹرزفورم پاکستان کے صدر ہیںاورتقریباًتمام ہی اردو اخبار ات میں کالم کاری کرچکے ہیں،آپ کے سیکڑوں کالم ،مضامین ،فیچرزاوررپورٹس اخبارات وآن لائن ویب سائٹس کی زینت بن چکے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں