بچوں کو پہچان دیں

میں ایک ایسے بچے کے بارے میں جانتا ہوں جو کمال صلاحیتوں کا حامل تھا۔ اللہ تعالی نے اس کے اندر  “پیدائشی کاروباری دماغ ” رکھا تھا ۔ یہ اپنی ضرورتیں بچپن سے خود ہی پوری کرنا جانتا تھا ۔ جیسے ہی اگست کا مہینہ شروع ہوا ۔ اس نے امی کے پاس رکھے ہوئے اپنے پیسے لئیے اور ابو کے ساتھ اردو بازار روانہ ہوگیا۔ وہاں سے ہول سیل پر جھنڈیاں، جھنڈے اور بیجز خریدے ۔ واپس گھر آکر دروازے کے سامنے اپنی امی کے بیڈ کی ” سائیڈ ٹیبل ” پر سامان رکھا اور روزانہ عصر سے مغرب تک اپنا کاروبار شروع کردیا ۔ چودہ اگست تک اس نے 500 کے سامان پر 1500 روپے کمالئیے ۔ ایک دفعہ اس کو پیسوں کی ضرورت تھی لیکن ” انویسٹمینٹ ” کے لئیے کچھ بھی پاس نہیں تھا۔ اس دفعہ اس نے کمال کردیا۔ محلے کی پرچون کی دکانوں پر گیا ۔ بسکٹ کے پرانے ڈبے اور گتے جمع کئیے اور گھر آگیا۔ گتوں کو موبائل کی شکل میں کاٹ کر کسی کو نوکیا ، کسی کو آئی فون، کسی کو موٹرولا اور کسی کو سام سنگ بنا کر گھر کے باہر وہی ” سائیڈ ٹیبل ” لگائی اور عصر کے بعد سے کاروبار شروع کردیا ۔ آئی فون 15 روپے، سام سنگ 10 روپے، اور نوکیا 5 روپے میں ہاتھوں ہاتھ “بکنا ” شروع ہوگیا اور اس نے دو چار دنوں میں ہی اپنے دو سو، تین سو روپے سیدھے کرلئیے۔ یہ بچہ پانچویں یا چھٹی جماعت کا طالبعلم تھا۔ ماں باپ کو فکر لگ گئی کہ اگر ابھی سے “کمانے ” کی طرف دھیان لگ گیا تو  ” پڑھائی ” کیسے کریگا؟ اور اس طرح انھوں نے اپنے بچے کو ” پڑھائی ” پر لگا کر اس کی تخلیقی صلاحیت کو زنگ آلود کردیا ۔ آپ مانیں یا نہ مانیں ہمارے معاشرے کے زاول کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے۔

میں ایک بچے کو  پڑھاتا تھا ۔ بعد میں اس بچے کا داخلہ ایک اچھی انجنئیرنگ یونیورسٹی میں ہوگیا۔ لڑکا باصلاحیت ، انگریزی میں اچھا  اور لکھنے کا شوقین تھا۔ اس نے انگریزی  بلاگز  لکھنا شروع کردئیے  اور ادھر ایک کمپنی نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ وہ ایک سال تک مختلف موضوعات پر مسلسل لکھتا رہا اور پھر اس لڑکے کے  خاندان کے ایک ” دانشور ” بزرگ نے اس پر بلاگز لکھنے پر یہ بول کر پابندی لگادی کہ اگر اسی طرح لکھتے رہے تو تمھارا دھیان اپنی ” فیلڈ ” پر سے ہٹ جائیگا۔ آپ یقین کریں ہم بھی عجیب و غریب لوگ ہیں ۔ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے مطابق ہم بچوں کو اسلئیے پڑھاتے ہیں تاکہ وہ کماسکیں ۔ جب وہ کمانے لگتے ہیں تو ہم انھیں کمانے سے روک دیتے ہیں تاکہ وہ پڑھ سکیں ۔اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات بھلا اور کیا ہوگی؟

فرعون کو اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں کوئی لڑکا اس کی سلطنت ختم نہ کردے۔ اس خوف سے اس نے اپنے گھر میں پلنے والے بچے کے لئیے بھی اپنے نجومیوں کے کہنے پر آزمائش کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ایک طرف سرخ یاقوت  اور دوسری طرف دہکتے ہوئے کوئلے رکھ دئیے ۔ نجومیوں کا کہنا تھا کہ اگر بچہ  یاقوت  کی طرف گیا تو سمجھ لینا کہ تمھارے لئیے خطرہ ہے اور اگر کوئلوں کی طرف گیا تو پھر خطرے کی کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ سلام کا رخ کوئلوں کی طرف پھیر دیا ۔ بچہ کوئلے کی طرف گیا اور ایک دہکتا ہوا کوئلہ اپنے منہ میں ڈال لیا جس کی وجہ سے وہ توتلے پن کا شکار ہوگئے۔

آپ کو جاپان میں سینکڑوں  اسکول ایسے ملینگے جہاں اسکول میں داخلے کا یہی ایک طریقہ کار ہے ۔ بچے کو ایک ایسے کمر ے میں چھوڑ دیتے ہیں جہاں سینکڑوں قسم کے ساز و سامان اور کھلونے رکھے ہوتے ہیں بچہ جن کھلونوں کے ساتھ دیر تک کھیلنے میں محو ہوجاتا ہے ۔ اساتذہ اور اسکول والے سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بچہ اسی شعبے میں کچھ کرنے کے لئیے پیدا کیا گیا ہے۔

مائیکل اینجلو ایک بہت بڑا مجسمہ ساز تھا ۔ ایک دفعہ اس نے پتھروں کو تراش کر بہت ہی حسین مجسمہ بنایا ۔ دیکھنے والوں میں سے ایک نے مائیکل سے پوچھا ، مائیکل! اتنا حسین مجسمہ تم نے کیسے بنایا ؟ مائیکل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا  ” مجسمہ تو پہلے سے ان پتھروں میں  موجود تھا ، میں نے تو بس اضافی پتھر  چھانٹ کر اس کو ایک شکل دے دی ہے “۔ دراصل اسکول اور اسکولنگ تو  اسی چیز کا نام ہے کہ بچہ  جو صلاحیتیں لے کر دنیا میں آیا ہے ۔ ان کو جانچ کر نکھارا جائے ۔ اس کی صلاحیتوں کو پالش کیا جائے ۔ اللہ تعالی کی اس کائنات  اور اس کی مخلوق کے لئیے اسے ایک فائدہ مند اور آسانیاں پیدا کرنے والا انسان بنایا جائے ۔ رہونڈا بائرن کے الفاظ میں ” آپ اس دنیا میں آبادی کے علاوہ بھی کسی چیز میں اضافے کے لئیے پیدا ہوئے ہیں”۔

یہاں اوپر سے لے کر نیچے تک سب کے سب بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو جانچنے کے بجائے صرف اسے ایک عدد ” نوکری ” کے لئیے تیار کر رہے ہیں۔ ایک بڑے مغربی مفکر کے مطابق ” انسان نے ہر دور میں خود کو بہت سستا بیچا ہے ” اور وہ بے چارہ کیسے خود کو سستا نہ بیچے ؟ یہ پورے کا پورا نظام تعلیم خود کو گروی رکھوانے کے لئیے ہی تو بنایا گیا ہے۔

اقبال نے کہا تھا :

اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا؟

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک  میں اب اسکولوں میں اکاؤنٹنٹ اور آئی – ٹی ایکسپرٹ کی طرح کاؤنسلرز بھی لازم ہوتے ہیں ۔ وہ بچے کو پہلے دن سے نظر میں رکھتے ہیں ۔ اس کی صلاحیتوں کا اندازہ کرتے رہتے ہیں ۔ بچے سے اس کے شوق ، ذوق اور دلچسپیوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ والدین کو وقتا ً فوقتاً  بلا کر ان کے بچے کے بارے میں آگاہی لیتے بھی ہیں ، آگاہ کرتے بھی ہیں  اور سمجھیں کہ انگلی رکھ کر بتادیتے ہیں کہ آپ کا بچہ خاص اسی شعبے کے لئیے بنا ہے ۔ اس پر اپنی سوچ، اپنی فکر اور اپنی خواہش مسلط کرنے کی کوشش مت کیجئیے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ماں سے زیادہ اپنے بچے کو کوئی دوسرا نہیں جانتا ہے  کہ اس  کا کونسا بچہ کس کام میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے ۔ اگر آپ کا بچہ آرٹ، کرکٹ یا فٹ بال کا دلدادہ ہے، کتابوں کا ، لکھنے ، پڑھنے یا تقریر کرنے کا شوقین ہے۔ آپ کو اس کے اندر پروفیسروں والا رنگ نظر آتا ہے یا کسی ادیب یا آرٹسٹ کا ۔ اس کی دلچسپی کمپیوٹر میں ہے یا وہ ہر وقت گھر کی مشینیں کھول کر بیٹھ جاتا ہے، وہ الیکٹرونکس کے سامان میں گھسا رہتا ہے، سائنس کی چیزوں میں مگن رہتا ہے یا اسے سیر وسیاحت کا شوق ہے بہرحال جو بھی اور جس بھی قسم کی اس کی دلچسپیاں ہیں تو آپ بھی اپنا فوکس اسی طرف رکھیں۔ زیادہ وقت اور زیادہ اہمیت اسی چیز کو دیں۔ اسی موضوع پر اس کو کتابیں اور کھلونے لاکردیں۔ اسی سے متعلق اس کو ویڈیوز دکھائیں۔ اس کے شوق کی آنچ کو مزید تیز  کرکے  اسے بھڑکائیں۔اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس کے کئیے ہوئے کاموں کو پروموٹ کریں اور اسے یاد دلاتے رہیں کہ اس کا اصل مقصد رب کو راضی کرنا اور مخلوق خدا کا فائدہ ہے۔

میں حیران ہوتا ہوں کہ کسی انسان کے مستقبل کا فیصلہ کوئی دوسرا انسان کیسے کرسکتا ہے ؟ خواہ وہ اس کے والدین ہی کیوں نہ ہوں ۔ بچے کو مثبت اور اچھی سوچ دیں ، اس کو صیح غلط، اچھے برے کی ٹھیک طرح پہچان  کروائیں ، نیک و بد،  ہدایت اور ضلالت کے راستوں کی  انگلی رکھ کر نشاندہی کردیں اور پھر انھیں خود سے اپنے فیصلے کرنے میں آذاد چھوڑدیں۔ بچوں کی شادی اور ان کے روزگار کو ان کے اپنے ہاتھوں میں رہنے دیں۔ انھیں ” بلیک میل ” کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ ان کے خوش رہنے کے لئیے دعاگو رہیں۔ ان کو اپنی دعاؤں اور مشوروں سے ضرور نوازیں ۔ بچوں کا بھی فرض ہے کہ بڑے ہونے کے بعد والدین اور بزرگوں سے مشورے اور دعائیں ضرور لیتے رہیں۔ یاد رکھیں آپ کی سوچ جو آپ کو خوشی دیتی ہے عین ممکن ہے کہ وہ آپ کے بچے کے غم کا باعث ہو اور وہ صرف آپ کی رضا اور محبت  کے لئیے ایک ایسا فیصلہ کرنے کے لئیے تیار ہوجائے جس کے لئیے نہ اس کا دل راضی ہو اور نہ دماغ تیار اور پھر ساری زندگی  وہ اس لمحے کو کوستا رہے جب اس نے یہ فیصلہ کیا تھا۔

بچوں کو ان کی مرضی کا پروفیشن منتخب کرنے کی آذادی دیں۔ دنیا کے 99 فیصد لوگ ” ٹرینڈ فالورز ” ہیں۔ رابڑت کیوسکی  کے الفاظ میں ” ریٹ ریس ” لگی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ بھیڑ میں چلنے سے حوصلہ ضرور ملتا ہے لیکن پہچان نہیں ملتی ہے۔ اسلئیے اگر آپ اپنے بچے کو پہچان دینا چاہتے ہیں اور کوئی بڑا آدمی دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں بھیڑ سے الگ رہنے دیں۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں